سنیت کمار نے کیا خوب منصفی کی ہے

نوٹ بندی کو لے کر فی الحال عدلیہ اور مقننہ کے درمیان ٹھنی ہوئی ہے۔ حکومت چاہتی تھی کہ نچلی عدالت میں اس مسئلہ پر قائم سارے مقدمات برخواست کردئیے جائیں لیکن ۱۹ نومبر کو عدالت عالیہ نے ایسا کرنے سے انکار کردیا ۔ اس فیصلے سے عدالت کے تیور صاف ہوگئے ۔ ۹ دسمبر کو پھر سے اس معاملے کی سماعت تھی اور حکومت کو یقین تھا کہ اس بار عدالت کی جانب سے مشکل سوالات ہونے والے ہیں ۔ ان سوالات کی جانب سے توجہ ہٹانے کیلئے ۸ دسمبر کے دنذرائع ابلاغ کو ایک بڑی خبر پکڑا دی گئی۔ یہ الہ باد ہائی کورٹ کا ایک فیصلہ تھا جس میں تین طلاق پر جسٹس سنیت کمار نے اپنی ذاتی رائے کا اظہار کیا تھا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مذکورہ فیصلہ ۵ نومبر کو کیا گیا تھااور اس وقت کسی نے اسے چھوٹی خبر بھی نہیں بنایا تھا لیکن ایسے دور میں جبکہ خبریں چند گھنٹوں میں باسی ہوجاتی ہیں ایک ماہ حکومت کو بڑی مصیبت سے بچانے کیلئے ایک پرانی خبرسےرائی کا پہاڑ بنادیا گیا۔

طلاق ثلاثہ کا معاملہ چونکہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اس لئے الہ باد ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے نےاچانک سب کوچونکا دیا۔ اس سے متعلق چیدہ چیدہ باتیں مختلف انداز میں سامنے آ نے لگیں تو جی چاہا کہ کیوں نہ عزت مآب سنیت کمار کا فیصلہ حرف بہ حرف پڑھ لیا جائے تاکہ کوئی غلط فہمی نہ رہے۔ پانچ صفحات پر مشتمل فیصلہ جب ہاتھ آیا تو اسے پڑھ کر ایسا لگا کہ یہ کورٹ نہیں کسی دیہات کا ایک ویران سا ریلوے پلیٹ فارم ہے جہاں کچھ مسافر اِدھر اُدھر ٹرین کے منتظر ہیں ۔ ایک پریشان حال چائے والاگلا پھاڑ پھاڑ کر مسافروں کو پریشان کر رہا ہے نیز گائے ، بیل ، بھینس بکری وغیرہ بھی مفت کی گھاس پھوس پر منہ مار رہے ہیں ۔ اتنے میں چیختا چنگھاڑتااوردھواں اڑاتا ریلوے انجن اندھیرے میں نمودار ہوا۔ اس کو دیکھ کر ایک غریب دیہاتی نےاپنے پاس کھڑے سوٹ بوٹ والے آدمی سے پوچھا صاحب یہ کون میل ہے اور کہاں جائیگا؟

سوٹ بوٹ والے صاحب سوال سنتے ہی شروع ہوگئے۔ یہ میل ! نہ میں اس کو جانتا ہوں اور نہ یہ جانتا ہوں کہ یہ کہاں سے آیا ہے اور کہاں جائیگا لیکن میں اس کی فی میل کو ضرور جانتا ہوں ۔ دیہاتی نےچونک کر پوچھا فی میل ؟ اس گاڑی کا نام تو ہم پہلی بار سن رہے ہیں ۔ سوٹ والا بولا تم کس دور میں رہتے ہو اب تو فی میل کے بعد ای میل بھی آکر پرانا ہوچکا ہے اور اس کی جگہ واٹس ایپ نے لے لی ہے۔ دیہاتی کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا اور وہ آگے بڑھنے لگا تو شہری بابو نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔ دیہاتی نے گھبرا کر کہا صاحب مجھے معاف کیجئے میں کسی اجنبی کے ساتھ سیلفی نہیں نکلواتا۔ سوٹ والا بولا ابت سیلفی کے بچےتو یہ بیچ میں کہاں چل دیا؟ جب سوال پوچھ لیا ہے تو جواب سنے بغیر نہیں جاسکتا ۔ دیہاتی نے سوچا مان نہ مان میں تیرا مہمان کی مصداق یہ تو پیچھے ہی پڑ گیا۔ وہ بولا اچھا صاحب جو بھی کہنا ہے جلدی سے بولو ورنہ گاڑی چھوٹ جائیگی ۔

سامنے کھڑے ایک بیل کی طرف اشارہ کرکےشہری بابو بولے اس کی فی میل گائے ہے جو ہماری ماتا ہے ۔ ہماری مقدس کتابوں میں اس کا بڑا احترام ہے۔ دستور ہند نے بھی اس کو تحفظ دے رکھا ہے۔ گائے ماتا کے ساتھ برا سلوک کرنے والے کیلئے بڑی سخت سزا تجویز کی گئی ہے لیکن یہ بیل اس کے ساتھ بہت برا سلوک کرتا ہے۔ اس کی سینگیں دیکھو کتنی خطرناک ہیں ۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اپنی مرضی کے مطابق سینگ رکھنا اس کا بنیادی حق ہے لیکن دنیا کا کوئی حق دستور سے اونچا نہیں ہے۔ اس کے ظلم و جبر کو لگام لگانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ دیہاتی نے اس سےپیچھا چھڑانے کیلئے کہا بابو جی دیکھئے میرا نام شیوپال یادو ہے اور میں شیو جی کا بہت بڑا بھکت ہوں آپ بہت دیر سے ہمارے دیوتا کی سواری نندی بیل کو برا بھلا کہہ رہے ہیں میں یہ برداشت نہیں کرسکتا اگر آپ نے اپنی بات جاری رکھی تو بہت جلد میرے بھی خطرناک سینگ نکل آئیں گے۔ پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔

سوٹ والا یہ سن کرگھبرا کے بولا میں بھی جانتا ہوں یہ شیوجی کا واہن ہےا ور تم جیسے کئی لوگ اس نندی بیل کے بھکت ہیں لیکن تمہارے سادھو سنت پراچین گرنتھوں کی غلط توجیہ کرکے ان سانڈوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ زمانہ بدل گیا ہےاب وقت آگیا ہے کہ ان کو لگام لگائی جائے ۔ عدالت کے مختلف فیصلوں میں اس کے وحشیانہ طرز عمل کی جانب توجہ دلائی گئی ہے لیکن چونکہ میں نہیں جانتا کہ یہ میل میرا مطلب ہے بیل کہاں جائیگا اس لئے تمہاری مدد کرنے سے قاصر ہوں ۔ویسے تم چاہو تو گئو ماتا کے حقوق کی بابت کچھ اور پوچھ سکتے ہو۔ اس تقریر کے بعد دیہاتی کی جو درگت ہوئی الہ باد ہائی کورٹ کا فیصلہ سننے کے بعد مدعیان کی اس سے بھی بری حالت ہوگئی ۔ دیہاتی نے نہ تو بیل کے بارے میں سوال کیا تھا اور نہ وہ گئوماتا کے حقوق جاننا چاہتا تھا اسے تو معلوم کرنا تھا کہ پلیٹ فارم پرآنے والی گاڑی ہاوڑہ میل ہے یاطوفان میل۔ اس بیچارے سے غلطی یہ ہوگئی کہ کسی سیدھے سادھے مسافر کے بجائے اس نے جج صاحب کو زحمت دے دی۔
مذکورہ مقدمہ ا ۲۳ سالہ حنا اور اس کے ۵۳ سالہ شوہر نے داخل کیا تھا۔ حنا کا کہنا یہ ہے کہ اس نے برضا و رغبت ایک شادی شدہ شخص سے نکاح کیا ۔اس کے بعد حنا کے شوہر اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے دی ۔ دو بچے میاں اوربیوی میں تقسیم ہوگئے ۔ پہلی بیوی کو ایک نشست میں تین طلاق دی گئی تھی لیکن اس عقلمند خاتون نے عدالت سے رجوع کرنے کی حماقت نہیں کی۔ حنا صاحبہ اور ان کے شوہر کو پولس سے شکایت ہے کہ وہ انہیں ہراساں کرتی ہے ۔ حنااپنی والدہ سے بھی نالاں ہے اس لئے کہ پولس اور اس کی ماں مل کر ان کیپرسکون ازدواجی زندگی کو غارت کررہی ہیں ۔ وکیل کے مطابق یہ اس کے موکل کا دستوری حق ہے۔اس معاملے میں مدعا الیہ پولس اور حنا کی والدہ ہے۔ حنا اور اس کے شوہرنےاپنے تحفظ اور سلامتی کی خاطر عدالت سے فریاد کی لیکن وہاں ان کا پالہ انسانی حقوق کے علمبردار اور حقوق نسواں کے محافظ جسٹس سنیت کمار سے پڑ گیا۔

ان بیچاروں کو توقع تھی کہ اپنے جائز دستوری حقوق کی خاطر لڑنے والی حنا کو جج صاحب کی حمایت حاصل ہوجائیگی اوروہ پولس اہلکاروں کو خوب پھٹکارسنائیں گے نیز حنا کی ماں کو تنبیہ کریں گے کہ اپنی بالغ بیٹی کی نجی زندگی میں بیجا مداخلت سے باز رہے ۔ جج صاحب نے یہ سب کرنے کے بجائے مقدمہ خارج کردیا لیکن اس سے قبل پلیٹ فارم پر کھڑے کالے کوٹ والے بابو کی طرح ایک غیر متعلق اور بےمعنیٰ تقریر فرمادی ۔ اس فیصلے میں درج ہے کہ مدعی کے وکیل کی جانب جو تجویز پیش کی گئی اس پر کوئی تنازع نہیں ہے۔ عمر کا تفاوت کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ فوری طلاق ہے۔ دراصل اس مقدمہ کا استعمال ایک بیوی کو طلاق دینے کی خراب نیت سے کیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسی بہتان طرازی ہے کہ جس کی جانب کسی فریق نے توجہ نہیں دلائی۔ جج صاحب کے مشاہدات کو پڑھ کر بے ساختہ فیض کا یہ شعر معمولی تصرف کے ساتھ یاد آتا ہے ؎
وہ بات سارےتنازعے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات جج کو بہت ناگوار گزری ہے

حنا کی سوتن نے اگر عدالت سے رجوع کیا ہوتا یا حنا کو اس سے کوئی شکایت ہوتی تب تو کسی طرح کھینچ تان کر طلاق کو درمیان میں لایا جاسکتا تھا لیکن یہاں تو طلاق و فراق کے بجائے وصال اور سکون کی دہائی دی جارہی ہے۔ اس کے باوجود جج صاحب کا ہذیان ان کے دماغی بخار کا ترجمان ہے۔ جج صاحب نے جو کیا سو کیا لیکن پھر صحافی حضرات بھی پلیٹ فارم پر گھو م رہے تھے ۔ کسی نے یہ سنا کہ جج صاحب بیل کو برا بھلا کہہ رہے ہیں ۔ کسی کے کان پر گئوماتا کے حقوق پڑے اور کوئی یہ سن سکا کہ وہ دستو ر میں درج انسانی حقوق و فرائض بیان فرمارہےہیں۔ ہر شخص نے اپنے مطلب کی بات نشر کردی اور پھر سامعین و قارئین بھی بھانت بھانت کے تھے ۔ کوئی بغلیں بجانے لگا کہ پرسنل لاء کی دھنائی ہوگئی تو کوئی شریعت کی توہین پر پیچ وتاب کھانے لگا ۔ اس بیچ جس مسافر نے ٹرین کے بارے میں پوچھا تھا وہ فیصلہ نہیں کرپایا اور اس کی گاڑی چھوٹ گئی۔ اب وہ آسنسول جانے والا مسافرکئی گھنٹہ انتظار کرنے کے بعد طوفان میل کے بجائے ہاوڑا میل سے پہلے ۲۴ پرگنہ جائیگا اور پھر لوٹ کر آسنسول آئیگا ۔ ویسے یہ مشق بھی پوری طرح ضائع نہیں ہوئی نادان مسافر کو اس نسیان سےگائےکے حقوق اور جج صاحب کی گئو بھکتی کا علم ہو گیا۔

اب اس غیر سنجیدہ فیصلے سے متعلق چند سنجیدہ باتیں بھی ہوجائیں ۔ جج صاحب نے فرمایا کہ کوئی بھی پرسنل لاء دستور سے بالا تر نہیں ہے ۔ اس تبصرے سے ایسا لگتا ہے گویا پرسنل لاء دستور سے باہر کوئی شئے ہے جسے لوگ دستور سے بالاتر قرار دے رہے ہیں حالانکہ پرسنل لاء تو دستور کے اندر موجود ہے۔ دستور کے اندر موجود کسی چیز کے بارے میں یہ تبصرہ ہی غلط ہے کہ وہ کمتر یا بالا تر ہے۔ اگر آپ دستور کا احترام کرتے ہیں تو اس کی تمام شقوں کو محترم جانئےورنہ دستور کے کسی ایک حصے کا انکارکرنے والا مکمل دستور کو مسترد کرنے سزاوارہے۔ اس لئے سنیت کمار جی دوبارہ اس حلف کی تجدید کر لینی چاہئے جس کی پاسداری کی قسم کھا کرانہوں نے یہ عہدہ سنبھالا تھا۔

جج صاحب نے یہ بھی کہا کہ تین طلاق قرآن مجید کے خلاف ہے اور کچھ لوگ اس کی غلط توجیہ کررہے ہیں ۔ یہ جج صاحب کا الزام ہے ورنہ لوگ یہ بھی کہہ سکتے ہیں جج صاحب غلط تاویل کررہے ہیں۔ جس طرح جج صاحب ہندوستانی دستور کی دیگر شقوں کی تاویل کرنے کا حق مسلم پرسنل بورڈ کے علماء کو نہیں دے سکتے اسی طرح قرآن مجید کی تفسیر کا حق بھی جج صاحب کو حاصل نہیں ہوجاتا ۔ انہیں ایمانداری کے ساتھ متعلقہ علوم کے ماہرین سے رجوع کرنا چاہئے۔سنیت کمار نے تین طلاق کو وحشیانہ قرار دیا۔ امریکہ کا قانون وحشی ہے مہذب ہے یہ امریکہ میں رہنے والا بتائے گا نہ کہ ہندوستان میں بسنے والا۔ اسی طرح سے مسلم پرسنل لاء اگر وحشی ہے تو اس سے مسلمان خود بغاوت کریں گے لیکن صورتحال اس سے مختلف ہے۔ لاکھ ورغلانے کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت اپنی شریعت سے خوش ہے ۔ اس کےمخالف بہت ہی معمولی اقلیت میں ہیں۔

کسی بھی خطے میں یا تو الٰہی قانون نافذ ہوسکتا ہے یا انسانی قانون ۔مثلاً ویٹیکن سٹی میں پوپ کے ذریعہ بائبل کا قانون نافذالعمل ہے ۔ وہاں پر کسی قانون کو اس بنیاد پر تو چیلنج کیا جاسکتا ہے کہ وہ بائبل کے خلاف ہے لیکن اگر وہ مقدس کتاب میں موجود ہے تو اسے تسلیم کرنا لازمی ہوگا۔ اس کے برعکس ویٹیکن سٹی کے اطراف اٹلی میں جمہوری نظام قائم ہے یعنی وہاں پر عمومی قوانین عوام کی اکثریت کی مرضی سے بنتے ہیں ۔ ہندوستان میں بھی جمہوریت ہے اس لئے دستور عوام کی مرضی کے مطابق ہوگا۔ اس دستور میں پرسنل لاء بھی ہے جو عائلی معاملات میں شریعت پر چلنے کی اجازت دیتا ہے۔ اب اگر کسی قانون کے اطلاق میں تنازع ہوجائے تو یہ دیکھنا ہوگا کہ جس طبقہ پر اس قانون کا اطلاق ہوتا ہے اس کی اکثریت کا رحجان کیا ہے۔ہندوستان کے اندر تحفظ شریعت کی مہم کے دوران دستخطی مہم میں ایک کروڈ مسلمانوں نے حصہ لے کر شریعت میں حکومتی مداخلت کی مخالفت کی ہے۔ پرسنل کے مخالفین اس کا عشرِ عشیر بھی نہیں کرسکتے اس لئے جمہوری اقدار کے مطابق بھی عدالت کو پرسنل لاء بورڈ کی مخالفت کرنے کے بجائے اس کی تائید کرنی چاہئے۔ ویسے عدالت جو چاہے فیصلہ کرےمسلمان توبہر حال اپنی شریعت پر چلتے رہیں گے۔

جمہوریت کے علاوہ مذہبی آزادی کے پہلو سے دیکھا جائے توکیرالہ کے پدنابھا سوامی مندر کا حالیہ فیصلہ مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ عدالت کے مطابق مندرمیں کون سا لباس ممنوع ہے اور کون سا جائز اس کا فیصلہ ہندوستانی دستور یا مسلمان نہیں کریں گے بلکہ اس مندر کا انتظامیہ کرے گا ۔ کیرالہ جسٹس سنیت کمار نے اپنے فیصلے کو فلسفیانہ رنگ دیتے ہوئے ارشاد کیا ہندوستان ایک زیر تشکیل قوم ہے ۔ جغرافیائی حدود ہی صرف قوم کی تعریف نہیں ہوتے۔ اس (قوم) کو دوسروں کے مقابلے مجموعی انسانی ترقی کے معیار پر جانچا اور پرکھا جاتا ہے ۔ خاص طور پر یہ دیکھا جاتا ہےکہ سماج اپنی خواتین کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہے؟ اس لئے کسی بڑی آبادی کو ایک ایسے پرسنل لاء کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا جوشدت کے ساتھ جنسی عدم مساوات کو فروغ دیتا ہوسماج اور ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔

ہندوستانی قوم کے زیر تشکیل ہونے اور اسے جغرافیائی حدود سے آزاد کرنے والی منطق تو خیر ریلوے پلیٹ فارم پر کھڑے دیہاتی کی مانند ہمارے سر کے اوپر سے گزر گئی۔ انسانی ترقی کا معیار اور موازنہ بہرحا ل ہماری توجہ کا مرکز بن گیا اور ہم نے سوچا کیوں نہ اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے آئینہ میں اپنے ملک کا جائزہ لیا جائے۔ اس سلسلے کی تازہ ترین ۲۰۱۴؁ کی رپورٹ انٹرنیٹ پر موجود ہے ۔ مذکورہ رپورٹ میں انسانی ترقی کے ساتھ جنسی عدم توازن کو بھی شامل کیا گیا ہے لیکن خواتین کے ساتھ سلوک کو لے کر نکاح و طلاق کے بجائے عمر، صحت، تعلیم اور معیار زندگی کو کسوٹی بنایا گیا۔ جسٹس صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان میں سے کسی میں پرسنل لاء کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اس انسانی ترقی کے معیار کی فہرست کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی بہت عمدہ، اچھی ، معمولی اور خراب صورتحال والے ممالک ۔

ہندوستان کاشمارتیسرے درجہ میں یعنی معمولی والی فہرست میں ہے۔ اس معاملے میں دنیا کے ۱۲۹ ممالک کی حالت ہمارے ملک سے بہتر ہے۔ مسلم خواتین کا رونا رونے والے جسٹس صاحب شاید نہیں جانتے کہ پہلے ۵۰ممالک جہاں حالات بہت عمدہ ہیں ان میں قطر، سعودی عرب، امارات، کویت اوربحرین شامل ہیں جہاں خواتین شریعت کے دائرے میں زندگی گزارتی ہیں ۔دوسرے درجہ کے ممالک میں اومان، ایران ، قزاخستان،ملیشیا ، ترکی ، اردن ،الجزائر، لیبیا، تیونس، مالدیپ جیسے مسلم ممالک موجود ہیں ۔ اس کے بعد جو تیسرے درجہ کےممالک ہیں ان میں بھی مصر، ترکمانستان، عراق،انڈونیشیا،فلسطین، کرغستان ،ازبکستان اور تاجکستان تک میں خواتین کی حالت ہندوستان سے بہتر ہے۔ کاش کہ جسٹس صاحب اپنے فیصلے میں انسانی ترقی اور جنسی عدم توازن کا ذکر کرنے کے سے قبل یہ موازنہ دیکھنے کی زحمت گوارہ کرتے ۔ ویسے اگر وہ ہندوستان کی مسلم و غیر مسلم خواتین سے واقعی ہمدردی رکھتے ہیں تو انہیں اس طرح کے اوٹ پٹانگ مشاہدات کرنے کے بجائےاس رپورٹ کا مطالعہ کرکے اس میں تجویز کردہ اسباب و علاج پر توجہ دینی چاہئے۔ ذرائع ابلاغ کو بھی اس قسم کے غیر متعلق مشاہدات کو اچھال کر عوام کو برگشتہ کرنے بجائےنوٹ بندی پرعدالت عالیہ کے سوالات اور فیصلوں کو اپنی توجہ کا مرکز بنانا چاہئے۔ عوام کے حقیقی مسائل کی جانب ارباب حل و عقد کی توجہ مبذول کرانا میڈیا کی اولین ذمہ داری ہے۔
 
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1230938 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.