ساٹھ سالہ ائیر ہوسٹس، نو سو چوہے اور کیل

ساٹھ سالہ ائیر ہوسٹس
ایک خبر کے مطابق پی آئی اے کی ائیر ہوسٹس کی عمر 35 سال سے بڑھا کر ساٹھ سال کر دی گئی۔ اس فیصلے کے پیچھے کیا عوامل کار فرما ہیں۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے لیکن اتنا جانتے ہیں کہ ائیر ہوسٹس کی عمر کی حد 35 سال بہت مناسب تھی۔ ایک ساٹھ سال کی بڑھیا اپنی ذمہ داریوں سے کیسے عہدہ برا ہوگی اس کا صرف تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔35 سال کی عمر کی ائیر ہوسٹس کو دوسرے ملکوں سے ملبوسات، زیورات اور میک اپ کا سامان لانے کا شوق ہوتا ہے۔ ساٹھ سال کی عمر کی صورت میں اس کے بیوٹی بکس میں بجائے میک اپ کے دوائیوں کے انبار ہونگے اور دوسرے ملکوں میں وہ بلڈ پریشر، شوگر اور دوسری بیماریوں کی دوائیاں ڈھونڈتی پھرے گی کہ پاکستان میں اصل دوائی ملتی ہی نہیں۔ سعودی عرب کا ٹور لگنے پر وہاں سے آب زم زم، کھجوریں، تسبیح، جائے نماز اس کی ترجیحات میں شامل ہوں گی۔ ساٹھ سالہ ائیر ہوسٹس مسافروں کو ڈیل کیسے کرے گی۔ مصنوعی آرائش و زیبائش اس پر کیا قیامت ڈھائے گی۔؟مستقبل میں ساٹھ سالہ ائیر ہوسٹس کو جو واقعات پیش آ سکتے ہیں اس کا ایک تصوراتی منظر پیش ہے۔
”رضیہ !یہ بوڑھا مسافر کچھ نہیں لے رہا، بڑا پریشان لگ رہا ہے۔ میں نے کولڈ ڈرنک دی نہیں لی۔ میں نے کھانے کا پوچھا انکار کر دیا۔ میں نے چاکلیٹ، آئس کریم کا پوچھا تو وہ بھی نہیں لے رہا۔“
”فاخرہ! تم ایسا کرو محبت سے پوچھو۔ امریکہ کا سفر بہت لمبا ہے یہ گورا تو بھوک سے مر جائے گا۔“دوسری ائیر ہوسٹس نے اس کو سمجھایا
”اچھا پھر دوبارہ کوشش کرتی ہوں۔“یہ کہہ کر وہ پھر گورے کے پاس گئی۔
”کیا بات ہے آپ کچھ لے نہیں رہے۔“ائیر ہوسٹس نے گورے کو مخاطب کیا
بوڑھے مسافر نے چندھیائی ہوئی آنکھوں سے ائیر ہوسٹس کی جانب دیکھا اور کہا”بات دراصل یہ ہے جلدی میں میری بیتیسی گھر رہ گئی ہے۔“
”تو اس میں پریشانی والی کون سی بات ہے۔آپ میری بتیسی استعمال کر لیں۔“ائیر ہوسٹس نے منہ کی جانب ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔
”نہیں، نہیں ۔۔۔۔“بوڑھے انگریز نے ہاتھ کے اشارے سے منع کیا۔
”تو پھر آپ کو نرم غذا درکار ہوگی۔میرے بھی پیٹ میں گڑ بڑ تھی۔ میں اپنے لئے دلیا لائی ہوں وہ لے لیں۔“بوڑھی ائیر ہوسٹس نے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
”WHAT DALIA“بوڑھے گورے نے حیرت سے کہا۔
”یہ نرم غذا ہوتی ہے “ائیر ہوسٹس نے اس کو سمجھانے کی کوشش کی۔
”اچھا تو پھر تھوڑی سی ڈالیا دے دو۔“

یورپی یونین جیسے پی آئی اے کے طیاروں پر پابندی لگا رہی ہے۔ کل کلاں کو یہ نہ ہو کہ وہ ائیر ہوسسٹز پر بھی پابندی عائد کر دے۔ اس کے حکم نامے میں درج ہو رضیہ،فاخرہ،تحریم اور عامرہ پر یورپی یونین کے ممالک میں داخلے پر پابندی ہے۔ یہ پابندی بوڑھے انگریزوں کو تنگ کرنے۔ ان کو مینو سے الگ ایک DALIA نامی کیمیکل کے ذریعے ہلاک کرنے کی ناکام کوشش پر لگائی جا رہی ہے۔

ائیر ہوسٹس کی عمر کی حد چاہے ساٹھ سال کر دیں مگر ان کی ڈیوٹی جہاز کی بجائے گراؤنڈ پر ہو۔ جہاز کی عمر پوری ہونے پر اس کو بھی گراؤنڈ کر دیا جاتا ہے۔ کمر پر ہاتھ رکھے، ہانپتی کانپتی، آنکھوں پر نظر کا چشمہ پہنے پوپلے منہ میں زبان ہلاتی ائیر ہوسٹس کس کو بھائے گی۔

نو سو چوہے
ایک نجی چینل سے جس خبر کو تازہ ترین کے عنوان سے شائد مستنصر حسین تارڑ ہی دیکھ سکے ہیں۔ اس خبر کو دوسرے روز اخبارات میں جگہ نہ مل سکی۔ نیو یارک سے آنے والی پرواز سے تقریباً نو سو چوہے برآمد ہو گئے۔ یہ چوہے اسلام آباد ائیر پورٹ پر بھاگتے پھرتے ہیں۔ اور ان میں سے کچھ پی آئی اے کے دفتر میں گھس گئے۔ انہوں نے حساس نوعیت کی تاریں بھی کتر دی ہیں۔ائیرپورٹ کا عملہ ان کو پکڑنے کی تگ و دو میں ہے۔ پی آئی اے کا موقف ہے کہ ہمارا جہاز جب نیو یارک گیا تھا تو بالکل خالی تھا۔ یہ چوہے امریکہ سے آئے ہیں۔

یہ چوہے کسی صورت میں بھی پاکستانی نہیں ہو سکتے۔ ان میں اتنا ”دل جگرا“ کہاں۔ ہمارے چوہے تو بارڈروں پر ہی مارے جاتے ہیں۔ کہیں کھلے سمندروں میں آنکھوں میں نہ جانے کون سے سپنے سجا کر لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ یا پھر کنٹینروں میں سانس گھٹ کر مر جاتے ہیں۔ ان کے پاس ایسا پاسپورٹ، شناخت کہاں کہ امریکہ جیسے ملک میں امریکی بلیوں سے بچ کر گھوم آئیں۔ ہمارے تو اعلیٰ نسل کے چوہے بھی یورپی ائیر پورٹوں پر اپنے کپڑے اتروا کر فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہ چوہے پی آئی اے کے مطابق اگر نیو یارک سے سوار ہوئے ہیں تو اس میں حقیقت ہی ہوگی۔ یہ امریکی چوہے ہی ہونگے جو بغیر کسی شناخت کے دندناتے نہ صرف جہاز میں داخل ہو گئے۔ بلکہ اسلام آباد ائیر پورٹ پر بھی انہوں نے اودھم مچائے رکھا۔

پی آئی اے کی کیل
لیجئے پی آئی اے کی کیل نے ایک اچھلی بھلی وی آئی پی شخصیت کا دامن تار تار کر دیا۔ جسے بعد میں سٹپل پنوں کی مدد سے جوڑ کر سفر پر روانہ کیا گیا۔ ایک دور تھا جب سفر کے لئے ایک الگ جوڑا رکھا جاتا تھا۔ سفر مکمل ہونے پر نہا کر یا ہاتھ منہ دھو کر وہ جوڑا پہنا جاتا تھا۔ شادی بیاہ کے موقع پر دور جانے والی برات چونکہ بہت صبح سویرے روانہ ہوتی تھی۔ اس لئے دولہا سمیت سارے براتی”لبڑے منہ“ کے ساتھ بسوں کی پاں پاں میں روانہ ہوتے۔ دلہن کے گھر کے راستے میں آنے والی نہر پر ان کا قافلہ پڑاﺅ کرتا تھا جہاں چائے کے ساتھ پاپے اڑانے کے بعد نہر میں اشنان کر کے دلہا اور باراتی، بارات والے کپڑے پہنتے تھے۔۔۔ مسافروں کے کپڑے پھاڑنے میں سب سے زیادہ جی ٹی ایس نے نام کمایا۔ اچھے بھلے مسافر ”لیرو لیر “ ہو کر نکلتے تھے۔ گھر سے تیار سوٹڈ بوٹڈ لوگ سفر کے اختتام پر بس سے یوں نکلتے جیسے مستری بس کے نیچے سے نکلا ہو۔ نہ جانے جی ٹی ایس کا دھواں مسافروں کے نتھنوں سے ہوتا ہوا کیوں گزرتا تھا۔ اس کام میں پاکستان ریلوے بھی پیچھے نہ رہی۔ اس نے بھی جہاں تک اس کا بس چلا مسافروں کو خوار کیا ۔کبھی نیچے بیٹھے مسافروں پر پنکھا گر گیا۔ کبھی نیچے لیٹے مسافروں پر برتھ گر گئی۔ اور کبھی چلتی ٹرین کا فرش گر گیا۔ بندہ ٹرین کے باتھ روم میں ”پریشر“ کے زیر اثر گھس تو جاتا ہے مگر بعد میں اپنی جیبیں ٹٹولتا ہے کہ شائد برے وقت کے لیے رکھا کوئی رومال یا کاغذ نکل آئے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ صوفے کی اس کیل کو ابتدائی حالت میں برے طریقے سے اتنا ٹھونک دیا جائے کہ وہ دوبارہ باہر آنے کی جرات نہ کر سکے۔ ورنہ یہ تو چلو اپنا پاکستانی بھائی تھا۔ اگر کسی گورے کے ساتھ ایسا ہو گیا تو وہ اس کا دہشت گردی کے ساتھ تعلق جوڑ دیں گے۔
Khalid Mehmood
About the Author: Khalid Mehmood Read More Articles by Khalid Mehmood: 37 Articles with 35377 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.