آزادی،روشن خیالی اورسیاسی افکار ونظریات !
(Muhammad Asif Iqbal, India)
سیاسی نظریہ یا سیاسی فلسفہ انسان اور
انسانی معاشرے کے لیے خیر اور صلح نظام کے اصولوں کے مطالعے سے عبارت ہے۔
انسان محض زندہ رہنے کے لیے ہی زندہ نہیں رہتابلکہ وہ اچھی زندگی بسرکرنے
کا خواہاں ہوتا ہے۔یہ اس کی فطرت کا خاصہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے وجود اور
اپنے اعمال کا جواز تلاش کرتا ہے۔انسان نہ صرف اس کا شعور رکھتا ہے کہ وہ
کیا ہے بلکہ اس کا بھی شعور ہونا چاہیے کہ وہ کیا ہونا چاہیے اور کیا ہو
سکتا ہے۔اخلاقیات کے ذریعہ وہ عقلی طور سے اس خیر کی ماہیت کو متعین کرنے
اور سمجھنے کی کوشش کرتا ہے،جس کا وہ طلب گار ہے۔سیاسیات میں اسی چیز کو
سماجی زندگی میں روبہ عمل لانا چاہتا ہے، خواہ اس کوشش میں اسے اپنے آپ یا
دوسرے کے ہاتھوں کتنی ہی ناکامی کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے۔اس خیر کو روبہ
عمل لانے میں مدد دینا فلسفہ سیاست کا اہم ترین مقصد ہے۔یہ بات بھی کہی
جاتی ہے کہ اخلاقیات اور سیاسیات کے درمیان چولی دامن کا رشتہ ہے۔انسان ایک
سماجی اور سیاسی حیوان کہلاتا ہے اور جیسا کہ ارسطو نے کہا ،اس کا نصب
العین اچھی زندگی گزارنا ہے اور یہ بات بھی خلاف حقیقت نہیں ہے کہ اچھی
زندگی وہ معاشرے کے اندر ہی گزارسکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ سیاسی فلسفہ معاشرے
میں ایک صالح اور منصفانہ نظام قائم کرنے کے اصولوں اور طریقوں سے بحث کرتا
ہے۔
مختلف ادوار میں مختلف مفکرین نے سیاسیات کے بارے میں جو تصورات اور نظریات
پیش کیے ہیں ان سب کو ہم مجموعی طور سے"سیاسی فکر"کا نام دے سکتے ہیں۔یہیں
یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ سیاسی افکار و نظریات اپنے زمانے کے
مخصوص ماحول سے اوپر اٹھ کر آفاقیت حاصل کریں۔اس سلسلے میں افلاطون کو عظمت
کے درجہ تک لوگوں نے پہنچانے کی سعی و جہد کی ہے۔لیکن افلاطون کی عظمت اس
وجہ سے نہیں ہے کہ وہ چوتھی صدی قبل مسیح کے نویان کے سیاسی حالات کے بارے
میں کیا لکھتا ہے بلکہ اس لیے کہ اس نے انسانی فطرت اور سیاسیات کے سلسلے
میں چند ایسی صداقتیں اس زمانے میں دریافت کرنے کی سعی کی تھی جن کی معنویت
اور جواز اب بھی مسلم ہے۔اس کے باوجود کوئی مفکر خواہ کتنا ہی عظیم کیوں نہ
ہو اپنے ماحول کی قیود سے تمام تر آزاد نہیں ہو سکتا اور نہ اس کے نظریات
ہر زماں و مکاں کے لیے صادق اور قابل عمل ہوسکتے ہیں۔چنانچہ ہر زمانے کے
سیاسی نظریات میں جزوی صداقت ہی پائی جائے گی،کلی نہیں۔کیونکہ ہر نسل اپنے
مخصوص مسائل پر ہی غور و فکر کرتی ہے اور ان کے اپنی حد تک معقول ترین تلاش
کرنے کی کوشش کرتی ہے۔برخلاف اس کے یہ بات ہر زمانے میں اور آج بھی توجہ
طلب ہے کہ دراصل مملکت ہے کیا؟اس کا مقصد کیا ہے؟اس کی اطاعت کا جواز کیا
ہے؟اس کا دائرہ کار کس قدر ہونا چاہیے؟اس کا اپنے شہریوں سے کیا رشتہ ہونا
چاہیے؟اور اس طرح کے بے شمار سوالات۔وہیں یہ بات بھی دیکھنے کو ملتی ہے کہ
انیسویں اور بیسویں صدی کی سیاسی فکر خصوصی طور سے فرد اور مملکت کے رشتہ
اور مملکت کے دائرہ کار کے سوال سے نبرد آزما رہی ہے۔فرد سے ہم یہاں مخصوص
گروہ لے سکتے ہیں،جسے مزید تقسیم کیا جائے تو یہ مختلف بنیادوں پر قائم
ہونے والے گروہ کہلائے جائیں گے۔مثلا مذہب کی بنیاد پر قائم ہونا والا
گروہ، علاقہ اور تہذیب و ثقافت کی بنیاد پر قائم ہونے والا گروہ یا وہ گروہ
جو قدیم زمانے سے اپنی شناخت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔وہیں مملکت یا اقتدار سے
مراد مخصوص زماں و مکاں میں برسراقتدار افراد ہیں۔جو ایک مخصوص تہذیب و
ثقافت اورتمدن کو فروغ دنیا چاہتے ہیں یا وہ دوسروں کے آلہ کار ہیں۔
گفتگو کے پس منظر میں جب ہم سیاسی فکر یا جدید سیاسی فکر کی بات کرتے ہیں
تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ "جدید سیاسی فکر"کی نشونما یورپ میں نشاۃ
ثانیہ(Protetant Reformation)اور پرٹسٹنٹ اصلاح کے نتیجہ میں رونما ہونے
والی ذہنی فضا میں ہوئی ہے۔لیکن اس کی جڑیں چھٹی صدی قبل مسیح کے یونان کی
فکر میں پیوست ہیں۔ قدیم یونان آج کے مغرب کی تمام روایات کا گہوارہ
ہے۔شہری اور تمدنی زندگی کے جن مسائل پر دوہزار برس قبل افلاطون اور ارسطو
نے جن خیالات کا اظہار کیا تھا ان کی معنویت اور اہمیت آج بھی باقی ہے۔طرز
فکر اور طریق استدلال کے اختلاف کے باوجود افلاطون اور ارسطو نے متفقہ طور
پر یہ اصول پیش کیے تھے۔i)انسان ایک صاحب عقل اور صاحب اخلاق ہستی ہے۔ii)وہ
ایک سماجی ہستی ہے،اس لیے اپنی نوع سے الگ نہیں رہ سکتا۔iii)انسانی وجود کا
مقصد اچھی زندگی گزارنا ہے،اورiv)اچھی زندگی کا حصول مملکت کا اولین مقصد
ہے۔انسان مملکت کے اندر ہی اپنی تکمیل کر سکتا ہے اور اپنے جوائج پورے کر
سکتا ہے۔معاشرے سے باہر رہ کر یا تو وہ درندہ ہوسکتا ہے یا دیوتا۔یونانی
فلسفے کے یہ اصول رواقیوں(Stoics)کے ذریعہ روما پہنچے۔مسیحیت کے عروج کے
بعد یونانی فلسفے کو مسیحی تعلیمات کے قالب میں پیوست کیا گیا۔رواقیوں کے
عالمی انسانی برادری کے تصور نے سلطنت الہٰیہ کا روحانی جامہ پہنا۔عہد قدیم
کے افکار نے قرون وسطیٰ کے سیاسی تصورات پر گہرا اثر ڈالا۔لیکن مسیحیت نے
مملکت کے کلاسیکی تصور کو مفلوج کرکے رکھ دیا۔اور چونکہ مسیحی فکر نے فرد
کی ذاتی اہمیت پر تمام تر زور دے کر مملکت کے آزاد، خود مختار اور کلی وجود
کی نفی کی اور مملکت کو مذہب یا کلیساکے تابع بنا کر اسے کلیسا کی نگرانی
میں محض محدود قسم کے کام سپرد کیے۔اسی لیے قرون وسطیٰ کی سیاسی فکر پر
کلیسا حاوی تھااور اس کا بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ روحانی طاقت(جس کا نمائندہ
پاپائے اعظم تھا)اور دنیا وی طاقت(جس کا نمائندہ شہنشاہ روم تھا) کے درمیان
کیا تعلق ہونا چاہیے؟لیکن قرون وسطیٰ کے اواخر میں سیاسی فکر کے غیر مذہبی
ہونے کا رجحان تیزی سے پیدا ہوتا چلا گیا جس کا خاص سبب ایک جانب ارسطو کی
فکر اور تصنیفات تھیں تو وہیں کلیسا کی بد اعمالیاں اور مظالم کی انتہا
تھی۔یہی وجہ ہے کہ اس زمانے میں کہا جانے لگا کہ شہنشاہ کے اختیارات کا سر
چشمہ عوام ہیں،ساتھ ہی یہ آواز بھی پرزور انداز میں برپا ہوئی ہے کہ شہنشاہ
کو پوپ کی نگرانی اور مداخلت سے آزاد ہونا چاہیے۔دیکھا جائے تو اُس دور کے
سیاسی تحریروں کا موضوع دو مسائل پر منحصر ہے۔۱)یہ سوال کہ کیا پوپ کو
سلطنت روما کے شہنشاہ کو تخت نشین کرنے اور معزول کرنے کا اختیار ہے؟اور
۲(کیا شہنشاہ کو عیسائی دنیا کے علاقائی بادشاہوں پر بالا دستی حاصل
ہے؟یہیں سے یہ دلیل بڑے پرزور انداز میں استعمال کی جانے لگی کہ دنیا وی
طاقت عوام سے ملتی ہے نہ کہ خدا سے،علاقائی بادشاہوں کی شہنشاہ روم کی بالا
دستی سے آزادی اور خود مختاری کو جائز ثابت کرنے کے لیے استعمال کی جانے
لگی۔پھر یہی وہ ٹرنگ پوائنٹ تھا جبکہ شہنشاہ اور علاقائی حکمرانوں کے
درمیان اقتدار کی کشمکش کے نتیجہ میں عہد وسطیٰ کی سلطنت روما کی وحدت پارہ
پارہ ہو کر رہ گئی۔آزاد قومی مملکتیں وجود میں آئیں۔قومی مملکتوں کا ابھرنا
یورپ کی تاریخ کا اہم ترین موڑ تھا۔
دور جدید میں چہار جانب یہ جو ہم مذہب اور سیاست کو الگ الگ خانوں میں
رکھنے کی بات سنتے ہیں،اس کا مختصر پس منظر ہم نے آپ کے سامنے رکھنے کی
کوشش کی ہے۔اس کے باوجود یہاں یہ بات ابھر کر سامنے آئی ہے کہ جب کلیسا نے
وقت کی شہنشاہ نے آپسی ٹکراؤ اور اخلاقی پستی کا اظہار کیا ،تب ہی سے مملکت
لایعنی بنتی چلی گئی۔یہ مملکتیں گرچہ آزادی کے نعرہ کے ساتھ وجود میں آئیں
،اس کے باوجود یہاں ایک جانب آزادیاں صلب کی گئیں تو وہیں آزادی کے نام پر
عقائد پر چوٹ کرنا روشن خیالی سے تعبیر کیا جانے لگا۔نتیجہ میں فرد اور
مملکتیں اخلاقی پستی میں مبتلا ہوتی چلی گئیں۔۔۔۔(جاری) |
|