ماضی کے متکلمین باہم مناظرے و مباحثے کرتے
تھے کہ انبیاکرام گناہوں سے معصوم ہیں اور اسی پر اتفاق بھی ہوجاتاتھا کہ
انبیا سب کے سب گناہوں سے معصوم ہیں اور ان سے کوئی گناہ و غلطی چھوٹی ہو
یا بڑی سرزد نہیں ہوسکتی۔بلکہ وہ ہر اس چیز س پاک و دور ہیں جو مہذب
معاشروں میں معیوب جانی و سمجھی جاتی ہو جیساکہ جاہ ومنزلت سے تہی دامنی،
عزت و وقار سے گرا ہوا کوئی فعل،وجاہت انسانی و حیا و پاک فطرت سے انحراف
سمیت وہ ہر ایسی چیز و کام سے دور رہتے تھے جس سے ذرہ برابر بھی شک و شبہ
کی گنجائش پیدا ہوسکتی ہویا کسی معزز و محترم بشر پر تہمت لگنے کی امید
پیدا ہوسکتی ہو۔یہ گفتگو اور مناقشہ بہت طویل و تفصیلی ہے اس پر تحریروں کے
انبار و کتب خانے جمع ہوسکتے ہیں کیونکہ اس دائرہ کارکی وسعت بہت زیادہ
ہے۔مگر ان سب باتوں میں ایک کامل و مکمل مسلمان لمحہ بھر کیلئے بھی متردد
نہیں ہوسکتا بلکہ اسی عقیدہ پر ایمان رکھتاہے کہ انبیا معصوم عن الخطا
ہیں،ان سے متعلق کسی بھی طور پر شک و شبہ کی گنجائش نہیں کیونکہ وہ اﷲ
تعالیٰ کے مقرب و محترم اور اختیار کردہ طبقہ ہے جسے اﷲ نے اپنا قاصد و
رسول اور پیمبر بناکر عالم دنیا میں بھیجا تھا اور انہی کے ذریعہ انس و جن
پر خیر و شر کے مابین فرق کرنا آسان و ممکن ہوا۔
موجودہ دور کی سب سے بڑی مشکل و مصیبت یہ ہے کہ معاشرہ گناہوں کے چھوٹے اور
بڑے ہونے پر بحث بھی کرتے ہیں اور سلسلہ میں بڑوں سے بچنے کی کوشش بھی کی
جاتی ہے مگر چھوٹے کو اختیار بھی کر لیا جاتاہے ۔اور یہ امر انتہائی
تشویشناک ہے کہ مسلمان کسی برائی کو چھوٹا ہونے پر اختیار کرلے۔یہی وجہ ہے
کہ آجکل بڑے گناہوں میں زنا ،شراب، سود،قتل ،خون بہانا انہی کو سمجھا
جاتاہے اور اہل تقویٰ ان سے پرہیزگاری اختیار کرتے ہیں جس کی وجہ سے کوئی
بھی اہل حل و عقد اور متقی ان گناہوں کے ارتکاب سے اپنے کو بچانے میں پس و
پیش سے کام نہیں لیتا۔اور یہی وجہ ہے کہ اصحاب خشیت کوئی بھی کبیرہ گناہ
اختیار نہیں کرتے جن میں سب سے بڑا گناہ اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا
ہے۔جیساکہ امام ذہبی نے بڑی خطاؤں کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ اﷲ کے ساتھ
شریک کرنا،ناحق قتل ،جادو، سود کھانا،یتیم کے مال میں تصرف کرنا،والدین کے
حقوق سلب کرنا،حالت جنگ میں پیٹھ پھیرنایا بھاگ جانا،ایمان دار و پاکباز
خواتین پر تھتہمتلگانا اوراس طرح دیگر بھی بڑے گناہ ہیں۔
عالمی طورپر تحقیق کرنے و جائزہ لینے سے معلوم ہوتاہے کہ مسلمان ہی انسانی
معاشرے کا وہ طبقہ ہے جو بڑے گناہوں سے ہم تن دور رہنے کی کوشش و جستجو
کرتے ہیں۔۔۔۔۔مگر صورت حال دوسری جانب سے انتہائی ناگفتہ بہہ ہے کہ یہی
اسلامی معاشرہ ہی ہے جس میں اخلاقیات کی تنزلی و پستی اور گراوٹ میں روز
بروز اضافہ ہی ہورہاہے۔اور اخلاقیات کے باب میں اسلامی تعلیمات و ہدایات کو
پس پشت ڈال دیتے ہیں،جیساکہ وعدہ خلافی کرنا،بددیانتی و امانت میں خیانت
کرنا،سازشیں چالبازیاں کھیلنا،دھوکہ دہی و فراڈ کے ساتھ غداری و جاسوسی کرک
مسلمان بھائی کو نقصان پہچانا،غلط بیانی و جھوٹی تہمتیں اور الزامات لگا
نا۔۔۔متحیر بات یہ ہے کہ سب برائیاں و جرائم دین و اسلام کے نام پر ہی کئے
جاتے ہیں،غداری و منافقت کرنے کو احتیاط کا نام دیا جاتاہے،سازشیں کرنے کو
اتحاد ملت باظل کے خلاف کا نام دیا جاتاہے،اسی طرح منافقت و چغل خوری و
غیبت کو خوبصورت نام دیکر حلال کیا جاتاہے،رشوت و لالچ کو معاونت و مدد یا
انعام کا نام دیا جاتاہے۔۔۔
ان سب اخلاقی گراوٹوں کو بیوٹی پالر میں مزین کرکے جائز و حق ثابت کرنے کی
کوشش و سعی کی جاتی ہے۔کیا ممکن ہے کہ کوئی مولوئی ان گناہوں کو جس سے
انسانیت میں انتشار و فساد کی داغ بیل ڈالی جاتی ہے کوگناہ صغیرہ
کہے؟؟اسلامی معاشرے میں یہ امراض سرطان سے بھی زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ
سماج کو کھوکھلا کررہی ہے اور حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ انسا ن کسی بھی
قریبی و دور کے دوست و عزیز ،شاگر دو استاد ،حاکم و محکوم کسی پر اعتماد
کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتاہے۔کوئی نہیں چاہتا کہ وہ اپنے اسرار و رموز
اور دل کی بات امانت کسی سینہ میں منتقل کرکے اس سے حوصلہ و تعاون کی امید
استوار کرسکے۔یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں سے مردانگی و جوانمردی کا خاتمہ
ہوچکا ہے اور ہر کس و ناکس عہدوں اور منصبوں پر وحشی و درندے جانوروں کی
طرح لپکتے ہیں کہ جیسے سالہاسال سے وہ بھوکے ،ننگے،پیاسے اور محروم ہوں اور
وہ اپنوں ہی کو تہہ و تیغ کرکے اس فانی و عارضی جاہ ومنزلت کو حاصل
کرلے۔کیا وجہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کے شارح و مفسر حضرات علماء کرام ان
برائیوں اور خرابیوں سے عوام الناس کو بچنے اور رکنے کی تلقین نہیں کرتے
کہیں ایسا تو نہیں کہ علماء ملت خود ہی ان گناہوں کو چھوٹا و بڑا سمجھنے
میں متردد ہے؟اب ہم اپنے گردو پیش میں دیکھ سکتے ہیں کہ اس اخلاقی انحطاط
کی نتیجہ میں اب ملت اسلامیہ عالم دنیا میں کس مقام ذلت وپستی پر کھڑی
ہے۔۔۔
ان اخلاقی پستیوں کے ثمرات و نتائج ہر عام وخاص پر ظاہر ہورہے ہیں چاہے وہ
خانگی زندگی ہو کہ اس میں مرد عورت کو دھوکہ دے رہاہے کہ اسے مال و متاع کی
محبت نے شادی پر مجبور کیااور عورت خاوند عدم موجودگی میں عزت وحرمت کو
پامال کرتی ہے،اسی طرح بھائیوں میں یہ خیانت و بددیانتی پھیل چکی ہے کہ وہ
تقسیم میراث پر باہم دست وگریباں ہوتے ہیں،والدین کے حقوق کو اداکرنے میں
غفلت و سستی اور کاہلی کے قصے زبان زدِ عام ہیں۔جب کہ امانت کی حفاظت اور
احساس ِ ذمہ داری و مسؤلیت تو ویسے ہی سماج میں سے نکل چکی ہے۔اس امر میں
کوئی دورائے نہیں ہے کہ اسلامی معاشرہ اﷲ تعالیٰ و نبی کریم ؐ کے بیان کردہ
اخلاقی اصول و ضوابط سے کوسوں دور ہوچکی ہے کہ ان کی عملی زندگی میں
ذرابرابربھی اسلامی اخلاقیات کی رمق نظر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔جب کہ اﷲ
تعالیٰ نے انسانیت کی تخلیق کے ساتھ ہی اس میں فطرتی طورپر اخلاق اقدار کو
جزو لازم بنادیا تھا۔ایسے میں اس بڑے جرم کے ارتکاب کا وبال اور اس کی ذمہ
داری سبہی اہل علم و فن پر عائد ہوتی ہے اور وہ روز محشر میں اﷲ کے ہا ں
جواب دہ ہوں گے کہ ان اقدار سے تخل کیوں اختیار کیا گیا اور متعین و محدد
اور واضح و بین اخلاقیات کا جنازہ کیوں نکالا گیا۔۔۔کھلی بات ہے کہ ہوس
انسانی نے تمام اطھائیوں اور بھلائیوں اور نیکیوں کو خاکستر کردیا ہے۔۔اب
تو حالت اس طور پر اذیت و کربناک ہوچکی ہے کہ ذمہ دار طبقے آس پاس میں ہونے
والے حادثات و واقعات سے ا سطرح کنی کرتے ہیں کہ جیسے چینوٹی کے وجود کا
کسی کو احساس نہیں ہوتاایسے ہی وہ سنی کو ان سنی کردیتے ہیں۔ان اخلاقیات سے
پہلوتہی کرنا یا ان سے منہ چرانے کے بعد انسان کی کوئی قدر و منزلت باقی
نہیں رہتی اگر اسی پر موت آجائے تو اس کی زندگی بدتر ہے اور آخرت کا انجام
تو درد ناک ہے ہی اس کا مقدر۔ |