نوآبادیت (Colonialism) بنیادی طور پر
طاقتور سامراجی قوتوں کا کمزور اقوام اور وسائل پر قبضے کا وہ رجحان ہے جس
کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے تاہم اس کی شدت سولہویں صدی سے بیسویں صدی کے
وسط تک پوری دنیا میں آشکارہ ہوئی کہ جس میں یورپ سے فرانس، سپین، پرتگال،
اٹلی اور برطانیہ وغیرہ جیسی سامراجی قوتوں نے توسیع پسندی کے تحت براعظم
امریکہ ، افریقہ، آسٹریلیا اور ایشیا تک پھیلی ہوئی انسانی آبادی اور انکے
سیاسی و معاشی وسائل پر قبضہ کرتے ہوئے ان کو نوآبادیات میں تبدیل کر دیا
اور استحصال کا ہر حربہ آزمایا گیا۔ قابض سامراجی قوتوں نے مختلف شکلوں میں
اس نوآبادیت کی تشکیل کی کہ جس میں کبھی اپنی اقلیتی آبادکاری، تجارتی
مراکز، فوجی چھاونیوں تو کبھی مقامی سطح سے باالواسطہ نمائندگی کے ذریعے
اسے پروان چڑھایا تاہم نوآبادیت کا بنیادی مقصد سیاسی و معاشی امور پر مکمل
اختیار سے عبارت رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم ، اقوام متحدہ کے قیام اور
نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے اعلان کے بعد دنیا کے نقشے پر پرانی ریاستوں
کی بحالی کیساتھ ساتھ نئی ریاستوں اور نئی سامراجی قوتوں کی بھی تخلیق ہوئی۔
عالمی طرز سیاست کے اس نئے روپ نے برائے راست مداخلت کے برعکس سرمائے کو
اپنا ہتھیار بناتے ہوئے آزادانہ تجارت، ترقی ، عالمگیریت ، عالمی امن اور
جمہوریت کی نئی اصطلاحو ں کیساتھ سابقہ نوآبادیات سے حالیہ نوآزاد ترقی
پذیر ریاستوں کی معیشت میں اپنی سرمایہ کاری کے ذریعے انہیں اپنا طفیلی
بنایا اور یوں اس جدید نوآبادیت Neocolonialism)) کی بنیاد رکھتے ہوئے
سرمایہ داری پر مشتمل نئے نوآبادیاتی نظام کو پروان چڑھایا جس میں دولت
مشترکہ، یورپی ٓزاد منڈی ،فرانسیسی افریقی تجارتی اور باہمی تعاون کے مختلف
ادارے اور پھر اقوام متحدہ کے بعد عالمی بنک ( world bank) ، آئی ایم ایف (
IMF (اور کثیرالقومی تجارتی ادارے قائم کر لئے گئے۔ بائیں بازو کے نظریات
کے مطابق نوآبادیت اور سامراجیت کا چولی دامن کا ساتھ ہے جس میں سرمایہ دار
ماسراجی قوتیں ترقی پذیر اور غریب اقوام اور خطوں کا سیاسی و معاشی استحصال
کرتے ہیں جبکہ اقوام عالم کو حق خودارادیت حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی و منشا
کے مطابق اپنے سماجی ، سیاسی و معاشی امور میں مکمل بااختیار ہوں۔ تاہم سرد
جنگ کے دوراان جب دنیا دو واضح گروہوں (اشتراکی، سرمایہ داری) میں تقسیم ہو
گئی تو سوویت یونین اور امریکہ نے دفاع، سلامتی، تجارت اور باہمی تعاون
جیسے معاہدات کے ذریعے جدید نوآبادیت کی یکساں آبیاری کی ہے۔
برصغیر بھی سولہویں صدی کے آغاذ سے بیسویں صدی کے وسط تک مختلف ادوار اور
مختلف خطوں کی حیثییت میں یورپی سامراجی قوتوں جیسے ہالینڈ، ڈنمارک،
فرانسیسی، پرتگالی اور برطانوی نوآبادی ہی تھا جسے جنگ عظیم دوم کے بعد
1947 میں متحدہ ہندوستان کو بھارت و پاکستان نامی دو خودمختار ممالک میں
تقسیم کیا گیا تو ایک عرصہ تک برطانیہ نے دونوں ممالک کے تمام سیاسی و
معاشی امور کی خود نگرانی کی ہے۔ دونوں ممالک ناصرف اقوام متحدہ بلکہ تاحال
سابق برطانوی نوآبادیات پر مشتمل تنظیم دولت مشترکہ کے بھی طفیلی ممبران
ہیں۔ دونوں ممالک معیشت میں سرمایہ دار طاقتوں اور انکے تعاون سے چلنے والے
مالیاتی اداروں ( ورلڈ بنک، آئی ایم ایف وغیرہ) کے قرضہ جات میں جکڑے ہوئے
ہیں، ملٹی نیشنل تجارتی اداروں کی سرمایہ کاری نے کاروبار پر قبضہ کیا ہوا
ہے، ان اداروں کوسستی مزدوری کی فراہمی کو معاشی ترقی سمجھا جاتا
ہے،ٹیکنالوجی کا حصول ایسی طفیلی ریاستوں کا حق نہیں سمجھا جاتا، تمام بڑے
منصوبوں پر کوئی بین الاقوامی ٹھیکہ دار ہاتھ صاف کرتا ہے، سماجی اطوار و
اقدار مغرب سے متاثر ہیں، میڈیا پر سرمایہ دار اداروں کا مکمل اختیار ہے،
دونوں ممالک پہلے مذہبی اور پھر مسلہ کشمیرپر خود کو حق بجانب مانتے ہوئے
شدید اختلافات کا شکار ہیں اور اسلحے کی دوڑ ،لامحدود دفاعی اخراجات ،
سیاسی ، سماجی ومعاشی استحصال نے غربت ، افلاس اور بھوک میں مسلسل اضافہ ہی
کیا ہے۔ مسلہ کشمیر کا ذکر آیا ہی ہے تو دونوں ممالک میں منقسم متنازعہ
ریاست جموں و کشمیر کی سیاسی و معاشی حالت کا جائزہ بھی لیا جانا ضروری ہے
کہ جس کے دونوں اطراف میں قدیم و جدید نوآبادیت کے مظاہر مختلف اشکال میں
نمایا ں ہیں۔ بھارتی و پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے دونوں حصوں کا
سماجی، سیاسی و معاشی ڈھانچہ انہی منتظمین ممالک کا طفیلی ہے، دونوں
متنازعہ حصوں کا سیاسی منظرنامہ مراکز(وفاق) بناتے ہیں کہ کس کو حکومت میں
لانا یا ہٹانا ہے، زرعی پیداوار تقریباٌ آخری سانس لے رہی ہے اور دونوں خطے
خوراک میں بھی طفیلی ہیں،، صنعتی ترقی تو متنازعہ حصوں میں گناہ کے مترادف
ہے، تعلیمی نصاب کیلئے مرکز سے بہتر فیصلہ ساز شائدنہیں ہوتا، متنازعہ خطے
آئینی طور پر کسی ملک کا حصہ ہی نہیں تو وہاں آئینی حقوق کا مسلہ ہی کیوں
سمجھا جائے، روزگار کیلئے سوائے سرکاری نوکری کے کوئی وسیلہ نہیں تو سمندر
پار ہی منزل ہے، دونوں اطراف کے متنازعہ حصے قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں
لیکن وہ وسائل انکے اختیار میں نہیں ہیں، دونوں ہی حصوں میں بجلی کے میگا
پروجیکٹ چل رہے ہیں تاہم دونوں ہی طرف اس دریاوں اور پانیوں کے استعمال کی
اجازت باشندگان ریاست کونہیں ہے، جنگلات قدرتی حسن ہے تاہم اس حسن کو نظر
نہ لگے اسی لئے جنگلات ہی کو ختم کیا جاتا ہے تاکہ لکڑی تو کام آئے،
معدنیات کی دریافت کیلئے یہاں کے لوگوں کے پاس علم و آلات کی کمی ہے لہذا
یہ کام بھی منتظمین ممالک پر ہی بوجھ بناہے، دونوں ہی حصوں میں روزگار و
پیداوار نہیں تو سبسڈی (معاونت) احسان عظیم ہے، بیرون ریاست آباد ریاستی
عوام سے حاصل شدہ ذرمبادلہ مرکزی خزانے کی امانت ہے، دونوں ہی اطراف کی
ریاستی حکومتوں کی محض دربان کی سی حیثیت فرانس سے آزادی کے بعد فرانس ہی
کی طفیلی افریقی ممالک جیسی ہے، دونوں ہی طرف منتظمین ممالک کی سیاسی
جماعتوں کا اثرورسوخ زیادہ ہے جبکہ ّزادی پسند و ترقی پسند کہلانے والے
گروہ عوامی معاملات سے متعلقہ ایسی سیاست کو شجر ممنوعہ سمجھتے ہوئے محض
اپنے ہی سیاسی حلقوں میں اس سیاسی نظام کو دھتکار کر اپنا فرض پورا کر لیتے
ہیں حالانکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوامی حقوق، سیاسی آزادی، مسائل اور
وسائل کے نام پر سالہا سال کی اس سیاسی بیروزگاری میں آ زادی پسندی اور
ترقی پسندی کی پھٹی ہوئی بوسیدہ پوشاک کو اب پھینک دیا جائے اور موجودہ
حالات میں میسر ماحول ہی میں اپنی سیاسی موجودگی کو محسوس بھی کرایا جائے۔
کیا ہمیں اب تک سمجھ نہیں جانا چاہئے کہ سیاست میں بھی رویوں کی تبدیلی
لازم ہے اور یہ نوشتہ دیوار ہے کہ ایسے سیاسی گروہ جو کسی آفاقی سیاسی و
معاشی نظام، مسلہ کشمیر کے حل اور متحدہ خودمختار جموں و کشمیر کے انتظار
میں عوامی سیاسی سرگرمیوں کا حسہ بننے سے قاصر ہیں وہ جانے انجانے میں اپنے
اپنے منتازعہ حصہ میں دراصل موجودہ نوآبادیت کی تقویت اور جدید نوآبادیاتی
نظام کو پروان چڑھانے کے عمل میں برابر کے شریک ہیں۔
|