حلب اور برما میں مظالم پر عالمی برادری اور او آئی سی کی خاموشی مجرمانہ ہے

جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی رہنما و سینیٹر حافظ حمد اﷲ سے خصوصی گفتگو
انٹرویو: حافظ حمداﷲ جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی رہنما و سینیٹر ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا پر مختلف موضوعات پر اپنی رائے کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ میڈیا پر ان کی رائے کو کافی اہمیت دی جاتی ہے۔ عابد محمود عزام نے ان سے شام اور حلب میں جاری مظالم، ان مظالم کے خلاف جے یو آئی کے احتجاج، مسلم دنیا میں جاری خانہ جنگی کے اسباب اور عوام، اس خانہ جنگی کے پس پردہ قوتوں، اس حوالے سے پاکستان کی ذمہ داریوں، بھارت کی جانب سے پاکستان کو وقتاً فوقتاً دی جانے والی دھمکیوں اور سرحدی خلاف ورزی، پاناما لیکس، سندھ اسمبلی سے منظور ہونے والے قبول اسلام کی پابندی کے قانون اور آئندہ الیکشن میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد کے حوالے سے خصوصی گفتگو کی، جو نذر قارئین ہے۔

عابد محمود عزام: جمعیت علمائے اسلام نے حلب اور برما میں جاری مظالم کے خلاف جمعہ کے روز ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا ہے، کیا جے یو آئی دیگر مذہبی جماعتوں کو بھی اپنے ساتھ احتجاج میں شرکت کی دعوت دے گی؟
حافظ حمداﷲ:جمعیت علمائے اسلام سمجھتی ہے کہ شام اور برما میں ہونے والے مظالم کھلی درندگی اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے، جس کے خلاف آواز اٹھانا ہماری ذمہ داری ہے۔ حکومت کو اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ جمعیت علمائے اسلام اپنی سطح پر شام و برما میں ہونے والے مظالم کے خلاف احتجاج کر کے اپنی ذمہ داری پوری کر رہی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام یہ اعلان کرچکی ہے کہ تمام جماعتیں اس احتجاج میں شریک ہوں، ملک کی تمام مذہبی جماعتوں کو اس احتجاج میں شریک ہونا چاہیے۔ اگر کوئی جماعت ساتھ دے گی تو خوشی کی بات ہے۔

عابد محمود عزام :شام اور برما میں مظالم جاری ہیں، لیکن عالمی برادری، اقوام متحدہ اور او آئی سی خاموش ہیں، اس حوالے سے آپ کیا کہیں گے؟
حافظ حمداﷲ:شام اور برما میں مسلمانوں کے ساتھ انتہائی زیادہ ظلم وستم ہورہا ہے۔ بچوں اور بزرگوں کو قتل کیا جارہا ہے اور خواتین کی عزتیں پامال کی جارہی ہیں۔ حلب میں ہر جانب لاشیں ہی لاشیں بکھری پڑی ہیں۔ حلب کو کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا ہے۔ بمباری سے پورا شہر بالکل تباہ کردیا گیا ہے۔ شام میں جاری کشیدگی کے باعث اڑھائی لاکھ افراد مارے جاچکے ہیں، جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔ بیرون ملک ہجرت کرنے والوں کی تعداد 40 لاکھ اور اندرون ملک بے گھر ہونے والوں کی تعداد 70لاکھ سے متجاوز کرچکی ہے، جبکہ برما میں بھی ایک عرصے سے مسلمانوں پر مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔ وہاں مسلمانوں کو قتل کیا جارہا ہے۔ بدھوؤں نے مسلمانوں کا جینا اجیرن کیا ہوا ہے۔ مختلف قسم کی پابندیوں میں جکڑا ہوا ہے۔ لوگ اپنے جان بچانے کے لیے برما سے ہجرت کرنے پر مجبور ہیں، لیکن ہجرت کرنے والوں کو برما سے باہر بھی کوئی جائے پناہ نہیں ملتی۔ ایسے حالات میں اقوام متحدہ، عالمی برادری، سلامتی کونسل، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور او آئی سی خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان سب کی خاموشی مجرمانہ ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی برادری ویسے تو مسلمان ملکوں کے معاملات میں ٹانگ اڑانے کے لیے پہنچ جاتے ہیں، لیکن جب ظلم رکوانے کی باری آئی تو سب گونگے بن گئے ہیں۔ اگر اقوام متحدہ شام اور برما میں ہونے والے ظلم کو نہیں رکواتی تو بتائیے اس کا کیا فائدہ ہے؟ شام اور برما کے حالات پوری امت مسلمہ کے لیے چیلنج ہیں۔ عالمی برادری اور اقوام متحدہ وغیرہ نے تو اس حوالے سے کوئی کردار ادا نہیں کریں گے، اسلامی ملکوں کو خود ہی آگے بڑھ کر ان حالات کو ٹھیک کرنا ہوگا اور اس جنگ و جدل کو ختم کرنے کی کوشش کرنا ہوگی۔ ورنہ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا اور ایک کے بعد دوسرا ملک برباد ہوتا رہے گا اور تمام اسلامی ممالک تماشا دیکھتے رہیں گے۔

عابد محمود عزام : شام اور دیگر مسلم ممالک کے حالات انتہائی دگرگوں کیفیت سے دوچار ہیں، آپ کے خیال اسلامی ممالک ان حالات سے کیسے نمٹ سکتے ہیں؟
حافظ حمداﷲ: عالمی طاقتیں ہمیشہ سے اسلامی دنیا کی دشمن رہی ہیں۔ وہ مسلم دنیا میں امن و سکون نہیں دیکھنا چاہتیں اور نت نئے طریقوں سے مسلمان ملکوں کو نقصان پہنچانے کے لیے کوشاں رہتی ہیں۔ شام، لیبیا، عراق اور افغانستان سمیت ساری مسلم دنیا عالمی طاقتوں کی سازشوں کو شکار ہے اور عالمی طاقتوں کے فیصلوں کے رحم و کرم پر ہیں، وہ مسلمان ملکوں کے حوالے سے جس طرح چاہتی ہیں، اسی طرح فیصلہ کرتی ہیں۔ مسلم دنیا میں سعودی عرب، پاکستان، ترکی اور ایران چار ممالک اہم ہیں۔ان چاروں ممالک کی معیشت اور سیاست مضبوط ہے۔ یہ ممالک اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اگر یہ ممالک چاہیں تو اسلامی دنیا عالمی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال سکتی ہے اور ان کی سازشوں کا توڑ کر کے موجودہ حالات سے نکل سکتی ہے۔ اب یہ ان چاروں ملکوں کے ہاتھ میں ہے کہ ایک ساتھ مل کر مسلم دنیا کا دفاع کرتے ہیں یا عالمی طاقتوں کے رحم و کرم پر ہی مسلم دنیا کو چھوڑے رکھتے ہیں۔

عابد محمود عزام: تقریباً اکثر مسلم ممالک میں بدامنی و خانہ جنگی کی کیفیت ہے، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اس کے پیچھے کیا عوامل ہیں،صرف مسلم دنیا ہی بدامنی و خونریزی کا شکار کیوں ہے؟
حافظ حمداﷲ: یہ سب کچھ گریٹر اسرائیل کے لیے کیا جارہا ہے۔ اسرائیل کی توسیع اور اس کی حفاظت کے لیے مسلم ممالک کو باری باری نشانہ بنایا جارہا ہے۔ امریکا و مغرب اسرائیل کے محافظ بنے ہوئے ہیں، جو بھی ملک اسرائیل کے گھناؤنے اقدامات کی راہ میں رکاوٹ بننے کی کوشش کرتا ہے، اسے راستے سے ہٹادیا جاتا ہے۔ یہ چاہتے ہیں جو بھی اسلامی ملک اسرائیل کے لیے خطرہ بن سکتا ہے، اسے تباہ کردیا جائے۔ جو ان کی بات مانے، اس کو تو کچھ نہ کہا جائے اور جو ان کی بات نہ مانے، اسے ختم کردیا جائے۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ اسلامی دنیا میں تباہی مچادی جائے، یہی وجہ ہے کہ آج اسلامی دنیا کے تقریبا تمام ممالک اسرائیل کے محافظ مغرب کی سازشوں کی وجہ سے بدامنی کا شکار ہیں۔

عابد محمود عزام: اس بات سے انکار نہیں کہ شام میں بدامنی کی آگ لگانے والوں میں امریکا و روس شامل ہیں، لیکن کچھ مسلمان ملکوں نے بھی تو اس جنگ کو بڑھانے میں کردار ادا کیا ہے؟
حافظ حمداﷲ: بالکل کچھ مسلم ممالک نے بھی اس جنگ کو بڑھانے میں کردار ادا کیا ہے۔ ان مسلم ممالک کو سمجھنا چاہیے کہ عالمی طاقتیں ہمیں آپس میں لڑا کر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ شام کے معاملے میں ایران بھی شریک ہے۔ ایران کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جب تک سعودی عرب، پاکستان، ترکی اور ایران مل بیٹھ کر اپنے معاملات حل نہیں کریں گے، اس وقت تک عالمی طاقتیں اپنی سازشوں کے ذریعے ہمیں تباہ کرتی رہیں گی۔ آج اگر شام کی باری ہے، لیکن کل ایران کی باری بھی آسکتی ہے، کیونکہ عالمی طاقتیں ایران کو بھی معاف نہیں کریں گی۔ نیٹو سربراہ نے 2003ء میں 7 ممالک کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، جن میں ایران بھی شامل ہے۔ ان کو اس بات سے کچھ زیادہ غرض نہیں ہے کہ کس ملک کا کیا مسلک اور فرقہ ہے، ان کے نزدیک مسلم دنیا کو تباہ کرنا ان کے مقاصد میں شامل ہے۔ وہ فرقہ واریت اور مسلکی بنیاد پر ہمیں لڑواتے ہیں اور اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں۔ شام میں اگرچہ سعودی عرب اور ایران ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں، لیکن یہ ساری چال امریکا و مغرب کی ہے۔ انہوں نے منصوبے کے تحت مسلم ملکوں کو آپس میں لڑوایا۔ ان کی شروع دن سے :’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ کی پالسی رہی ہے۔ اسی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے یہ لوگ مسلم دنیا کو تباہ کر رہے ہیں۔

عابد محمود عزام: شام اور دیگر مسلم ممالک میں جاری خونریزی کے حوالے سے پاکستان کو کیا کردار ادا کرنا چاہیے؟
حافظ حمداﷲ: پاکستان نہ صرف ایک اسلامی ملک ہے، بلکہ ایک طاقتور اور ایٹمی قوت رکھنے والا اسلامی ملک ہے، جس کی ذمہ داری ہے کہ شام اور برما میں جاری خونریزی کے حوالے سے سفارتی سطح پر آواز اٹھائے اور دیگر تمام فورمز پر اپنا موقف پیش کرے۔ پاکستان کو اہم ملک ہونے کی حیثیت سے امت مسلمہ کے ہر درد کو سمجھنا چاہیے اور بدامنی کے شکار اسلامی ممالک میں قیام امن کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔

عابد محمود عزام: بھارت کی جانب سے وقتاً فوقتاً پاکستان کو دھمکیاں دی جاتی ہیں، سرحدی خلاف ورزی بھی کی جاتی ہے، ایسے میں حکومت پاکستان کو بھارت کے ساتھ کیسا رویہ اپنانا چاہیے؟
حافظ حمداﷲ: بھارت اس خطے کا اسرائیل ہے، عالمی طاقتیں بھارت کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا چاہتی ہیں، ان کی کوشش ہے کہ بھارت کی سپورٹ کر کے اسے پاکستان کی راہ میں رکاوٹ بنایا جائے۔ بھارت کی جانب سے سرحدی خلاف ورزی اور پاکستان میں بھارتی ایجنٹوں کے ذریعے بدامنی پھیلانے کا معاملہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ دوسری جانب کشمیر میں کئی ماہ سے ایک بار پھر بھارت نے سفاکیت اور مظالم کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ نہتے کشمیری عوام پر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، چند ماہ میں ہی 100 سے زاید بے گناہ کشمیریوں کو شہید کردیا گیا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ زخمی ہیں۔ ایسے میں پاکستان کو بھارت کے معاملے کو عالمی سطح پر اٹھانا چاہیے اور دنیا بھر میں بھارت کو بے نقاب کرنا چاہیے۔ جہاں تک بھارت کے ساتھ رویہ اپنانے کی بات ہے تو میرے خیال میں پاکستان بھارت کے ساتھ سفارتی سطح پر ٹھیک چل رہا ہے۔ سفارتی خدوخال اچھے ہیں۔ جس طرح بھارت اقدامات اٹھاتا ہے، پاکستان بھی اسی طرح اس کا جواب دیتا ہے۔

عابد محمود عزام: پاکستان میں کئی ماہ سے پاناما لیکس کا معاملہ لٹکا ہوا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، لیکن ابھی تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ آپ کیا دیکھتے ہیں کہ پاناما لیکس کیس کا کوئی نتیجہ نکلے گا یا یونہی لٹکا رہے گا؟
حافظ حمداﷲ: پاناما لیکس کا معاملہ خود سیاست دانوں کی وجہ سے لٹکا ہوا ہے۔ سیاست دان خود ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے ہیں۔ ایک دوسرے پر الزامات لگا رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو بدنام کر رہے ہیں۔ سیاست، سیاست دانوں کی وجہ سے بدنام ہوگئی ہے۔ جمہوریت، جمہوریت کی وجہ سے بدنام ہوگئی ہے۔ عمران خان سمیت اپوزیشن جماعتیں پاناما لیکس معاملے پر جو احتجاج کر رہی ہیں، اس کا مقصد اگلے الیکشن کی تیاری کرنا ہے۔ اپویشن جماعتیں مل کر تحریک چلانے کی بات کر رہی ہیں، اس سے صرف انتشار پھیلے گا، اس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

عابد محمود عزام: حکومت وقتاً فوقتاً پاکستان میں ایسا قانون منظور کیا جاتا ہے، جس کو علمائے کرام غیرشرعی کہتے ہوئے مسترد کردیتے ہیں، حال ہی میں سندھ اسمبلی سے پاس کروایا جانے والا اٹھارہ سال سے کم عمر کے قبول اسلام پر پابندی کا بل بھی انہیں میں سے ایک ہے، اس حوالے سے آپ کیا کہتے ہیں؟
حافظ حمداﷲ: پاکستان کے آئین میں لکھا ہوا ہے کہ یہاں کوئی بھی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بن سکتا۔ اب اگر کوئی بل قرآن و سنت کے اصولوں کے خلاف بنتا ہے، اسے کسی طور بھی برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ اگر حکومت قرآن و سنت اور آئین کے خلاف کوئی بل منظور کرتی ہے تو اس کے خلاف بھرپور احتجاج کیا جائے گا۔ جب حکومت نے حقوق نسواں کے نام پر غیرشرعی بل پاس کیا تھا، اس وقت بھی ہم نے بھرپور احتجاج کیا تھا اور اب سندھ میں قبول اسلام کے حوالے سے ایک غیر شرعی قانون منظور کیا گیا، ہم اس کے خلاف بھی سراپا احتجاج ہیں۔ اب اس قانون کی نظر ثانی کی جارہی ہے۔ سیکولر قوتیں اس قسم کے قوانین منظور کروانے میں پیش پیش ہوتی ہیں، حالانکہ ایسے قوانین نہ صرف غیر شرعی بلکہ عوامی مزاج کے بھی سراسر خلاف ہیں۔ سیکولر قوتوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ مغربی قوتیں پاکستان میں سیکولر اور مذہبی طبقے کو آپس میں لڑانا چاہتی ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ دونون طبقے آپس میں دست و گریباں ہوجائیں، تاکہ پاکستان کو نقصان ہو۔ اگر سیکولر طبقہ پاکستان سے مخلص ہے تو مذہبی طبقے کے ساتھ لڑنے کی بجائے ان کے ساتھ مل کر پاکستان کے مفاد میں کام کرے، یہی سب کے لیے بہتر ہے۔

عابد محمود عزام: آئندہ الیکشن میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد کے حوالے سے جے یو آئی نے کوئی لائحہ عمل طے کیا ہے، آپ مذہبی جماعتوں کے کسی اتحاد کو بنتا دیکھ رہے ہیں؟
حافظ حمداﷲ: پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور یہاں اسلام کے قوانین ہی نافذ ہونے چاہیے، لیکن یہاں مختلف حیلوں بہانوں سے زبردستی مغربی تہذیب کو مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مغرب کے کلچر کو عام کرنے کی اور ان کی ثقافت کو یہاں ٹھونسنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہاں دہشتگردی کے نام پر مذہبی طبقے پر یلغار کی گئی ہے، ان کو تنگ کیا جارہا ہے، معاشرے میں ان کے لیے مختلف قسم کی رکاوٹیں اور مشکلات پیدا کی جارہی ہیں۔ جو کسی طور بھی قابل قبول نہیں ہے۔ ایسے حالات میں پاکستان کے مذہبی طبقے اور تمام مذہبی جماعتوں کو متحد ہو کر مغربی تہذیب کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ آئینی اور جمہوری طریقے سے اپنی کوشش کو جاری رکھیں۔ انشاء اﷲ فتح مذہبی طبقے کی ہی ہوگی۔پاکستان کی تمام مذہبی جماعتوں اور مذہبی طبقے کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کی خاطر متحد ہوجائے۔ اب متحد ہونا وقت کا تقاضا ہے۔ اگر متحد نہ ہوئے تو سب ایک ایک کر کے پٹتے رہیں گے۔کوشش ہے کہ آئندہ الیکشن میں تمام مذہبی جماعتیں مل کر الیکشن لڑیں۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 629378 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.