خدا کیلئے! ٹانگیں مت کھینچے

ٹھیک ہے اگر مارشل لاء یا اس طرز کے کسی غیر معمولی اور غیر آئینی اقدامات ناگزیر ہیں تو کم از کم آپ منافقت اور دوعملی ختم کرکے جاگیرداروں، سرداروں اور زرداروں کے ساتھ اس طویل اور پرتعیش شراکت اقتدار سے باہر نکل آئیں اور محب وطن جرنیلوں کی ٹینکوں پر بیٹھ کر ایوان صدر میں داخل ہوجائیں اس ضمانت کے ساتھ کے آنے والا ”محب وطن“ جرنل بدعنوان سیاست دانوں کو نیب کی فائلیں دیکھا کر سینے سے لگانے کے بجائے الٹا لٹکائے گا، قوم کی گردن ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اپنے فطری اتحادی یعنی جاگیرداروں اور سرداروں سے چھڑائے گا، قانون اور انصاف کو اپنے کھیت کی مولی نہیں سمجھے گا اور امریکی مفادات کے تکمیل کے لئے اس ملک کو مزید آگ میں نہیں جھلسائے گا. اگر ایسا نہیں ہوگا اور یقیناً ایسا نہیں ہوگا تو مارشل لاء کیا لائے گا سوائے تباہی اور انارکی کے! صاحب خدا کیلئے! ٹانگیں مت کھینچے، جس شاخ پر بیٹھے ہیں اسکو مت کاٹیں اور اس لنگڑی لولی جمہوریت کو چلنے دیں. مانا کہ زرداری، نواز، الطاف اور اسفندیار بدعنوان ہیں لیکن خدا کیلئے ذمہ دار عدلیہ اور آزاد زرائع ابلاغ کی نگرانی میں انکو اپنی میعاد پوری کرنے دیں کہ یہ آخری موقع ہے اور عنقریب انکی چھٹیاں ہوجائے گیں. ہاں قوم کو اپنے بھلے مستقبل کے لئے فیصلہ کن قربانی دینی ہوگی۔ کوئی شارٹ کٹ کا راستہ اسے لے ڈوبے گا، پہلے بھی لے ڈوبا تھا اور اس دفعہ ایسا ہوا تو اسکی کوئی داستان بھی نہیں ہوگی داستانوں میں۔

قومیں تجربات سے سیکھتی ہیں، لیکن ہم اب تک نہیں سیکھے کہ ماضی میں ایک نہیں چار مارشل لاء کا تجربہ رکھتے ہیں لیکن پھر بھی شوق گناہ ہے کہ کم نہیں ہوتا. اوپر سے یاداشت بھی کمزور ہے کہ ذرا حکومت دو چار برس پوری کرلے پھر دیکھیں پچھلی حکومت کا دور سہانے خواب کی طرح یاد آنے لگے گا. میں ریوڑ میں چلتی بھیڑوں کی بات نہیں کرتا مگر وہ جو ادراک رکھتے ہیں کیا تاریخ پاکستان سے ناواقف ہیں؟

ذرا یاد کیجئے وہ ایوب خان ہی تھے جو ”میرے ہم وطنوں‘‘ کہتے ہوئے وارد ہوئے اور وطن عزیز کے بہترین اور مخلص قیادت کو کھا گئے اور انکی خالی نشستوں کو جاگیرداروں اور سرداروں سے بھر دیا. وہ بھی ایوب خان ہی تھے جنہوں نے سرمایہ دارنہ نظام درآمد کر کے بائیس امیر خاندان پیدا کئے. وہ بھی ایوب خان ہی تھے جنکے کشمیر ایڈوینچر سے فائدہ تو کچھ نہیں پہنچا لیکن الٹا رن کچھ کے ریگستان ہاتھ سے نکل گئے. وہ بھی ایوب خان ہی تھے جنہوں نے مادر ملت کو شکست دی. وہ بھی ایوب خان ہی تھے جنہوں نے اس ملک میں پہلی بار تعصب کے بیچ بوئے اور بنگالیوں کو بند گلی میں دھکیل دیا اور وہ بھی ایوب خان ہی تھے جنہوں نے عوام کی دُوہائی تو نہیں سنی لیکن اپنے اقتدار کی دہائی کا جشن ضرور بنایا. آخر قوم بلبلائی تو مجبور ہوئے اور اپنا ہی دیا ہوا نظام لپیٹ کر گمنامی کے اندھیروں میں جا چھپے.

ذرا یاد کیجئے پھر یحیٰ خان آئے، شراب کی دھت، اور موسیقی کی دھن میں ’’میرے عزیز ہم وطنوں‘‘ کہتے ہوئے. مگر کیا کیا. بنگالی مسلمانوں کو بھارتی ایجنٹ قرار دیکر گلی کوچوں میں رسوا کیا گیا. ایسے میں بھارت فائدہ نہ اٹھاتا تو کیا کرتا، اندھرا گاندھی نے کہا کہ ہم نے ہزار سالہ غلامی کا بدلہ ایک ہی وار میں لے لیا. ذرا یاد کیجئے تاریخ انسانی کی بدترین اور شرمناک شکست! جو اس قوم کے ماتھے پر آج بھی کلنک کا ٹیکہ ہے. ٹی وی اور ریڈیو کا مورچہ تو آخر تک گرم تھا، پاک فوج کی بہادری کے قصے اور نور جہاں کے ترانے فضاء میں فتح کے خواب سجا رہے تھے. لیکن اچانک ہی رت بدل گئی، قوم سکتے میں تھی. پھر بھی حقیقت کی قباؤں پر جھوٹ کے پیوند لگا دئے گئے. آخر قوم بلبلائی تو مجبور ہوئے اور ملک قائد عوام کو سونپ کر گمنامی کے اندھیروں میں جاچھپے.

ذرا یاد کیجئے برسوں بعد جمہوریت کی گاڑی پلیٹ فارم پر آئی تو محب وطن جرنلوں کی مہربانی سے تو وہ نہ تھے جنہوں نے رخت سفر باندھا تھا. خواجہ ناظم الدین، حسین شہید سہروردی، فیروز خان نون جیسے پاکباز رہبر اس قوم سے گم ہوگئے اور سیاست و جمہوریت جاگیرداروں اور سرداروں کے گھر کی لونڈی بن کر رہ گئی. قائد عوام بھی کوئی چھوٹے جاگیردار نہ تھے اور سیاست بھی انہوں نے ایوب خان کے مکتب ”بنیادی جمہوریت“ میں سیکھی تھی مگر قوم کو انکی ”للکار“، ”انکار“ اور ”افکار“ سے امید بہت تھی. پہلے کچھ برس تو معاملہ ٹھیک رہا لیک اقتدار کی ہوس نے ان سے وقت سے پہلے انتخابات کروائے اور جاگیرداروں اور سرداروں کو مرعات دلوائیں. حزب اختلاف نے بھی صبر کا دامن ہاتھ سے جانے دیا اور سارے چو چو کے مربعے یکسو ہوگئے. آخر قوم بلبلائی اور مدد کیلئے بے قرار اور ہر دم تیار "محب وطن" جرنیل دوڑے چلے آئے. پھر نا نو ستارہ کے ہاتھ کچھ آیا نہ قائد عوام کا کچھ بھلا ہوا اور نہ اس قوم کی کوئی قسمت کھلی.

ذرا یاد کیجئے نئے ”محب وطن“ جرنل کے دس برس تاریکی میں گزر گئے اور ملا کیا، اسلحہ اور ہیروئین کلچر، عدم برداشت اور لسانیت کی آخری انتہا پر بیٹھے سیاست دان نما بھیڑئے. کس جرم کی پاداش میں ساتھ سفید ہاتھی کو للکارنے والے قائد عوام کو پھانسی دے کر گڑھی خدا بخش میں من و مٹی اوڑھا کر سلا دیا گیا، ہاں مگر قائد عوام کی غلطی یہ تھی کہ جو کہا وہ کیا نہیں، جرنیلوں کو ہار پہنائے اور احتساب سے تامل کیا. اہل نظر تو اس دور تاریک میں بہت جلد ہی حقیقت جان کر الگ ہوگئے لیکن کچھ نادان آخری وقت تک چمٹے رہے مگر ہوا کیا امیر المومنین نے اپنی ذاتی مفاد کے لئے اسلام کو مزاق بنا دیا اور جب وہ رخصت ہوئے تو حال یہ تھا کہ ”نا خدا ہی ملا نہ وصال صنم“.

بے نظیر اتفاقیہ سیاست دان تھیں اس لئے ناتجربہ کار، لٹیروں اور مفاد پرستوں میں گھر گئیں اور دو دفعہ رسوا ہوئیں، نواز شریف بھی کونسے اصلی تھے کہ ”امیرالمومنین“ کے مکتب سے سیاست سیکھی اور دیر تک انہی کی جوتیاں سیدھی کرتے رہے. لیکن وقت پرورشِ انقلاب کرتا ہے اور یکسوئی اور مستقل مزاجی پائیدار تبدیلی لاتی ہے مگر اگر لوگ وقت پر سوار نہ ہو تو یہ لوگوں پر سوار ہوجاتا ہے. سو قوم یکسو نہ تھی اس لئے مفاد پرستوں کی خواہشات نے انگڑائیاں لیں اور ایک نیا ”محب وطن“ جرنل وسیع تر قومی مفاد میں اپنی ”میرے عزیز ہم وطنوں“ کے نعرے کے ساتھ وارد ہوا.

ذرا یاد کیجئے نئے ”محب وطن“ جرنل جس نے ملک خداداد سے اسلام کی جڑیں کاٹنے کا تہیہ کر رکھا تھا نے قانون اور انصاف کو اپنی خواہشات اور فرمودات کا نام دے دیا. ملک کی سب سے بڑی عدالت پر ایک نہیں تین دفعہ حملہ کیا، یہودی سرمایہ داروں کو اپنا ہمنوا بنانے کیلئے مروجہ سودی بینکاری کے خاتمے سے متعلق اعلیٰ ترین عدلیہ کے فیصلے کو کمال بے حیائی اور ڈھٹائی سے تبدیل کرایا، نو اگیارہ ہوا تو جیسے لاٹری کھل گئی فوراً کسی شکاری کتے کی طرح اپنے آقا کے قدموں میں بچھ گیا اور امریکیوں کے ساتھ ملکر امارت اسلامی کو تاراج کردیا، میڈیا کو مادر پدر آزادی دے کر فحاشی اور عریانی کو عام کیا اور آہستہ آہستہ اس قوم کی مجموعی غیرت دینی اور حمیت کو موت کی نیند سلا دیا، حدود اللہ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جسارت کی، کرپٹ سیاست دانوں، جاگیرداروں اور سرداروں کو اپنے ساتھ ملا کر کھلی چھٹی دی، اکبر بگٹی کو قتل کر کے بلوچستان میں علیحدگی کی آگ بھڑکائی، ملکی معیشت کو کھوکھلی بنیادوں اور بیساکھیوں پر کھڑا کیا، توانائی اور صنعتی شعبے کو سکوت اور تنزل کی طرف دھکیل دیا، اسٹاک مارکٹ میں مصنوعی چڑھاؤ پیدا کر کر سینکڑوں چھوٹے سرمایہ داروں کو اپنی ساری عمر کی جمع پونجی سے محروم کردیا. لیزینگ اور کار فناسنگ اسکیم کے تحط متوسط طبقے کو پائی پائی کا مقروض اور ذہنی مریض بنا دیا. ذخیرہ اندوزوں کو آٹا اسکینڈل، سیمنٹ اسکینڈل اور شکر اسکینڈل جیسے مواقع فراہم کرکے افراط زر میں مصنوعی اضافہ کیا اور غریبوں کو بدحال کردیا، قرض اتارنے کے نعرے لگائے لیکن کل ملکی قرضہ کی شرح کو کئی گناہ بڑھا دیا، اہم قومی اداروں کو کوڑیوں کے دام من پسند افراد میں تقسیم کردیا، منافع بخش ریلوے اور پی آئی اے کو خسارے کا شکار کردیا، اسٹیل مل کی فروخت اور مری میں ہاؤسنگ اسکیم کے ناکام منصوبہ بنائے، احتساب کے نعرے لگائے لیکن این آر او جاری کرکے ملک لٹنے والوں کو عزت و تکریم کے سرٹیفیکٹ جاری کردئے، مسئلہ کشمیر کو سرد خانے میں دھکیل کر بھارت سے دوستیاں بڑھائیں، انصاف پر شب خون مارا، امریکہ سے ڈرون حملے کروائے اور پاکستان کی خودمختاری کو داؤ پر لگایا، عافیہ صدیقی سمیت سینکڑوں پاکستانیوں کو ڈالروں کی عوض امریکہ کے حوالے کردیا، ملک کو نام نہاد دہشت گردی کے خلاف میں جھونک کر تباہ و برباد کردیا اور لال مسجد میں بدترین ریاستی آپریشن میں جسم کے اعضاء گلانے والے وائٹ فاسفورس بم استعمال کرکے سینکڑوں معصوم حفاظ طالبہ و طالبات کو شہید کردیا. آخر قوم بلبلائی تو مجبور ہوکر استعفی دیا اور ملک سے فرار ہوگیا.

لیکن حالات اور منجدھارکے پیدا کردہ یہ گلی محلے کے چھٹے ہوئے، فوجی آمروں کے نمک خوار، تاریخ اور اسکی رفتار سے ناواقف، قوموں اور اسکی ارتقائی سائنس سے ناآشنا اور طاقت و امریکہ پرستی کے نشہ میں دھت لیڈران کرام کیا جانے کہ ”لیڈر“ کسی کو”بلاتا“ نہیں ہے بلکہ خود آگے آتا ہے اور اپنی جوان مردی سے دریاؤں میں راستہ بنا کر پھنسی ہوئی قوم کو نکال لیتا ہے.مگر افسوس کہ یہاں رہزنی ہی رہبری ٹھری. پھر ان میں سے کئی ڈرتے ہیں یہاں تک کہ ملک میں نہیں آتے، انہیں کون بتائے کہ خود موت زندگی کی حفاظت کرتی ہے. یہ کیا خاک قوم کی مجموعی سوچ کی مثبت تعمیر کریں گے، نوجوانوں میں فکر جواں کریں گے اور ان میں احساس زیاں جگائے گے یہ تو خود ذہنی مریض ہیں کہ خود نمائی اور خود ستائشی سے آگے انہیں نے کچھ سیکھا نہیں. قوم کی مگر مجبوری ہے کہ ان کو جھیلنا پڑے گا کیونکہ مارشل لاء شارٹ کٹ نہیں سو سائیڈ ہے.

سوال یہ ہے کہ یہ ”رہزن“ گاہے بگاہے ”محب وطن“ فوجی آمروں کو کیوں بلاتے ہیں اور جرنیلوں میں انکو مسیحا کیوں نظر آتا ہے. وجہ صاف ہے ہر بچہ مشکل میں اپنے مائی باپ کو ہی پکارتا ہے اور ہر جز بلاآخر اپنے اصل کی طرف ہی لوٹتی ہے. قوم کو مگر ہوش کے ناخن لینے ہونگے، کہ ایک دفعہ ان رہزنوں نے معیاد پوری کرلی تو صفائی کا آغاز ہوجائے اور عنقریب چھٹی ورنہ ہمدردیاں سمیٹ کر، منت سماجت اور ڈیل شل کرکے دوبارہ آجائے گے. مان لیا یہ تین برس کٹھن ہیں لیکن اگر کوئی نیا جرنل آئے گا تو وہ کونسا تیر مار لے گا، وہ بھی نیب کی فائلیں کھنگال کر ایک نئی "ق لیگ" بنائے گا، ایک نیا پی سی او دیگا، ایک نیا این آر او لائے گا یعنی وہی کچھ جاری رہے گا جو ہورہا ہے اور جو ہورہا تھا، جبکہ مستقبل میں بھی بہتری کی کوئی امید نہیں ہوگی۔ کوئی تبدیلی نہیں آئے گی البتہ کچھ چہرے بدل جائیں گے.

میری نگاہیں بہت دور تک دیکھ رہی ہیں اس لئے دل گرفتہ ہوں کہ اگر اب کی بار بیرق سے ”محب وطن“ نکلے تو شمالی مغربی سرحدی پٹی ہاتھ سے نکل جائے گی اور ناراض بلوچ ہندوستان کی جھولی میں جاگرے گے، سندھ میں بھی 1982 کی شورش کا ایکشن ریپلے ہوگا اور اس بار عالمی برداری انکی پشت پر ہوگی جبکہ جنوبی پنجاب میں ایک لاوا پھٹ پرے گا. خاکم بدہن مجھ سے لکھوا کر رکھ لیں کہ پاکستان ختم ہوجائے گا۔ امریکہ کا مقصد یہی ہے وہ افغانستان میں ہار رہا ہے اور افغانستان سے اپنے انخلا سے پہلے پاکستان کا قصہ تمام کرنا چاہتا ہے تاکہ واپسی کے بعد دونوں ملک ملکر امریکہ کی چوہداہٹ ختم نہ کردیں۔

جن لوگوں کو دعویٰ ہے کہ وہ سیاسی اور جمہوری ہیں انکو چاہئے کہ سیاسی حل تجویز کریں ناکہ قوم کو گمراہ کر کے ان میں ”بارہ سنگے“ جیسی احمق نسل پیدا کریں اور گلی محلے چوراہوں اور منڈیروں والی سوچ کو تقویت دیں. صاحب کیا عجیب خود فہمی اور پچپنا ہے! جرنیل جاگیردارانہ اور سردارانہ نظام ختم کرے گے اور کرپٹ سیاست دانوں کا احتساب کرے گے مگر کیسے۔ جاگیردار اور سردار تو فوجی آمروں کی اولین بیساکھی ہوتے ہیں اور احتساب وہ بھی ”محب وطن“ جرنلیوں کے ہاتھوں کیا کبھی پہلے ایسا کچھ ہوا ہے.
Kashif Naseer
About the Author: Kashif Naseer Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.