مشرقِ وسطیٰ میں استعمار ی یلغار

مشرقِ وسطیٰ کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتحال نے صہیونی طاقتوں اوران کے آقاؤں کوایک مرتبہ پھریہ سوچنے پرمجبورکردیاہے کہ جس تیزی سے حالات بگڑرہے ہیں یقیناً اس کے ردّ عمل میں مغربی ممالک کی چولیں ہل سکتی ہیں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مصرکی روزبروزابتر صورتحال کو دیکھتے ہوئے اپنے ایجنٹ السیسی کواخوان المسلمون کے ساتھ معاملات میں نرمی لانے کااشارہ کیاہے جس کے جواب میں حال ہی میں مصر کی اپیلٹ کورٹ نے معزول منتخب صدر محمدمرسی کی سزائے موت کومنسوخ کرکے ازسرنواس کی سماعت کاحکم دیا ہے۔ جمہوریت کے نام نہادعلمبرداروں کومحمد مرسی کی وہ پالیسیاں پسندنہیں آئیں جس میں انہوں نے اپنے عوام کیلئے دنیاکے تمام خداؤں کویکسرمستردکرکے صرف ربّ اعلیٰ کی غلامی اختیار کرنے کانہ صرف اعلان کردیاتھابلکہ سسکتی انسانیت کو بھی برسوں کے بعد ایک ایسا مسیحا میسر آگیا جوان کے دکھ دردکو خوب سمجھتاتھا لیکن استعماری طاقتیں ایسے وجودکوکہاں برداشت کر سکتی ہیں۔

۲۰۱۳ء میں مرسی حکومت کوجبراًمعزول کرکے فوجی ڈکٹیٹرالسیسی نے مصر کی حکمرانی سنبھال لی اورمحمدمرسی کے خلاف چاربے بنیادمقدمات قائم کرکے ایک میں انہیں سزائے موت کاحکم سنادیاگیا۔اس مقدمے میں صدر محمدمرسی پر الزام عائدکیاگیاکہ انہوں نے ۲۰۱۱ء کی ملک گیر حکومت مخالف تحریک کے دوران سابق ڈکٹیٹرصدرحسنی مبارک کی طویل حکمرانی ختم کرکے اس جیل بھجوادیا،ایک جیل توڑنے اورایک پولیس اہلکارکوتشددکانشانہ بنانے کے سنگین جرائم کا ارتکاب کیاتھا۔مرسی کے ساتھ دیگرپانچ اخوان رہنماؤں کو بھی سزائے موت کاحکم سنایاگیاتھاجن میں سے ایک رہبر اعلیٰ محمد بدیع بھی شامل ہیں۔ مذکورہ عدالت نے محمدبدیع کے مقدمے کی بھی ازسرِ نوسماعت کاحکم دیاہے، انہیں جون ۲۰۱۵ء کو مصر کی ایک تابع فرماں عدالت نے سزائے موت سنائی تھی۔قریباًسواخوان ارکان یاحامیوں کو بھی ان کی غیرحاضری میں مقدمہ چلاکر سزاسنائی لیکن فی الوقت مذکورہ عدالت کے حکم کے ذیل میں نہیں آئیں گے۔
گزشتہ ماہ اسی اپیلٹ کورٹ نے ماہ اپریل کے دوران ایک مختلف مقدمے میں صدرمحمدمرسی کودی گئی ۲۰سال کی سزاکے خلاف اپیل مستردکردی گئی تھی ۔اس مقدمے میں ان پریہ الزام عائدکیاگیاتھاکہ انہوں نے اپنی حکومت کے دورمیں حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف طاقت استعمال کرکے انہیں ہلاک اورزخمی کیاتھا۔صدرمرسی کودودوسرے مقدمات میں عمرقیدسزابھی سنائی جاچکی ہے۔ان میں سے ایک مقدمے میں ان پر ایران ،لبنان عسکریت پسندگروپ حزب اللہ اور فلسطین میں حماس کی تحریک کے خلاف جاسوسی کے الزامات عائدکیے گئے تھے۔

مصرکی زیرعتاب انقلابی تحریک اخوان المسلمون روزِ اوّل ہی سے آزمائشوں سے دوچارہے اوراپنے مقاصدکی خاطرانتہائی گرانقدرقربانیاں پیش کرچکی ہیں۔ اٹھارویں صدی میں یورپ میں دوواقعات ظہورپذیرہوئے (۱)صنعتی انقلاب(۲) انقلاب فرانس۔صنعتی انقلاب یورپ میں معاشی اعتبارسے بنیادی تبدیلیوں کاحامل ثابت ہواجبکہ انقلاب فرانس سے یورپ کے سیاسی،معاشی اورمعاشرتی خدوخال میں نمایاں تبدیلیاں آئیں۔ نپولین کی جنگوں نے نہ صرف قومی ترقی کی راہ ہموار کی بلکہ نپولین نے ''کوڈنپولین'' کی قانون سازی کرکے یورپ کیلئے لازوال خدمات سرانجام دیں جس وقت یورپ نئی دنیااورنئے حقائق سے آگاہی حاصل کر رہاتھااس وقت وہ مسلم دنیاپرقابض ہوتا چلاجارہاتھااورمسلم اشرافیہ اپنے یورپی آقاؤں کی ہم نوابنتی چلی جارہی تھی۔

اس صورتحال میں مسلم دنیاکے علمائے کرام نے اسلام کی ڈوبتی ناؤکوسنبھالا دینے کی کوشش کی۔اس دورمیں موجودہ سعودی عرب میں وہابی اور سلفی فرقے نے جنم لیا۔مسلم رہنماؤں کی کثیرتعدادقوم پرستوں کے خلاف تھی،پین اسلام ازم کازورتھا۔پین اسلام ازم کے تصورکاپرچار کرنے والوں میں جمال الدین افغانی سرفہرست تھے۔بعض مسلم رہنماء سیکولرازم کیلئے کوشاں تھے۔جمال الدین افغانی ایک ماڈرن مسلم ریاست کے خواہاں تھے جس میں اسلامی اصولوں کی برترحیثیت ہو۔اگرچہ جمال الدین افغانی اپنے مقصدمیں ناکام رہے لیکن ان کے خیالات نے مسلم دنیا کے بے شمار لوگوں کومتاثرکیاجن میں مصرکے ایک اسکول ٹیچرحسن البنابھی تھے۔

دراصل ۱۸۶۹ء میں فرانس اوربرطانیہ نے مل کرنہرسویزکی تعمیرشروع کی جواس دورکابڑاپروجیکٹ تھا۔اس کی تعمیرکے دوران ہی فرانس اوربرطانیہ کے لوگوں کیلئے نہرکے ایک طرف عالی شان بنگلے،کلب،ہوٹل اورتفریح کے دیگر سامان مہیاکئے گئے تھے اوردوسری طرف مصر غربت ،پسماندگی، جہالت اور افلاس میں مبتلامصری عوام رہتے تھے۔حسن البنا نے نہرسویزکے اسی پسماندہ علاقے میں جنم لیا۔ان کیلئے یہ بات حیران کن تھی کہ مصرکی اشرافیہ انگریزی اورفرانسیسی سیکھنے کیلئے پاگل ہورہی تھی اورساتھ ہی ساتھ بڑی تیزی سے یورپی کلچرکواپنارہی تھی،حسن البناکویہ بات نہائت ناگوار گزری اوراس وقت ۲۲سالہ نوجوان حسن البنانے مسلمانوں کومغربی کلچرمیں غرق ہونے سے بچانے کیلئے ۱۹۲۸ء میں اخوان المسلمین کی بنیادرکھی جس کابنیادی مقصد مسلمانوں کی تاریخی روایات،تہذیب وتمدن کااحیاء تھا۔اس کے ساتھ ہی نوجوان نسل کوبوائز سکاؤٹ کی طرزپرباکرداربننے میں مددفراہم کرنابھی شامل تھا۔ جلد ہی یہ تحریک عوام میں مقبول ہونا شروع ہوتی چلی گئی،اس لیے اخوان کورات کے وقت تعلیم بالغاں کاپروگرام بھی شروع کرناپڑا اورکئی نئے سینٹرقائم کرنے پڑے۔وقت کے بدلتے دھارے کے ساتھ اخوان المسلمون ایک سیاسی جماعت کی شکل اختیارکرگئی۔اخوان نے سیکولرازم اور اشرافیہ کومصرکادشمن قراردیتے ہوئے قوم پرستی کی بھی مخالفت کی۔اخوان مصر،لیبیا اورشام کوایک اکائی کے طورپردیکھناچاہتے تھے۔اخوان کی لیڈر شپ تمام مسلم امہ کواکٹھاکرتے ہوئے خلافت کے تصورکوجدیدخطوط پر استوارکرنا چاہ رہی تھی۔اخوان المسلمون ، جمال الدین افغانی کی طرح مسلم دنیاکوجدیدخیالات اورنظریات سے روشناس کرانے کی حامی تھی لیکن اسلامی اصولوں کومقدم رکھناضروری سمجھتی تھی ،یہ وہ دورتھاجب امریکاشدید کسادبازاری سے نکلنے کیلئے جدوجہدکررہا تھا۔ ہٹلرجرمنی پرپوری طرح براجمان ہوچکاتھااورسٹالن ٹروٹسکی کوشکست دیکر روس کامطلق العنان حکمران بن چکاتھا اوراخوان المسلمون مصرمیں دنیاکے تیزی سے بدلتے حالات میں اپنے خدوخال درست کرنے کی کوشش کررہی تھی۔

اخوان کے بارے میں مصرسے باہرکے لوگ کچھ بھی نہیں جانتے تھے۔۱۹۴۶ء میں اخوان المسلمون کے بعض ارکان نے برطانوی سامراج کے خلاف کچھ سرگرمیاں شروع کردی تھیں۔مصرمیں صنعتی سرمایہ کاری اورمغرب کے جدید رحجانات نے ایک متوسط طبقے کوجنم دیاجواخوان سے متاثر تھا۔۱۹۴۸ء میں اخوان کے مصرمیں دوہزاردفاتراورپانچ لاکھ سے زائدہمدردپیداہوچکے تھے۔اسی دوران اخوان نے مصرمیں اسکول ،اسپتال اوردواخانے قائم کیے جس سے اخوان کی شہرت بڑھتی چلی گئی اورحکومت وقت اسے اپنے لیے ایک خطرہ محسوس کرنے لگی۔اخوان پرپابندی لگادی گئی اوراس کے بیشتررہنماؤں کوگرفتارکرلیا گیا۔ردّ ِعمل میں اخوان کے ایک کمسن رکن نے مصرکے وزیراعظم کوقتل کردیا ۔حسن البنا نے فوری طورپراس کی شدیدمذمت کی لیکن ۱۹۴۹ء میں حسن البناکو حکومت کے اپنے خفیہ ادارے نے شہیدکردیا۔

حسن البناکی اس وقت عمر۴۳سال تھی۔۱۹۵۲ء میں مصری فوج اخوان المسلمون کے ساتھ مل کرمصرمیں بادشاہت کو ختم کرنے میں کامیاب ہوگئی لیکن بعد میں جب مصرکے صدر جمال عبدالناصرسیکولرازم کے راہ پرگامزن ہوئے تواس سے حکومت افغان اوراخوان میں شدیداختلاف پیداہوگئی جس کے ردّ عمل میں ناصرنے اخوان پر پابندی لگاتے ہوئےاس کے کئی سرکردہ رہنماؤں کوپھانسی پرلٹکادیامگراخوان اپنے مشن پرقائم رہے اورصبر،ضبط اورتحمل کی عظیم مثال قائم کی۔

اخوان المسلمون اسرائیل کی شدیدمخالف ہے اگرچہ ۱۹۷۹ء میں مصری انورسادات نے اسرائیل سے تعلقات قائم کر لئے لیکن یہ بات بالخصوص عالم عرب اور بالعموم عالم اسلام کو انتہائی ناگوارگزری اورمصرمیں بھی شدیدغم وغصے کی لہر اٹھی تھی۔۶اکتوبر۱۹۸۱ء کواخوان کے ایک رکن میجرخالدنے اپنے ساتھیوں کی مددسے انوارسادات اوراس کے چند ساتھیوں کوقتل کردیاجب وہ جنگ ۱۹۷۳ء کی فتح کی یادمیں چبوترے پر کھڑے سلامی لے رہے تھے۔انوار سادات کویہ سزااس کی امریکاوراسرائیل دوستی کی وجہ سے دی گئی ۔مسلم دنیامیں اخوان المسلمون کے اس اقدام کوسراہاگیااورآج بھی انورسادات کے قاتل میجرخالدکانام عرب دنیا میں انتہائی احترام سے لیاجاتاہے،اس سے اخوان کیلئے نئے مسائل پیدا ہو گئے مگراخوان نے تحریک پھربھی جاری رکھی۔اگرچہ مصرکے سابق صدرحسنی مبارک نے اپنے تیس سالہ دورِا قتدار میں اخوان کودبانے کی ہرممکن کوشش کی لیکن اخوان نے اپناکام جاری رکھا۔

حسنی مبارک ایک انتہائی کرپٹ اوراامریکی ویہودیوں کاپٹھوتھا۔۲۰۱۱ء میں عرب سپرنگ کے نتیجے میں اسے اقتدارسے علیحدہ ہوناپڑا۔مصرمیں عام انتخابات میں اخوان المسلمون بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی اوراخوان لیڈرمحمدمرسی مصر کے صدر مقرر ہوئے۔اخوان المسلمون کے بارے میں ایک تاثر یہ ہے کہ یہ ایک انتہائی قدامت پسندنظریات کی حامل جماعت ہے،بعض اسے لبرل اورجمہوریت پسندجماعت بھی کہتے ہیں لیکن حقیقت سے آگاہ اہل فکرونظرجانتے ہیں کہ اصل میں اخوان ان دونوں نظریات کے درمیان ایک اعتدال پسندجماعت ہے۔ بعض کے نزدیک اسے سراسرمذہبی جماعت خیال کیاگیاتوبعض نے اسے سیاسی حقیقت قراردیاجبکہ اس جماعت نے مذہب وسیاست کی ہم آہنگی حقیقت جان کراسے اپنا مقصدِ تحریک بنایا۔یہ جماعت مصرکوجدیدعلوم سے روشناس کرواتے ہوئے ایک بہترمعاشرے اوراتحادکی خواہاں ہے لیکن اخوان مصر کومغرب کے پاگل پن سے بھی بچاناچاہتی ہے۔

اخوان المسلمون امریکا،اسرائیل اوردوسرے بدمعاش یورپین ملکوں کے خلاف ہے مگر مخالفت کے باوجوددنیاسے مل کر چلناچاہتی ہے ۔اخوان عرصہ دراز تک زیرزمین پارٹی کے طور پر سرگرم رہی۔۲۰۱۱ء سے ۲۰۱۳ء تک اخوان المسلمون کی منتخب حکومت رہی لیکن امریکااور اسرائیل اس دوران مسلسل اسے اپنے لئے ایک بڑاخطرہ سمجھتے رہے اورانہیں یقین تھا کہ بالآخراسرائیل سے تعلق ختم کرلے گی۔اس سے قبل امریکا صدام اور قذافی کواپنے خلاف سر اٹھانے کی سزادے چکا تھا۔امریکی اشارہ ملتے ہی مصری فوج نے منتخب حکومت کو جبراً معزول کرکے اقتدارپرناجائز اورغیرقانونی طورپر قبضہ کرکے مرسی اوراخوان کے ہزاروں افرادکوگرفتارکرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا۔

اب اخوان ایک مرتبہ پھرزیرعتاب ہے،مصرکاپہلامنتخب صدرمحمدمرسی سلاخوں کے پیچھے اپنے لیے سزاکامنتظرہے۔ جمہوری طورپرمنتخب صدرکے خلاف مقدمات میں ایک اپیل کورٹ نے اس کی سزائے موت کے فیصلے پرنظر ثانی کاجو امکان پیداکیاہے بعض لوگ اس پراطمینان کااظہارکررہے ہیں مگریہ محض خوش فہمی ہے۔اولاً استعمار اورصہیونیت کا مصرپر غلبہ ہے۔فوج ہویا عدلیہ ان اداروں کے اعصاب بھی مکمل طورپراس غلبے کے تابع ہیں، ثانیاً امریکاجوخودکودنیاکی بڑی جمہوریت ثابت کرنے میں کوشاں رہتاہے جنگ عظیم دوم کے بعدہمیشہ ڈکٹیٹرکادوست رہاہے۔امریکی مفادات کے خلاف اگر جمہوریت نے بھی کہیں سراٹھایاتوامریکانے اسے سختی سے کچل دیا۔ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اورہوتے ہیں،اس لئے اخوان کے سرپر ابھی بہت سی آزمائشیں منڈلارہی ہیں اورمشرقِ وسطیٰ اوربرصغیر میں بھی اسلامی تحاریک کی نامساعدتوں کابھرپورادراک و احساس کرتے ہوئے پھونک پھونک کرقدم اٹھاتے ہوئے دشمن کی ریشہ دوانیوں سے عہدہ برأ ہوناہوگا۔
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 390005 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.