آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن
(Raja Tahir Mehmood, Rawat)
پاکستان میں الیکشن کمیشن ہمیشہ سے ہی دباؤ
میں رہا ہے کھبی اس ادارے پر جانبداری کا الزام تو کھبی اختیارات کو بہتر
طریقے سے استعمال نہ کرنے کا الزام کھبی مس منیجمنٹ تو کھبی اختیارات سے
تجاوز جیسے الزمات اس ادارے پر ماضی میں بھی لگتے آئے ہیں تو کیا اس ادارے
میں واقعی ہی کوئی اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے یااسے یوں ہی چلتے رہنا چاہے
یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن کے جوابات الیکشن کمیشن کو دینے چاہیےں پاکستان
کی تمام ہی سیاسی جماعتیں اس ایجنڈے پر متفق ہیں کہ ملکی سیاست میں بہتری
اور جمہوریت کی مضبوطی کے لئے آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن وقت کی
ضرورت ہے الیکشن کمیشن کے کمزور ہونے کی وجہ سے ہمارے ملک میں سیاسی اور
انتظامی مسائل پیدا ہوئے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں بگاڑ پیدا ہوتا
چلا گیا الیکشن کمیشن ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے ایک متفقہ
ضابطہ اخلاق تیار کرے جسے ایک قومی دستاویز کی حیثیت حاصل ہو اس طرح کی
دستاویز اسی صورت میں غیر متنازعہ اور موثر ہوگی الیکشن کمیشن کو ہر اعتبار
سے خودمختار اور خودکفیل بنایا جائے تاکہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے
لئے تمام ضروری انفراسٹرکچر اس کی دسترس میں ہو اور ریاست کے تمام ادارے اس
سے بھرپور تعاون کریں آزادانہ منصفانہ اور شفاف الیکشن کے لئے ضابطہ اخلاق
کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کا بااختیار ہونا اور شفاف انتخابات کے لئے
مطلوبہ قانون سازی بھی ضروری ہے ماضی میں بعض خرابیاں اس وجہ سے بھی پیدا
ہوئیں کہ الیکشن کمیشن اس پر عملدرآمد نہ کروا سکا -
اگر پہلے سے موجود ضابطہ اخلاق کو مزید موثر بنانا ضروری ہے تو یقینا سیاسی
جماعتوں کی مشاورت سے یہ کام مکمل ہونا چاہیے انتخابی اصلاحات کے حوالے سے
پارلیمانی کمیٹی کو بھی جلد از جلد اپنی سفارشات مکمل کرنی چاہیے تاکہ ان
کی روشنی میں قانون سازی کا عمل مکمل کیا جاسکے مارچ 2017میں مردم شماری کا
انعقاد طے پایا ہے دو ماہ میں یہ مکمل ہوگی اس کے بعد نئی حلقہ بندیوں کے
مراحل بھی الیکشن کمیشن کے لئے ایک چیلنج ہوں گے اس تمام پس منظر میں اس
اہم ادارے کو زیادہ متحرک اور فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔گزشتہ روز الیکشن
کمیشن کے زیراہتمام ملک بھر میں نیشنل ووٹرز ڈے منایا گیا ووٹرز ڈے کے
حوالے سے ڈاک کا یادگاری ٹکٹ بھی جاری کیا گیایہ دن منانے کا بنیادی مقصد
عوام میں یہ آگاہی پیدا کرنا ہے کہ جن کے ووٹ ابھی تک نہیں بن سکے انہیں
اپنی رجسٹریشن کروانی چاہیے اس وقت ملک میں جاری شناختی کارڈ کی تعداد
10کروڑ28لاکھ کے لگ بھگ ہے جبکہ رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد9کروڑ70 لاکھ ہے
25لاکھ 60ہزار افراد کے ووٹ ہی نہیں اسی طرح مرد ووٹروں کی
تعداد5کروڑ45لاکھ ہے اور خواتین ووٹروں کی تعداد4کروڑ 25لاکھ ہے گویا ایک
کروڑ27لاکھ خواتین نے اپنا ووٹ ہی نہیں بنوایا۔ جبکہ ملک کے کچھ ایسے علاقے
بھی سامنے آ ئے ہیں جہاں خواتین کو ووٹ کے حق سے محروم رکھا جا رہا ہے
الیکشن کمیشن کے مطابق الیکشن کمیشن نے ایسے مقامات کی شناخت کرلی ہے جہاں
خواتین ووٹرز کی تعداد کم ہے الیکشن کمیشن کے لئے بڑا چیلنج ایک کروڑ27لاکھ
خواتین کے ووٹوں کا اندراج ہے الیکشن کمیشن کے ساتھ ساتھ یہ شہریوں کی بھی
ذمہ داری ہے کہ وہ 18سال کی عمر کو پہنچنے والے خاندان کے ہر فرد کا نام
ووٹر فہرست میں درج کروائیں پنجاب کے بعض علاقے ہوں یا خیبرپختونخواہ کے
ووٹ بنوانا اور ووٹ ڈالنا ہر شہری کی ذمہ داری ہے اب جبکہ ملک بھر میں لوکل
باڈیز کے ادارے قائم ہوچکے ہیں انہیں ووٹوں کے اندراج خصوصاً خواتین کے
ووٹوں کے اندراج پر خصوصی توجہ دینی چاہیے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کو اتنا
خود مختار بنایا جائے کہ وہ الیکشن کے معاملات کو حل کرنے کے لئے حکومت کی
طرف دیکھنے کے بجائے اپنے فنڈز خود پیدا کر ئے تاکہ اس وقت جب الیکشن سر پر
ہوں تو الیکشن کمیشن کسی دباؤ میں آئے بغیر یہ کام بخوبی سر انجام دے سکے
ساتھ ساتھ تمام سیاسی جماعتیں جو پارلیمنٹ کے اندر ہوں یا پارلمینٹ سے باہر
ان کو الیکشن کمیشن کی خودمختاری کے لئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرنی
ہونگی تاکہ کوئی بھی سیاسی جماعت کسی بھی دوسری جماعت کا مینڈیٹ چوری نہ کر
سکے ساتھ ساتھ انتخابی مقدمات اور پٹیشنوں کے سننے کا عمل اتنا تیز ہو کہ
فیصلے جلد سے جلد ہو سکیں کیونکہ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے کہ ایک
انتخابات میں لگائے جانے والے اعتراضات کے فیصلے دس دس سال تک نہیں آئے جس
کی وجہ سے قابل لوگ باہر ہو جاتے ہیں اور اثر رسوخ والے لوگ آگے آ جاتے ہیں
جس سے ناصرف پارلیمنٹ کی توقیر میں کمی ہوتی ہے بلکہ عوام میں بھی شکوک جنم
لیتے ہیں اور عالمی دنیا ہمارے الیکشن کو مشکوک نظروں سے دیکھتی ہے الیکشن
کمیشن کو انتخابات کے جدید طریقے جیسے موبائل فون اور بائیو میٹرک مشینوں
کو بھی استعمال میں لانا ہو گا کیونکہ اس طریقہ ووٹ سے ناصرف جلد نتائج
سامنے آ جاتے ہیں بلکہ کسی بھی جماعت کے امیدوار کو اعتراضات بھی کم سے کم
ہوتے ہیں اس کیلئے دیگر سازوسامان کی بھی کوئی خاص ضرورت نہیں ہوتی جس سے
ناصرف الیکشن کمیشن کے عملے کو آسانی ہوتی ہے بلکہ عوام جلد از جلد ووٹ
کاسٹ کر سکتے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ووٹ بنوانے اور ووٹ ڈالنے کو
قانونی حیثیت دے تاکہ اس معاملے میں شہریوں کو لاپرواہی اور عدم دلچسپی کو
ختم کیا جاسکے ساتھ ساتھ آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن کی تشکیل کو
اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کیے جائیں تاکہ
کسی بھی سیاسی جماعت کو الیکشن کمیشن پر اعتراض کا کوئی جواز باقی نہ رہے
اسی سے جمہوریت مضبوط ہو سکتی ہے- |
|