اختلافی آوازیں اور سی پیک

کوئی بھی نیا اور بڑا پروجیکٹ جب شروع ہوتا ہے تو ہر کوئی اسے مختلف حوالوں سے دیکھتا ہے۔لوگوں کی آراء پر اپنا علاقہ اور اپنا صوبہ زیادہ چھایا ہوا نظر آتا ہے۔ماضی میں بھی ایساہی ہوا اور آج کل بھی یہی ہورہا ہے۔ہم ایک بڑے پروجیکٹ کالا باغ کو اختلافی بنا کر الماریوں کی زینت بنا چکے ہیں۔اب ایسا ہی شوروغوغا ہم چین اور پاکستان اکنامک کوریڈور کے بارے ڈال رہے ہیں۔ہم یہ بھی نہیں سوچ رہے کہ سرمایہ کس ملک کا ہے۔اور سرمایہ دار اپنی سہولت اور اپنے فوائد کو سامنے رکھ کر فیصلے کرتا ہے۔یہ کہ روٹ کہا ں سے گزرے اور کہاں کہاں معاشی زون بنانے ہیں اور کہاں کہاں انرجی پیدا کرنے کے کارخانے لگانے ہیں۔یہ تمام فیصلے توبنیادی سرمایہ فراہم کرنے والے ملک چین نے کرنے ہیں۔یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ سرمایہ کسی اور ملک کا اور فیصلے یہاں کے مخصوص علاقو ں کے لوگ کریں۔باہر کی حکومتوں اور ملکوں کا تعلق تو وفاقی حکومتوں کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔چین نے اپنی برآمدات اور درآمدات کو کم اخراجات پر باہر لے جانے اور لانے کے لئے ایک بڑا پروجیکٹ بنایا۔پاکستان کی مرکزی حکومت سے تفصیلات طے کیں اور کام شروع ہوگیا۔سی پیک کی سڑکوں پر پاکستان نے بھی کچھ خرچ کرنے کا پروگرام بنایا۔یہ سڑکیں تیزی سے بلوچستان اور دیگر صوبوں میں بن رہی ہیں۔انہی سڑکوں سے گزرتا ہوا چین سے آمدہ ٹرکوں کا پہلا قافلہ بذریعہ گوادر دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرف روانہ ہوگیا ہے۔چین نے اپنے بڑے صنعتی مرکز سے کاشغر تک ایک ٹرین چلا دی ہے۔اور چین کی اشیاء کاشغر تک بذریعہ ٹرین آنی شروع ہوگئی ہیں۔اور آگے کراچی یا گوادر تک یہ سڑک کے ذریعے آئیں گے اور یوں مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک تک پہنچ جائیں گی۔چین پہلے اپنی درآمدات اور برآمدات کے لئے بحری راستہ استعمال کرتا تھا۔اشیاء آبنائے ملاکا سے گزر کر شنگھائی بندر گاہ تک آتی تھیں یہ فاصلہ 16000 کلومیٹر بنتا ہے اور اب یہ کم ہوکر صرف5۔ہزار کلومیٹر رہ جائے گا۔یوں اسکی درآمدات اور برآمدات بہت ہی کم خرچے پر دنیا سے آاور جاسکیں گی۔کاشغر اور گوادر کے درمیان فاصلہ صرف3218کلومیٹر ہے۔ان دونوں شہروں کو سڑک،ریل اور پائپ لائن کے ذریعے ملانے کا پروگرام ہے۔جو آنے والے کئی سالوں تک مکمل ہوگا اور ایک اندازہ 2030ء تک کا ہے۔ترقی کی ایک قیمت ضرور ہوتی ہے۔جب بھی کسی علاقے سے متعلق کوئی بڑا منصوبہ بنایا جاتا ہے۔ سب سے پہلے اس علاقے کے لوگ یہ شور ضرور ڈالتے ہیں کہ تعداد کے لہاظ سے وہ اقلیت میں رہ جائیں گے۔اس علاقے میں ترقیاتی ادارے،کارخانے،فیکٹریاں تو تبھی مکمل ہونگی جب یہ کام کرنے والے ماہرین آئیں گے اور کام شروع کریں گے۔ان کے آئے بغیر تو کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔مقامی لوگوں کاخوف آہستہ آہستہ دورہوجاتا ہے۔اور انہیں بھی ترقی کے ثمرات حاصل ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔لوگ پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں ہونے والی کراچی اور پنجاب کی ترقی پر شور کرتے رہے ہیں کہ باقی ماندہ علاقوں کوIgnoreکیاجارہا ہے۔لیکن سرمایہ کاروں کو"جگہ"کا چوائس دیئے بغیر سرمایہ کاری نہیں ہوتی۔سرمایہ کاربے شمار چیزوں کو دیکھ کرہی سرمایہ کاری کرتا ہے۔خام مال کی دستیابی سستی لیبر اور ٹیکنالوجی کی آسان دستیابی بڑے اہم مسائل ہوتے ہیں۔چین کو بھی مختلف علاقوں میں"معاشی زون ـ ـ"قائم کرتے وقت ایسے ہی مسائل کا سامنا ہے۔اور یہ چوائس ہم اسے فراہم کریں گے تو وہاں کے سرمایہ کار اپنا سرمایہ یہاں لگانے کے لئے تیار ہونگے۔منصوبے کا نام چین۔پاکستان اقتصادی راہداری ہے۔اس کا کسی ایک صوبے سے تعلق نہ ہے۔لہذا کسی ایک صوبے والوں کا شوروغوغا سمجھ میں آنے والی بات نہ ہے۔راہداری منصوبہ صوبہ گلگت اور بلتستان سے پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔وہاں کی ایک بڑی کاروباری شخصیت میلاد النبی نے بتایا ہے کہ وہ اب تک اپنے پھل براستہ شاہراہ قراقرم اسلام آباد لاتے ہیں اور وہاں سے بذریعہ ہوائی جہاز قطر،دبئی اور ابو ظہبی روانہ کرتے ہیں۔اور اب تک انکے کہنے کے مطابق 2کروڑ سالانہ کا فروٹ برآمد کیا جارہا ہے۔اور جب یہ پاک چائنا اقتصادی راہداری مکمل ہوجائے تو انکے لئے پھل چین بھیجنا بھی آسان ہوجائیں گے۔کیونکہ چین میں گلگت بلتستان کے پھلوں کی بہت طلب ہے۔ADP کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ علاقہ پھلوں کی پیداوار کے لئے انتہائی مناسب ہے۔اور یہاں کے پھلOrganicہوتے ہیں۔پھلوں کے درختوں پر ادویات کا استعمال نہیں ہوتا۔ایسے ہی اقتصادی راہداری کے مکمل ہونے پر ٹورزم کو بھی بہت فائدہ ہوگا۔73000۔مربع کلومیٹر علاقے میں50۔پہاڑیاں آتی ہیں۔جن میںK2اورNanga partجیسے بڑے پہاڑ بھی ہیں۔جھیلیں بھی بہت خوبصورت ہیں۔اس میں جب بڑی سڑکیں اور ریلیں چلنی شروع ہونگی تو ٹورزم کی آمدنی موجودہ آمدنی سے کئی گنا بڑھ جائیگی۔بڑی شاہراؤں کی تعمیر سے اس پورے علاقے کی بجلی پیدا کرنے کی گنجائش سے فائدہ اٹھانا آسان ہوجائے گا۔ماہرین کے مطابق اس پورے علاقے سے50۔ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔صرف بنجیBunjiڈیم سے7100میگاواٹ پیدا کئے جاسکتے ہیں۔دیا میر بھاشا ڈیم بھی ایک بڑا پروجیکٹ ہے۔جو اسی علاقے میں واقع ہے۔ابھی تک اس کے لئے صرف زمین کی خریداری جاری ہے۔اگر اس ڈیم کو واقعی مکمل کرنا ہے تو اسےCPECمیں شامل کرنا ضروری ہے۔اس پر اخراجات بہت آتے ہیں۔لہذا چین کی مدد کے بغیر یہ مکمل نہیں ہوسکتا۔اب اس تجویز پر غورشروع ہوگیا ہے۔اورCPEC کے دوسرے مرحلے میں یہ ڈیم بھی شامل ہوجائے گا۔ایک ماہر اظہار ہنزائی کے مطابق اس علاقے میں ہائیڈرو بجلی پیدا کرنے پر صرف.02۔امریکی سینٹ کے برابر خرچ آتا ہے۔لہذا پاکستان کو کوئلہ اور گیس سے بجلی پیدا کرنے کی بجائے ہائیڈرو پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔لیکن پاکستان کی فوری ضروریات کے لئے کوئلہ اور گیس کا استعمال ضرورت کے تحت کیاجارہا ہے۔ان تمام باتوں کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری سے فائدہ ہی فائدہ ہے۔بلوچستان میں دور دور تک سڑکیں نہیں تھیں۔CPECسے اب سڑکوں کا جال بچھ رہا ہے۔اور انرجی کے بھی بہت سے کارخانے لگ رہے ہیں۔گوادر کی تکمیل کے بعد منظر نامہ بدل رہا ہے۔ضروری حصہ صوبہ خیبر پختونخواہ کو بھی مل رہاہے۔اختلافی آوازیں اب نہیں آنی چاہئے۔اب تو چین کے سفیر نے بات واضح کردی ہے۔کہ کسی بھی صوبے کوIgnoreنہیں کیا جارہا۔سرمایہ دار کو چوائس کا اختیار دیکر اسمیں شوروغوغا بند کردینا چاہئے۔سی پیک گوادر میں آکر ختم ہوتا ہے۔یہاں کے مقامی لوگوں کے بڑے مسائل ہیں۔یہاں پینے کا پانی ،سکول اور رہائشی سہولیات نہیں ہیں۔ان تمام اشیاء کی فراہمی سی پیک کے آخری سرے پر ضروری ہیں۔
Prof Jamil Chohdury
About the Author: Prof Jamil Chohdury Read More Articles by Prof Jamil Chohdury: 72 Articles with 49695 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.