ایک زرداری سب پہ بھاری

پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چئیرمین اورسابق صدرپاکستان آصف علی زرداری تقریباًڈیڑھ سال بیرون ملک رہنے کے بعدپاکستان تشریف لاچکے ہیں انکی اس تشریف آوری کے پاکستانی سیاست پرکیااثرات مرتب ہونگے اوروہ اپوزیشن کی سیاست کوکس نہج پہ ڈالتے ہیں اس کافیصلہ مستقبل قریب میں ہی ہوگا فی الحال توانکی پارٹی پھولے نہیں سمارہی کہ ان کاقائد بیرون ملک سے واپس تشریف لائے ہیں پارٹی نے انکی آمدکے حوالے سے ایک بڑاستقبالی پروگرام ترتیب دیااورپاکستانی میڈیانے بھی دل کھول کراس استقبالی پروگرام کی کوریج کی اوراایسامحسوس ہواجیسے 23دسمبرکوملک میں کوئی اورواقعہ ہواہی نہیں یااگرہوابھی تووہ آصف زرداری کی آمدسے زیادہ اہمیت نہیں رکھتاآصف زرداری جنہیں حادثاتی طورپہ اپنی شریک حیات محترمہ بینظیربھٹوکی شہادت پرپارٹی کی بھاگ ڈور سنبھالنی پڑی تھی متعددحوالوں سے انہوں نے زبردست سیاسی سمجھ بوجھ کامظاہرہ کرتے ہوئے کئی الجھی ہوئی گتھیوں کوسلجھایا2008میں انکی پارٹی کی جیت کے بعدملتان سے پارٹی کے دیرینہ کارکن یوسف رضاگیلانی کووزیراعظم نامزدکرکے اگرچہ پارٹی کے کئی ’’ہیوی ویٹس‘‘ کی ناراضی مول لے لی مگرمجموعی طورپرپارٹی کے عام کارکنوں میں یہ فیصلہ سراہاگیانوازشریف کے دباؤپرجب وہ پرویزمشرف کی رخصتی پرآمادہ ہوئے توکسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھاکہ وہ بذات خودصدرپاکستان بن جائیں گے انہوں نے غیرمتوقع طورپہ خودکو ملکی صدارت کیلئے پیش کردیاانکے صدرمنتخب ہوتے وقت صدارت کی کرسی لامحدوداختیارات سے لیس تھی ملک میں اگرچہ بظاہرتوپارلیمانی نظام چل رہاتھامگرپاکستانی روایت کے مطابق ہرآمرتمام اختیارات اپنی ذات میں مرکوزکرلیتاہے پرویزمشرف نے بھی قاف لیگ کی مددسے صدر کی ذات اختیارات کی مرکزبنالی شروع میں آصف زرداری کواس حوالے سے تنقیدکاسامنارہاکہ وہ صدرکے لامحدوداختیارات دیکھ کرہی عہدہ صدارت پرمتمکن ہوئے ہیں مگرانہوں نے بے نظیربھٹوکی وفات کے بعدمفاہمت کی جس سیاست کانعرہ لگایاصدارت کاعہدہ حاصل کرنے کے بعداس نعرے کوعملی جامہ بھی پہنایااگرچہ انکے صدربننے کے بعدانہیں اس حوالے سے تنقیدکاسامنارہاکہ انہوں نے ایوان صدرکوپارٹی کے سیاسی سرگرمیوں کامرکزبنایامگرانکے اس عمل سے ملک کوکوئی نقصان نہیں ہوابلکہ صدربننے کے کچھ ہی عرصے بعدانہوں نے تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت اوررضامندی سے اپنے اختیارات صدر سے وزیراعظم کومنتقل کردئے ان پرکرپشن کے بے پناہ الزامات لگے ،انکی پارٹی کوبیڈ گورننس کے حوالے سے تنقیدکاسامنارہا،انہیں ان گنت طعنے سننے پڑے مگراٹھارویں ترمیم کے حوالے سے انکے کارنامے کوبھلایانہیں جاسکتااس ترمیم کے ذریعے ناصرف سترہ محکمے صوبوں کومنتقل کئے گئے بلکہ صوبائی خودمختاری کے حوالے سے بھی چھوٹے صوبوں کے دیرینہ مطالبات پورے کرنیکی کوشش کی گئی اسکے علاوہ صوبہ سرحدکانام تبدیل کرکے خیبرپختونخوا رکھاگیاجوکہ وہاں کے عوام کادیرینہ مطالبہ تھاانہوں نے اپنے دوراقتدارمیں مفاہمت اورمل کرچلنے کی سیاست کوفروغ دیااورسیاسی داؤپیچ اس اندازسے کھیلے کہ سامنے والے کواپنی شکست کاعلم ہی نہیں ہونے دیاانہوں نے بلوچستان کودوبارہ قومی دھارے میں لانے کیلئے گرانقدراقدامات اٹھائے ناراض بلوچوں سے وفاق کی جانب سے غیرمشروط معافی مانگی اورصوبے کوایک بڑامالی پیکیج دیاسوات میں نفاذنظام عدل میں اہم کرداراداکیا اگرچہ امریکہ سمیت تمام قابل ذکرمغربی ممالک نے کھل کراسکی مخالفت کی سوات اورملاکنڈ ڈویژن میں جب انتہاپسندوں نے ریاستی رٹ کوچیلنج کیاتوآصف زرداری نے صوبائی حکومت کے ساتھ مل کروہاں فوجی آپریشن کیلئے اقدامات اٹھائے اوراس حوالے سے صوبائی حکومت کی اخلاقی ،سیاسی ،اورمالی طورپر بھرپورمددکی انکی اس مفاہمتی سیاست کوکافی شہرت ملی مخالفین نے انکی مفاہمتی سیاست کامضحکہ بھی اڑایاانکے دورحکومت میں اگرچہ ملک کوئی قابل ذکرترقی نہ کرسکابلکہ انہیں دستیاب ٹیم کی اہلیت پرانگلیاں اٹھائی جاتی رہیں انکے نامزدکردہ وزیراعظم کوسپریم کورٹ سے سزاہونے کے بعدرخصت ہوناپڑامگرگرتے پڑتے انکی حکومت نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی ملکی ترقی اورغربت کے خاتمے کے حوالے سے انکی حکومت کی کارکردگی اگرچہ قابل رشک نہیں رہی مگر1973کے آئین کی اپنے اصل شکل میں بحالی اوردہشت گردی کے خلاف دوٹوک مؤقف ان کے کارنامے قرادئے جاسکتے ہیں انہوں نے ملک میں جمہوریت کی فروغ کیلئے قابل قدرکام کیااورمشرف کی آمریت کے بعدالیکشن کے انعقادسمیت اقتدارکی پرامن منتقلی سراہے جانے کے قابل ہے صدارت کے عہدے سے فراغت کے بعدان کاایک خطاب بیرون ملک روانگی اورڈیڑھ سال کاعرصہ باہرگزارنے کی وجہ بنی اس عرصے میں پیپلزپارٹی کی جانب سے انکی آمدکے کئی اعلانات سامنے آئے مگروہ علاج کے بہانے دوبئی ،برطانیہ اورامریکہ کے درمیان چکرلگانے کے باوجودملک تشریف نہیں لائے انکی غیرموجودگی میں انکے صاحبزادے سیاسی طورپرمتحرک رہے اورانہوں نے پیپلزپارٹی کی سیاست کوزندہ رکھنے میں اہم کرادراداکیاانکے بیانات اگرچہ موضوع بحث رہے مگران بیانات کے پس پردہ بھی آصف زرداری کی سوچ کارفرمارہی بلاول زرداری جنہیں آصف زرداری نے بلاول بھٹو زرداری کانام دیاہے سیاست کے کوچہء خارزارمیں ناصرف نوواردہیں بلکہ وہ نوجوان بھی ہیں لہٰذاملکی سیاست کی لمحہ بالمحہ بدلتی صورتحال اورآئندہ الیکشن کے انعقادمیں مختصرعرصہ باقی بچنے کی وجہ سے پیپلزپارٹی کی کھوئی ہوئی ساکھ اورپوزیشن کی بحالی کیلئے آصف زرداری کووطن واپس لوٹناپڑاپیپلزپارٹی کے کارکنوں اورراہنماؤں کوان سے بے پناہ توقعات وابستہ ہیں اوران کاخیال ہے کہ زرداری کے لوٹنے سے پیپلزپارٹی ایک مرتبہ پھرمتحرک ہوجائیگی اوروہ اپنی عظمت رفتہ کوبحال کرنے میں کامیاب ہوجائیگی انہوں نے اپنی آمدپرکہاکہ میں امیدکاپیغام لیکرآیاہوں اپنے استقبالی خطاب میں انہوں نے ’’سیاسی اداکاروں ‘‘ کوبھی لتاڑا اورمثبت سیاست کے اشارے دئے انکی آمداورسیاست میں متحرک ہونے سے ملکی سیاست پرتوکوئی خاص اثرات مرتب ہونے کے امکانات نہیں کیونکہ وہ ملک سے باہررہتے ہوئے بھی ملک کے اندرہی تھے انہوں نے جب چاہاسندھ کے وزیراعلیٰ کوتبدیل کردیااورجب چاہاآئی جی کی چھٹی کرادی اب وہ ملک لوٹے ہیں تواپنی پارٹی کیلئے کس قدرکارآمدثابت ہوتے ہیں اورملکی سیاست پرکس حدتک اثراندازہوتے ہیں اس بات علم تومستقبل قریب میں ہوہی جائیگا فی الحال پیپلزپارٹی کے کارکن انکی آمدکوانجوائے کررہے ہیں اوراس بات کا انتظارہے کہ 27دسمبرکوبینظیربھٹوکی برسی کے موقع پر وہ کوئی اہم اعلان کرنے والے ہیں جوبظاہرتوایک سیاسی نعرہ ہی محسوس ہورہاہے کیونکہ وہ یہ اہم اعلان دوبئی سے بھی کرسکتے تھے محض اعلان کیلئے انہیں پاکستان آمدکی قطعاًضرورت نہیں تھی بہرحال پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو ’’ایک زرداری سب پہ بھاری ‘‘ کاراگ الاپنے کاایک اورموقع ہاتھ آیاہے انہیں اپنے قائدکی آمدمبارک ہو۔
Wisal Khan
About the Author: Wisal Khan Read More Articles by Wisal Khan: 80 Articles with 51325 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.