بھارتی دہشت گردی اور متاثرین کیلئے امدادی سرگرمیاں

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

مصعب حبیب
بھارتی فوج کی طرف سے آئے دن کنٹرول لائن پر فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ چند دن قبل 16دسمبر کو سقوط ڈھاکہ اور سانحہ پشاور کی وجہ سے پوری قوم جب ایک غم کی کیفیت میں تھی اس وقت بھی بھارتی فوج دہشت گردی سے باز نہ آئی اور ایک سکول وین پر فائرنگ کر کے چار بچوں کو زخمی کر دیا گیا ۔یہی وہ دن تھا جب دو سال قبل پشاور کے اے پی ایس سکول میں معصوم بچوں کے پھول جیسے جسموں پر گولیاں برسائی گئیں۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا دردناک واقعہ تھاجس میں دہشت گردوں نے انسانیت کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔ اس واقعہ کا الزام بھارتی خفیہ ایجنسی را پر لگایا جاتا ہے کیونکہ یہ بات ریکارڈ پر ہے بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول نے اس سے قبل افغانستان کا دورہ کیا اور وہاں پاکستانی فورسز پر حملے کرنے والی ایک کالعدم تنظیم کے عہدیداروں سے ملاقاتیں کی تھیں۔ بعد میں قومی اسمبلی کے ان کیمرہ اجلاسوں میں بھی یہ ساری معلومات دکھائی جاتی رہیں اورپھر قومی سیاسی و عسکری قیادت کی جانب سے مشترکہ طور پر آپریشن ضرب عضب کا فیصلہ کیا گیاجس کے یقینی طور پر دور رس اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ 16دسمبر کو بھی ملک بھر میں مختلف تنظیموں کی جانب سے مشرقی پاکستان کے سقوط اور اے پی ایس سانحہ کی یاد میں تقریبات کا انعقاد کیا جارہا تھا کہ اس دوران بھارتی فوج کی جانب سے ایک مرتبہ پھر بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نکیال سیکٹر پر بچوں کی سکول وین پر فائرنگ کی گئی ہے جس پر پاکستان کی طرف سے ہندوستانی ہائی کمشنر کو طلب کر کے احتجاج بھی ریکارڈ کروایا گیا لیکن میں سمجھتاہوں کہ صرف زبانی احتجاج کافی نہیں ہے۔ بھارت کی طرف سے اوڑی سیکٹر پر بھارتی فوجی کیمپ پر کشمیری مجاہدین کے زبردست حملہ کے بعد انڈیا نے اپنی عوام کو مطمئن کرنے کیلئے آزاد کشمیر میں سرجیکل سٹرائیک کا ڈرامہ رچایا لیکن دنیا کی طرف سے اسے تسلیم کرنا تو دررکنار بھارتی سیاسی جماعتوں اور عوام نے بھی اسے تسلیم نہیں کیا اور اس وقت بھی مودی سرکار کو اپنے ملک میں اس سلسلہ میں سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بعض غیر جانبدار تجزیہ نگاروں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ بھمبر سے لیکر سماہنی سیکٹر تک نہتے شہریوں پر فائرنگ کرکے جواب میں ہندوستانی فوجیوں کی لاشیں اٹھانے اور مسافر بس اور ایمبولینس پر فائرنگ جیسی مذموم حرکتیں کر کے سرجیکل سٹرائیک کے ڈرامے رچانے کے اثرات بی جے پی سرکار کو آئندہ الیکشن میں واضح طور پر بھگتنا پڑیں گے۔مودی کی انتہاپسندی کی سیاست نے اسے ایک مرتبہ تو وزیر اعظم بنا دیا تاہم اگلی ٹرم میں ان کا جیتنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ ہندوستانی وزیر اعظم کی طرف پاکستان کا پانی بند کرنے کی دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں اور کہا گیا ہے کہ ہم نے پانی روک لیا تو پاکستانی پانی کی بوند بوند کو بھی ترسیں گے۔ اسی طرح بلوچستان، سندھ ، خیبر پی کے اور دیگر علاقوں میں لسانیت اور صوبائیت پرستی پروان چڑھانے کی سازشیں بھی زوروشور سے جاری ہیں۔قبل ازیں نریندر مودی کی جانب سے بنگلہ دیش میں جاکر پاکستان کو دولخت کرنے کا اعتراف بھی کیا گیا جس پر حسینہ واجدکی طرف سے انہیں گولڈ میڈل دیا گیااور مکتی باہنی میں شامل ہو کر پاک فوج کیخلاف لڑنے پر ان کا شکریہ ادا کیا گیا۔ دیکھا جائے تو بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی اور اس کی قیادت میں پاکستان دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اور ان سے کسی قسم کی خیر کی کوئی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اس وقت بھی بھارت اسرائیل کے ساتھ مل کر پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ کیخلاف جو سازشیں کر رہا ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ بی جے پی سرکار کی یہی وہ پالیسیاں ہیں جن کی وجہ سے جماعۃالدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید کی سبھی باتیں درست دکھائی دیتی ہیں۔ سولہ دسمبر کو جماعۃالدعوۃ کی جانب سے ہر سال مختلف شہروں میں جلسوں، کانفرنسوں اور ریلیوں کا نعقاد کیا جاتا ہے تاکہ لوگوں کے ذہنوں سے سانحہ مشرقی پاکستان محو نہ ہو اورا نہیں بھارت کا دہشت گردانہ کردار یا د رہے۔ امسال بھی لاہور کے ناصر باغ میں ایک بڑی سقوط مشرقی پاکستان کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں بلاشبہ ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ جماعت الدعوۃ اور جماعت اسلامی کا اس سلسلہ میں موقف ایک ہے اور یہاں کبھی دونوں جماعتوں کی قیادت اکٹھی نظر آئی۔ حافظ محمد سعید نے خطبہ جمعہ دیا تو جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ بھی وہیں موجود تھے۔ اسی طرح دو دن قبل مظفر آبا د کی یونیورسٹی گراؤنڈ میں بڑی کشمیر کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں حریت کانفرنس اور متحدہ جہاد کونسل سمیت آزاد کشمیر اور پاکستان کی مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے مرکزی قائدین نے شرکت کی۔ مسئلہ کشمیر اور کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت کے حوالہ سے جماعۃالدعوۃ دیگر جماعتوں کو ساتھ ملا کر ملک گیر تحریک جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس سلسلہ میں اسلام آباد میں ہونے والی قومی مجلس مشاورت کے بعد مظفر آباد کا یہ پروگرام انتہائی اہمیت رکھتا ہے ۔ تحریک آزادی کے بیس کیمپ میں ہونے والے اس پروگرام کی بازگشت بھارتی ایوانوں میں بھی سنائی دی ہے اور ہندوستانی میڈیا مظفر آباد میں کئے جانے والے حافظ محمد سعید کے خطاب کو انڈیا کیلئے بڑھی دھمکی کے طور پرپیش کر رہا ہے۔ ہندوستانی ٹی وی چینلز پر بار بار ان کی اس گفتگو کو دکھایاجارہا ہے جس میں انہوں نے کہاکہ انڈیا صرف سرجیکل سٹرائیک کے دعوے کرتا ہے جبکہ کشمیری مجاہدین عملی طور پر یہ کام کر کے دکھاتے ہیں اور یہ کہ سقوط مشرقی پاکستان اور سانحہ پشاور کا انتقام کشمیر میں لیا جائے گا۔ بھارتی میڈیا اگر ان کی اس گفتگو پر شور شرابہ کر رہا ہے تو یہ بیجا نہیں ہے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ حافظ سعیدمیدان کے آدمی ہیں اورجب وہ اس طرح کی بات کرتے ہیں تو پھر کشمیر میں واقعتا آنے والے دن اس کی فوج کیلئے بھاری ہوتے ہیں۔ کشمیریوں پر پچھلے پانچ ماہ سے بدترین ظلم و ستم جاری ہے اور یہ ممکن نہیں ہے کہ نہتے کشمیریوں کا خون بہے اور حافظ محمد سعید اسے خاموشی سے برداشت کر لیں یہی وجہ ہے کہ جماعۃالدعوۃ ایک طرف کنٹرول لائن پر بھارتی فائرنگ سے متاثرہ ہزاروں کشمیریوں کیلئے راشن ، خیموں اور گرم کپڑوں کا بندوبست کر رہی ہے تو دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کیخلاف بھی بھرپور آواز بلند کی جارہی ہے۔ مظفر آباد میں کانفرنس کے دوران بھی پانچ ہزار متاثرہ خاندانوں میں ایک ماہ کا راشن تقسیم کیا گیا۔ جماعت الدعوۃ کا یہی وہ کردار ہے کہ جس کی وجہ سے حافظ سعید مظلوم کشمیریوں کے دلوں میں بستے ہیں اور گلی گلی احتجاج کے دوران جہاں پاکستانی پرچم لہرائے جارہے ہیں وہیں حافظ محمد سعید کا کیا پیغام ‘ کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ بھی ہر طرف زبان زد عام ہے۔ کشمیر کانفرنس میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز پر بھی کڑی تنقید کی گئی کہ بھارت لاکھوں کشمیریوں کا قتل کر رہا ہے اور وہ ہندوستان سے مذکرات کی باتیں کر رہے ہیں ۔ اسی طرح ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں ان کی شرکت پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انہیں بھارت سے تعلقات بحال کرنے کی بجائے کشمیری و پاکستانی قوم کے جذبات کا خیال رکھنا چاہیے۔ بہرحال قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیرکو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا او رمیں سمجھتاہوں کہ ان کے اسی فرمان کی بنیاد پر حکومت کو اپنی کشمیرپالیسی ترتیب دینی چاہیے۔مودی کے پاکستانی دریاؤں کا پانی روکنے اور راجناتھ کی طرف سے پاکستان کو دس ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے بیانات کے بعد پاکستانیوں میں سخت بھارت مخالف جذبات پیدا ہوئے ہیں ۔ جنرل راحیل شریف نے بھارتی دہشت گردی کیخلاف علم جہاد بلند کیاوہ پاکستانی قوم کے ہیرو بن گئے۔ وزیر اعظم نوازشریف کو بھی پاکستانی عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنا ہو گا۔کشمیر پالیسی میں کسی قسم کی کمزوری کا تاثرعوامی سطح پر انہیں کمزور کرے گا اس لئے ضروری ہے کہ وہ مضبوط کشمیر پالیسی پر کاربند رہیں اور کشمیریوں کے اعتماد کو بحال رکھیں۔
 
Munzir Habib
About the Author: Munzir Habib Read More Articles by Munzir Habib: 193 Articles with 134741 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.