نون سے نواز اور جنرل راحیل شریف :
پاکستان کے7ویں وزیرِ اعظم فیروز خان نون نے اپنے عہد میں "سلطانِ مسقط" سے
مذاکرات کے نتیجے میں گوادر کی بندر گاہ اور اس کے آس پاس کا علاقہ چالیس
لاکھ پونڈ کے عوض حاصل کر لیا او ر اسطرح 8ِ ستمبر 1958 ء کو پاکستان کے
رقبے میں تقریباً 300 مربع میل کا اضافہ ہوگیا۔ گوادر کی بندرگاہ اور آس
پاس کے علاقے کا انتظام اور بندوبست 1784 ء سے لیکر اُس وقت تک ہز ہائی نس
دی "سلطان مسقط اینڈ عمان" کے ہاتھوں میں تھا، لیکن چونکہ اس کا تعلق
پاکستان کے ساتھ بنتا تھا۔ لہذا "برطانوی حکومت" نے مصالحت کندہ کے فرائض
انجام دیتے ہوئے اس سلسلے کو حل کروا دیا۔ پاکستان کی وزارتِ عظمیٰ پر کم و
بیش صرف ایک سال رہنے والے فیروز خان نون کا یہ ایک ایسا کارنامہ تھا جسکی
وجہ سے پاکستان کی جغرافیائی اہمیت میں بہت اہم اضافہ ہو گیا تھا۔(جو 21ویں
صدی میں ثابت ہو رہا ہے)۔
آنے والے سالوں میں گوادر کی اہمیت کے تحت وہاں ترقی کی خواہش پیدا ہونا
شروع ہو گئی اور بندرگار ہ کے نزدیک جدید نوعیت کا شہر اور شہری سہولیت
کیلئے منصبویہ بندی کا آغاز کر دیا گیا۔ اس دوران پائپ لائن میں ایک اور
منصوبہ بھی تھا جس میں پاکستان چین کے ساتھ مِل کر ایسا نیا راستہ بنا یا
جا سکتا تھا جس کے تحت سڑک سے لیکر سمندری راستوں کے سفر کا فاصلہ کم وآسان
ہو تا ہو ا نظر آرہا تھا۔
سابق صدر جنر ل پرویز مشرف کے دو رِ حکومت میں پہلی دفعہ یہ منصوبہ منظرِ
عام پر آیا لیکن سیاسی کشیدگی کی وجہ سے فی الوقت ملتوی کر دیا گیا۔پیپلز
پارٹی کے دورِ حکومت میں سابق صدر آصف علی زرداری نے اس منصوبے کی اہمیت کو
جانا اور چین کے دورے کیئے ۔پھر22ِ مئی 2013ء کو ایوانِ صدر اسلام آباد میں
پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو چین کے وزیراعظم لی کے چیانگ
کے اعزاز میں دی گئی ضیافت میں مدعو کیا۔ جہاں دونوں ممالک کے درمیان
"چائنہ پاکستان اکنامک کو ریڈور" پر کام شروع کرنے کا راضی نامہ ہو گیا۔
جون 2013ء میں نواز شریف نے تیسری دفعہ پاکستان کی وزارتِ وعظمیٰ کا عہدہ
سنبھالا تو اُنھوں نے اپنے ماضی کے دورِ حکومت کو مدِنظر رکھتے ہوئے موٹر
وے کی طرز پر سی پیک منصوبے کا جائزہ لیا ۔ اس ہی دوران نومبر2013ء میں
جنرل راحیل شریف نے چیف آف دِی اَرمی سٹاف کا عہدہ سنبھالا تو اُنھوں نے
بھی پاک چائنہ اس منصوبے کو اتنا اہم جانا کہ وزیرِاعظم نوازشریف کے شانہ
بشانہ کھڑے ہو کر اس پر کام شروع کروا دیا ۔چین نے حکومتِ پاکستان کے اس
اقدام کو بہت پسند کیا اور منصوبے کے جلد از جلد تکمیل کیلئے ہر قسم کے
تعاون کی یقین دہانی کروا دی۔
پہلا افتتاحی قافلہ:
اس سے حکومتِ پاکستان کا مزید حوصلہ بلند ہوا اور ایک طرف راستہ بنانے کا
کام شروع ہو گیا اور دوسری طرف سی پیک منصوبے کے تحت کنٹینروں کا پہلا
قافلہ چین سے 29اکتوبر 2016ء کو روانہ ہوا جو 6نومبر2016ء کوبلوچستان کے
خیبر پختون خواہ سے متصل ضلع ژوب میں داخل ہوا۔اس قافلے کو انتہائی
سیکیورٹی میں اقتصادی راہداری کے مجوزہ مغربی روٹ کے مختلف راستوں کوئٹہ،
قلات،سوارب،پنچگور اور کیچ کے ذریعے گوادر پہنچایا گیا۔ جہاں آگے13ِ
نومبر2016ء کو وزیرِاعظم نواز شریف ، چیف آف دِی اَرمی سٹاف راحیل شریف اور
چینی سفیرسن وی ڈونگ موجود تھے جنہوں نے ایک افتتاحی تقریب کے بعد تجارتی
سامان پر مشتمل 250کنٹینرچینی بحری جہاز کے ذریعے پہلی دفعہ گوادر سے مشرقِ
وسطیٰ اور جنوبی افریقہ کیلئے سمندر کے پانیوں میں روانہ کردیا۔ |