ہمارے اقدار

 امن اور استحکام ہر کسی کا دیرینہ خواب ہے اور دنیا میں اس کے لیے بڑی کوشش جاری و ساری ہیں ۔ اگر ہم یہ سوچیں کہ نقص امن کی وجوہات کیا ہیں تو اس کے لیے بڑی گہرائی سے جائزہ لینے کی ضرورت پڑے گی ۔ دنیا کے تمام انسان ایک ہی طرح کے ہیں لیکن اُن کی سوچ میں فرق نمایاں ہے ۔ ایک وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہماری تقدیر میں یہی لکھا ہے بس اس سے آگے نہیں بڑھتے ، اور ایک وہ ہیں جو اپنی تقدیر کو سنوارتے ہیں محنت اور جدو جھد کرتے ہیں ۔ یہ دونوں سوچیں مختلف قسم کی ہیں جن میں یقین کا عنصر واضع ہے ۔ ہم صییح معنوں میں حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کا وہ قول سمجھے ہی نہیں ہیں جس میں انہوں نے اتحاد تنظیم اور یقین محکم کی تلقین کی ہے ۔ کیا لیڈر تھے !! میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے تب سے اب تک یہ نہیں دیکھا کہ کوئی بھی ایک اقدام قائد کے قول کے مطابق ہوا ہو ۔ ہمارے اتحاد کا شیرازہ جس طرح بکھرا ہوا ہے یہ ایک بڑا المیہ ہے ۔ آج قائد کے نظریے کا جو حشر ہے اسے دیکھ کر دل خون کے آنسوں روتا ہے ۔

حقیقت تو یہ ہے کہ قائد کی مزار پر پھول چڑھاکر یہ باور کرایا جاتا ہے کہ اب ہمارے پاس اختیار آگیا ہے تمہیں جو کرنا ہو کر لینا ۔ اُن کے نظریات کا یہ حال ہے کہ کوئی جانتا ہی نہیں ۔ نہ بچوں کو بتایا جاتا ہے کہ یہ وہ شخصیت ہیں جس نے اس ملک کی آزادی کی خاطر اپنا سب کچھ نچھاور کردیا ، اگر وہ چاہتے تو کیا کچھ نہیں کرسکتے تھے لیکن انہوں نے مسلمانان ہند کے تشخص کی خاطر کوئی سمجھوتا نہیں کیا ۔ پچھلے دنوں متحرم اختر بلوچ کا ایک بلاگ میری نظر سے گذرا جس میں انہوں نے ایک ایسی حقیقت کا بیاں کیا ہے جس کے بارے میں بہت ہی کم لوگ جانتے ہوں ۔ وہ لکھتے ہیں کہ " اگر قائد اعظم کی بیماری کے بارے میں انگریز جان جاتا تو وہ برصغیر کے تقسیم کے عمل میں تاخیری حربہ استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے بننے کا جواز ہی نہ رہنے دیتا " ۔ اگر ایسا ہوجاتا تو پھر کس قسم کے حالات ہوتے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ۔ کیا پھر ایسا کوئی لیڈر مسلمانوں کو مل سکتا تھا ؟ یا کوئی رہنمائی کرتا اس طرح سے جس طرح سے قائد اعظم نے کی ہے ۔ راؤ منظر حیات اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ '' گورنر جنرل نے دوپہر کے کھانے کے بعد نوجوان اے ڈی سی کو دفتر بلایا ۔صاحب سخت غصہ میں تھے ، گورنر جنرل کم گو انسان تھے اے ڈی سی خوف کی وجہ سے کانپ رہا تھا بڑے صاحب نے انگریزی میں شائستگی سے پوچھا آپ کو بتایا گیا تھا کہ لنچ پر جتنے بھی مہمان آئیں ، ان کے حساب سے ایک ایک سیب کھانے کے بعد رکھا جائے ۔ آج مہمان صرف ایک تھا ، کھانے پر میں اور میری ہمشیرہ کے علاوہ بھی کوئی نہیں تھا ۔ تین لوگوں کے لیے تین سیب ہونے چاہیے تھے چوتھا سیب ٹیبل پر کیونکر رکھا گیا یہ نہ صرف میرے حکم سے لاپروائی ہے بلکہ پیسے کا اصراف ہے ۔ گورنر جنرل کا لہجہ بلند ہوتا گیا ۔ نوجوان افسر نے جواب دیا سر غلطی ہوگئی آیندہ نہیں ہوگی ، اس کی مکمل ذمیداری لیتا ہوں ۔ جواب سُن کر گورنر جنرل آہستہ سے کہا او کے آیندہ خیال رکھنا اب تم جاسکتے ہو ، افسر نے گورنر جنرل کو سلیوٹ کیا اور چلا گیا ۔ یہ گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح تھے''۔ قائد اعظم کی صورت میں مسلمانانِ ہند کی یہ قیادت دنیا کی عظیم قیادتوں میں ایک قیادت ہے ۔ ہمارے عہد کے نوجوان اس حقیقت سے بے علم ہیں کہ مسلمانوں کے تشخص کے لیے بھرپور جدو جھد اور اُن کی بقا قائد کے مرھونِ منت ہے ہمیں اُن کی طرز سیاست کو اپناتے ہوئے قوم و ملک کی خذمت کرنے کا عزم اپنانا چاہیے ۔

آج طرزِ سیاست کیا ہے ، یہ دیکھ کر اور سُن کر بڑا افسوس ہوتا ہے ۔ لغط کے ماہرین نے سیاست کی تین معنی بتائیں ہیں جن میں ایک حکومت ، ملکی معاملا ت دوسری رعب ، داب ، تیسری دھمکی ، سزا ہیں ۔ ان تینوں خصوصیات کے حامل کو سیاست دان کہتے ہیں ۔ آج ایوانوں میں سچ اور جھوٹ کو لیکر جو مناظرے ہو رہے ہیں اُن کا نتیجا کیا نکلے گا ۔ کرپشن کی وجہ سے جھموری اقدار کی پامالی نے اعتماد کو بڑی ٹھیس پہنچائی ہے اور اس کا ازالہ کرنا بڑا پیچیدہ عمل ثابت ہوگا ۔ استحکامِ ، امن اور محبت کو قائم کرنے کے لیے ہمیں مثبت جھموری روایتوں پر گامزن ہونا پڑے گا ، اسی میں ہی ہماری بقا ہے اور یہی کامیابی کا رستہ ہے ۔
Sheeedi Yaqoob Qambrani
About the Author: Sheeedi Yaqoob Qambrani Read More Articles by Sheeedi Yaqoob Qambrani: 14 Articles with 13020 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.