اسلم کولسری: لوگ اُٹھتے چلے جاتے ہیں اور لوگ بھی کیسے کیسے
(Ghulam Ibn-e- Sultan, Jhang)
غلام شبیررانا
پاکستانی ادبیات کے خاموش خدمت گار اسلم کولسری(1946-2016) کی دائمی مفارقت
کی خبر سُن کر دلی صدمہ ہوا ۔ گزشتہ چند ماہ سے نظامِ انہضام کی خرابی،
معدے کی گرانی اور اعصابی عوارض نے اس زیرک ،فعال اور مستعد تخلیق کار کو
علمی و ادبی محافل سے بے تعلق کر کے بستر تک محدود کر دیا تھا ۔صبر و تحمل
،قناعت و استغنا اور عجز و انکسار کے اس پیکر نے فقیری کو اپنا طریقِ زندگی
بنا رکھا تھا ۔ اسلم کولسری نے اوکاڑہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں کولسر میں سال
1946میں ایک متوسط طبقے کے معزز گھرانے میں جنم لیا ۔ جس گاؤں (کولسر ) میں
اسلم کولسری نے جنم لیا ،وہ گاؤں اب اوکاڑہ چھاونی کی حدود میں شامل ہو گیا
ہے۔اسلم کولسری کے خاندان کے معاشی حالات اس قدر مستحکم نہ تھے کہ اس ہو
نہار بچے کی اعلا تعلیم کی تکمیل کی طرف بھر پور توجہ دی جاتی ۔اسلم کولسری
تلاش ِ معاش کے لیے لاہور پہنچا اور یہاں ایک دوا ساز فیکٹری میں مزدوری سے
عملی زندگی کا آغاز کیا ۔اس فیکٹری میں اسلم کولسری نے تجربہ گاہ کے نگران
اور مزدور کی حیثیت سے کام کیا۔ محنت مشقت اور کٹھن زندگی کو اسلم کولسری
نے کبھی قابلِ اعتذار نہ سمجھا بل کہ تنویر سپرا کی طرح اپنے مزدور ہونے کو
ہمیشہ لائق صد افتخار قرار دیا۔ اسلم کولسری کی زندگی کا یہ سخت مرحلہ دس
سال (1968-1978)پر محیط ہے ۔اس دوران وہ دِن کے وقت تو کارخانے میں مزدوری
کرتا مگر رات کے وقت اپنی نا مکمل تعلیم پر توجہ دے کر اپنی تعلیمی کمی
پُوری کرنے کی مساعی جاری رکھتا تھا۔اپنی محنت ،لگن اور علم و ادب سے
والہانہ محبت کے اعجاز سے اس نے انٹر میڈیٹ ،بی۔اے اور ایم۔اے تک اچھے نمبر
حاصل کر کے تعلیم مکمل کی ۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد اسلم کولسری کو روزنامہ
مشرق،لاہور میں سب ایڈیٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کا موقع ملا ۔اس
عرصے میں روزنامہ مشرق میں شائع ہونے والے اس کے کالم‘‘ روشنیوں سے
دُور‘‘کی بہت پزیرائی ہوئی۔ اپنے اس مقبول اخباری کالم میں اسلم کو لسری نے
زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق مسائل پر کُھل کر لکھا اور معاشرتی زندگی کے
ارتعاشات،تضادات اور بے اعتدالیوں پر اپنی بے لاگ رائے دے کر قارئیں میں
مثبت شعور و عصری آ گہی پیدا کرنے کی مقدور بھر کوشش کی ۔صحافت کے شعبہ میں
اسلم کولسری نے مولانا ظفر علی خان اور شورش کاشمیری کے جذبۂ حریتِ فکر و
عمل کو عملی زندگی میں سدا زادِ راہ بنایا ۔حریتِ فکر و عمل کے اس مجاہد نے
صحافتی خدمات کے دوران حریتِ ضمیر سے جینے کی روش اپنائی اور مصلحت،تذبذب
اورحقائق سے شِپرانہ چشم پوشی کے داغ سے اپنے دامن کو کبھی آلودہ نہ ہونے
دیا۔ ہر قسم کی ترغیب و تحریص اور یاس و ہراس سے بے پروا رہتے ہوئے اس با
کمال تخلیق کار نے اپنے دِل پر اُترنے والے سبھی موسموں کا احوال مکمل یک
سُوئی اور دیانت سے زیبِ قرطاس کیا ہے ۔ صحافتی خدمات کے دوران اسلم کو
لسری کی ہمیشہ یہی کوشش رہتی کہ جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے اور ہر
قسم کی مصلحت سے بالائے طاق رہتے ہوئے حق گوئی و بے باکی کو شعار بنایا
جائے ۔کچھ عرصہ بعد اسلم کولسری کو اُردو سائنس بورڈ میں ریسرچ آفیسر کی
حیثیت سے ملازمت مِل گئی اور وہ ترقی کے مدارج طے کرتا ہواڈپٹی ڈائریکٹر کے
منصب تک پہنچا۔ سندھی تہذیب و ثقافت ،ادب اور فنون لطیفہ اور سماجی زندگی
کی اقدار و روایات کے فروغ کے لیے حکومتِ سندھ کے قائم کیے ہوئے انسٹی ٹیوٹ
آف سندھالوجی کی طرز پر جب سال 2004میں حفیظ کاردار روڈ ،لاہور پر پنجاب
انسٹی ٹیوٹ آف لینگویج آرٹ اینڈ کلچر (PILAC) کا قیام عمل میں لایا گیا تو
یہاں اسلم کولسری کو ڈپٹی ڈائریکٹر لسانیات کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع
ملا ۔ اسلم کو لسری اس ادارے کے زیر اہتمام پنجابی زبان میں شائع ہونے والے
ادبی مجلے ’’ترنجن ‘‘ کی مجلس ادارت میں شامل رہا اور پنجابی زبان و ادب کی
ترویج و اشاعت میں گہری دلچسپی لی۔
جدید ذرائع ابلاغ سے اسلم کولسری کا قریبی تعلق رہا ۔ اس کے اندر ایک
اداکار اور صداکار چھپا ہوا تھا اس لیے اس نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے
پرگراموں میں گہری دلچسپی لی۔نامور ادیب اشفاق احمدکے لکھے ہوئے ریڈیو
پاکستان سے نشر ہونے والے پروگرام ’’تلقین شاہ ‘‘ میں اسلم کولسری نے
صداکاری میں اپنی مہارت کا لوہا منوایا۔ریڈیو کی نشریات میں اسلم کولسری
زیڈ۔اے بخاری کا معتقد تھا ۔اس کے بعد جب پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگو یج آرٹ
اینڈ کلچر کے زیرِ اہتمام تاریخ کے پہلے پنجابی ریڈیو FM.95 پنجاب رنگ نے
11۔اکتوبر 2007کو اپنی نشریات کا آغاز کیاتو اسلم کولسری نے بھی اس کے ساتھ
روشنی کے سفر کا آغاز کر دیا جو پنجابی ادب و ثقافت کے فروغ میں سنگِ میل
ثابت ہوا۔ پنجابی زبان،ادب و ثقافت کے اس اولین رجحان ساز نشریاتی ادارے سے
نشر ہونے والے پروگرام ’’ مغلے دی جھوک ‘‘ میں اسلم کولسری نے مغلے کا
کردار ادا کر کے اپنی مانوس صداکاری اور دبنگ لہجے کی دھاک بٹھا دی۔ اسلم
کولسری نے پروگرام ’’مغلے دی جھوک ‘‘ میں اپنے اشہبِ قلم کی خوب جو لانیاں
دکھائی ہیں اور پیش کش کا ارفع معیار پیشِ نظر ر کھا ہے ۔ جب کہ اس دلچسپ
پروگرام کی ریکارڈنگ میں سید احسان حیدر نے اپنی فنی مہارت کا ثبوت دیا ہے
۔ مثال کے طور پر اسلم کولسری کا لکھا ہوا پروگرام ’’خربوزہ ‘‘ زندگی کی
حقیقی معنویت کوسامنے لاتا ہے ۔اس یاد گار پروگرام میں دَل مِیرے ،ماسٹر
اور مغلے کے معنی خیز اور بر جستہ مکالمات سُن کرسامعین دنگ رہ گئے ۔ مغلے
کی مہمان نوازی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے مہمانوں
کی پتی کے بغیرکالے گُڑ سے بنی ہوئی چائے کے ساتھ مرنڈہ اور گنے سے تواضع
کرنے کی پیش کش کرتا ہے ۔ اسلم کولسری کی وسعت نظر اورعالی ظرفی کے سب
احباب معترف تھے۔ اپنی ذات پر طنز کرنے کے لیے بڑے ظرف کی ضرورت ہوتی ہے
،اسلم کولسری نے اپنے گاؤں کے مسائل کے حوالے سے ایک پروگرام میں یہ بات بر
ملا کہی کہ اس گاؤں کا سب سے بڑا مسئلہ تو تمھارے سامنے کھڑا ہے یعنی مغلا
لبھوآنہ ۔‘‘اسلم کولسری کی دلی تمنا تھی کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ کو
اقتضائے وقت کے مطابق سنسنی خیزی کے بجائے اپنی تمام تر توجہ قومی یک جہتی
،مثبت سوچ، تعمیری ا طلاعات ،تعلیم اور تفریح پر مرکوز رکھنی چاہیے ۔پنجاب
کے دُور اُفتادہ علاقوں، جنگل بیلے کے کم تعلیم یافتہ باسیوں، اُجڈ گڈریوں
، جاہل چرواہوں اور گنوار پکھی واسوں کی محفلوں میں بولی جانے والی نا
مانوس اور کسی قدر مشکل پنجابی زبان پر خلاقانہ دستر س رکھنے والا سادہ لوح
’’مغلا ‘‘ ایک ایسے کردار کے طور پر سامنے آیا جو انتہائی سادہ ،بھلا مانس
،مخلص اور تکلف و تصنع سے بے نیاز رہنے والا بے ساختہ شخص ہے جو اپنے دِل
کی بات لبوں پر لانے میں کبھی تامل نہیں کرتا ۔ مادی دور کی لعنتوں نے
معاشرتی زندگی سے ایسے کردار وں کو بے دخل کرنے کی جو کوشش کی ہے اس کے
نتیجے میں ایسے کردار اب کم کم دکھائی دیتے ہیں ۔قحط الرجال کے موجودہ دور
میں سائے اور سراب بڑھ رہے ہیں اور مغلے اور مغلانیاں صرف کہانیاں بن گئی
ہیں اور حقائق خیال و خواب بن گئے ہیں۔اسلم کولسری نے اپنے جن شعری مجموعوں
سے اردو شاعری کی ثروت میں اضافہ کیا ان میں کوئی ، برسات، کاش،نیند
،جیون،نخلِ جان،ویرانہ،پنچھی اوراِک نظر کافی ہے ،شامل ہیں۔ان کے اشعار
پتھرو ں کو بھی موم کر دیتے ہیں:
یار کو دیدۂ خونبار سے اوجھل کر کے
مجھ کو حالات نے مارا ہے مکمل کر کے
سینے میں سُلگتے ہوئے لمحات کا جنگل
کِس طرح کٹے تاروں بھری رات کا جنگل
ہماری جیت ہوئی ہے کہ دونوں ہارے ہیں
بِچھڑ کے ہم نے کئی رات دِن گزارے ہیں
جب میں اُس کے گاؤں سے باہر نکلا تھا
ہررستے نے میرا رستہ روکا تھا
شہر میں آکر پڑھنے والے بھول گئے
کِس کی ماں نے کِتنا زیور بیچا تھا
شام ہوئی اور سورج نے اِک ہچکی لی
بس پِھرکیا تھاکوسوں تک سناٹا تھا
میں نے اپنے سارے آنسو بخش دئیے
بچے نے تو ایک ہی پیسہ مانگا تھا
اسلم کولسری نے پاکستانی ادبیات کے فروغ کے لیے جو گراں قدر خدمات انجا م
دیں وہ تاریخ ِ ادب کا درخشاں باب ہے ۔ نو آبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد
مملکت خداداد پاکستان میں بچوں کے لیے اصلاحی اور افادی نوعیت کے ادب کی
تخلیق پر بہت کم توجہ دی گئی ہے ۔اسلم کو لسری کو بچوں کے ادب سے گہری
دلچسپی تھی اوراپنی صحافتی زندگی میں اسلم کولسری نے روزنامہ مشرق میں بچوں
کے لیے پُر تجسس اور مہماتی کہانیاں لکھنے کا آغاز کیا جسے بچوں نے بہت
پسند کیا ۔ اسماعیل میرٹھی اور صوفی غلا م مصطفی تبسم نے بچوں کے لیے جو
معیاری ادب تخلیق کیا اسلم کولسری نے اُسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اپنی
تخلیقی فعالیت سے اس کی ثروت میں اضافہ کرنے کی مساعی جاری رکھیں۔ اسلم
کولسری نے بچوں کے لیے بھی سادہ ،سلیس اور عام فہم انداز میں کئی دلچسپ
کہانیاں لکھی ہیں جن میں’’چاند کے اُس پار ‘‘، ’’کھنڈر میں چراغ ‘‘ ،
’’زخمی گلاب ‘‘ ، اور ’’انوکھے شکاری ‘‘ بہت مقبول ہوئیں ۔یہ کہانیاں بچوں
کی نفسیات کو پیشِ نظر ر کھتے ہوئے اصلاح اور مقصدیت کے تحت لکھی گئی ہیں
۔اسلم کولسری نے سٹیج کے لیے ڈرامے بھی لکھے۔ان کے جو ڈرامے ناظرین کی
دلچپی کا محور رہے ان میں ’’اور آ نکھ کُھل گئی ‘‘ اور ’’ ابھی نہیں تو
کبھی نہیں ‘‘ ناقابلِ فراموش ہیں۔ پاکستان میں ادب اور فنون ِلطیفہ سے
وابستہ ممتاز دانش وروں نے اسلم کولسری کی تخلیقی فعالیت کو ہمیشہ قدر کی
نگاہ سے دیکھا ۔اس سلسلے میں ڈاکٹر سید شبیہہ الحسن کی کتاب ’’جدید غزل اور
اسلم کولسری کا شعری سرمایہ‘‘اسلم کولسری کی شخصیت اور شاعری کا مکمل احاطہ
کرتی ہے ۔ خلوص و دردمندی سے لبریزاسلم کوثر ی کی شاعری میں قلب اور روح کی
اتھاہ گہرائیوں میں اُتر جانے والی اثر آفرینی قاری کو مسحور کر دیتی ہے :
یہ جو اِک چیز محبت ہے میاں
ہم سے پُوچھو تو قیامت ہے میاں
ایسا نہیں کہ دستِ دعا بے اثر گیا
کشتی کا ڈُوبنا تھا کہ دریا اُتر گیا
گریۂ خام سے نہیں آیا
چین آرام سے نہیں آیا
کُھل کے بیٹھو کہ مِلنے آیا ہوں
میں کِسی کام سے نہیں آیا
ہماری جِیت ہوئی ہے کہ دونوں ہارے ہیں
بچھڑ کے ہم نے کئی رات دِن گزارے ہیں
سال 2016میں ایسی ہوائے دشتِ فنا چلی کہ اردو زبا ن و ادب کے سر سبز و
شاداب گلشن کے کئی سر بہ فلک بُور لدے چھتنار اکھاڑکر لے گئی۔کیسے کیسے لوگ
راہِ فنا سے گزر گئے ۔ہماری بزمِ ادب کے رفتگاں میں آغا سلیم
(1935-2016)،آغا ناصر (1937-2016)،آفاق احمد پروفیسر (1932-2016)احسن
سلیم(1949-2016) ، انتظار حسین(1923-2016)،اسلوب احمد انصاری
(1925-2016)،اسلم فرخی ڈاکٹر (1923-2016)، اسلم کولسری (1946-2016) ، اسلم
محمود (1941-2016) انور سدید ڈاکٹر(1928-2016) ، پرتو روہیلہ(1933-2016)،
(پیغام آفاقی (اختر علی فاروقی، 1956-2016 ) ، تاج دار تا ج (محمد اسلام
صدیقی ،1939-2016)،(جو گندر پال(1925-2016)، خلیق انجم (1935-2016)، ذکا
الرحمٰن ، راشد آذر(راشد علی خان ،1931-2016)،زبیر ر ضوی(1935-2016) ،
ساوتری گوسوامی (1921-2016)، سرتاج گوہر (سید محمد زبیر گوہر ڈاکٹر،
1939-2016)، سعید قیس، سیدہ جعفر (1934-2016)، سید سجاد بخاری
(1951-2016)،شکیل الرحمٰن (1931-2016) ، شفیع ہمدم (1949-2016) ،عابد سہیل،
عبدا لستار ایدھی (1928-2016)،کشمیری لال ذاکر (1919-2016) ، فاطمہ ثریا
بجیا (1930-2016)،فاطمہ وصیہ جائسی (1951-2016)،محمو دحسن ڈاکٹر
(1932-2016)، محی الدین نواب (1930-2016)، مختار سید ناگپوری (م۔ناگ )
(1950-2010)، معراج محمد خان (1938-2016)،مظہر اختر (1946-2016)، مقیم اثر
(1941-2016)،ملک زادہ منظور احمد(1929-2016) ،منظر شہاب (محمد یٰسین
،1927-2016)، ندا فاضلی(1938-2016)،نسرین انجم بھٹی(1973-2016) ، اور نظمی
سکندر آبادی (سمیع الدین ،1930-2016) شامل ہیں ۔ یہ ابد آشنا تخلیق کار علم
وادب کی کہکشاں کو منور کرنے کے بعد غروب ہو گئے اورعدم کی بے کراں وادیوں
میں ہمیشہ کے لیے اوجھل ہو گئے۔ ان کی یاد میں بزمِ ادب برسو ں تک سوگوار
اور ہر آنکھ اشک بار رہے گی ۔ان کی عطر بیز یادیں سد اقریۂ جاں کو
معطر کرتی رہیں گی۔اس کے ساتھ ہی دِل سے اِک ہُوک سی اُٹھتی ہے اوریہ صدا
سنائی دیتی ہے کہ علم وادب کی کہکشاں سے غروب ہونے والے تابندہ ستاروبہت
جلد ہم بھی تمھارے درمیان ہوں گے۔آج ہم اپنے جذبات ِحزیں کا اظہار کرنے اور
تزکیۂ نفس کی خاطر الفاظ کے ذریعے اپنے صدمے کا علاج کرنے کی جوسعی کر رہے
ہیں مستقبل کا مورخ اِن کی اساس پر نئے واقعات ، تجزیاتی مطالعات اور
سوانحات کا اندراج کر ے گا۔
اسلم کو لسری اپنی ذات میں ایک انجمن تھا اور اپنے ہر ملاقاتی کے ساتھ
اخلاق اوراخلاق سے پیش آنا اس کا شیوہ تھا۔انسانیت کے وقار اور سر بلندی کی
خاطر اسلم کولسری نے ایک قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کیا ۔معاشرے کے قوی
،موقع پرست اور سفاک استحصالی طبقے کی خود غرضی کے خلاف اسلم کولسری نے
ہمیشہ کُھل کر لکھا اور اس کا دبنگ لہجہ ،منفرد اسلوب اور بلندآواز جبر و
استبداد کے پاٹوں میں پِسنے والے قسمت سے محروم طبقے کی ترجمان بن گئی۔اس
نے عوامی زندگی کی ایسی حقیقت پسندانہ لفظی مرقع نگاری کی ہے جس کا کرشمہ
قلب و نظر کو مسخر کر لیتا ہے ۔اس یگانۂ روزگار فاضل کا اُٹھ جانے کی خبر
سُن کر دِ ل بیٹھ گیا اور دِل و جاں میں سب آرزوئیں مات کھا کر رہ گئیں۔اﷲ
کریم اسلم کولسری کو جوارِ رحمت میں جگہ دے ۔جب تک دنیا باقی ہے اسلم
کولسری کی آواز کانوں میں رس گھولتی رہے گی اور یہی پیغام دیتی رہے گی کہ
روشنی کا سفر ابھی جاری رکھو کہ منزل ابھی نہیں آ ئی۔ |
|