ڈرائی کلین شاپ
(Shaikh Muhammad Hashim, Karachi)
ہماری نو عمری کی یاد داشتوں میں ایک
واقعہ ایسا بھی ہے جو بھلائے نہیں بھولتا۔ وہ واقعہ مزید شدت سے اُس وقت
بہت ستاتاہے جب وطن عزیز میں کرپشن کا کھوکھلا ڈھول پیٹا جاتا ہے۔ـ
" ہمارے پڑوس میں قاسم صاحب رہا کرتے تھے جو کسی سرکاری محکمے کے بڑے افسر
تھے۔ محلے کا ہر فرد اُنھیں احتراماً سر قاسم کہہ کر مخاطب کیا کرتا تھا ۔محلے
میں موصوف اور اُن کی فیملی کو عزت واحترام کا مقام حاصل تھا ۔کیونکہ وہ
ایک شریف النفس،بردبار اور سادگی پسند شخصیت کے حامل سمجھے جاتے تھے ۔ایک
دن نصف شب کو گلی میں شور شرابے کے باعث ہماری آنکھ کھل گئی باہر نکل کر
دیکھا تو گلی میں نصف شب کو دن کا ساسماع تھا۔ ایک جم غفیر تھا جو ہماری
گلی میں اُمڈ پڑا تھا ،ہجوم کو چیرتے ہوئے جب ہم قاسم صاحب کے نزدیک پہنچے
تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ قاسم صاحب کے ہاتھوں میں ہتھکڑی لگی ہوئی
تھی اور پولیس کے دو جوانوں نے انھیں اپنے شکنجے میں جکڑ رکھاتھاباقی پولیس
والوں نے ان کے گھر سے رقم ،صندوق اور زیورات کی برآمدگی کی تھی ۔ محکمے
میں بدعنوانی، غبن اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے الزام میں قاسم صاحب
کو گرفتار کرلیا گیاتھا۔ کچھ دنوں تک محلے میں اس واقعہ کو لے کرچرچا رہا ۔پھر
قاسم صاحب اور اُن کی فیملی محلے والوں کی نظر میں قابل نفرت ہو گئی،محلے
کی قابل احترام فیملی کا محلے والوں نے جینا دوبھر کر دیا تھا۔ اکثر چھوٹی
چھوٹی جھڑپوں اور باتوں ہی باتوں میں اُن کی فیملی کو طعنے دیئے جانے لگے ۔اُن
کے گھر کے قریب جاکر منچلے لڑکے بلند آواز میں نعرہ لگاتے "گلی گلی میں شور
ہے۔۔سر قاسم چور ہے"۔ ہماری نو عمری کے دور میں کرپشن کو گھناونا اور قابل
نفرت جرم تصور کیا جاتا تھا ۔ آخرکار کرپشن کی پاداش میں قاسم صاحب کی
فیملی کو محلہ چھوڑنا پڑا "۔
زمانے نے کروٹ بدلی تو موجودہ دور میں بد عنوان شخص کو قابل عزت سمجھا جانے
لگا ۔ہر جانب سے کرپشن کی گونج جب بھی ہماری سماعت سے ٹکراتی ہے تو مذکورہ
بالا واقعہ سے جڑے قاسم صاحب ہمیں ضرور یاد آتے ہیں اور ہم سوچتے ہیں کہ
کاش موصوف موجودہ دور میں ہوتے توقابل عزت سمجھے جاتے ،بس انھیں ڈرائی
کلینگ کے ایک پروسس سے گزرنا پڑتا۔ 1999میں قائم ہونے والے اس ڈرائی کلین
شاپ کا نام "نیب"ہے۔ اس شاپ نے 2016 میں مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے
ہیں، وجہ یہ ہے کہ انھوں نے گھناونے اور شرمناک جرم "کرپشن "کے داغ کو دودھ
کی مانند دھونے کی ایک مشین ایجادکی ہے ۔ جس کا نام "پلی بارگین"رکھا ہے۔
اس مشین کی خوبی یہ ہے کہ آپ جتنی چاہیں کرپشن کرلیں بس نیب کی ڈرائی کلین
شاپ پر چلے جائیں بہت ہی قلیل رقم کے عوض وہ آپ کو پلی بارگین نامی مشین سے
گزار کر اُجلا کر دیں گے ,تاکہ آپ مزید کرپشن کے لئے تازہ دم ہو جائیں۔اِسی
سال سندھ حکومت کے 70 افسران نے نیب کے سامنے کرپشن جیسے گھناونے جرم کا
اعتراف کیا تھا اور ان 70افسران نے صرف اور صرف 21کرورڑ 34لاکھ روپے کا
نذرانہ د ے کر نیب کی شاپ سے گھناونے جرم کو دھلوا لیا،پھر تازہ دم ہوکر
کرپشن کا بول بالا اور عوام کے خون پسینے کی کمائی کو تہہ و بالا کرنے کے
لئے اپنے اپنے عہدوں پر فائز بھی ہو گئے۔
وطن عزیز کے پسماندہ صوبہ بلوچستان کے سابق خزانے کے امین مشتاق رئیسانی
جنھیں شعوری دہلیز پر قدم نہ رکھنے کی قسم کھانے والی عوام نے چنا تھا ۔
رواں برس مورخہ 6مئی کو دُنیا اُس وقت انگشت بدنداں رہ گئی جب اس خزانے کے
محافظ کے گھر سے کرنسی نوٹوں سے بھرے بیگ،کروڑوں روپے کاسونا،
پرائزبانڈسیونگ سرٹیفیکٹ رکھنے کی شہ سُرخیاں میڈیا کے ذریعے اُن کی چشم و
سماعت سے ٹکرائیں۔ بعد میں موصوف سے کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس میں ایک درجن
سے زائدبنگلے اور گاڑیاں بھی نیب نے قبضے میں لینے کی تشہیر کی۔اندازے کے
مطابق رقوم کا تخمینہ 40ارب روپے تھا لیکن نیب کی شاپ سے رجوع کرنے اور پلی
بارگین مشین سے گزرنے کے بعد انھوں نے صرف دو ارب روپے میں کرپشن جیسے
بدنما داغ کو دھلوا کر صاف وشفاف کرالیا۔اس سے قبل سولہ برسوں میں نیب کی
ڈرائی کلین شاپ سے 287افراد نے کرپشن کے داغ کو انتہائی سستے داموں دھلوایا
۔ ہمیں نہیں معلوم کہ قاسم صاحب آج بھی زندہ ہیں کہ نہیں ،یا آج بھی اُن کے
اہل وعیال کرپشن کے طوق کوسینے پرلٹکائے معاشرے کے لئے قابل نفرت بنے ہوئے
ہیں ۔ |
|