شعبہ صحافت میں سینیارٹی اور اس کے فوائد

مارے ایک دوست کے بقول جب اس شعبے میں ہم نئے نئے آئے تھے تو ہر جگہ پر بات کرنے کی کوشش کرتے تو جواب ملتا ابھی تم جونیئر ہو ، سینئر ہو جاؤ تو پھر اعتراض بھی کرو ، سوال بھی کرو ، سو بقول اس دوست کے ہم خاموش رہ جاتے کہ چلو ان کی طرح ہم بھی کسی دن سینئر ہو جائینگے پھر کسی نے کہہ دیا کہ اس شعبے میں بال سفید ہو جائے تو سینئر ہو جاؤ گے- تو پھر بال سفید ہونے کا انتظار کرنے لگے-بقول اس دوست کے نزلے نے بے وقت ہمارے بال سفید کردئیے اور اب تو یہ حال ہے کہ جسم کی ہر ممکنہ جگہ کے بال سفید ہوگئے ہیں لیکن ابھی تک ہم سینئر کی فہرست میں شامل نہیں ہوسکے- نہ ہمیں اجلاسوں میں طلب کیا جاتا ہے نہ ہمیں بیرون ملک ٹور پر کوئی لے جاتا ہے نہ ہمیں کوئی سرکار کی طرف سے کہیں پر جانے کی دعوتی کارڈ ملتے ہیں-حالانکہ اس شعبے میں زندگی ہم نے بھی گزار دی
شعبہ صحافت میں سینئر ہونے کا زعم و نشہ اتنا بڑا ہوتا ہے کہ اس شعبے میں نئے آنیوالوں سمیت ہر کوئی بونا بونا ہی لگتا ہے ویسے تو اس شعبے سے وابستہ ہر فرد بشمول راقم اپنے آپ کو قلقلا خان ہی سمجھتا ہے جس کا اظہار ہر کوئی اپنے انداز و کردار سے کرتا ہے خصوصا ہمارے صوبے سے وابستہ بعض پشتون صحافی -لیکن حقیقت میں یہ اتنے ہی کھوکھلے ہوتے ہیں جتنا کہ کسی اور شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد ، بس اس شعبے سے وابستہ افراد چرب زبان زیادہ ہوتے ہیں ساتھ میں کچھ لوگوں کی اضافی خصوصیت گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے کی ہوتی ہیں جہاں سے دباؤ ملنے کا امکان ہوتا ہے وہیں پر خود دب جاتے ہیں اور ان کی شان نرالی ہوتی ہیں لیکن جہاں پر کسی اور کو دبانے کا موقع ملتا ہے تو ان کا کردار ہی کچھ الگ ہوتا ہے اسی چرب زبانی اور دباؤ میں بہت سارے یہ اپنے کام نکال لیتے ہیں لیکن نام غریب عوام کا دیتے ہیں-

بات اس شعبے سے وابستہ افراد کی سینیارٹی کی ہورہی ہیں اس شعبے میں ایسے لوگ ہیں جو بمشکل پانچ سال گزار چکے ہیں لیکن وہ بھی سینئر کی فہرست میں شامل ہیں جس کی وجہ سے انکی اضافی خوبیاں بشمول چرب زبانی ، خوشامد اور خود دب جانا یا کسی اور کو دبانا شامل ہیں -انہی خصوصیات کی بناء پر یہ لوگ اپنے آپ کو سینئر کہلوانا پسند کرتے ہیں ساتھ ہی اگر کسی بڑے صحافی کیساتھ رشتہ داری ہو تو سونے پر سہاگہ والا کام ہوتا ہے) بڑے سے مطلب کسی بین الاقوامی ادارے سے وابستہ ( لیکن اگر کسی کو یہ سہولت میسر نہ ہو تو ملتے جلتے ناموں سے کام چلانے کی کوشش کی جاتی ہیں تاکہ بہ وقت ضرور کام آئے-ویسے سینئر کی فہرست میں شامل ہونے کیلئے بعض اوقات ہم پیالہ و ہم نو ا ہونا ہی کافی ہے کیونکہ یہ دونوں ایسی چیزیں ہیں جس سے بہت سارے پردے ہٹ جاتے ہیں اور سچائیاں سامنے آتی ہیں اس لئے لوگوں کو سچائی کا درس دینے والے اپنی سچائی کو چھپانے کیلئے بہت ساروں کو سینئر کی فہرست میں شامل کرتے ہیں اور پھر بڑے بڑے نام رکھنے والے ایک دوسرے کا لحاظ مجبورا کرتے ہیں اور بہت سارے کام سینئر ہونے کی وجہ سے ہوپاتے ہیں-

زندگی کے دوسرے شعبوں میں سینیارٹی گریڈ کی بنیاد پر ملتی ہیں چونکہ قلم سے وابستہ ان مزدوروں کا کوئی گریڈ نہیں ہوتا اس لئے بس جس کا داؤ چل گیا یا پھر ہم نوا و ہم پیالہ بن گیا وہی سینئر بن گیا - حالانکہ قلم سے اپنے لئے رزق تلاش کرنے والوں میں ایسے لوگ اب بھی موجود ہیں جنہیں کو پہنچانتا تک نہیں ، جسکی بڑی وجہ ان کے اپنے کام سے وابستگی اور کسی دوسرے کے کام میں مداخلت نہ کرنا ہے اسی وجہ سے انہیں کوئی پوچھتا تک نہیں حالانکہ ان کی عمریں گزر گئی-

ہمارے ایک دوست کے بقول جب اس شعبے میں ہم نئے نئے آئے تھے تو ہر جگہ پر بات کرنے کی کوشش کرتے تو جواب ملتا ابھی تم جونیئر ہو ، سینئر ہو جاؤ تو پھر اعتراض بھی کرو ، سوال بھی کرو ، سو بقول اس دوست کے ہم خاموش رہ جاتے کہ چلو ان کی طرح ہم بھی کسی دن سینئر ہو جائینگے پھر کسی نے کہہ دیا کہ اس شعبے میں بال سفید ہو جائے تو سینئر ہو جاؤ گے- تو پھر بال سفید ہونے کا انتظار کرنے لگے-بقول اس دوست کے نزلے نے بے وقت ہمارے بال سفید کردئیے اور اب تو یہ حال ہے کہ جسم کی ہر ممکنہ جگہ کے بال سفید ہوگئے ہیں لیکن ابھی تک ہم سینئر کی فہرست میں شامل نہیں ہوسکے- نہ ہمیں اجلاسوں میں طلب کیا جاتا ہے نہ ہمیں بیرون ملک ٹور پر کوئی لے جاتا ہے نہ ہمیں کوئی سرکار کی طرف سے کہیں پر جانے کی دعوتی کارڈ ملتے ہیں-حالانکہ اس شعبے میں زندگی ہم نے بھی گزار دی-دوست کی بات سن کر ہم نے ان سے پوچھا کہ آپ اپنے ساتھ"چاپلوسی"کی اضافی صلاحیت پیدا کریں ساتھ میں مالش کرنے والوں کی طرح "مکھن بازی"کریں بہت جلد آپ بھی شعبہ صحافت کے سینئر میں شامل ہو جائینگے - جس کے جواب میں ہمارے دوست نے ہمیں گالی دیتے ہوئے کہا کہ اگر یہ صلاحیتیں ہمیں آتی تو کہیں پر سرکار کی نوکری کیوں نہ کرتے - آرام سے زندگی گزرتی اور تنخواہیں بھی لیتے اور ہم اس کا منہ دیکھتے ہی رہ گئے-
شعبہ صحافت میں سینئر ہونے کا ایک فائدہ ہے کیونکہ جو جتنا سینئر ہوگا اتنا وہ کم کام کریگایہ ایک آفاقی اصول ہے جو اس وقت پورے پاکستان میں چل رہا ہے لیکن خصوصی طور پر شعبہ صحافت میں اس کی مثال ہی کچھ اس طرح ہے کہ جتنا سینئر ہوگا اتنا وہ کام نہیں کریگا ہاں احکامات اپنے سے جونیئر کو اس طرح دے گا کہ جیسے جونیئر اس کے زرخرید یا غلام ہوں ، یہ الگ بات کہ ایسے سینئر بھی ہم نے دیکھے ہیں جو انگریزی تو بڑی بات پشتو زبان میں آنیوالے پریس ریلیز یا خبر دیکھ کر آئیں بائیں شائیں کرنے لگ جاتے ہیں اور پھر جونئیر کی بدقسمتی آتی ہے کہ ان کیلئے وہ خبریں بنانی پڑتی ہیں-

سینئر کا فائدہ اس ملک میں حکمران پارٹی سے وابستہ ممبران اسمبلی و ناظمین کی پبلک ریلیشن آفیسر بننے تک ہے ، جہاں سینئر وابستگی کی شکل میں ماہانہ بھتے کی صورت میں وصولی سمیت اپنے من پسندبیورو کریٹس کے تبادلوں ، تعیناتیوں کی شکل میں وصول کرتے ہیں جبکہ اس کا فائدہ حکمران پارٹی کو اس صورت میں ملتا ہے کہ اگر کوئی حکمران جماعت کے خلاف تحقیقاتی رپورٹ یا خبر شائع کرے تو پبلک ریلیشن آفیسر بننے والے یہ سینئر ان کی طرف سے تردید سمیت اپنے ہی شعبے سے وابستہ صحافیوں کی سپورٹ کے بجائے انکے پاؤں کاٹنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہوجاتے ہیں- سینارٹی کے فائدوں میں ایک بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ اگر حکمران پارٹی سے وابستہ افراد نے کہیں پر جانا ہو تو یہ صاحبان بھی ان کے جی حضوری کرتے ہوئے ان کے ساتھ جاتے ہیں بھلے سے یہ متعلقہ شعبے میں کچھ جانتے ہوں یا نہ جانتے ہو ہر فن مولا کے مصداق ہر جگہ پر پہنچ کر اپنی موجودگی ظاہر کرتے ہیں-
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 497816 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More