آج بابائے قوم ، بانئی پاکستان ،قائد
ملت،شہسوار حریت ،محسن پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا 140 واں یوم
پیدائش منایا جا رہا ہے کسے خبر تھی کہ کراچی کی سرزمین پر آنکھ کھولنے اور
لنکن ان سے بیرسٹری کی ڈگری حاصل کرنے والا دُبلا پتلا نوجوان یوں بر صغیر
پاک و ہند کو جنجھوڑ کر رکھ دے گا اور تاریخ کا دھاراموڑ دے گا اس مستقل
مزاجی اور جہد مسلسل کے ساتھ کہ ’’جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم ۔۔جو چلے تو
جان سے گزر گئے ‘‘اور وقت کی گڑیوں نے دیکھا کہ اس محسن پاکستان کی بے مثل
قیادت اور سربراہی نے دنیا کے نقشے کو بدل کر رکھ دیاجیسے اقبال نے کہا :
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اس مرد ِ مجاہد ، مرد آہن و بے باک نے محصور اور دبی ہوئی قوم کی سربلندی
کے لیے ان تھک کوششیں کیں اور اپنی وعظ و نصیحت ،تقریر و تبلیغ اور ولولہ
انگیز قیادت کے ذریعے حق و باطل میں فرق واضح کر دیا اوریہ ثابت کر دیا کہ
مسلمان جداگانہ تشخص کے مالک اور ایک الگ قوم ہیں ۔جناح نڈر بیباک اور
مضبوط شخصیت کے مالک تھے کہ انھوں نے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا یہاں
تک کہ انھیں خریدنے ،مٹانے ،ہٹانے اور گمراہ کے لیے ہر ممکن سعی کی گئی اور
ہرپینترہ بدلا گیا مگر قائد ملت کے آہنی حوصلوں اور استقلال کو کوئی بھی
متزلزل نہ کر سکا وہ بیک وقت نامور وکیل ،سیاستدان اورآفاقی راہنما تھے کہ
دنیا انھیں تسلیم کرتی تھی کہ جگت نرائن لال نے کہا :ـ’’ وہ کسی بھی طاقت
کے سامنے جھکنا نہیں جانتے تھے انہوں نے ہر محاذ پر ہندوؤں اور انگریزوں کو
شکست دی‘‘۔ مسز وجے لکشمی پنڈت نے تو یہاں تک کہہ دیا :’’ اگر مسلم لیگ کے
پاس سو گاندھی اور دو سو ابو الکلام آزاد ہوتے اور کانگریس کے پاس صرف ایک
لیڈر محمد علی جناح ہوتا تو ہندوستان کبھی تقسیم نہ ہوتا ۔‘‘ قائداعظم ٹیبل
ٹاک سے وہ جنگ جیت گئے جو شاید تلواروں کے سائے میں بھی جیتنا مشکل تھی کہ
برطانوی وزیراعظم سر ونسٹن چر چل نے کہا : ’’جناح اپنے ارادوں اور اپنی
رائے میں بے حد سخت ہیں ۔ان کے رویے میں کوئی لوچ نہیں پایا جاتا ۔وہ مسلم
قوم کے مخلص رہنما ہی نہیں سچے وکیل بھی ہیں‘‘۔ انھوں نے اپنے پیغام میں
ہمیشہ ان تین چیزوں پر زور دیا کہ اگرہم ایمان ،اتحاد اور تنظیم کو اپنا
نصب العین بنا لیں پھر دنیا کی کوئی طاقت ہمیں کو زیر نہیں کر سکتی ۔ پہلے
پہل یہ تین الفاظ ہر دفتر ،ہر ادارے اور ہر جگہ نظر بھی آتے تھے مگر پھر
بعد ازاں ان الفاظ پر عمل کوتاہ اندیشوں کی نذر ہو گیاچونکہ ایمان مفاد کی
بھینٹ چڑھ گیا جبکہ ہمارے قائد ایسے تھے کہ ایک روز اے ڈی سی نے ایک وزٹنگ
کارڈ آپ کے سامنے رکھا ،آپ نے کارڈ پھاڑ دیا اور فرمایا ’’اسے کہو کہ آئندہ
مجھے شکل نہ دکھائے ‘‘۔یہ شخص آپ کا بھائی تھا اور اس کا قصور صرف اتنا تھا
کہ اس نے اپنے کارڈ پر اپنے نام کے نیچے ’’برادر آف قائداعظم محمد علی جناح
‘‘،گورنر جنرل پاکستان ــ‘‘ لکھوا دیا تھا ۔
اپنی سیاست کے ابتدائی ادوار میں جناح نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے کام کیا
اور آل انڈیا کانگرس کے راہنما بھی رہے بہرکیف ہندوؤں کی مکاری اور
انگریزوں کی ریاکاری دیکھ کر انھیں یقین ہوگیاکہ ہندو مسلم کبھی بھی یکجان
نہیں رہ سکتے اور اگر مسلمانوں کو جداگانہ تشخص چاہیئے تو انھیں الگ تھلگ
وطن کے لیے کوشش کرنا ہوگی لہذا آپ آل انڈیا کانگریس سے علیحدہ ہو کر آل
انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوگئے اور اسی سال مسلم لیگ نے جناح کی قیادت میں
قرارداد پاکستان منظور کی جس کا مقصد نئی مملکت کے قیام کا مطالبہ تھا اس
قرارداد کی منظوری کے بعد بر صغیر پاک و ہند میں جیسے ایک طوفان آگیا مگر
قائد اعظم اور ان کے جانباز ساتھیوں اور آزادی کے جانباز مجاہدوں نے اسدلال
،ہمت اورثابت قدمی سے اس طوفان کا مقابلہ کیا اور اس حقیقت کوسب ماننے پر
مجبور ہوگئے کہ ہندوستان کے دوٹکڑے کر دئیے جائیں کیونکہ ہندو مسلم اتحاد
نا ممکن ہے ایسا نہیں کہ پاکستان کا حصول آسان تھا اور اس اعلان کے بعد سب
ٹھیک ہو گیا تھا بلکہ اس کوشش میں خون کے دریا عبور کرنے پڑے ،ماؤں بہنوں
اور بیٹیوں نے آزادی کے لیے خود کو قربان کر دیا ،معصوم پھولوں کو بے دردی
سے مسلا گیا کہ آزاد وطن کے متوالوں کو چن چن کرمارنے اور صفحہ ہستی سے
مٹانے کی کوشش کی گئی بے شک ہجرت پاکستان کے روح فرسا مناظر کابیان ناممکن
ہے اور نہ میرے قلم اور شبدوں میں وہ کمالِ بیان ہے جو ان قربانیوں کا
حقیقی حال پیش کرے جو وطن عزیز کے حصول کے لیے پیش کی گئیں تھیں آج اس خطہ
پاک کو جس بے دردی سے لوٹا جا رہا ہے اور لوٹنے والوں کو کوئی غیرت نہیں
بلکہ افسوس تو یہ ہے کہ :
لے اڑی بوئے گل راز چمن بیرون چمن
کیا قیامت ہے کہ خود پھول ہیں غماز چمن
کابینہ کا اجلاس جاری تھا ،اے ڈی سی نے پوچھا ’’ سر !اجلاس میں چائے سرو کی
جائے یا کافی ؟‘‘ چونک کر سر اٹھایا اور سخت لہجے میں فرمایا ’’یہ لوگ
گھروں سے چائے پی کر نہیں آئیں گے ‘‘؟اے ڈی سی گبھرا گیا ، آپ نے اپنی بات
جاری رکھی ’’جس وزیر نے چائے کافی پینی ہو گھر سے پی کر آئے یا پھر گھر
واپس جا کر پیئے ،قوم کا پیسہ قوم کیلیے ہے وزیروں کے لیے نہیں ’’اس حکم کے
بعد وہ جب تک بر سر اقتدار رہے ،کابینہ
کے اجلاسوں میں سادہ پانی کے سوا کچھ سرو نہ کیا گیا ۔‘‘مسئلہ وہی ہے کہ ہم
ان لوگوں کی تقلید کر رہے ہیں جن کے بارے بابائے قوم نے واضح کہا تھا کہ
ہندو مکار قوم ہے ان سے واسطہ رکھنا بھی تو سرسری رکھنا اور اعتبار کبھی نہ
کرنا کہ یہ پیٹھ پر وار کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک بازو ہم کٹوا بیٹھے تھے
جس کا اقرار بھی نریندر مودی کر چکا ہے اور اب وطن کو جن خطرات کا سامنا ہے
وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں ۔
پروفیسر اسٹینلے نے اپنی کتاب ’’جناح آف پاکستان ‘‘ کے دیباچے میں لکھاہے
کہ:’’ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ کا دھارا موڑ دیتے ہیں اور اسیے
لوگ تو اور بھی کم ہوتے ہیں جو دنیاکا نقشہ بدل دیتے ہیں اور ایساتو کوئی
کوئی ہوتا ہے جو ایک نئی مملکت قائم کر دے ۔محمد علی جناح ایک ایسی ہی
شخصیت ہیں جنھوں نے بیک وقت یہ تینوں کارنامے سر انجام دئیے ہیں ‘‘۔یعنی
ایک دنیا ان کی عظمت کی معترف ہے مگر ان کے نقش قدم پر چلنا تو دور کی بات
ہے مقام افسوس تو یہ ہے کہ آج اس ملک کے اکثر باسی ان کے کردار اور اقوال
پر تنقید کرتے ہیں اور کئی اس حد تک گراوٹ کا ثبوت دیتے ہیں کہ ان کی ذات
پر کیچڑ اچھالنے سے بھی باز نہیں آتے شاید ان سب حالات کی ہمارے قائدین کو
خبر تھی کہ ایسا وقت آئے گا کہ اس وطن کے پروردہ ہی اپنے ہیروز کو بھلا کر
اور مغرب کے انداز زندگی کو اپنا کر اس مقام پر پہنچ جائیں گے کہ بنے گا
سارا جہاں مہ خانہ اور ہر کوئی بادہ خوار ہوگا اورستم یہ کہ اس پر فخر کیا
جائے گا واقعی ذاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن آتے جا رہے ہیں کہ جنھیں
صرف اپنی تجوریاں بھرنے سے غرض ہے جبکہ بابائے ملت نے ایسی بے شمار مثالیں
چھوڑیں اور بارہا کہا کہ تمام دولت ملک و ملت پر استعمال ہونی چاہیئے بلکہ
شیو لال نے اپنی کتاب ’’دی شی تغلق آف انڈیا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ یہ ایک اور
تاریخی حقیقیت ہے کہ جہاں بھارت کے دشمن نمبر ایک محمد علی جناح نے بھارت
میں موجود اپنی تمام جائیداد بمبئی کے اسکول اور ہسپتال کو وقف کر دیں وہاں
نہرو نے اپنی تمام منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد مسز اندرا گاندھی کو
منتقل کر دی ۔وہ واقعی ایک عظیم لیڈر تھے ان کے ہر عمل سے عظمت عیاں تھی
اپنی زندگی ،اپنی خوشیاں ،اپناوقت سب کچھ قوم کے نام کر دیا بلکہ جاتے ہوئے
اپنی وصیت کے مطابق اپنی تمام جمع پونجی رفاعی اداروں اور یونیورسٹیوں کے
نام کر گئے اور یوں ہمارے قائد ملک و قوم پر قربان ہوکر پیغام چھوڑ گئے کہ
اپنے لیے تو سبھی جیتے ہیں مزا تو تب ہے کہ دوسروں کے لیے جئیں خاص طور پر
لیڈران ملت کے لیے نقش قدم چھوڑ گئے ہیں مگر وائے ناکامی سب نے سب کچھ بھلا
دیا اور یوں اپنی ہستی اور جداگانہ تشخص کو داؤ پر لگا رکھا ہے وہی تشخص جس
کی سلامتی کے لیے ایک آزاد وطن حاصل کیا گیا تھا اُس بارے صرف ایک ہی سوال
ہے کہ وہ دو قومی نظریہ جو پاکستان کی میراث تھا اس کا کیا ہوا ؟ ہماری
روایات اور اقدار کہاں ہیں ؟ مغربی یلغار میں ہم نے تو اپنا لباس بھی کھو
دیا ہے تو افکار کیا ہوئے ؟یہی وجہ ہے کہ ایک متشدد اور دہشت پسند معاشرہ
ہمیں منہ چڑا رہا ہے اور یہ تو ہونا ہی تھا کہ ہم آئین نو کی چکا چوند میں
ایسے ڈوبے کہ تارک قرآن ہوگئے اور آج پاکستان کو لاتعداد چیلنجز کا سامنا
ہے کہ ہمارا معاشی ،معاشرتی ،سیاسی اور اقتصادی نظام ہچکولے کھا رہا ہے
جبکہ بابائے ملت نے یکم جولائی 1948کو سٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرتے
ہوئے فرمایا تھا :
’’میں اشتیاق اور دلچسپی سے معلوم کرتا رہوں گا کہ آپ کی ریسرچ آرگنائزیشن
بینکاری کے ایسے طریقے کس خوبی سے وضع کرتی ہے جو معاشرتی اور اقتصادی
زندگی کے اسلامی تصورات کے مطابق ہو ں مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے
لیے بے شمار مسائل پیدا کر دئیے ہیں اکثر لوگوں کی یہی رائے ہے کہ مغرب کو
اس تباہی سے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے یہ تباہی مغرب کی وجہ سے ہی دنیا کے
سر پر منڈلا رہی ہے مغربی نظام انسانوں کے مابین انصاف اور بین الاقوامی
میدان میں آویزش اور چپقلش دور کرنے میں ناکام رہا ہے ‘‘۔ الغرض اپنے ہر
پیغام میں قائد اعظم محمد علی جناح نے واشگاف الفاظ میں اسلامی طرز حیات کی
ضرورت پر زور دیا اور واضح کہا کہ اگر ہم نے قرآن پاک اور پیغمبرآخرالزماں
کے پیغامات سے انحراف کیا تو ہمای داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں تو سوچو
اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے اور اب کے مؤرخ لکھے کہ ایک مضبوط اور بڑی قوم کو
گروہی تقسیم ، ذاتی مفادات کی لوٹ مار اور بندر بانٹ نے بر باد کر دیا حصول
پاکستان بے شک قائد اعظم کی ولولہ انگیز و جرات مندانہ قیادت ، سیاسی بصیرت
اور سب سے بڑھ کر قومی یکجہتی کا مظہر تھا اور یہ نوشتہ دیوار ہے کہ قومی
یکجہتی تاریخ کا دھارا موڑ دیتی ہے اگرچہ آج ہم بر باد اور خوار ہیں مگر نا
امید نہیں ہیں کہ اس رات کی صبح تابناک ہوگی یقینا ایک دن پھر کوئی قائد
اعظم محمد علی جناح جیسا منظر پر آئے گا اور اپنی مخلصانہ شخصیت اور بہترین
تربیت کی وجہ سے قائد اعظم جیسا بن کر پاکستان کو اسلام کا قلعہ اور اس کے
باسیوں کو علامہ اقبال کے خواب کی تعبیر بنا دے گا۔۔انشا اﷲ تعالیٰ
ٓآسمان تری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے |