پاکستان کی پہلی اور واحد خاتون وزیر اعظم

شہید بے نظیر بھٹو(1953 تا 2014 )
 تحریر: رضیہ کامران

یہ 27 دسمبر 2007 کی المناک شام تھی۔ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں محترمہ بے نظیر بھٹو ایک عظیم الشان جلسے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالوں سے خطاب کر کے واپس آ رہی تھیں۔اچانک لیاقت باغ کے مرکزی گیٹ پر کارکنوں کا رش بڑھ جاتا ہے اور وہ پر جوش انداز میں پاکستان پیپلز پارٹی اور محترمہ کے حق میں نعرے لگانے لگتے ہیں۔ محترمہ ان کارکنوں کے نعروں کا جواب دینے کے لئے اپنی کار کے سن روف سے باہر نکلتی ہیں اور ہاتھ ہلا کر نعروں کا جواب دینے لگتی ہیں۔ وہاں پر موجود ایک مسلحہ شخص محترمہ پر پسٹل سے دو فائر کرتا ہے۔ محترمہ گاڑی کے سن روف سے نیچے گرتی ہیں۔ اسی لمحے ایک زورد ار دھماکہ ہوتا ہے جس سے 20 لوگ شہیدہو جاتے ہیں۔ڈرائیور اسی حالت میں کار کو راولپنڈی کے جنرل ہسپتال کی طرف دوڑاتا ہے۔ شام کے 5 بج کر 35 منٹ پر محترمہ کو سرجری کے لئے آپریشن تھیٹر لے جایا جاتا ہے اور 6بج کر 16 منٹ پر یہ اعلان کر دیا جاتا ہے کہ محترمہ شہید ہو گئی ہیں۔ آہ! ۔۔ کاش یہ لمحہ ہماری تاریخ میں نہ آتا۔ محترمہ کی شہادت کی خبر سے پورا ملک سکتے میں آ جاتا ہے۔ہر آنکھ اشکبار ہو جاتی ہے۔ دنیا حیران و پریشان ہوجاتی ہے کہ جس ملک میں ایک سابق وزیر اعظم کو اتنہائی بے دردی اور اتنی آسانی سے قتل کر دیا جائے اس ملک کا مستقبل کیا ہوگا؟ اس سے قبل 18اکتوبر 2007 کو جب محترمہ جلاوطنی ختم کر کے پاکستان آئیں تھی، اسی روز کارساز کے مقامہ پر ان کے قافلہ پر حملہ کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں 130 افراد شہید ہو گئے تھے۔ آج محترمہ کی شہادت کے قومی سانحہ کو نو برس مکمل ہو چکے ہیں لیکن محترمہ کے قتل کی سازش ابھی تک بے نقاب نہیں ہو سکی۔ اسے ہماری نااہلی کہیں، بے حسی کا نام دیں یا کرپٹ نظام کو کوسیں کہ ہمارے ادارے متاثرین کو انصاف دلانے کی بجائے مجرموں کے دفاع میں لگے رہتے ہیں۔ محترمہ کی شہادت کے بعد القاعدہ کمانڈر مصطفی ابو الیزید نے اس حملہ کی ذمہ داری قبول کی جبکہ حکومتِ پاکستان کے مطابق اس حملہ کا ماسٹر مائنڈ بیت اﷲ محسود تھا۔ 12فروری 2011 کو راول پنڈی کی ایک عدالت نے اس بنیاد پر سابق صدر پرویز مشرف کے وارنٹ گرفتاری جاری کئے کہ انہیں اس حملہ کی پیشگی اطلاع تھی لیکن انہوں نے محترمہ کے لئے خاطر خواہ سکیورٹی انتظامات نہیں کئے اور نہ ہی ان کی سکیورٹی پر مامور افسران کو اس بات کی اطلاع کی۔ بے نظیر قتل کیس کی تحقیقات اقوامِ متحدہ کے ذریعے سکاٹ لینڈیارڈ سے کروائی گئیں۔ سکارٹ لینڈ یارڈ کے مطابق محترمہ کی شہادت دھماکے کی شدت سے ہوئی لیکن اصل ذمہ داران تک سکاٹ لینڈ یارڈ بھی نہ پہنچ سکی۔ یا پھر یوں کہہ لیں کہ سکاٹ لینڈ یارڈ کو آزادانہ تحقیقات کرنے کی اجازت ہی نہیں دی گئی اور یوں آج تک اس کیس کی گتھی سلجھنا باقی ہے۔ محترمہ کو گڑھی خدا بخش، لاڑکانہ میں اپنے عظیم والد ذوالفقار علی بھٹو کے پہلو میں دفنایا گیا۔ آج محترمہ کی شہادت کی نویں برسی ہے۔ پیپلز پارٹی کے کارکنان،جیالوں اور محبِ وطن پاکستانیوں کے دل پھر بھر آئے ہیں اور ہر سال کی طرح یہ دسمبر بھی شامِ غریباں سے کم نہیں۔

محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی قابلیت کی بنیاد پر دلوں پر راج کیا۔ ایک خاتون ہونے کے باوجود انہوں نے اپنی مختصر زندگی میں وہ کچھ کر دکھایاجس کا صرف خواب دیکھا جا سکتا ہے۔انہیں پاکستان کی پہلی اور واحد خاتون وزیر اعظم ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ وہ دو مرتبہ پاکستان کی وزیر اعظم رہیں۔ 2 دسمبر 1988 کو انہوں نے پاکستان کی پہلی خاتون اور کم عمر ترین وزیر اعظم ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ مخالفین سے ان کا وزیر اعظم ہونا برداشت نہ ہوا اوراس وقت کے صدر نے نومبر 1990میں اٹھارہویں ترمیم کی چھری چلا کر ان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ دوبارہ انتخاب کے نتیجہ میں مسلم لیگ ن کی حکومت آئی اور محترمہ 1990 سے 1993 تک قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف رہیں۔ 1993 میں نواز حکومت کے خاتمہ کے بعد دوبارہ انتخابات ہوئے اور پاکستان پیپلز پارٹی کوپھر اکثریت ملی۔ محترمہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئی۔ اس بار بھی ان کی وزارتِ عظمیٰ کو زیادہ مہلت نہ دی گئی اور 1996میں ان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا۔ 1996 کے انتخابات میں اقتدار ن لیگ کی جھولی میں ڈال دیا گیا اور محترمہ دوبارہ لیڈر آف اپوزیشن بن گئیں۔

محترمہ کی شخصیت ان کے والد کی طرح کرشماتی تھیں۔ وہ اپنے مدلل دلائل اور سحر انگیز گفتگو سے سامعین کا دل موہ لیتی تھیں۔ ان کو انگلش، اردو اور کسی حد تک سندھی زبان پر عبور تھا۔ انگلش ان کی پہلی زبان تھی اور وہ اس میں رواں تھیں۔ جب وہ اردو میں بات میں کرتی تھیں تو ان کا لب و لہجہ انتہائی خوبصورت اور شائستہ ہوتا تھا۔بحثیت وزیر اعظم اور بحثیت قائد حزبِ اختلاف محترمہ اپنی قابلیت کو بھرپور طریقے سے منوایا۔ اسی دوران انہیں اپنی بھائیوں کی شہادت کا صدمہ بھی ملا لیکن وہ ثابت قدم رہیں اور سیاست کو عبادت سمجھ کر جاری رکھا۔ انہوں نے بھٹو کے خواب کی تعبیر کی اور پاکستان پیپلز پارٹی کو ملک کے چاروں صوبوں میں مضبوط گڑھ بنا دیا۔ اسی لئے تو عوام اب بھی محترمہ کو چاروں صوبوں کی زنجیر کہتے ہیں۔ محترمہ ایک بہترین سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین عورت اور ایک بہترین ماں بھی تھیں۔ وہ اپنے لختِ جگر بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو اور بختاور بھٹو کی تریبت پر خاص توجہ دیتی تھیں۔ سکول کے ہوم ورک میں خود ان کی مدد کرتیں اور انہیں بول چال کے آداب سکھایا کرتی تھیں۔ انہوں نے پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لئے بہت کام کیا۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو جاری رکھا۔ پاکستان میں سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ کے لئے انقلابی اقدامات کئے۔ ہمسایہ ممالک اور دنیا کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم رکھنے کی پالیسی پر عمل کیا۔معیشت کو بہتر بنانے کے لئے ناگزیر اقدامات اٹھائے۔ وہ صحیح معنوں میں پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانا چاہتی تھی۔ انہوں نے اپنی حیات میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، جلاوطنی کا دکھ برداشت کیا لیکن آمریت اورظلم و جبر کے خلاف کلمہ حق کہنے سے باز نہ آئیں۔ آمروں اورمخالفین کے خلاف اصولوں اور پاکستان کے غریب طبقہ کی جنگ ہر سطح پر اور حال میں جاری رکھی۔

جلا وطنی کے دوران بے نظیر، نواز شریف اور دیگر پارٹیوں کے سربراہان کے ساتھ مل کر لندن میں اے آر ڈی بنانا اور ملک میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے خلاف بھرپور مزاحمت کا کریڈیٹ بے نظیر بھٹو کی جمہوری حکمتِ عملی کو جاتا ہے۔ ان کی جلاوطنی کے دوران ایک اہم پیش رفت اس وقت ہوئی جب 14 مئی 2006ء میں لندن میں نواز شریف اور بے نظیر کے درمیان میثاقِ جمہوریت پر دستخط کر کے جمہوریت کو بحال کرنے اور ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونے کا فیصلہ کیا گیا۔ میثاقِ جمہوریت بے نظیر بھٹو کی جمہوری سوچ کی بہترین مثال ہے جس کے ثمرات ہم نے بہت دیکھے ہیں۔ میثاقِ جمہوریت کے بعد پاکستان میں سیاسی بلوغت کا آغاز ہوا ور سیاست دان آمریت کے ہتھکنڈوں کے خلاف متحد ہوتے نظر آئے۔ اس سے پیشتر جس کی لاٹھی اس کی بھینس والی صورتِ حال تھی۔ آج پاکستان کے اندر جو جمہوریت قائم ہے اس کے اندر بلاشبہ بے نظیر کی کاوشیں اور ان کی جمہوری سوچ کا کردار ہے۔ بے نظیر جیسی کوئی دوسری شخصیت پاکستان تو کیا دنیا بھر میں موجود نہیں۔ان کی شخصیت کی جھلک ان کے لختِ جگر بلاول بھٹو میں نظر آتی ہے۔ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیربھٹو کی دوراندیشی کو بہترین انداز میں آگے لے کر چل رہے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ان کا حامی و ناصر ہو۔
 
Sajid Habib
About the Author: Sajid Habib Read More Articles by Sajid Habib: 3 Articles with 2301 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.