21 جون1953کوپیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار
علی بھٹو کے گھر میں کراچی میں پیدا ہونے والی بے نظیر بھٹو 2دسمبر 1988کو
پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں۔ وہ پاکستان کی گیارہویں وزیراعظم
تھیں جبکہ انھیں مسلم ممالک کی بھی پہلی خاتون وزیراعظم ہونے کا اعزاز حاصل
ہے۔وزارت عظمی کی یہ کرسی انھیں جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے خلاف طویل
جدوجہد کے بعد ملی۔ پاکستان میں بہت سے حلقے ان کو وزارت عظمیٰ کی کرسی
دینے کے لئے تیار نہیں تھے تاہم بین الاقوامی اسٹبلشمنٹ کے سامنے ہمارے ملک
کی اسٹبلشمنٹ کی ایک نہ چلی۔ وزارت عظمیٰ کے منصب پر براجمان ہونے سے قبل
بے نظیر بھٹو کو غیر معمولی دباؤ کے پیش نظر شادی کرنی پڑی۔ آصف علی زرداری
سے ان کی شادی ہوئی تاہم بے نظیر بھٹو کے قریبی ذرائع کے مطابق وہ آصف علی
زرداری سے شادی کے بعد بہت زیادہ خوش نہیں تھیں۔ بے نظیر بھٹو کے پہلے
اقتدار کی مدت بہت زیادہ نہ ثابت ہو سکی۔ ان کی حکومت کو6اگست1990کو اس وقت
کے صدر مملکت غلام اسحاق خان نے کرپشن کے الزامات لگا کر ختم کر دیا۔ اس
وقت جنرل ضیاء الحق کے منہ بولے بیٹے اورتیسری بار ملک کے وزیراعظم بننے
والے میاں محمد نواز شریف بھی ان کی حکومت ختم کروانے میں پیش پیش تھے۔اسی
دوران میاں نواز شریف نے بے نظیر بھٹو کو ملک کے لئے سیکیورٹی رسک بھی قرار
دیا تھا۔بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم کروانے کے بعد ظاہر ہے کہ اسٹبلشمنٹ نے
نواز شریف کو وزریراعظم بنانے کا فیصلہ کیا اور انھیں حکومت سونپ دی
گئی۔مگر غلام اسحاق خان نے ایک مرتبہ پھر کرپشن کے الزمات لگا کر میاں نواز
شریف کی حکومت کو بھی ختم کر دیا۔ اس کے بعد بے نظیر بھٹوکو ایک مرتبہ پھر
بین الاقوامی دباؤ کے نتیجے میں اقتدار ملا۔ وہ دوسری مرتبہ19اکتوبر
1993کووزیراعظم پاکستان کے منصب پر فائز ہوئیں۔اس بار انھوں نے اپنی ہی
پارٹی کے فاروق لغاری کو صدر بنوایا تاکہ آئین کی شق58(2)Bکا استعمال کر کے
حکومت ختم نہ کی جاسکے لیکن بد قسمتی سے اس بار پیپلزپارٹی کے اپنے صدر
فاروق لغاری نے 5نومبر 1996 کو اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے بے
نظیر بھٹو کی حکومت ختم کر دی۔ بے نظیر نے اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد جلا
وطنی اختیار کر لی۔ اس بار بھی ان کے بعد میاں محمد نواز شریف ملک کے
وزیراعظم بنے تاہم ان کی حکومت کو جنرل پرویز مشرف نے12اکتوبر1999کو ختم کر
کے فوجی حکومت قائم کر لی۔بے نظیر بھٹو نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں
2007میں وطن واپسی کا فیصلہ کیاتاہم ان کا یہ فیصلہ این آر او کے نتیجے میں
ہوا۔ بے نظیر بھٹو کو مختلف حلقوں سے یہ پیغام دلوایا گیا کہ ان کی زندگی
کو خطرہ ہے وہ ملک واپس نہ آئیں لیکن انھوں نے کسی کی نہ سنی۔ بے نظیر
بھٹو18اکتوبر2007کو خود ساختہ جلا وطنی ختم کر کے وطن واپس پہنچی۔ کراچی
آمد کے موقع پر ان کا پر تپاک استقبال کیا گیا تاہم اسی استقبالی جلوس میں
کارساز کے مقام پر بم دھماکے ہوئے جس میں 180افراد جاں بحق جبکہ 500سے زائد
زخمی ہوئے۔ان بم دھماکوں میں اصل ٹاگٹ بے نظیر بھٹو تھیں تاہم خوش قسمتی سے
وہ بچ گئیں۔ ان دھماکوں کے باوجود نے نظیر بھٹو نے تیسری بار وزیراعظم بننے
کی جدو جہد جاری رکھی۔ 27دسمبر2007کو راولپنڈی کے لیاقت پارک میں انتخابی
مہم کے ایک جلسے سے خطاب کے بعد انھیں ٹارگیٹڈ کلینگ کر کے قتل کر دیا گیا۔
ان کے قتل پر ملک بھر میں سوگ اور غم غصے کی نا قابل فراموش فضا دیکھنے میں
آئی ۔ مشتعل افراد نے ملک بھر میں اربوں روپے کی املاک کو نذر آتش کر دیا۔
یہ دنیا بھر میں اپنی نوعیت کا واحد احتجاج تھا کہ جس کے دوران ہزاروں
گاڑیاں، ٹرینیں، سرکاری عمارتوں، بینک ، پیڑول پمپ نذر آتش کئے گئے اور توڑ
پھوڑ کی گئی۔بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد خود ساختہ جلا وطن ان کے شوہر آصف
علی زرداری وطن واپس آئے۔ انھوں نے پاکستان پیپلزپارٹی کے سندھ کے رہنماؤں
کے نعروں’’ پاکستان نہ کھپے‘‘ کے بر خلاف ’’پاکستان کھپے ‘‘کے نعرے لگائے ۔
بعد ازاں پاکستان پیپلزپارٹی نے الیکشن میں نمایاں کامیابی حاصل کی جس کے
نتیجے میں پاکستان پیپلزپارٹی کے یوسف رضا گیلانی نے25مارچ2008کو پاکستان
کے25ویں وزیراعظم کا حلف اٹھایا۔بعدازاں آصف علی زرداری بھی جنرل پرویز
مشرف کے بعد پاکستان کے صدر بن کے گئے۔ پیپلزپارٹی نے حکومت کے پانچ سال
پورے کئے لیکن اس پانچ سالہ عرصے کے دوران وہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی
تحقیقات کرنے اور کروانے میں بری طرح ناکام رہی۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کی
تحقیقات کے لئے اسکاٹ لینڈ یارڈ کو بھی پاکستان بلوایا گیا لیکن وہ بھی قتل
کی تحقیقات کے حوالے سے کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی۔ جس وقت بے نظیر
بھٹو کو قتل ہوا اس وقت ان کی قریبی ساتھ ناہید خان بھی اس گاڑی میں سوار
تھے کہ جس میں نظیر بھٹو بیٹھی تھیں۔میں نے متعدد بار ناہید خان کا
انٹرویوکیا اور ان سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے اصل
محرکات کیا تھے اور اس قتل کی سازش میں کون کون شامل ہے ۔ انھوں نے جو جواب
دئیے وہ پاکستان کے پورے نظام پر سوالیہ نشان ہیں۔ میں وہ جواباب تحریر
کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ بے نظیر بھٹو کو گاڑی کی چھت سے سر باہر
نکالنے کے مشورے سے لیکر وقوعہ کو پانی سے مکمل طور پر صاف کر کے تمام ثبوت
مٹانے تک بہت سے سوالات کے جوابات آج بھی باقی ہیں۔ ناہید خان نے آصف علی
زرداری کے حوالے سے شدید تحفظات کا اظہا رکیا اور کسی حد تک یہ تاثر دینے
کی کوشش کی کہ جیسے آصف علی زرداری بے نظیر کے قاتلوں کو اچھی طرح جانتے
ہیں بلکہ ان سے رابطے میں بھی ہیں ۔ پھر جب بے نظیر بھٹو کی ’’ول‘‘ کے
حوالے سے بات کی گئی تو ناہید خان نے اس پر بھی تحفظات کا اظہا ر کیا۔ واضح
کے ناہید خان کو بے نظیر بھٹو کی زندگی میں ان کا دست راست سمجھا جاتا تھا
کہ جنھیں بے نظیر کی شب روز کا کسی بھی دوسرے شخص (ان کی شوہر اور بچوں )
سے زیادہ علم تھا۔ ذمہ دار ذرائع کے مطابق آخری دنوں میں بے نظیر بھٹو نے
آصف علی زرداری سے فاصلہ کر لیا تھا۔بے نظیر بھٹو کے قتل کی خبر جب آصف علی
زرداری کو دی گئی تو انھوں نے اس وقت امریکی شہر نیویارک سے ایک ٹی وی چینل
سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ’’جب تک میں اپنی آنکھ سے نہیں دیکھ لوں مجھے
یقین نہیں آئے گا‘‘۔ بھٹو فیملی کا سب سے بڑا مرثیہ یہ ہے کہ اس کے بیشتر
افراد کو قتل کیا گیا۔ یہ کہانی ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل سے شروع
ہوئی ۔ پھر شاہنواز بھٹو کو زہر دیا گیا، مرتضیٰ بھٹو کو پولیس مقابلے میں
قتل کیا گیا، اس وقت بے نظیر بھٹو وزیراعظم تھیں۔ اس کے بعد بے نظیر بھٹو
کو بھی قتل کر دیا گیا۔ نہ تو شاہنواز بھٹو، نہ مرتضیٰ بھٹو کے قاتلوں کا
کچھ پتہ چل سکا اور نہ ہی بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کا اب تک کوئی پتہ چل سکا
ہے ۔ قومی امکان اس بات کا ہے کہ اب یہ معمہ کبھی حل نہیں ہو گا۔ ۔۔۔ مگر
سوال یہ ہے کہ کیا بے نظیر بھٹو کا قتل ، بھٹو فیملی کے قاتلوں کا آخری ہدف
تھا؟ |