پلی بارگین: چیئرمین نیب کی وضاحت اورسیاستدانوں کاردعمل

خبرہے کہ قومی احتساب بیورونے بلوچستان کے بڑے کرپشن سیکنڈل کے ملزم سابق سیکرٹری خزانہ بلوچستان مشتاق رئیسانی اوروزیراعلیٰ بلوچستان کے سابق مشیرخزانہ میرخالدلانگوکے فرنٹ مین ٹھیکدارسہیل مجیدشاہ کی دوارب روپے کی پلی بارگین کی درخواست منظورکرلی ہے۔ایک قومی اخبارکے مطابق سابق سیکرٹری خزانہ بلودوچستان پردوارب دس کروڑروپے کرپشن کاالزام تھا۔نیب نے ان کے گھرپرچھاپہ مارکر۵۷ کروڑ روپے سے زائدبرآمدکیے۔جبکہ کراچی میں کروڑوں روپے کی جائیدادکابھی انکشاف ہواہے۔نیب نے مشتاق رئیسانی کے بعدمشیرخزانہ بلوچستان خالدلانگوکوبھی گرفتارکیاتھا۔ چیئرمین نیب قمرزمان چوہدری نے کہا ہے کہ نیب ملک سے بعدعنوانی کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے۔پلی بارگین کامقصدعوام کی لوٹی ہوئی رقم کی واپسی کے ساتھ ساتھ لٹیروں کی معافی نہیں۔میڈیاسے بات چیت کرتے ہوئے ان کاکہناتھا کہ پلی بارگین ایک سزاہے جس میں ملزم صرف جیل نہیں جاتاسزاکے دیگرتمام لوازمات اس پرلاگوہوتے ہیں۔سرکاری ملازم پلی بارگین کرتاہے تواسے برطرف کردیاجاتاہے اوروہ تاحیات نااہل قرارپاتاہے،اگرمنتخب نمائندہ پلی بارگین کرتاہے تووہ دس سال کے لیے نااہل ہوجاتاہے،جبکہ کاروباری شخص بنک سے لین دین نہیں کرسکتا،سابق سیکرٹری خزانہ بلوچستان مشتاق رئیسانی اورمشیرخزانہ خالدلانگوکے کیسزمیں رضاکارانہ واپسی کی درخواست کو مستردکردیاگیاتھاتاہم اگلے مرحلے میں ان کی درخواست منظورکی گئی،چیئرمین نیب کو قانون کے تحت پلی بارگین کی درخواست منظورکرنے کااختیارہے تاہم حتمی فیصلہ عدالت کرتی ہے،اس کیس میں مشیرخزانہ اوردوسرے ملزموں کے خلاف تحقیقات حتمی مرحلے میں ہیں،ان کے خلاف مقدمہ چلے گا،مشتاق رئیسانی کے مکان سے ۵۶ کروڑ بتیس لاکھ روپے نقداورتین کلوسوناملاجبکہ کوئٹہ میں چھ کروڑ روپے کامکان اورڈی ایچ اے کراچی میں سات کروڑ روپے کی جائیدادقبضہ میں لی۔خالدلانگوکے فرنٹ مین سہیل شاہ سے نیب نے ایک ارب روپے کی وصولی کی،نیب بلوچستان کے مستعدافسروں نے لوٹ مارکاپتہ کیسے چلایایہ دلچسپ داستان ہے ۔صوبے کے ۸۲۷بلدیاتی اداروں کوشہری سہولتوں کے لیے بجٹ میں۶ ارب روپے مختص کیے گئے۔یہ رقم ایک میٹرپولیٹن کارپوریشن،پانچ میونسپل کارپوریشنز،۳۵ میونسپل کمیٹیوں اور۵۳۶ یونین کونسلوں کے لیے مختص ہوئی لیکن مشیرخزانہ نے ساری رقم میونسپل کمیٹی خالق آباداورمچھ کے لیے مختص کردی،ابتداء میں دوارب اکتیس کروڑ روپے مختص کیے گئے اس مقصدکے لیے سکیرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی اورایڈمنسٹریٹرچیف آفیسرسلیم شاہ کواستعمال کیاگیا،یہ دوارب اکتیس کروڑ روپے سلیم شاہ کے ذاتی اکاونٹ میں منتقل کیے گئے اور محکمہ بلدیات کوبائی پاس کیاگیا،اس میں سے دوارب چوبیس کروڑ روپے چارافرادمیں تقسیم کردیے گئے،ان میں مشیرخزانہ کافرنٹ مین سہیل مجیدشاہ ، ایڈمنسڑیٹر چیف آفیسر، مچھ وخالق آبادمیونسپلزاورسیکرٹری خزانہ شامل تھے،نیب کولوٹ مارکی پہلی اطلاع انٹیلی جنس ادارے کے ذریعے ملی ،ملزم نے تصدیق کی یہ رقم دس بے نامی اوردیگراکاؤنٹس منتقل کی گئی۔سلیم شاہ نے لوٹی گئی رقم ڈی ایچ اے کراچی اوردیگرگیارہ جائیدادیں سرینڈرکردیں جن کی مالیت ایک ارب روپے سے زیادہ ہے،سلیم شاہ کے ذریعے ہی فرنٹ مین سہیل مجیدشاہ کورقوم منتقل ہوئیں،ہرمرتبہ سیکرٹری خزانہ کمیشن اورغیرملکی کرنسی میں اپناحصہ وصول کرتے رہے،فرنٹ مین سہیل مجیدشاہ مشیرخزانہ کے لیے جائیدادکی خریداری کرتے رہے،بدلے میں انہیں قلات میں تمام ٹھیکے دیے گئے ،ایکسیئن (بی اینڈ آر) طارق علی کوجب نیب نے پکڑاتواس نے انکشاف کیاکہ قلات ضلع کے لیے مشیرخزانہ نے ان کی تقرری کی تھی ،اورفرنٹ مین کے ذریعے بھاری رقوم وصول کرتے رہے،مختلف ٹھیکوں میں ایک کروڑ روپے کاکمیشن وصول کیا،میونسپل کمیٹی خالق آبادکے اکاؤنٹنٹ ندیم اقبال نے اعتراف کیا کہ انہوں نے بلدیہ کے اکاؤنٹ سے تیس لاکھ روپے کاخوردبردکیا،ندیم اقبال اورسہیل شاہ وعدہ معاف گواہ بن چکے ہیں،چیئرمین نیب نے کہا کہ ان کے دورمیں رضاکارانہ واپسی اورپلی بارگین کے ذریعے مجموعی طورپر۵۴ارب ۷۳کروڑروپے وصول کیے گئے۔جبکہ سیکرٹری خزانہ اورمشیرخزانہ کے فرنٹ مین سے پلی بارگین کی دوارب روپے کی رقم سٹیٹ بنک کے ذریعے واپس صوبائی خزانے میں جمع کرادی گئی ہے،اوراب ملزموں کے خلاف مقدمے عدالتوں میں چلیں گے۔ ایک انٹرویومیں چیئرمین نیب نے کہا کہاکہ امریکہ، برطانیہ، کینیڈا سمیت کئی ممالک میں پلی بارگین کاقانون موجودہے،اس قانون کامقصدنہ صرف لوٹی ہوئی رقم برآمدکرنابلکہ ملکی وسائل اوروقت کوبھی بچاناہے،مشتا ق رئیسانی اورخالدلانگوکے فرنٹ میں سہیل مجیدشاہ سے سواتین ارب روپے وصول کیے جونیب کی تاریخ میں سب سے بڑی ریکوری ہے،نیب بلوچستان کے افسران نے جان پرکھیل کرمچھ اورخالق آبادسے ریکارڈ حاصل کیا،خالدلانگواقبالی بیان میں جرائم کا اعتراف کرچکے ہیں،ان کاریفرنس عدالت میں جائے گااوراسے سزاہوگی یہ تاثرغلط ہے کہ یہ چالیس ارب روپے کافراڈ کیس تھا،چھ ارب روپے کے ترقیاتی فنڈمیں سے سوادوارب روپے کی کرپشن کی گئی تھی اورپلی بارگین کے نتیجے میں نیب نے سواتین ارب روپے وصول کئے ہیں اس طرح ایک ارب روپے اضافی وصول کئے گئے ہیں۔نیب اب تک دوپچاسی ارب روپے وصول کرچکاہے،رینٹل پاورمنصوبوں میں سپریم کورٹ کے حکم کے تحت پلی بارگین رضاکارانہ واپسی کے قانون کے تحت بارہ ارب روپے جمع کرائے،ڈبل شاہ سکینڈل میں ساڑھے تین ارب روپے کی وصولی کی گئی،نیب قانون سے ہٹ کرکوئی کام نہیں کررہا،قانون پارلیمنٹ بناتی ہے اوراس میں ترمیم کااختیاربھی اسی کے پاس ہے،یہ بات غلط ہے کہ پلی بارگین کے ذریعے نیب افسران کو حصہ ملتا ہے جوبھی رقم برآمدہوتی ہے خزانے میں جمع کرادی جاتی ہے۔ اسلام آبادمیں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈائریکٹرجنرل آپریشنزنیب نے کہا ہے کہ مشتاق رئیسانی کی گیارہ جائیدادیں سامنے آئیں مشتاق رئیسانی نے ۵۶ کروڑ۲۳لاکھ روپے سرینڈرکردیا۔جبکہ ملزم ۰۰۳۳گرام سونابھی واپس کرنے پررضامندہوگیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ مشتاق رئیسانی نے کراچیکے علاقے ڈیفنس میں دوجائیدادیں اوردومہنگی گاڑیاں بھی سرینڈرکی ہیں۔مشتاق رئیسانی نے ۰۸ کروڑ روپے کے اثاثے اب تک سرینڈرکیے ہیں۔ ظاہر شاہ نے کہا کہ کرپشن کیس میں کام کرنے والے نیب حکام کودھمکیاں بھی دی گئیں۔ان کاکہناتھا کہ پلی بارگین اوررقوم کی رضاکارانہ واپسی میں فرق ہے۔ سزامیں صرف قیدشامل نہیں ہوگی مشیرخزانہ اوردیگرملزمان کے خلاف کارروائی جاری ہے۔ان کاکہناتھا کہ نیب کے ایگزیکٹوبورڈ کے اجلاس میں پلی بارگین کامعاملہ زیرغورآیا،پلی بارگین کی درخواست کی منظوری دیناچیئرمین نیب کاکام ہے ۔ جبکہ پلی بارگین درخواست کی باقاعدہ اجازت عدالت دیتی ہے، انہوں نے کہا کہ سہیل مجیدشاہ نے ۶۹ کروڑ روپے نیب کوواپس کرنے پررضامندی ظاہرکی ہے،پلی بارگین کے ذریعے تقریباً سواتین ارب روپے حاصل کیے جائیں گے۔ڈی جی آپریشنزنیب نے مزیدبتایاکہ عدالت کے فیصلے کے بعداثاثوں کی رضاکارانہ واپسی کامعاملہ روک دیاگیا۔کرپشن کے مجرم پردس سال کے لیے سرکاری ملازمت پرپابندی لگتی ہے ،کرپشن ثابت ہونے اورسزاملنے پرمجرم الیکشن نہیں لڑسکتا۔ایک قومی اخبارکی رپورٹ یوں ہے کہ سال دوہزارسولہ میں بھی قومی احتساب بیوروکی کارکردگی صفررہی۔اس سال بھی سپریم کورٹ اور لاہورہائی کورٹ میں یقین دہانی کے باوجودچیئرمین نیب میگا کرپشن میں ملوث ۳۳بااثرملزمان کی ضمانتیں منسوخ کروانے اورریفرنس دائرکرنے میں ناکام رہے جبکہ کروڑوں روپے لیگل فیس لینے کے باوجودنیب کے پراسیکیوٹرزاعلیٰ عدالتوں میں اپنے کیس ثابت کرنے میں ناکام رہے۔جبکہ یہ ملزمان نیب کے آٹھ ارب ۵۳کروڑ سات لاکھ اوربائیس ہزارکے نادہندہ ہیں ۔اخبارکے مطابق ان ملزمان نے پلی باگیننگ کے تحت ضمانتیں حاصل کرلیں مگر۹ سال گزر جانے کے باوجودنیب ان ملزمان سے پلی بارگیننگ کے تحت رقوم وصول نہ کرسکا۔سپریم کورٹ کے نوٹس لینے اورعدالت میں یقین دہانی کے باوجودنیب کے پراسیکیوٹرزان ملزمان کی ضمانتیں کینسل نہ کرواسکے۔ملزمان نے اپنے خلاف انکوائریوں سے بچنے کے لیے احتسابعدالتوں سے پلی بارگیننگ کے تحت رہائی حاصل کررکھی ہے۔سینیٹ میں عوامی اہمیت کے حامل ایشوپربات کرتے ہوئے سینیٹرفرحت اللہ بابرنے کہا کہ بلوچستان میں ایک بیوروکریٹ اربوں روپے کی کرپشن میں پکڑاگیانیب پلی بارگین کرکے دوارب روپے لے کراسے چھوڑرہا ہے،سپریم کورٹ نے حکم دیاتھا کہ چیئرمین نیب پلی بارگین نہیں کرے گا،اب ایک شخص اربوں روپے کی کرپشن کرتا ہے اورکچھ رقم لے کراسے چھوڑدیتے ہیں۔نیب کچھ نہیں کررہاکرپشن کوفروغ دے رہا ہے،چیئرمین سینٹ رضاربانی نے کہا کہ تحریک جمع کرادیں ہم اس پربات کرلیں گے یہ سنجیدہ مسئلہ ہے اورلوگ بھی اس پربات کرناچاہیں گے،اس واقعے نے مجھے بھی بیمارکردیا ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے کہا ہے کہ نیب کی پلی بارگین فراڈ ہے،یہ مشرف کادیاہوانظام ہے،اسی لیے اس کے بارے میں بات نہیں کی جاتی،بیک ڈورسے غلط عمل کوجائزقراردیناکسی صورت مناسب نہیں،چندکوڑیوں کے عوض اربوں روپے کی کرپشن معاف کردی جاتی ہے،یہ قانون آمرنے بنایاتھا جس پرمکالمہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مہذب معاشروں میں پلی بارگین موجودہے تاہم وہاں کرپشن کرنے والوں کوسزاملتی ہے اورجیلوں میں بھی جاناپڑتاہے،پلی بارگین کے ذریعے اربوں کھربوں کے غبن کرنے والوں سے چندکوڑیاں وصول کی جاتی ہیں اس حوالے سے بلوچستان کیس کی مثال ہمارے سامنے موجودہے،پلی بارگین کے اس نظام کاخاتمہ وقت کی ضرورت ہے۔وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثارکاکہنا ہے کہ پلی بارگین چوروں کوراستہ دینے کے مترادف ہے،احتساب کاعمل تب شفاف ہوسکتاہے جب نیب کے سربراہ کاتقررکرے،حکومت اوراپوزیشن مل کرنیب کاچیئرمین لگائیں گے تواحتساب کیسے ممکن ہوگا،عمران خان کہتے ہیں مشتاق رئیسانی کے ساتھ پلی بارگین سے ثابت ہوگیا کہ نیب کرپشن کوفروغ دے رہا ہے،انہوں نے چوہدری نثارکے اس بیان کاخیرمقدم کیاجس میں انہوں نے کہا ہے چیئرمین نیب کاتقررعدلیہ کرے۔

یہ کیساعجیب قانون ہے کہ لوٹ مارکے بعدمک مکاکرلواورآزادہوجاؤ۔یہ قانون کسی طورپردرست نہیں ہوسکتا،چیئرمین نیب قمرزمان چوہدری نے اگرچہ بتایا کہ پلی بارگین بھی ایک سزا ہے لیکن اس قانون میں کرپشن میں ملوث ملزم کویہ رعائت تومل جاتی ہے کہ وہ جیل جانے سے بچ جاتاہے،اس قانون کا ایک فائدہ بھی ہے کہ ملزم قیدسے بچ جانے کافائدہ حاصل کرنے کے لیے لوٹی ہوئی رقم واپس کرنے پررضامندہوجاتاہے اوراس کانقصان یہ ہے کہ اس رعائت کودیکھ کرکرپشن کوفروغ بھی ملتا ہے۔ اس قانون کے خلاف سیاستدانوں نے اپنے خیالات کااظہارکیا ہے ۔جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے سیاستدان لوٹ مارکے بعد مک مکاکے اس قانون کواچھانہیں سمجھتے۔ان سیاستدانوں نے پلی بارگین قانون اورنیب پرتنقیدکی ہے۔یہ قانون نیب نے تونہیں بنایااس کاکام تواس پرعمل کراناہے۔چیئرمین نیب نے درست ہی کہا ہے کہ یہ قانون پارلیمنٹ بناتی ہے ترمیم کااختیاربھی اسی کے پاس ہے،سوال یہ ہے کہ اس قانون کوسیاستدان واقعی اچھانہیں سمجھتے تواس کوپارلیمنٹ کے ذریعے اب تک ختم کیوں نہیں کیاگیا۔سیاستدانوں کواب اس قانون کے بارے میں خیال آہی گیا ہے توپارلیمنٹ میں بل پاس کرکے اس قانون کوختم کردیناچاہیے۔وزیراعظم نوازشریف ملک سے کرپشن ختم کرنے کے لیے ذاتی دلچسپی لے کراس قانون کوپارلیمنٹ سے ختم کرائیں۔پلی بارگین ایساقانون ہے جس کے خلاف شہبازشریف، چوہدری نثاراورعمران خان متفق دکھائی دیتے ہیں۔چوہدری نثارپارلیمنٹ میں اس قانون کوختم کرنے کابل پیش کریں ۔ یہ بل پیش کرنے سے پہلے وہ پارلیمنٹ کی تمام جماعتوں کواس قانون کے خاتمے پررضامندبھی کریں تاکہ بعدمیں کسی پریشانی کاسامنانہ کرناپڑے۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 407 Articles with 350997 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.