تحریر وتحقیق
پروفیسر ڈاکٹر رئیس صمدانی
ترتیب و عکاسی
خواجہ مصدق رفیق
سوچتا ہوں کہ ڈھلیں گے یہ اندھیرے کیسے
لوگ رخصت ہوئے اور لوگ بھی کیسے کیسے
2016 بھی کتنی ہی علمی و ادبی شخصیات کو اپنے ساتھ لے گیا۔ کس قدر قابل اور
قد آور لوگ جنوری سے دسمبر 2016 کے درمیان اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ جانے
والوں کو کب کون روک سکا ہے۔ انہوں نے تو ایک نہ ایک دن چلے ہی جانا ہوتا
ہے۔ ان کی زندگی کی سانسوں کا اختتام اس سال میں ہونا تھا سو ایسا ہی ہوا۔
اب ہم مختلف طریقوں سے یاد کر سکتے ہیں۔ سو ایک طریقہ یہ بھی بہتر جانا کہ
ان کے بارے میں مختصر ہی سہی پر انہیں یاد کر لیا جائے۔ یہاں مقصد اس سے
زیادہ نہیں۔ یہ فیچر کسی بھی محقق کے لیے جو ان شخصیات میں سے کسی پر بھی
لکھنا چاہتا ہوں ابتدائی معلومات کی فراہمی کا ذریعہ یقیناً ہے۔
مرنے والے مرتے ہیں فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں
سوانحی مضامین اور خاکہ نویسی میرے خاص موضوع رہے ہیں۔ گزشتہ برس (2015) کے
اختتام پر خیال آیا کہ علم و ادب کی دنیا کی معروف شخصیات جن کی سانسوں کا
سفر اس سال اختتام پزیر ہوا ،ان کے مختصر تعارف پر مبنی ایک فیچر تیار کیا
جائے۔ یہ بھی ایک انداز ہوسکتا ہے مرحومین کو یاد کرنے اور انہیں خراجِ
تحسین پیش کرنے کا۔ چنانچہ کام کا آغاز کیا ، راشد اشرف صاحب کے توسط سے
عقیل عباس جعفری صاحب کا قلمی تعاون حاصل ہوا اور ’’اداس 2015 ‘ ہماری ویب
کے دوست خواجہ مصدق رفیق صاحب کی فنی کاوشوں سے سامنے آگیا۔ میری اس کاوش
کو سراہا گیا ، احباب نے پسندیگی کا اظہار کیا جس سے حوصلہ بڑھا اور اس
سلسلے کو جاری رکھنے کا ارادہ کیا ، 2016 کے شروع ہونے پر میں نے اپنے کام
کا آغاز کردیا۔ کسی بھی معروف علمی و ادبی شخصیت وصال کی صورت میں میری
کوشش ہوتی کہ میں اس شخصیت کو خراج تحسین پیش کروں، اس طرح مرحوم ہوجانے
والی شخصیات پر مضامین کا سلسلہ جاری رہا ، جیسے فاطمہ ثریا بجیا، ڈاکٹر
اسلم فرخی،عبد الستار ایدھی ،کالم نگار محمد احمد سبزواری ،پروفیسر آفاق
احمد بھوپالی،ڈاکٹر خلیق انجم، جنید جمشید اور دیگر پر کالم لکھے جو متعدد
سوشل میڈیا کی اردو ویب سائٹس پر آن لائن ہوئے ۔ دسمبر16 میں فیچر کو حتمی
شکل دینے کی کوشش کی ،ہماری ویب رائٹرز کلب کے ساتھی جناب منیر بن بشیر
صاحب نے معاونت ہی نہیں کی بلکہ سوشل میڈیا پر موجود فیس بک کے ایک پیج
’’انااﷲ و انا الیہ راجعون۔۔۔ ایک تعزیتی فورم‘‘ کی نشاندہی کی جس کے روح
رواں جناب عقیل عباس جعفری اور دیگر علمی و ادبی شخصیات ہیں۔ اس آن لائن
فیس بک کے پیج سے بہت مدد ملی۔ حسب سابق خواجہ مصدق رفیق صاحب نے اس فیچر
کو فنی اعتبار سے سنوارا اور تصویروں سے پرکشش بنایا۔
|
|
انسان فانی ہے ، جو روح اس دنیا میں آئی ہے اسے ایک نہ ایک دن واپس لوٹ
جانا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے ’ہر متنفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے‘ (سورۃ
الانبیاء ،آیت 35)، ’اور کسی شخص میں طاقت نہیں کہ خدا کے حکم کے بغیر
مرجائے (اُس نے موت کا) وقت مقرر کر کے لکھ رکھا ہے (سورۃ النساء: آیت 78
)،انسان چھوٹا ہو یا بڑا، عالم ہو یا اَن پڑھ، بچہ ہو یا جوان، عورت ہو یا
مرد اسے وقت مقررہ پر اپنے مالک حقیقی کی جانب لوٹ کر چلے جانا ہے۔ دنیا کی
آبادی ایک سروے کے مطابق اگست 2016 میں4 7.بلین ہوگئی۔ اقوام متحدہ کے
اعداد و شمارکے مطابق دنیا کی آبادی 2100 میں 11.2بلین تک پہنچ جائے گی۔
پاکستان ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جس کی آبادی وقت کے ساتھ ساتھ تیزی
سے بڑھ رہی ہے۔ اس وقت (2016) میں پاکستان کی کل آبادی 192,876,502ہے۔
آبادی کے اعتبار سے اس وقت پاکستان دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔ ایک سروے کے
مطابق 1955ء میں پاکستان آبادی کے اعتبار سے 14ویں نمبر پر تھا اب پاکستان
آبادی کے اعتبار سے 6 نمبر پر آچکاہے۔ آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ دنیا
سے جانے والوں کی تعداد ہر ایک ہزار میں سے 8.9 فیصد ہے۔
خوشی اور غمی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ خوشیاں انسان کے لیے سکون و راحت کا
باعث ہوتی ہیں تو افسردگی اور افسوس ناک واقعات اسے دکھی کردیتے ہیں۔ خوشی
کے ساتھ غم اور غم کے ساتھ خوشی باہم جڑے ہوئے ہیں۔ 2016ء میں بے شمار لوگ
دنیا سے رخصت ہوئے ۔ علم و ادب کی دنیا کی جن معروف شخصیات کی سانسوں کا
سفر اس سال اختتام پزیر ہوا وہ علم و ادب کا سرمایا تھیں۔ ان کی موت سے علم
و ادب کی دنیا میں جو خلا پیدا ہوا ہے وہ برسوں پر نہ ہوسکے گا۔ذیل میں ان
مرحوم شخصیات کے بارے میں اختصار سے معلومات فراہم کی جارہی ہیں۔ اگر کوئی
علمی و ادبی شخصیت کا ذکر نہ آسکا ہو تو اس کے لیے معذرت ۔
جنوری 2016
صاحب زادہ یعقوب خان:26جنوری 2016
26جنوری 2016 اسلام آباد میں انتقال ہوا ۔وہ 23دسمبر 1920 میں پیدا ہوئے ۔پاکستان
میں سفارت کاری کے حوالے سے پاکستان کی شناخت ، عسکری خدمات کے حوالے سے
اہم اور بالخصوص شاہانہ، معتبر اور باوقار خاندانی پس منظر رکھنے والے تھے
۔ طویل عرصہ علیل رہے۔ تین مرتبہ پاکستان کے وزیر خارجہ کے منصب پر فائز
رہے۔ ان کی تصانیف میںStrategy, Diplomacy,Humanityشامل ہیں
ماجد خلیل: 27جنوری 2016
27جنوری 2016 کوماجد خلیل اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ نعت گو شاعر تھے۔ان کا
مجموعہ کلام ’’روشنی ہی روشنی‘‘ شائع ہوچکا ہے۔ ان کا ایک شعر :ویسے تو بے
شمارہیں ماجد میرے گناہ․․․․․آقا نہ بخشوا سکیں ایسا کوئی نہیں
فروری 2016
انتظار حسین: 2فروری 2016
پاکس وہند کے صف اول کے ادیب، علامتی اور استعااری اسلوب کے افسانہ نگار،
شاعر، کالم نگار، کہانی نویس، ڈرامہ نگار انتظار حسین نے لاہور میں
2فروری2016 کو 93برس کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہا۔
وہ سحر کی رات کو ستارہ وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا
سدا رہے اس کا نام سنا ہے کل رات مر گیا ہے
انتظارحسین ہندوستان کے ضلع میرٹھ ، بلند شہر میں پیدا ہوئے، قیام پاکستان
کے بعد لاہور کو اپنا مستقل مسکن بنایا۔ان کے افسانے بہت مقبول ہوئے، انہوں
نے اپنے کالموں میں خاص پیغام دیا۔ ڈرامے بے حد مقبول ہوئے۔
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
انتظار حسین پر راقم کا مضمو ن بعنوان ’ہم ہی سوگئے داستاں کہتے کہتے‘
ہماری ویب پر آن لائن:
https://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=71207
|
|
عارف منصور:7فروری 2016
7فروری 2016 کو لاہور میں انتقال ہوا ، کراچی میں تدفین ہوئی۔ ابتدا میں
غزل کہی ،ان کا مجموعہ کلام ’سورج زمین پر‘ شائع ہوا۔ والدین نے ان کا نام
تنویر عارف خان رکھا تھا، پھر انہوں نے منصور ملتانی کے نام سے شعر کہے ،
بعد میں عارف منصوری کے نام سے معروف ہوئے۔ ان کے مجموعوں میں ’مَرسل و
مُرسل‘، مناجات بھی شامل ہیں۔ ایم فل تک تعلیم کا سلسلہ جاری رہا۔ انہوں نے
ناز اکبر آبادی سے اصلاح لی۔ان کا ایک شعر :
فاصلہ ہی جنوں میں کتنا ہے
اک قدم اختیار سے باہر
ندا فاضلی (مقتدا حسن ندا فاضلی):
8فروری2016
ندا فاضلی فلمی گانوں کے خالق ہونے کے حوالے سے جانے پہچانے شاعر ہیں۔
وہ17اکتوبر 1938میں کشمیری ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام مقتدا
حسن تھا لیکن ندا فاضلی سے معروف تھے ۔ 12اکتوبر 1938کو گوالیار میں پیدا
ہوئے ۔تقسیم ہندوستان کے بعد ان کے خاندان نے پاکستان ہجرت کی لیکن ندا
فاضلی صاحب کا جی پاکستان میں نہیں لگا اور وہ کچھ عرصہ بعد واپس ہندوستان
سدھار گئے۔ 78برس کی عمر پائی، 8 فروی 2016 کو ہندوستان میں ہی انتقال ہوا۔
اچھے شاعر، تنقید نگار اور خاکہ نگار بھی تھے۔ انہوں نے ناول بھی لکھے، ان
کے ناول ’دیواروں کے بیچ‘ اور ’دیواروں کے باہر تھے‘، خاکوں کا مجموعہ
’چہرے ‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔’ملاقاتیں‘ ان کی تنقید کی کتاب تھی ۔ انہوں
نے 24 کتابیں لکھیں جو اردو، ہندی اور گجراتی زبان میں ہیں۔ مشہور تصانیف
میں لفظوں کے پھول، مرناچ، آنکھ اور خواب کے درمیان، سفر میں دھوپ ہوگی،
کھویا ہوا سا کچھ اور دنیا ایک کھلونا شامل ہیں۔ ندا فاضلی کے چند اشعار جو
بہت پسند کیے جاتے ہیں
اک مسافر کے سفر جیسی ہے ساری دنیا
کوئی جلدی میں کوئی دیر سے جانے والا ہے
ہم سے محبت کرنے والے روتے ہی رہ جائیں گے
ہم جو کسی دن سوئے تو پھر سوتے ہی رہ جائیں گے
بچوں کے چھوٹے ہاتھوں کو چاند ستارے چھونے دو
چار کتابیں پڑھ کر وہ بھی ، ہم جیسے ہوجائیں گے
اس کے دشمن ہیں بہت آدمی اچھا ہوگا
وہ بھی میری ہی طرح شہر میں تنہا ہوگا
گرجا میں مندروں میں اذانوں میں بٹ گیا
ہوتے ہی صبح آدمی خانوں میں بٹ گیا
دینا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونا ہے
مل جائے تو مٹی ہے کھو جائے تو سونا ہے
فاطمہ ثریا ’بجیا ‘: 1فروری 2016
ادب اور سماجی خدمات کی دنیا کی معروف شخصیت ، ہر دلعزیز اور ہر ایک سے
محبت سے ملنے والی، ہر ایک کو بیٹا کہہ کر مخاطب کرنے والی فاطمہ ثریا بجیا
بدھ کی شام 10 فروری 2016 کو اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئیں۔ بجیاکے نام سے
کون واقف نہیں۔ ٹیلی ویژن کے ڈراموں اور سماجی خدمات کے حوالے سے بجیا ایک
معتبر حوالہ تھیں۔یہ ان لوگوں میں سے تھیں جنہیں لوگ تعظیم و تکریم، احترام
اور قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ بجیا ایک ہمدرد دل ، نیکی کرنے کی
عملی خواہش رکھنے والی ایسی خاتون تھیں جن میں ہمت، عظمت اور استقا مت
نمایاں طور پرپائی جاتی تھی۔ بجیا کے تخلیق کردہ معرکتہ الآرا ڈراموں کے
سلسلے شمع، آگئی، بابر، عروسہ، آساوری کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ سب پر
عیاں ہے۔ بجیا ان تخلیق کاروں میں سے تھیں جنہوں نے جاپانی کہانیوں کو
اسٹیج پر روشناس کرایا۔ بجیا صرف ایک شخصیت کا نام نہیں تھا بلکہ وہ ایک
انجمن ، ایک ادارے کی حیثیت رکھتی تھیں۔ وہ شہر کراچی میں ایک سماجی کارکن
بھی تھیں۔ شہر کی کوئی بھی سماجی، ثقافتی یا ادبی تقریب بجیا کے بغیر
ادھوری ہوا کرتی تھی۔ ان کی شخصیت اور ڈرامہ نویسی کے حوالے سے ان پر بہت
کچھ لکھا گیا اور آئندہ بھی لکھا جائے گا۔ فاطمہ ثریا بجیا کی زندگی کا سفر
جو ہندوستان کے شہر حیدرآباد دکن سے یکم ستمبر 1930ء کو شروع ہوا تھا،
85سال 5ماہ اور 9 دن بعد پاکستان کے شہر کراچی میں اختتام پذیر ہوا۔ علم و
ادب کا یہ سورج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیااور اپنے پیچھے ایک طویل
داستان چھوڑ گیا۔
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
بجیا پر راقم کا مضمون ہماری ویب پر آن لائن:
https://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=71455
ڈاکٹرزبیر رضوی(قمر تبریز):20فروری2016
دہلی کی ایک علمی و ادبی شخصیت، شاعر اور ادیب۔ ان کا اصل نام قمر تبریز
تھا۔ اردو اکیڈمی دہلی کی ایک ادبی نشست کے دور فرشتہ اجل آموجود ہوا اور
انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ ان کے آخری الفاظ کچھ اس طرح سے بیان کیے
گئے ہیں ’’جب مجھے درد ہوتا ہے تو میں سسکیاں لے کر نہیں روتا،اپنی آنکھیں
نم کر لیتا ہوں‘‘۔ اتفاق یہ کہ جس دن ڈاکٹر زبیر رضوی کا انتقال ہوا اُسی
دن غالب ؔکی برسی منائی جارہی تھی۔اس طرح ڈاکٹر رضوی کا غالبؔ سے یہ تعلق
بھی قائم ہوگیا۔ وہ نہ صرف شاعر بلکہ کے نثر نگار بھی تھے۔ ان کی تنقید
انوکھا انداز لیے ہوئے تھی، وہ صحافت سے بھی تعلق رکھتے تھے۔ وہ ایک ادبی
جریدہ ’ذہن جدید ‘ کے نام سے نکالا کرتے تھے۔وہ دہلی اردو اکیڈمی سے بھی
وابستہ رہے۔ اردو کا یہ پروانہ 20فروری 2016کو اپنے چاہنے والوں سے ہمیشہ
ہمشیہ کے لیے جدا ہوگیا۔
اظہر عباس ہاشمی : 27فروری 2016
کراچی کی معروف علمی ، ادبی و سماجی شخصیت تھے، یونی کیرینز،ساکنان ِ شہر
قائد مشاعرے کے بانی و کنوینر اور روحِ رواں تھے۔ انہوں نے 27فروری 2016کو
ایک حادثہ کے نتیجے میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ وہ ہندوستان کے شہر گوالیار
میں 28مارچ 1941کو پید ہوئے 75سال کی عمر میں اﷲ کو پیارے ہوگئے۔ تنویر
پھولؔ جن کا تعلق امریکہ ، نیویارک سے ہے اظہر عباس ہاشمی کو خوبصورت انداز
میں خراج تحسین پیش کیا
افسوس ! ہم سے ہاشمی اظہر جدا ہوئے
اے پھولؔ ! روح اُ ن کی گئی خلدِ پاک میں
اظہر کے انتقال کا صدمہ سبھی کو ہے
وہ آفتابِ علم و ادب ہے خاک میں
مارچ2016
ڈاکٹر انور سدید: 20مارچ 2016
ڈاکٹر انور سدید اردو کے نامور ادیب، محقق، د انشو ر، تنقید ، افسانہ،
انشائیہ،خاکہ، ادارت، شاعری، ادبی صحافت، جائزہ نویسی، تاریخ سازی کالم
نگاری ان کے اظہار کے اصناف رہے۔انہوں نے ادبی تحریکوں میں بھرپور حصہ لیا،
ان کے پی ایچ ڈی مقالے کا عنوان ’’اردوادب کی تحریکیں‘‘ تھا۔ وہ 4 دسمبر
1928میں قصبہ میانی، بھلوال، ضلع سرگودھا میں پیدا ہوئے،بنیادی طور پر
راجپوت تھے۔ پیشے کے اعتبار سے انجینئر تھے ، محکمہ آبپاشی میں بطور
ایگزیکیوٹو انجینئر ریٹائر ہوئے ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد تمام عمر اردو کی خدمت
میں گزار دی۔ان کا اصل نام محمد انوار الدین تھا بہت کم لوگ ان کے اس نام
سے واقف ہیں، وہ انور سدید کے نام سے ہی لکھتے رہے۔ان کا شمار سرگودھا کے
ایک بڑے ادیب ، شاعر دا نشور ڈاکٹر وزیر آغا کے چاہنے والوں میں ہوتا تھا،
وہ انہیں اپنا محسن تصور کیا کرتے تھے۔ ان کے ساتھ ادبی جریدے اوراق میں
شامل رہے۔ احمد ندیم قاسمی کے بھی قدر دان تھے۔مختلف اخبارات میں لکھا،
نوائے وقت سے ذیادہ تعلق رہا۔ 87برس کی عمر میں 20 مارچ 2016 کو دنیائے
فانی سے کوچ کر گئے۔ انہوں نے ادب کے حوالے سے 90سے زیادہ کتب تصنیف
کیں۔انہوں نے کتب پر تبصرے بھی لکھے 2003میں انہوں نے 225کتب پر تبصرے لکھ
کر ایک ریکارڈ قائم کیا۔ وہ سرگودھا میں پیدا ہوکر اسی مٹی میں آسودہ خاک
ہوگئے۔
|
|
پروفیسر آفاق احمد بھوپالی : 30مارچ 2016
بھارت کے شہر بھوپال سے تعلق رکھنے والے عالمی شہرت یافتہ ادیب ،شاعر،محقق،
ماہر غالبیات و اقبالیات پروفیسر آفاق احمد کا انتقال بھوپال میں 30مارچ
2016کو ہوا۔ تعزیتی ریفرنس اکادمی ادبیاتِ پاکستان سندھ اور محبانِ بھوپال
فورم کے زیر اہتمام اکادمی ادبیات کے آڈیٹوریم ، لیاقت میموریل لائبریری
بلڈنگ میں 2 مئی2016 کو منعقد ہوا۔ پروفیسر آفاق احمد مرحوم کی شخصیت اور
علمی و ادبی خدمات کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ پروفیسر آفاق احمد کی تعلیم
و تربیت بھوپال کے علمی و ادبی ماحول میں ہوئی انہوں نے ہندوستان کے اِسی
شہر میں 30 جولائی 1932ء کو آنکھ کھولی ،ان کی دنیاوی زندگی کا سفر 83 سال
بعد 30 مارچ 2016ء کو اختتام پذیر ہوا اور بھوپال کی مٹی کو ہی اپنے لیے
دائمی آرام گاہ بنایا۔
اپریل 2016
پروفیسر ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد: 22اپریل2016
پروفیسر ڈاکٹر منطور احمد کا تعلق ہندوستان کے شہر لکھنؤ سے تھا۔ اردو کا
یہ عاشق ، نامور ادیب، شاعر، تنقید نگار اور ماہر تعلیم بھی تھا 88سال کی
عمر میں جہانِ فانی سے رحلت کر گیا،لکھنؤ کی سرزمین مشاعروں کے حوالے سے
ڈاکٹر منظور احمد کے مشاعروں کی نظامت کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔ ان کے مشاعروں
میں شرکت کی عمر 70سال بتائی جاتی ہے۔ انہوں نے اردو زبان کی بہت خدمت کی
اور ہندوستان کو دنیا میں متعارف کرایا۔ ان کی طویل خود نوشت ’’رقص شرر‘‘کے
عنوان سے 2004میں دہلی سے شائع ہوئی۔ وہ ایک خود دار ادیب سمجھے جاتے تھے،
مفاد پرست اور مصلحت کوش نہ تھے۔ اردو کے اس معروف شیدائی نے طویل علالت کے
بعد 22اپریل 2016کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے داعی اجل کو لبیک کہا۔
مئی 2016
اسلوب احمد انصاری : 4مئی 2016
برصغیر کے معروف ادیب و دانشور، ماہر اقبالیات اور ماہر غالبیات علی گڑھ
مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر اسلوب احمد انصاری کا انتقال 4 مئی کو علی گڑھ
میں ہوا۔ پروفیسر اسلوب احمد انصاری کی رحلت انگریزی اور اردو ادب کا نقصان
عظیم ہے۔ پروفیسر اسلوب احمد انصاری کا شمار اردو کے چند بڑے علمی اور ادبی
اور نقادوں میں ہوتا تھا جنہوں نے اردو تنقید کو نئی جہت اور نئے رجحانات
سے آشنا کیا۔ پروفیسر اسلوب احمد انصاری نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم
حاصل کی اور انگریزی کے پروفیسر کی حیثیت سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں
برسوں تدریسی خدمات انجام دیں۔ انگریزی کے ساتھ ساتھ انہوں نے اردو میں بھی
بہت لکھا اور خوب لکھا، انہیں اقبالیات کا ماہر سمجھا جاتا ہے ، وہ غالبیات
کے بھی ماہر تھے۔ ان کے متعدد کتب لندن اور امریکہ سے شائع ہوئیں۔ وہ
1925میں علی گڑھ میں پیدا ہوئے اور 91سال کی عمر میں علی گڑھ ہی کو اپنی
ابدی آرام گا بنایا۔ ان کی تدفین علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قبرستان میں
ہوئی۔
اسلوب انصاری پر راقم کا مضمون آن لائن:
https://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=75574
جون 2016
پروفیسرڈاکٹر اسلم فرخی : 15جون 2016
معروف استاد ، ادیب ، دانشور،صاحب طرز نثر نگار، خاکہ نگار، شاعر، محقق اور
براڈکاسٹر پروفیسر ڈاکٹر اسلم فرخی جنہوں نے ہندوستان کے شہر لکھنؤ میں 23
اکتوبر 1923ء میں آنکھ کھولی تھی کی زندگی کا سورج اردو زبان کو علمی وادبی
سرمائے سے مالا مال کرنے کے بعد 93 سال کی عمر میں 15جون 2016ء،9رمضان
المبارک 1437ھ بروز بدھ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔ڈاکٹر صاحب کی
تدفین انتقال کے اگلے روز 16جون 2016ء، 10رمضان المبارک بروز جمعرات ان کی
وصیت کے مطابق جامعہ کراچی کے قبرستان میں عمل میں آئی۔ڈاکٹر اسلم فرخی کا
وطن ضلع فرخ آباد کا صدر مقام فتح گڑھ تھا جہاں انہوں نے لڑکپن اورجوانی
بسر کی۔قیام پاکستان کے بعد ستمبر 1947ء میں انہوں نے پاکستان ہجرت کی اس
وقت ان کی عمر 24سال تھی۔انہوں نے جامعہ کراچی سے ماسٹر اورگورنمنٹ کالج
برائے طلبہ، ناظم آباد میں لیکچرر کی حیثیت خدمات انجام دینے کے دوران
ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی ۔1956ء میں ڈاکٹر صاحب کا تقرر اس کالج میں ہوا جو
اس وقت سینٹرل گونمنٹ کالج ہوا کرتا تھا۔کالج کی نصابی اور ہم نصابی
سرگرمیوں میں ڈاکٹر اسلم فرخی پیش پیش ہوا کرتے تھے۔ اردو کے دیگر اساتذہ
میں ڈاکٹر عبد السلام اور پروفیسر انجم اعظمی شامل تھے۔ ڈاکٹریٹ کر لینے کے
بعد ڈاکٹر صاحب کا تقرر جامعہ کراچی کے شعبہ اردو میں ہوگیا اور وہ گورنمنٹ
کالج برائے طلبہ، ناظم آباد سے جامعہ کراچی منتقل ہوگئے۔ جامعہ میں درس و
تدریس کے ساتھ انہوں نے رجسٹرار، شعبہ تصنیف و تالیف کے سربراہ کی حیثیت سے
بھی خدمات انجام دیں، ساتھ ہی علمی و ادبی سرگرمیوں میں اپنے آپ کو مصروف
رکھا۔ ان کے رشحاتِ قلم سے جو علمی و ادبی سرمایہ منظر عام پر آیا وہ ہر دو
اعتبار سے یعنی تعداد اومعیار کی انتہائی منزل پر ہے۔
ڈاکٹر اسلم فرخی کے سانحۂ ارتحال سے ہم اردو اد ب کی ممتاز شخصیت سے محروم
ہوگئے۔ڈاکٹر صاحب کا شمار ملک کے ممتاز دانشوروں میں ہوتا تھا۔ وہ استاد،
شاعر، صاحب طرز نثر نگار، خاکہ نگار، محقق،نقاد، بچوں کے ادیب اور براڈ
کاسٹر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ وہ ریڈیو پاکستان سے بہ طور مسودہ نگار
چھ سال منسلک رہے ، ریڈیو کے لیے فیچر ، ڈرامے اور تقریریں لکھیں، ریڈیو سے
پروگرام ’روشنی‘ میں ان کی گفتگو ہر ہفتہ نشر ہوا کرتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے
ادبی سفر کا آغاز شاعری سے کیا لیکن شاعری ان کی پہچان نہیں تھی بلکہ وہ
خاکہ نگار کی حیثیت سے زیادہ معروف ہوئے۔ ان کے لکھے ہوئے خاکے اپنا ثانی
نہیں رکھتے۔
ڈاکٹر اسلم فرخی پر راقم کا مضمون ہماری ویب پر آن لائن:
https://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=77314
امجد صابری قوال: 22 جون 2016
اپنے رب سے چین کی، جینے کی بھیک مانگنے والے، مدینہ کی آروزو کرنے والے،
غریبوں کے دن سنورنے کی دعا کرنے والے اور یہ نعت نبوی ﷺ خوش الحانی سے
پڑھنے والے کہ ’ قسمت میں مری چین سے جینا لکھ دے․․․ڈوبے نہ کبھی میرا
سفینہ لکھ دے، جنت بھی گوارا ہے مگر میرے لیے․․․اے کاتب تقدیر ! مدینہ لکھ
دے، تاجدارِ حرم ہو نگاہِ کرم ․․․ہم غریبوں کے دن سنور جائیں گے ‘، عالمی
شہرت یافتہ قوال اور نعت خواہ امجد صابری کا کراچی میں بے دردی اور بہیمانہ
قتل،حبیب جالبؔ نے بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ’ یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا ․․․اے
چاند یہاں نہ نکلا کر‘ واقعی یہاں اندھیر نگری اور چوپٹ راج ہے، کوئی
پوچھنے والا نہیں، رسمی طور پر بیانات جاری کرنے کے سوا عمل صفر ہوتا ہے۔
میں قبر میں اندھیری میں گھبراؤں گا جب تنہا
امداد میری کرنے آجا نا رسول اﷲ ﷺ
روشن میری تر بت کو لﷲ ذرا رکرنا
جب وقت نزاع آئے آقا دیدار عطا کرنا
امجد صابری پر راقم کا تفصیلی مضمون ہماری ویب پر آن لائن :
https://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=77674
|
|
جولائی 2016
کالم نگار محمد احمد سبزواری :جمعہ 15 جولائی 2016
معروف کالم نگار ، ماہر معاشیات محمد احمد سبزواری جو ایم اے سبزواری کے
نام سے معروف تھے 104سال کی عمر میں کراچی میں جمعہ 15 جولائی 2016 کو
انتقال کر گئے۔ سبزواری صاحب روزنامہ جنگ میں 23سال سے مختلف موضوعات پر
کالم تحریر کرتے رہے، ان کا خاص موضوع معاشیات ہو اکرتا تھا ۔اس موضوع پر
انہوں نے بے شمار کالم تحریر کیے۔ تاہم دیگر علمی و ادبی موضوعات پر لکھتے
رہے۔ کتابوں پر تبصرے کرنا بھی ان کا محبوب مشغلہ تھا، وہ انجمن ترقی اردو
کے ادبی رسالے ’قومی زبان ‘ میں مختلف تصانیف پر تبصرے بھی کیا کرتے تھے۔
کالم نگاری کی دنیا میں سبزوار صاحب معمر ترین کالم نگار تھے۔ ان کا آخری
کالم روزنامہ جنگ میں 9 جولائی 2016 کو بعنوان’وزیر خزانہ اور ان کی ٹیم
مستحقِ داد ‘ شائع ہوا۔
عبد الستار ایدھی : 8 جولائی
خدمت خلق کا نشان ، چھ دیہائیوں تک عوام الناس کی بلا تفریق خدمات کو یقینی
بنانے والا، عوام الناس کی خدمت کو ایک نئی جہت اور نئی سمت دینے والا عبد
لستار ایدھی 8جولائی کی شب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہوگیا۔ انا اﷲ و
انا علیہ راجیعون۔ پاکستان میں آج جتنے بھی خدمت خلق کے ادارے اور تنظیمیں
ہیں ان کے بارے میں یہ کہنا درست ہوگا کہ انہوں نے خدمات کا ڈھنگ اور سلیقہ
ایدھی سے ہی سیکھا، اس کی پیروی کی میں نے ۸ ستمبر ۲۰۱۱ء، ۱۰ شوال ۱۴۲۳ھ
سعودی عرب کے شہر جدہ میں اپنے قیام کے دوران ایدھی سے اپنے تعلق اور خدمت
خلق کے حوالے سے ایدھی کا ایک تفصیلی شخصی خاکہ قلم بند کیا تھا۔ایدھی پر
راقم الحروف کا تفصیلی مضمون ہمای سیب پر آن لائن دیکھا جاسکتا ہے:
محمد احمد سبزواری صاحب پر میرا تفصیلی مضمون ہماری ویب پر آن لائن دیکھا
جاسکتا ہے:
https://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=78352
اگست 2016
کشمیری لال ذاکر: 31اگست2016
ناول نگار، ڈرامہ نگار، چھوٹی کہانی لکھنے کے ماہر کشمیری لال ذاکر کا دہلی
میں انتقال ہوا۔ اردو کے حوالے سے ان کی بہت خدمات ہیں۔ انہوں نے 97سال عمر
پائی اور 31اگست 2016کو انتقال ہوا۔
ستمبر 2016
سعید قیس: 13ستمبر2016
اردو کا یہ شاعر اس جہان فانی سے اپنی بے شمار یادیں چھوڑ کر 13ستمبر2016
کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگیا۔ سعید قیس کا خوبصورت شعر
جو روز مجھ سے پریوں کی کہانی سن کے سوتے تھے
انہی بچوں کو میر ا بولنا اچھا نہیں لگتا
عبد اﷲ جان جمالدینی:19ستمبر 2016
عبد اﷲ جان جمالدینی ممتاز بلوچ ادیب ، شاعر اور محقق تھے۔94سال کی عمر میں
19ستمبر 2016کو کوئٹہ میں داعی اجل کو لبیک کہا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے
کوئٹہ کی مٹی کے ہورہے۔ ہمارے دوست جناب منیربن بشیر کی ایک تحریر جو نیٹ
پر آلائن ہے عبد اﷲ جان جمالدینی پر بنیا دی معلومات فراہم کرتی ہے۔ وہ
لکھتے ہیں کہ’ عبد اﷲ جان جمالدینی بابائے بلوچی کہلاتے ہیں (جیسے اردو
زبان میں مولوی عبدالحق) ، آپ 8مئی 1922کو نوشکی کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے
، اسکولی تعلیم کوئٹہ میں حاصل کی گریجویشن اسلامیہ کالج پشاور سے کیا۔ان
کی زندگی کا بیشتر حصہ کراچی ، کوئٹہ اور نوشکی میں گزرا۔ پروگریسو رائیٹر
ایسو سی ایشن میں بھی سرگرم رہے ، نیشنل عوامی پارٹی سے بھی قربت رہی‘۔وہ
لکھتے ہیں کہ ’عبد اﷲ جان جمالدینی ایک روشن خیالی، ترقی پسند ی اور
رواداری اور قومی یکجہتی کے حوالے سے بلوچستان کے اہم ترین لکھنے والوں میں
شمار ہوتے تھے۔ کراچی سے ’متک‘ کے نام سے ایک رسالہ نکالا۔ بعد ازان وطن،
بلوچی اور سنگت ناک کے نام سے جو بلوچی ادبی رسالے نکلے ان کے پیچھے
محرکانہ روح جمالدینی صاحب کی ہی تھی۔ ان کا سب سے یادگار کام یعنی
بلوچستان یونیورسٹی میں بلوچی زبان کے لسانیاتی شعبے کی بنیاد ڈالنا ہے۔ یہ
ایسا بیج تھا جو آج ایک درخت ہے۔انہوں نے کوئٹہ میں ہفتہ وار ادبی کچہری کا
آغاز بھی کیا، اکیڈمی ادبیات پاکستان کے ایوارڈ کے علاوہ حکومت پاکستان کی
جانب سے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کرکردگی سے بھی نوازا گیا۔ ان کی تصانیف
میں لٹ خانہ، مرگ و مینا، لینن کی کتاب، بلوچستان مین سرداری قبائلی نظام
کا سیاسی پس منظر اور شمع فروزاں شامل ہیں۔
سید قاسم مہندی : 28ستمبر 2016
سید قاسم مہندی پاکستان کے ممتاز سائنسدان تھے ۔ انہوں نے ستمبر28کو داعی
اجل کو لبیک کہا۔
پرتو روہیلہ:29ستمبر2016
اردو کے معروف دانشور اور شاعر پرتو روہیلہ طویل عرصے علیل رہے اور
29ستمبر2016کو وفات پائی ۔ان کا اصل نام مختار علی خان تھا۔23نومبر1932کو
روھیل کھنڈ (یوپی، بھارت) کے شہر بریلی میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک
پٹھان زمیندار گھرانے سے تھا۔ نسبتی تعلق حافظ رحمت خان والئی روھیل کھنڈ
سے ہونے کی وجہ سے وہ اپنے نام کے ساتھ روہیلہ لکھا کرتے تھے۔ اس تعلق اور
حوالے سے ان کا ادبی نام پرتو روہیلہ ٹہرا۔ انہوں نے اپنے خاندان کے احباب
کے ساتھ 1950میں ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی اور خیبر پختونخواہ کے صوبے
بنوں کو اپنا مسکن بنا یا۔ اسلامیہ کالج پشاور ، لاء کالج اور پشاور
یونیورسٹی سے تعلیم کے مختلف مرحل طے کیے۔ بی اے آنرز، ایم اے ایل ایل بی
کرنے کے بعد مقابلے کے امتحان میں منتخب ہوکر1957میں پاکستان ٹیکسیشن سروس
میں شامل ہوگئے۔ جہاں سے 1993میں بحیثیت ممبر سینٹرل بورڈ آف ریونیو
ریٹائرہوئے ۔چند سال وزیر اعظم معائنہ کمیشن میں بھی خدمات انجام
دیں۔ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے غالبؔ کے فارسی مکتوبات کی جانب توجہ دی اور
غالب کے تمام فارسی خطوط کو انتہائی دل کش اردو میں ترجمہ کرنے کا اعزاز
حاصل کیا۔ اس کے علاوہ غالبؔ کے بے شمار اشعار کی ایک شرح اور غالبؔ پر چند
مقالات بھی تحریر کیے۔ ان کے شعری مجموعوں میں ایک دیا دریچے میں، آواز،
شکست رنگ، سفر دائروں کا، رین اجیارا، نوئے شب اور پرتو شب کے نام سے اور
کلیات دام خیال کے نام سے شائع ہوئے۔ ان کا سفر نامہ بعنوان’ سفر گزشت ‘کے
نام سے شائع ہوئی ، یہ سفر نامہ امریکہ کی سیاحت تھی۔اکادمی ادبیات پاکستان
نے انہیں ان کی کتاب نوائے شب پر ڈاکٹر محمد اقبال ایوارڈ سے سرفراز کیا جب
کہ 23مارچ1994کو حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی
عطا کیا اور2008میں انہیں ستارہ امتیاز سے سرفراز کیا گیا۔ پرتو روہیلہ نے
29ستمبر2016کو داعی اجل کو لبیک کہا۔
اکتوبر 2016
نذہت انجم :15اکتوبر2016
نذہت انجم اردو کی شاعرہ تھیں، پنجاب کے شہر چکوال سے تعلق تھا۔نذہت انجم
نے 15اکتوبر2016کو داعی اجل کو لبیک کہا۔
ڈاکٹر خلیق انجم:18اکتوبر2016ء
پڑوسی ملک بھارت سے افسوس ناک خبر ملی کے معروف ادیب اور عصر حاضر کے نامور
محقق، انجمن ترقی اردو (ہند) دہلی کے سابق سیکریٹری موجودہ نائب صدر، ماہر
غالبیات تنقید و تحقیق کے ماہر ڈاکٹر خلیق انجم 18اکتوبر2016ء کو صبح 10.30
بجے اس دنیائے فانی سے رحلت کرگئے۔ انا اﷲ و انا علیہ راجیعون، اﷲ تعالیٰ
ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ دنیائے
اردو کے لیے ڈاکٹر خلیق انجم کا نام جانا پہچانا ہی نہیں بلکہ وہ معتبری کے
بلند مقام پر تھے۔بھارت ،بنگلہ دیش اور پاکستان ہی نہیں بلکہ جہاں جہاں
اردو بولی ، پڑھی اور سمجھی جاتی ہے وہاں کے ادیبوں ، شاعروں، محققین و
تنقید نگاروں کے دلوں میں ان کے لیے بے بہا عزت و احترام پایا جاتا ہے ۔ وہ
40سال انجمن ترقی اردو (ہند) سے وابستہ رہے ، سیکریٹری کے علاوہ اپنی آخری
سانسوں تک انجمن کے نائب صدر تھے۔ ڈاکٹر خلیق انجم کے سانحہ ارتحال سے اردو
زبان و ادب میں جو خلا پیدا ہوا ہے وہ برسو پر نہ ہوسکے گا۔ غالبؔ کے خطوط
کے حوالے سے ان کا تحقیقی کام ہندوستان کے علاوہ پاکستان سے انجمن ترقی
اردو نے بھی شائع کیا۔
ڈاکٹر خلیق انجم پر راقم کا تفصیلی مضمون ہماری ویب پر آن لائن دیکھا
جاسکتا ہے:
https://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=82971
شہاب شیخ : 18اکتوبر 2016
شہاب شیخ ناول نگار اور کہانی نویس تھے، انہوں نے ڈائجسٹوں کے لیے بے شمار
کہانیاں لکھیں۔شہاب شیخ کی آخری عمر کی زندگی بہت کسمپرسی میں گزری وہ
کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں ایک کمرے کے مکان میں رہائش رکھتے تھے ، 18
اکتوبر 2016 کووہ کمرے میں سوتے کے سوتے رہ گئے ، تین دن بعد محلے والوں نے
ان کے گھر کا دروازہ توڑکر نعش نکالی۔
اصغر علی شاد: 20اکتوبر 2016
اردو کے شاعر اصغر علی شادؔ ملتان کے معروف اور سینئرشعراء میں سے تھے۔ ان
کا انتقال 20اکتوبر2016کو ملتان ہی میں ہوا اور ملتان کی مٹی ان کی مستقر
ٹہری۔ شادؔ کا ایک شعر
ان کو دیکھا تو یہ اعجاز کھلاہے ہم پر
روشنی دھار لیا کرتی ہے خاکی صورت
علی باران: 23اکتوبر2016
علی باران کا تعلق پاکستان کے صوبے بلوچستان سے تھا، وہ کوئٹہ میں رہائش
رکھتے تھے۔ زیادہ تر مقامی زبان میں شاعری کیا کرتے تھے۔ کوئٹہ کا یہ شاعر
اور ادیب 23اکتوبر2016کو ئٹہ میں ایک ٹریفک حادثہ میں اﷲ کو پیارا ہوا۔
ماسٹر غلام بنی بابا
کشمیری شاعر، افسانہ نگارماسٹر غلام بنی بابا کا انتقال سری نگر ہوا۔ وہ
1922میں پید اہوئے تھے۔ ۔ان کے افسانوں کے دو مجموعے شائع ہوئے اور نعتوں
پر مشتمل مجموعہ ’زاد راہ‘ بھی شائع ہوا۔
نذیر احمد فیض: 22اکتوبر2016-
نذیر احمد فیض سرائیکی کے معروف شاعر تھے۔ انہیں سرائیکی زبان کا فیض احمد
فیض بھی کہا جاتا تھا۔وہ سرائیکی قومی تحریک کے بانی رکن بھی تھے۔نذیر احمد
فیض نے 22اکتوبر2016کو وفات پائی۔
ثاقب انجان: 24اکتوبر2016
کراچی کے شاعر ثاقب انجان نے 24اکتوبر2016کو داعی اجل کو لبیک کہا، وہ
معروف شاعر اور لکھاری تھے۔
جہانگیر بدر:25اکتوبر2016
جہانگیر بدرسیاست داں کے طور پر جانے جاتے تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے
سرگرم کارکن رہے، سیکریٹری جنرل کے علاوہ دو مرتبہ وزیر بھی رہے ۔ وہ
سیاسیات کے طالب علم رہے تھے، انہوں نے سیاسیات کے موضوع پر ہی ڈاکٹریٹ کی
ڈگری حاصل کی تھی۔ سیاسی موضوعات پر ان کی تحریریں اخبارات کی ذینت بنتی
رہی ہیں۔ جہانگیر بدر 25اکتوبر 1944میں لاہور میں پیدا ہوئے
اور25اکتوبر2016کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے اپنا ناتا جدا کر لیا اور
داعی اجل کو لبیک کہا۔
|
|
نومبر2016
یاور حیات: 3نومبر2016
یاور حیات 18اکتوبر1943میں پیدا ہوئے وہ 1965سے2004تک ٹیلی ویژن کے
پروڈیوسر رہے ، وہ ٹی وی کے شہرہ آفاق ڈاراموں کے خالق ہیں۔ سیاسی خاندان
کے چسم و چراغ تھے۔ ان کی دادا سر سکندر حیات خان اپنے وقت کے معروف سیاسی
لیڈر رہے۔یاور حیات نے 3نومبر 2016کو داعی اجل کو لبیک کہا۔
اسلم کولسری:7نومبر 2016
اردو ، پنجابی کے معروف شاعر ، صحافی اور براڈکاسٹر اسلم کولسری 70سال کی
عمر میں رحلت کر گئے۔ ان کی تدفین ان کے آبائی گاؤں گیمبر (سابقہ کولسر)
ضلع اوکاڑہ میں ہوئی۔ ان کی پیدائش اگست 1946میں کولسری میں ہی ہوئی تھی۔
ان کے اردو شعری مجموعوں میں ’نخل جان‘، ’کاش‘، ’ویرانہ ‘ اور پنچھی ہیں جب
کہ پنجابی مجموعوں میں نیند، عنبر، برسات، جیون اور کومل شامل ہیں۔ اسلم
کولسری نے 7 نومبر 2016 کو داعی اجل کو لبیک کہا۔ انہوں نے ریڈیو پر
پروگرام بھی کیے۔ ان کے دو مشہور شعر
مجھ کو تو نوکری نے بچا ہی لیامگر
سینے میں ایک پھول سا فنکار مرگیا
شہر میں آکر پڑھنے والے بھول گئے
کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا
اظہر جعفری: 17نومبر2016
اظہر جعفری فوٹو جرنلسٹ تھے ، روزنامہ مساوات اور ڈان سے منسک رہے۔ ان کی
خدمات کے اعتراف میں انہیں حکومت وقت کی جانب سے 2013میں صدارتی تمغہ برائے
حسنِ کار کردگی عطا کیا گیا۔ اظہر جعفری صاحب نے 17نومبر 2016میں داعی اجل
کو لبیک کہا۔
نصیر احمد : 16نومبر2016
نصیر احمد کا تعلق ساہیوال سے تھا ، وہ متعدد تصانیف کے خالق ہیں۔انہوں نے
16نومبر2016کو داعی اجل کو لبیک کہا۔
اکبر نقوی:20نومبر2016
اکبر نقوی اردو کے معروف نقاد تھے ۔ انہوں نے 20نومبر 2016کو داعی اجل کو
لبیک کہا۔
فطرت قریسی24نومبر2016
فطرت قریشی پاکستان کی معروف و معتبر علمی، ادبی و سیاسی شخصیت تھے۔ ان کا
کا تعلق کوھاٹ سے تھا۔ وہ تحریک آزادی کے مجاہدوں میں شمار ہوتے تھے۔کوھاٹ
کے ہی ایک علمی شخصیت عظمت علی خان شنواری نے فطرت قریشی صاحب پر ان کی
زندگی میں ہی ایک خوبصورت مضمون لکھا تھا جس سے فطرت کی شخصیت ، شاعری اور
علمی وادبی کاوشوں کی عکاسی حسین انداز سے ہوتی ہے۔ شنواری صاحب سے ان کی
وفات کی درست تاریخ بھی بتائی کہ فطرت صاحب کا انتقال کراچی میں 24
نومبر2016کو ہوا۔ عظمت علی خان شنواری نے اپنے ایک کالم ’فطرت قریشی ،
سایست اور صحافت میں ایک عہد کا نام‘ میں لکھا ہے کہ وہ درویشوں کی سی وضع
قطع رکھنے والا یہ فقیر منش شخص اور بلا کا خوشنویس ، برصغیر کی کئی تہلکہ
خیز سیاسی تحریکوں کا جانثار کارکن رہ چکا ہے۔ انہیں قدرت نے بیک وقت ادب،
صحافت، اور سیاست کا شہسوار بنا یا ۔ 94برس کی عمر میں بھی وہی سج دھج ،
وہی انداز، وہی اطوار، وہی حساسیت جو عہد شباب میں بھی ان کا خاصہ تھی۔ وہ
پائے کے شاعر بھی تھے،سیاست کی خار زار و ادی میں قدم رکھا اور خاکسار
تحریک سے وابستہ ہوگئے۔ وہ حق گوئی و بے باکی اور کھری بات بولنے میں کبھی
پیچھے نہیں رہے۔شنواری صاحب کا کہنا ہے کہ فطرت قریشی کی خواہش تھی کہ
کوھاٹ سے کوئی اخبار شائع ہو ، چنانچہ 1992میں اپنے دوست حاجی عبدا لعزیز
مرحوم کے ساتھ مل کر ہفت روزہ ’’عقاب‘‘ کا اجراء کیا۔ عقاب ان کے خوابوں کی
تعبیر تھالہٰذا وہ دل و جان سے مضامین لکھنے کے علاوہ عقاب کے صفحات کی
کتابت بھی خود ہی کیا کرتے تھے۔ اس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ فطرت
اپنے مقصد میں کس قدر ڈوبے ہوئے تھے۔ علم و ادب ، صحافت اور صاف گوئی کی
سیاست کا یہ شہسوار 24نومبر2016کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس دار فانی سے کوچ
کر گیا۔ فطرت کے بارے میں تفصیل شنواری صاحب کے مضمون سے حاصل کی جاسکتی ہے
یہ مضمون کوھاٹ لائن پر موجود ہے۔
برہان الدین حسن: 28نومبر2016
برہان الدین حسن کا تعلق برقی میڈیا سے رہا ۔ وہ پاکستان ٹیلی ویژن کے سابق
جنرل منیجر رہے ۔وہاں سے ریٹائر ہونے کے بعد جیو نیوز میں ڈائریکٹر کی حیثت
سے خدمات انجام دیں۔ 28نومبر 2016کو اس جہان فانی سے رحلت کی۔
دسمبر 2016
رؤف رضا: 2دسمبر2016
اردو کے شاعر رؤف رضا اس دارِ فانی کو 2 دسمبر2016 کو الوداع کہہ گئے۔ وہ
1956میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا ایک خوبصورت شعر
خسارے جتنے ہوئے ہیں یہ جاگنے سے ہوئے
سو ہر طرف صدا ہے کہ جا کے سو جاؤ
شبیر بیدار بھٹو
شبیر بیدار بھٹو ایک صحافی تھے اور سندھ کے شہر سکھر سے تعلق رکھتے تھے۔
بیکل اتساہی: 3دسمبر2016
بیکل اتساہی اردو کے معروف شاعر تھے ان کے انتقال کی خبر 3دسمبرکو نیٹ پر
آن لائن ہوئی، عقیل جعفری نے ان کا یہ شعر بھی تحریر کیا ہے
بیچ سڑک اک لا ش پڑی تھی اور یہ لکھا تھا
بھوک میں زہر یلی روٹی بھی میٹھی لگتی ہے
توقیر کمالوی
نوحہ خواہ شاعر توقیر کمالوی نے داعی اجل کو لبیک کہا ۔
جنید جمشید:7دسمبر 2016
7دسمبر 2016بدھ کی شام افسوس ناک ، تکلیف دہ ، دل ہلاک و جگر خراش، ذہن
باردہ، سینہ نگارخبر تمام ہی ٹی وی چینل سے سننے کو ملی، ہر چینل پاکستان
کے معروف نعت خواہ، مبلغ اور ٹی وی شو کرنے والے جنید جمشید کے لیے یہ خبر
سنا رہے تھے کہ وہ ایک فضائی حادثے میں چل بسے ۔ عجیب دل خراش کیفیت تھی ،
بار بار چینل تبدیل کیے کہ شاید کوئی غلط فہمی ہو، سہو ہوگیا ہو لیکن جو
چینل لگایا اس نے بریکنگ نیوز کے طور پر یہی بتایا کہ جنید جمشید اپنی شریک
حیات ’نیہا ‘کے ہمراہ تبلیغ پر چترال گئے ہوئے تھے واپس بذریعہ ہوائی جہاز
چترال سے اسلام آباد آرہے تھے ۔ ابھی دس منٹ کا سفر باقی تھا اسلام آباد کے
ائر پورٹ پر اترنا نصیب نہ ہوا ،پی آئی اے کا جہاز PK661حویلیاں کے قریب
گاؤ پیپلیاں کے پہاڑوں پر گر کر تباہ ہوگیا اور اس میں سوار مسافر اﷲ کو
پیارے ہوگئے۔ یقین نہیں آرہا تھا ، عجب بیقراری اور تاسف کی کیفیت تاری تھی،
جنید جمشید کی زندگی کی کہانی جو ایک گلوکار کی حیثیت سے شروع ہوئی تھی ،
اسی حیثیت سے اس نے شہرت حاصل کی پھر اﷲ نے ہدایت دی اور وہ موسیقی سے
تبلیغ کی جانب آگیا اور اس کی زندگی بالکل ہی بدل گئی۔ پرہیز گاری کے ساتھ
ساتھ اس نے نعتیں پڑھنے کا سلسلہ شروع کیا اور اس میں وہ شہرت کی بلندیوں
پر پہنچ گیا۔ ایک فلم تھی جو مسلسل چلے جارہی تھی، ٹی وی چینل پر اس کے
بارے میں جو کچھ دکھایا جارہا تھا وہ ایک ایک کر کے سامنے آتا گیا۔ یہ ہے
انسان کی زندگی کی اصل حقیقت۔ تدفین 15دسمبر ان کی اپنی خواہش کے مطابق
دارالعلوم کراچی کورنگی کے قبرستارن میں ہوئی۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
اے فرشتہ اجل ! کیا خوب تیری پسند ہے
پھول تو نے وہ چنا جو گلشن کو ویران کر گیا
جنید جمشید پر راقم کا تفصیلی مضمون ہماری ویب پر آن لائن دیکھا جاسکتا ہے:
https://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=84786
سیدانور قدوائی:23دسمبر2016
صحافتی دنیا کے سینئر صحافی، کالم نگار، لاہور پریس کلب کے لائف رکن ،
روزنامہ جنگ کے ایڈیٹوریل انچارچ سید انور قدوائی کا انتقال دل کا دورہ
پڑھنے کے باعث ہوا، ان کی عمر 72سال تھی۔ انہوں نے23دسمبر 2016کو داعی اجل
کو لبیک کہا۔ صحافتی پیشے کی ابتدا روزنامہ نوائے وقت لاہور سے کی طویل
جدوجہد کے بعد وہ رپورٹنگ سے ایڈیٹر رپورٹنگ اور کالم نگاری تک پہنچے ،
1996میں وہ روزنامہ جنگ سے وابستہ ہوگئے۔ اپنے انتقال تک وہ اسی ادارے سے
منسلک تھے۔ میاں نواز شریف پر ایک کتاب کے بھی وہ خالق ہیں۔انور قدوائی نے
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی ہوئی تھی۔ وہ ایک
سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی والد سید امیر الدین قدوائی غیر
منقسم ہندوستان میں وزیر رہے تھے۔کالم نگار سکندر حمید لودھی نے اپنے کالم
’شاہ جی بھی چلے گئے‘ میں لکھا ہے کہ ’وہ بنیادی طور پر ایک پکے صحافی تھے
اور سب سے شفقت سے پیش آنا ان کا معمول تھا‘۔ سید انور قدوائی کی تدفین
ہفتہ 24دسمبر کو لاہور میں ہوئی۔ |