مشرقِ وسطیٰ کا موجودہ سیاسی نقشہ یورپی
طاقتوں کی اسی بندربانٹ کا نتیجہ ہے اور آج مشرقِ وسطیٰ جن مسائل سے دوچار
ہے ان سب کے تا نے بانے یورپی طاقتوں کی چالوں سے ملتے ہیں۔ان میں مسئلہ
فلسطین بھی شامل ہے جس کی وجہ سے 1948 سے لے کر اب تک عربوں اور اسرائیل کے
درمیان چاربڑی جنگیں ہوچکی ہیں اور چھوٹے بڑے تصادم اور جھڑپیں اب بھی جاری
ہیں جن میں اب تک ہزاروں فلسطینی شہری جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں،
اسرائیل کے ہوائی اور زمینی حملوں میں شہید ہوچکے ہیں۔ ابھی عرب،اسرائیل
تنازعہ سے مشرقِ وسطیٰ باہر نہیں نکلا تھا کہ خطے کو مزید غیرمستحکم کرنے
کے لئے ’’داعش‘‘ یا،آئی ایس ائی ایس نے سراْٹھا لیا۔روسی ذرائع کے مطابق
عراق کے وسیع علاقوں سمیت جن میں تیل پیدا کرنے والے علاقے بھی شامل ہیں ۔اسکے
علاوہ ’’داعش نے شام کے بھی وسیع علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے مشرقی وسطیٰ
میں تین دہائیوں سے القاعدہ ٹی ٹی پی, عرب بہاریا مغربی ہمایت یافتہ کرد
علیحدگی پسند TAKاورPKK,لبنانی حزب اﷲ انتہا پسند عراقی شیعہ مسلح تھے
صہیونی حمایت یافتہ حوثیوں کے بدترین فتنوں سے کیا جاسکتا ہے’داعش‘مشرقِ
وسطیٰ کے لئے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے امن کے لئے خطرے کی علامت بن چکی
ہے کیونکہ اس کے ایجنڈے میں مشرقِ وسطیٰ سے باہر بھی کئی علاقوں میں اپنی
’’خلافت‘‘قائم کرنے کے منصوبے شامل ہیں۔ اپنے اس ایجنڈے پر عمل درآمد کے
لئے’’داعش‘‘نے دہشت گردی کا راستہ اپنایا ہے۔ یہ تمام کی تمام انتہا پسند
تنظیموں کا ٹارگٹ پاکستان سے لیکر سعودی عرب اور شام سے لیکر لیبیا تک مسلم
ممالک اور ان کی حکومتیں ہیں دسمبر 2010میں تیونس سے اٹھنے والے فتنے عرب
بہاریا نے جنوری میں مصر کو آپنی لپیٹ میں لے لیا تب جاکر صہیونی نسل پرست
اسرائیل کو اندیشہ لاحق ہوا کہ اس کے خطرات جلد اسرائیل میں پہنچ سکتے ہیں
کیونکہ انہی دنوں اسرائیل کے اندر بنیادی حقوق کے حوالے سے ہلکے پھلکے
مظاہرے شروع ہوچکے تھے اور یہ خطرات بڑھتے چلے جارہے تھے کہ کل کو کہیں اس
سرزمینِ کے اصلی حقدار یعنی فلسطینیوں کی تحریک کہیں شدت اختیار نہ کرلے اس
سے ناجائز ریاست کی انتہاپسند قیادت اور اس کے مربیوں یعنی اہل مغرب و
امریکہ کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور ان کو آپنے سامنے عبرتناک انجام نظر ارہا
تھا تب اس ناجائز ریاست کے سرپرستوں نے بنیادی حقوق کے حصول کے نام پر خطے
میں انتہا پسند فکر کو پروان چڑھایا جس کے نتیجے میں جلد مشرق وسطیٰ میں
ہولناک جنگوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ
ستمبر 1990 میں عراق اور ایران کے درمیان ہونے والی جنگ سے مشرق وسطیٰ میں
حقیقی معنوں میں فتنوں کا آغاز ہوا جس کو بند کروانے کے لئے صدر ضیاء ا لحق
نے سرتوڑ کوششیں کیں ایرانی حکومت کی ہٹ دھرمیوں کی وجہ سے کامیاب نہ ہوئیں
یعنی 1983 میں ایران نے اقوام متحدہ کی ڈرامائی طور پر بات مانتے ہوئے جنگ
بندی کو قبول کرلیا یعنی جب جنگ بند ہوئی اس وقت دونوں جانب سے ایک ملین کے
قریب لوگ اور کھربوں ڈالر خمینی کے انتہا پسندانہ رویے کی نظر ہوچکے تھے۔
اسی طرح عراق کا امریکی دھوکے میں آکر کویت پر حملہ جیسی بڑی غلطی کا
ارتکاب کر بیٹھنا اور جس کی وجہ سے امریکہ کو بہانہ مل گیا اور پھر امریکی
زیرقیادت دنیا نے دیکھا کہ امریکہ نے عراق میں کشت خون کے ڈھیر لگا دیے
عراقی شہریوں کو بے دردی اور وحشیانہ انداز میں قتل کیا گیا ایک اندازے کے
مطابق دس لاکھ عراقی شہریوں کو صہیونیوں کے مکروہ اعزائم کا شکار بنے جو
مشرقی وسطیٰ کا سب سے بڑا ہولوکاسٹ تھااور یہی کام آج آپنی قوم کا سفاق
قاتل بشارالاسد آپنے بے گناہ نہتے شہریوں کے خلاف کررہاہے صدر بشارالاسد کی
حکومت اور باغیوں کے درمیان خون ریز جھڑپوں کے نتیجے میں ایک اندازے کے
مطابق ڈھائی لاکھ افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور ملک چھوڑ کر جو مقامی باشندے
ہمسایہ ممالک یا اْن سے آگے دیگر ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے اْن کی
تعداد 90 لاکھ کے قریب ہے۔ اسی طرح ایران کی مکمل حمایت اور ملی بھگت سے
یمن میں حوثی باغیوں کا آپنی حکومت کے خلاف اٹھنا اور شیعہ سنی فسادات
بناکر دنیا کے سامنے پیش کرنا بہت بڑی سازش ہے ایک اندازے کے مطابق اصلی
ٹارگٹ سعودی عرب ہے جس کے اثرات آج دیکھ سکتے ہیں مکہ مکرمہ پر حملہ حوثیوں
کی سازشیں کا نتیجہ ہے مکہ مکرمہ پر حملہ ڈیرھ عرب مسلمانوں پر حملہ ہے اس
سے ہمیں سمجھ جانا چاہیے کہ مسلمانوں کے خلاف کیا اقدامات کیے جارہے ہیں
گریٹر اسرائیل بنانے کے لیے یہ سب سازشوں کو پروان چڑھایا جارہا ہے آج
حوثیوں کی حمایت ایران کررہا ہے اور ایران کا امریکہ ساتھ د ے رہا ہے اور
امریکہ کے پیچھے اسرائیلی کی دجالی سازشیں ہیں اسرائیل امریکہ کے ہاتھوں یہ
خون ریزی بازار گرم کروارہا ہے جس تنظیم یا علاقوں سے اٹھنے والی تحریکوں
نے حکومت سے ٹکرلی ہے نقصان تحریکوں کا ہوا ہے ملک کا نقصان تو ہوا ہی ہے
اس کا فائدہ دشمن نے اٹھایا ہے ۔اسرائیل مشرق وسطیٰ کے ممالک کے ٹکڑ ے کرنے
کی اپنی دیر ینہ پالیسی پر رواں دواں ہے اور وہ شام و عراق غرض ہر کسی ملک
کو تقسیم کر نا چاہتا ہے تاکہ اسکی با لا دستی قائم رہ سکے ۔ اسرائیل مشرق
وسطی ٰ میں اپنی ایک نسل پرست ریا ست کی تشکیل چا ہتا ہے اور اسی لئے وہ
خطے کے ممالک میں افرا تفری ، عدم استحکام اور بد امنی پھیلا نے والے گر
ہوں کی مالی و اسلحی امدا د میں مصروف عمل ہے آج بشارالاسد کی روس کے علاوہ
ایران اور اس کی لے پالک حزب اﷲ کو عسکری اور مذہبی حمایت حاصل ہے دہشتگرد
اور دہشتگردی کے اس بودے اور بدنام زمانہ جواز کی آڑ میں درحقیقت فتنہ گر
یہودی ساری دنیا اور خاص کر امت مسلمہ پر اپنا گریٹر اسرائیلی منصوبہ مسلط
کرنے یعنی اپنی دجالی سلطنت کی راہ ہموار کررہے ہیں 9/11کے موقع پر جارج بش
کے منہ سے نکلنے والے لفظ CRUSADE مخظ اتفاق نہیں تھا بلکہ گزشتہ تین
دہائیوں سے مشرق وسطیٰ میں جس طرح خون مسلم کے ساتھ ہولی کھیلی جارہی ہے جو
امت مسلمہ کے لئے واضع سنگنل تھا کہ تمام کی تمام اسلام دشمن طاقتیں خفیہ
طریقے سے اپنے مکمل سامان کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف میدان میں آچکی ہیں
تاکہ مسلمان آنے والے جنگوں اور ان خالات کے لئے تیاری کرلیں لیکن مسلمان
سمجھ نہیں پارہے اور اس کا نقصان اٹھا رہے ہیں میں سمجھتا ہوں ۔ہمیں اس
معاملے پر سنجیدگی اختیار کرنی ہوگی۔ ہمیں ایک اتحاد کی ضرورت ہے ۔جو
34اسلامی ملکوں کی فوج کا اتحاد دسمبر 2015میں ہوا ۔ یہ ذمہ داری فوجوں کی
ہی نہیں بلکہ ہر مسلمان کی ہونی چاہیے۔ امت مسلمہ کا اتحاد ہونا چاہیے۔یہ
جنگ اسلام سے کے خلاف لڑی جارہی ہے اس میں دفاع اسلام کا ایک پلیٹ فارم
بنانا ہوگا ۔اور اقوام متحدہ میں قانون پاس کروانا ہوگا ا سلام کے خلاف کسی
گئی ہر قسم کی سازش اور تخریب کاری کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا ۔ مجھے
یاد ہے سعودی وزیردفاع محمد بن سلمان نے کہا اسلامی فوجی اتحاد داعش ہی
نہیں ہر اس دہشتگرد کا مقابلہ کرے گا جو امت مسلمہ کے مقابل آئے گا۔ اس
اتحاد کا مقصد عراق، شام، لیبیا، مصر اور افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف
کوششوں کو مربوط بنانا ہے۔تو ہمیں28مئی 2014 اوبامہ کے اس خطاب کو نظرانداز
نہیں کرنا چاہیے جو اس نے ARMY BLACK KNIGHTS نامی اکیڈمی میں ہزاروں کیڈٹس
سے کہا تھا ہم افغانستان سے واپسی کے بعد مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں بڑھتے
ہوئے خطرات پر توجہ دیں گئے موصل اور لیبیا پر قبضے کے بعد یہ عقدہ کھلا کہ
مشرقی وسطیٰ میں امریکی انتہا پسندکن خطرات کا سامنا ہے بات واضع ہے کہ
اگلا میدان مشرقی وسطیٰ ہوگا جس میں بیس کیمپ سرزمین شام ہوگی لیکن نشانے
پر مشرق وسطیٰ ہوگا یہ اشارے اور کنائے وہی سمجھ سکتا ہے جو جنگو کی
سٹریٹجی پر گہرا عبور رکھتا ہو. |