خفیہ اداروں کی رپورٹ مہنگائی کا سیلاب
حکومت کو بہا لے جانے کا بہانہ ثابت ہوگا..؟
کیا واقعی!اَب حکومت کی باری ہے جس کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ملک میں
معمول سے زیادہ ہونے والی بارشوں کے سبب آنے والے تباہ کن سیلاب کے خاتمے
کے بعد اگر ملک میں مہنگائی کے سیلاب کو نہ روکا گیا تو کہیں ایسا نہ
ہوجائے کہ اِس مرتبہ مہنگائی کا سیلاب حکومت کو بہا لے جانے کا ایک اچھا
بہانہ ثابت نہ ہو جائے بالفرض اگر ایسا ہوگیا تو ملک کے سترہ کروڑ عوام کی
وہ دلی آرزو پوری ہوجائے گی جس کی عوام گزشتہ دو سالوں سے شدت سے خواہشمند
ہیں۔
ایک خبر کے مطابق ملک کے خفیہ تفتیشی اداروں نے ایک بار پھر ایک ایسی رپورٹ
مرتب کر کے ایوانِ صدراور پرائم منسٹر ہاؤس روانہ کردی ہے جیسی ایک رپورٹ
یہ کچھ ماہ قبل بھی تیار کر کے ملک کے اِن دونوں اہم ترین متعلقہ شعبوں کو
دے چکے ہیں مگر افسوس کے اِن کی اُس رپورٹ پر نہ تو پہلے سنجیدگی سے کوئی
نوٹس لیا گیا اور ابھی یہی خیال کیا جارہا ہے کہ اِس مرتبہ بھی شائد اِن
اداروں کی اِس دوسری رپورٹ پر بھی کوئی اہم قدم نہ اٹھایا جائے۔
اگرچہ یہ حقیقیت ہے کہ ملک کے خفیہ تفتیشی اداروں کی تیار کردہ یہ دونوں
رپورٹیں خالصتاً ملک اور قوم کے بہتر مفادات کے ہی حق میں ہیں اور اِن
رپورٹوں میں ہمارے اداروں نے حکمرانوں، وزرا اور سیاستدانوں کو ملک میں
آئندہ آنے والے خطرات اور اِن کی بنیادی وجوہات کے حوالے سے جس انداز سے
آگاہ کیا ہے ایک لحاظ سے ہمارے خفیہ تفتیشی اداروں کی یہ کارکردگی نہ صرف
قابلِ غور ہی نہیں بلکہ قابلِ ستائش اور لائق احترام بھی ہے۔ بشرطیکہ ہمارے
موجودہ حکمران اِس رپورٹ کو سمجھیں اور آنے والے خطرات کا مقابلہ کرنے کے
لئے وقت سے پہلے اپنی تیاریوں میں لگ جائیں اور اپنی اُن غلطیوں اور
کوتاہیوں کا ازالہ کریں جو اِن سے سرزد ہورہی ہیں۔
کیونکہ ملک کے خفیہ تفتیشی اداروں نے اپنی مرتب کردہ رپورٹ میں واضح طور پر
حکومت کو وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت ملک میں فوری طور پر آٹا، چینی،
دالیں، گھی، دودھ، جان بچانے والی چند ادویات سمیت صرف 18ضروری اشیا کی
قیمتوں پر فوری قابو پاکر غریب عوام کی دسترس میں لائے ورنہ صُورت حال اور
سیلاب حکومت کو بہالے جائے گا۔ اپنی اِسی رپورٹ میں اِن اداروں نے حکومت کو
مشورہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ یہ کام صرف چھ وزرا پر مشتمل ٹاسک فورس
ہی کرسکتی ہے اور ملک کو بچا سکتی ہے اور اِس کے ساتھ ہی ملک کے خفیہ
تفتیشی اداروں نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی حکومت کو باور کراتے ہوئے کہا ہے
کہ صوبائی اور وفاقی 250 کے قریب وزرا اور مشیر ملک کی موجودہ سنگینی سے
قطعی طور پر لاتعلق نظر آرہے ہیں صورت حال یہاں تک خراب ہوچکی ہے کہ حکمراں
جماعت کے چند وزرا اور مشیر بھی عوامی ردِعمل کا سامنا نہیں کر پا رہے ہیں
اور اُنہوں نے بھی کھلم کھلا حکومت کے خلاف بغاوتی بیانات کا سلسلہ شروع کر
رکھا ہے اور اپنی اِس وارننگ رپورٹ میں پاکستانی خفیہ تفتیشی اداروں نے
تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ سیلاب کے بعد صوبہ سندھ میں جس
طرح صوبائی حکومت نے چند بیانات دیئے ہیں اور چند اقدامات اُٹھائے ہیں وہ
بھی حکومت کو گرانے کے مترادف ہے۔
اِس ساری صُورت حال کے منظر اور پس منظر میں اَب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے
موجودہ حکمران، وزرا اور سیاستدان اپنے ہی ملک کے خفیہ تفتیشی اداروں کی
مرتب کردہ اِس رپورٹ کو کس انداز سے لیتے ہیں اور آنے والے وقتوں میں بُرے
حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے خود کو کتنا تیار کرتے ہیں۔
بہرحال! اُدھر ایک اندازے کے مطابق 28جولائی سے ملک میں آنے والا اپنی
نوعیت کا انتہائی تباہ کُن سیلاب ملک کے طول و ارض میں پاکستان کی تاریخ کی
کئی عبرت ناک داستانیں رقم کرتا ہوا سندھ سے گزر رہا ہے جس سے متعلق یہ
خیال کیا جارہا ہے کہ اِس کا اللہ اللہ کر کے اَب کچھ زور ٹوٹ رہا ہے اور
اُمید کی جارہی ہے کہ آئندہ چند دنوں میں اِس کا مکمل طور پر ملک سے خاتمہ
بھی یقینی طور پر ہوہی جائے گا مگر ملک میں آنے والے مہنگائی کے اُس سیلاب
کا بھلا کیا......؟کیا جائے گا جس نے گزشتہ کئی سالوں سے ملک میں اپنی
تباہی مچا رکھی ہے اِس کا زور آخر کب ٹوٹے گا....؟اور اِس سے پریشان حال
عوام کو کب نجات ملے گی .....؟؟اِن سوالات اور اِس سے متعلق ایسے اور بہت
سے جنم لینے والے سوالات کا آخر کون جواب دے گا.....؟یہاں میرا خیال تو یہ
ہے کہ اِن سوالات کے جوابات سے متعلق شائد نہ تو اربابِ اقتدار کو ہی کچھ
معلوم ہے اور نہ ہی اربابِ اختیار ہی اِس کے خاتمے کے لئے کچھ کرنے کی
پوزیشن میں نظر آتے ہیں کیونکہ اِس بے قابو مہنگائی کے سیلاب کو روکنا اور
اِس کا رخ موڑنا اِن سب کے بس میں بھی نہیں رہا اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے
ملک میں مہنگائی کا جو سیلاب گزشتہ کئی سالوں سے اپنی تباہی پھیلا رہا ہے
ابھی تک اِس کا زور نہیں ٹوٹ سکا ہے اور اِس پر سونے پہ سہاگہ یہ کہ حکومت
نے مون سون کی بارشوں کے بعد ملک میں آنے والے سیلاب کی موجودگی ہی میں اِس
سے مرتی کٹتی عوام پر اپنے بیجا اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے مہنگائی کے
ایک اور سیلاب کا زور ڈیزل اور مٹی کا تیل مہنگا کر کے عوام کے جانب کر کے
اِن کے ناتواں کاندھوں اور لاغر جسموں سے اِسے ٹکرانے کے لئے آزاد چھوڑ دیا
ہے اور وہ سارے بند توڑ ڈالے ہیں جو مہنگائی کے سیلاب کو روکنے کے لئے
بنائے گئے تھے اور اِس طرح وہ عوام جو سیلابی پانی کی تباہی سے بچ گئے تھے
اَب وہ ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کے بعد ملک میں
مہنگائی کے آنے والے اُس نئے سیلاب سے مر جائیں گے جس کا راستہ ہمارے عیار
اور مکار اِن حکمرانوں نے ڈیزل اور مٹی کا تیل مہنگا کر کے ہموار کردیا ہے
اور یوں ہمارے حکمران،وزرا، سیاستدان اور بیوروکریٹس آخر کب تک قومی خزانے
کا منہ بھرنے کے چکر میں عوام کو بے وقوف بناتے رہیں گے اور عوام کے خون
پسینے سے جمع کی گئی رقم سے خود قومی خزانے میں جمع دولت اپنے دونوں ہاتھوں
سے لوٹ لوٹ کر اپنی عیاشیاں کرتے رہیں گے اور بیکس و مجبورعوام یوں ہی بے
بسی کی تصویر بنے مہنگائی کے سیلاب کے ریلے میں بھوک و افلاس کے ہاتھوں
مجبور ہوکر بہتے اور مرتے رہیں گے.....؟
یہ ایک قومی المیہ ہے جس کے آگے بند باندھنے کے لئے ایم کیو ایم کے قائد
الطاف حسین نے عندیہ دے دیا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب قوم حکمرانوں،
جاگیرداروں، چودھریوں، سرمایہ داروں اور ملک کے کرپٹ سیاستدانوں سے اپنے
غضب شدہ حقوق چھیننے کے لئے انقلاب برپا کردے گی۔ اور اِسی کے ساتھ ہی میں
آج کے موضوع کے لحاظ سے اپنے کالم کا اختتام ملک کے معروف شاعر بشیر فاروق
کے اِن اشعار کے ساتھ کرنا چاہوں گا جو اُنہوں نے بہت پہلے ہی شائد عوام کی
اِس حالت زار کے حوالے سے حکمرانوں، وزرا اور سیاستدانوں کے لئے کہے تھے :-
صرف تفریق ہے غربت کی فراوانی ہے یوں
تو کہنے کو میرے ملک کا حال اچھا ہے
قوم کو وعدوں سے ٹرخاؤ یہ چال اچھی ہے بھوک کو
باتوں سے بہلاؤ تو خیال اچھا ہے
*****
اپنی راتوں میں کوئی کہکشاں ہے کہ نہیں
اپنی صُبحوں میں بھی خورشیدِ جہاں ہے کہ نہیں
جن کے ووٹوں نے دلائی ہے وزارت تم کو
کچھ خیال اُن کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں
*****
ملک و ملت کو قوم کو اپنی
ظاہری عزّوشان نے مارا
اُن کو حرص و ہوس نے اور ہم کو روٹی، کپڑے،
مکان نے مارا |