معاشی دہشتگردملک کا اثاثہ ہیں!!!(آخری حصہ)

ویسے تو کرپشن کے خلاف آواز لگائی گئی تو جمہوریت کو خطرہ تھا یہاں ملک ٹوٹنے جا رہا تھا لیکن بات ذاتی مفاد پرستی کی تھی تو اس دفعہ حکومت نے اپنی آستین بچانے کیلئے یہ ہتھکنڈے بھی استعمال کرنے سے گریز نہ کیا ۔2014 کے دھرنوں کی طرح پیپلز پارٹی ہی دوبارہ کام آئی اور عدالت عالیہ نے کھانے پر مدعو کر کے پی ٹی آئی کو اعتماد میں لیتے ہوئے کہا کہ وہ پاناما کے مسئلے کو ترجیحی بنیادی پر حل کریں گے اور احتساب ضرور ہو گا جس پر دھرنا ختم کر دیا گیا اور پھر حکومت اور عسکری قیادتوں کے مابین ایک نہایت اہم اور حساس اجلاس منعقد ہوتا ہے جس میں وزیر اطلاعات پرویز رشید بھی شمولیت کرتے ہیں وہاں سے ایک نیا سکینڈل نیوز گیٹ کے نام سے پیدا ہوتا ہے جسکی وجہ سے حکومت کو کڑے امتحان اور دباؤ سے گزرنا پڑتا ہے اور وزیر اطلاعات پرویز رشید کو معزول کر دیا جاتا ہے جس پر پرویز رشید سے تحقیقات شروع کر دی جاتیں ہیں اسی دورانیے میں مزاج برہم تو حالات برہم لائن آف کنٹرول پر کشیدگی اتنی زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ ہمارے کئی نوجوان شہید ہوتے ہیں اورسرحد کے اس پار بھارتی جوان ہم سے دو گنا زیاد ہ جہنم واصل ہوتے ہیں ۔کراچی میں وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے کاموں میں رکاوٹ پڑنے لگتی ہے تو گورنر سندھ کو تبدیل کر کے ایک ایسا گورنر بٹھایا جاتا ہے جو ابھی بھی زیر علاج ہے کہ جیسے ان کی آخری خواہش ہو یا وصیت میں لکھا ہو کہ مرنے سے پہلے مجھے ایک دفعہ گورنر سندھ ضرور بنایا جائے ان کے گورنر بننے کے بعد وزیر اعلیٰ سندھ کیلئے تمام راستے صاف ہو جاتے ہیں اور رینجرز کے کاموں میں مداخلت پہلے سے کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ اس دورانیے میں ایک طرف جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت پوری ہونے والی ہوتی ہے تو دوسری طرف چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت ملازمت پوری ہونے کا وقت قریب ہوتا ہے اب پیپلز پارٹی بھی پاکستان بھر میں دوبار ہ متحرک نظر آتی ہے کہ جب بلاول بھٹو زرداری پنجاب میں تشریف لاتے ہیں اور تمام پارٹی ورکرز کو دوبارہ اکٹھا کرنے کی تگ و دو کرتے ہیں جبکہ کے پی کے میں بھی ن لیگ کے صدر انجینئر امیر مقام حرکت میں دکھائی دیتے ہیں اور فنڈز وغیرہ کے ذریعے علاقے میں ترقیاتی کاموں پر خرچ کرتے دکھائی دیتے ہیں پیپلز پارٹی قمرالزمان کائرہ کو پنجاب میں صدر منتخب کر دیتی ہے اور اپنی سیاسی سرگرمیاں تیز کر دیتی ہے جسیے یہ سگنل مل رہا ہو کہ 2017 میں الیکشن منعقد ہونے جا رہے ہوں اس تمام سیاسی دنگل میں یوں لگتا ہے جیسے سیاسی دنگل پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان نہیں بلکہ مریم نواز اور بلاول بھٹو کے درمیان ہونے والا ہے کیونکہ مریم نواز اپنا سیاسی مستقبل بنانے میں کافی حد تک کامیاب ہوجاتیں ہیں جنرل راحیل شریف کی ریٹائر منٹ سے چند دن قبل جب پنجاب میں کومبنگ آپریشن کی مدد سے بہت سے نواز لیگ کے نوازے ہوئے لوگ پکڑے جاتے ہیں جسکی وجہ سے میاں صاحب کا مزاج بہت خراب نظر آتا ہے تو لائن آف کنٹرول پر ایک بار پھر سے جنگ کی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے جو مسلسل کافی دن تک چلتی رہتی ہے اور درجنوں بے گنا ہ معصوم شہری گولہ باری اور گولیوں کی زد میں آ کر شہید ہو جاتے ہیں کیونکہ پاناما کیس کی سماعت بھی آئے رو ز چلتی رہتی ہے اور میاں صاحب کو عدالت میں حاضر ہو کر احتساب دینے کیلئے عدالتی حکم جاری ہو تا ہے جس کیلئے وہ ایک قطری شہزادے کا خط عدالت کے منہ پر مار کر کیس کو ختم کروانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن سیانا کوا اپنا سر نوچے قطری شہزادے کے اس خط کی وجہ سے اور جو بیانات اولاد نواز شریف عدالت میں ریکارڈ کرواتی ہے اور جو خطاب میاں صاحب قوم سے کر چکے ہوتے ہیں ان میں تضاد ہوتا ہے لیکن اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے پیروی ٹھیک طرح سے نہیں ہونا تحریک انصاف کے کردار اور بیانات پر ایک سوالیہ نشان ہے !انہی دنوں میں راحیل شریف کی مدت ملازمت پوری ہو جاتی ہے اور وہ ریٹائرمنٹ لے کر خیرباد کہہ جاتے ہیں وہیں مدت ملازمت انور ظہیر جمالی کی بھی پوری ہو جاتی ہے اب ان دنوں نشستوں پر ایسے لوگ چاہئیں جو میاں صاحب کو کچھ سکون اور سیاست کرنے دیں اس ساڈے بندے کی تلاش میں ایک طرف تو قمر جاوید باجوہ صاحب کو تعینات کیا جاتا ہے تو دوسری طرف جسٹس ثاقب نثار کو چیف جسٹس آف پاکستان کی پوسٹ پر تعینات کر دیا جاتا ہے جسٹس ثاقب نثار اس پوسٹ تک کس طرح پہنچے اور ان پر نواز لیگ کی کیا عنایات ہیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ جنرل راحیل شریف کے جاتے ہی اچانک لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کی صورتحال ختم ہو جاتی ہے کیونکہ میاں صاحب کا مزاج قدرے بہتر نظر آتا ہے دونوں خاص نشستوں پر ساڈا بندہ آ جاتا ہے عین اس وقت اچانک پرویز رشید بھی میڈیا پر نظر آنے لگتے ہیں انہیں دنوں میں پنجاب اسمبلی میں گیارہ نئی وزارتیں شامل کی جاتیں ہیں یہ وزارتیں واقعی صوبے میں ترقیاتی کاموں کو مکمل کروانے کیلئے بڑھائی جاتی ہیں یا کسی کونوازنے کیلئے آئندہ مستقبل قریب میں سامنے آ جائے گا لیکن وزیر قانون رانا ثنا ء اﷲ کا بیان کہ اب ہمیں آزادانہ طور پر کام کرنے کا موقع ملا ہے یعنی پہلے یہ لوگ کسی بلا سے ڈرے ہوئے تھے جسکا کوئی وجود نہیں تھا کہ وہ انہیں کھا جائے گی اگر دیکھا جائے تو اس بلا کو آپ احتساب کا نام دے سکتے ہیں جواب جنرل راحیل شریف اور چیف جسٹس آف پاکستان کے جانے کے بعد انکی چھوٹ جانے والی ہو ۔جو بھی ہوا پورے سال میں یا اس دور حکومت میں سوائے خود کو بچانے اور معاشی دہشتگردی کے کوئی قابل تعریف اقدام نہیں کئے! جتنے بھی پراجیکٹ لگائے سارے کرپشن کی نظر ہوگئے اقتصادی راہداری منصوبہ بھی اب اسی طرح کرپشن کی نظر ہوتے محسوس ہو رہا ہے کیونکہ پہلے سوئس بینکوں کے کیس میں این آ ر او ہوا ور وہ عوام کا پیسہ کبھی واپس نہیں آیا اور اب پاناما کیس کا مستقبل بھی سوئس بینکوں کے کیس جیسا نظر آ رہا ہے جو کہ ان معاشی دہشتگردوں کے حوصلے اب اور زیادہ بلند کرے گا سی پیک منصوبہ میں جہاں صرف پاک چین معاہدہ تھا اب وہاں ایران اور ترک بھی شامل ہو چکا ہے جبکہ آئندہ ہو سکتا ہے کہ روس اور امریکہ یا کئی اور ممالک بھی شامل ہو جائیں ۔روس اور پاک فوج کی مشترکہ جنگی مشقیں اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی جس میں روس کامیاب بھی ہو سکتا ہے لیکن پاکستان ایران کی ہٹ دھرمی ، میر جعفر والا کردار اور یہودیوں کی اسلام مخالف پالیسیاں کبھی نہ بھولے جس کی وجہ سے آئندہ پاکستان کو اس گیم چینجر منصوبے میں جہاں معاشی استحکام کا منافع حاصل ہونا تھا وہیں گھاٹا بھی ہو سکتا ہے ۔موجودہ دور حکومت نے معاشی دہشتگردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کی معیشت کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے پاک فوج نے جہاں دہشتگردی کے خلاف آپریشن شروع کیا تھا وہیں معاشی دہشتگردوں کے خلاف بھی گھیر ا تنگ کیا جاتا تو شاید سی پیک منصوبہ کا نتیجہ مثبت نکلتا جیسے پاناما کیس کے متعلق وزیر اعظم کے قوم سے خطاب کو محض سیاسی بیانات گردانے جا رہے تھے اسی طرح قوم سے کئے وعدے بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ ،مہنگائی کا خاتمہ ،تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات پہنچانے کے وعدے بھی سیاسی بیانات سے الگ نظر نہیں آ رہے دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی اور ن لیگ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ نظر آتے ہیں کیونکہ انہوں نے عوام کو عملی طور پر تو کچھ نہیں دیا لیکن مختلف ہتھکنڈوں سے اپنا ووٹ بنک ضرور کھرا رکھے ہوئے ہیں کچھ دن پہلے بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے اقلیت کا دل جیتنے کیلئے ان کے تہوار ہولی میں شریک ہونا اور پھر انہی کی طرح پوجا پاٹ کرنا اور پھر سندھ میں قانون نافذ کر دینا کہ اٹھارہ سال سے قبل کسی ہندو یا غیر مسلم کو اسلام قبول نہیں کروایا جاسکتا یہاں ایک محاورہ با لکل درست نظر آتا ہے کہ ’’جدا ہو دیں سے سیاست تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘ کیونکہ انہیں اقلیت کے علاقے تھر میں بچے قحط سالی سے مرتے رہے اور پیپلز پارٹی کے کانوں سے جونک تک نہیں رینگی سال کے آخر میں آصف علی زرداری دو سال کی خود ساختہ جلا وطنی کاٹ کر ملک لوٹ آتے ہیں اور میڈیا کی توجہ بنانے کیلئے ایک اہم اعلان کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اعلان کیا ہے ؟عوام کو مفاہمت کا اشارہ دیا جاتا ہے !راحیل شریف کے جاتے ہی پرویز مشرف پر سیاسی دباؤ بڑھا دیا جاتا ہے عدالت کی جانب سے انکی ساری جائیداد ضبط کئے جانے کا اور فی الفور گرفتار کرنے کا حکم جاری ہوتا ہے اور وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ سابقہ آرمی چیف نے ان کا نام ای سی ایل میں نکلوانے کیلئے ان کی مدد کی دونوں سیاسی جماعتیں اپنے اپنے دور حکومت میں بدلے کی سیاست کے متحمل ہوتیں ہیں اور اس کا نشانہ ہر دور میں اداروں کے اہلکار ہوتے ہیں ۔ان دونوں جماعتوں کا اگر دو ر حکومت دیکھا جائے تو جمہوریت کے نام کی کوئی شئے نظر نہیں آتی اور دیگر سیاسی پارٹیاں جو آ گے آنے کی کوشش کرتی ہیں تو سوائے مفاد پرستی عوام کے کوئی کام نہیں آتیں اب ایسا دکھائی دیتا ہے کہ جیسے دوسرے ممالک کو اقتصادی راہداری منصوبہ میں شامل ہونے کی دعوتیں دی جارہی ہیں اور ملکی معیشت کو قرضوں پر چلا کر ملک کے چپے چپے کو آئی ایم ایف کے ہاتھوں بیچا جا رہا ہو شاید یہ اقتصادی راہداری منصوبہ ایسٹ انڈیا کمپنی ثابت ہو جیسے وہ تجارت کی غرض سے برصغیر میں آئے تھے اور پھر آہستہ آہستہ برصغیر پر حکومت کرنے لگے ویسے ہی یہ تجارتی منصوبہ خطے میں کوئی نیا کالا پیغام لے آئے گا۔
 
Malik Shafqat ullah
About the Author: Malik Shafqat ullah Read More Articles by Malik Shafqat ullah : 235 Articles with 166821 views Pharmacist, Columnist, National, International And Political Affairs Analyst, Socialist... View More