اسرائیل کے توسیع پسندانی عزائم اور مغرب
(Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed, Karachi)
مغرب کا اسرائیل کو غیر منصفانہ وجود
بخشنابذات خود ایک غیر انسانی اورغیر منصفانہ رویئے کا عکاس ہے۔جس نے عرب
دنیا کے سینے پر ایک ناسور کو جنم دے کر مسلمانوں سے کھلی مخاصمت اور دشمنی
کا واضح ثبوت فراہم کر دیا تھا۔جس دن سے اسرائیل کو وجود بخشا گیا ہے اُسی
دن سے فلسطین کے عوام اسرائیلی ظُلم و بر بریت کا شکار چلی آرہی ہے۔، اقوام
متحدہ اور مغربی دنیا اسرائیل کے ہر غیر انسانی سلوک پر یا تو مجرمانہ
خاموشی کا شکار رہی ہے یا اکثر اس کی حمایت میں کھڑی دیکھی گئی ہے۔ کبھی ان
ممالک نے حقو وسچ کا ساتھ نہیں دیا۔امریکہ اوربرطانیہ اس کے بڑے حامی اور
مدد گار رہے ہیں۔اس کی ہر ایک غلطی کو حمایت سے نوازا ہے۔
دنیا میں اُس وقت حیران کن صورتِ حال پیدا ہوئی جب اقوام متحدہ کی سلامتی
کونسل میں اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف اسرائیل کے خلاف اور
مقبوضہ بیت المقدس میں غیر قانونی یہودی آباد کاری کے خلاف اقوام متحدہ کی
سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی قرار داد کی حمایت کی۔یہ 1979کے بعد
پہلا موقع تھا جب امریکہ نے اسرائیل کے غیر ذمہ دارانہ اقدام پر اپنے ویٹو
کو استعمال نہیں کیا۔اس قرار داد کی حمایت کرنے والوں میں پانچ اقوام متحدہ
کے مستقل اور بڑی طاقتوں کے ارکان جن میں امریکہ،برطانیہ،چین روس اور فرانس
سمیت دنیا کے متعدد ممالک کیساتھ مل کر اسرائیلی توسیع پسندی کے خلاف اقوا
م متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد منظور کرانے پراسرائیلی قیادت کے غم و
غصے کی کوئی انتہا نہ رہی۔جس کے نتیجے میں اسرائیل کے وزیر اعظم بن یامن
نتن یاہو نے کہا ہے کہ اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ یہودی
بستیوں کی تعمیر کے خلاف قرار داد کی محرک اُبامہ انتظامیہ ہی تھی ۔قرار
داد کا متن بھی امریکہ ہی کا تھا۔اور امریکہ ہی نے اس قرار داد کو منظور
کرایا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ وہ اس قرار داد کو تسلیم نہیں کرتے اور انہوں نے
اپنے وزیر خارجہ سے اقوا م متحدہ کے ساتھ روابط پر بھی نظرِ ثانی کرنے کا
حکم دیا ہے۔
اپنا غصہ اتارنے کے لئے نتن یاہو نے دس ممالک کے سفراء کو طلب کیا،جس میں
برطانیہ، چین، روس ،فرانس، مصر ،جاپان،یوروگوئے، اسپین،یوکرائین،اور نیوزی
لینڈ شامل ہیں ان ممالک سے قرار داد کی منظوری پر اسرائیلی وزیر اعظم نے
شدید احتجاج کیا ۔ وزیر اعظم اسرائیل نے امریکہ پر تنقید کرتے ہوئے واضح
کیا ہے کہ ہماری معلومات کے مطابق اس بات میں کسی شک و شبہہ کی گنجائش ہی
نہیں ہے کہ اس قرار داد کی محرک اُبامہ انتظامیہ ہی ہے۔ اور قراداد کا متن
بھی انہی کا بنایا ہوا تھا۔واشنگٹن کی جانب سے قرار داد کو ویٹو نہ کرنے پر
امریکی سفیر کی اسرائیلی وزیر اعظم نے سخت سر زنش کی ۔اُن کا کہنا تھا کہ
ہمارے اور امریکہ کے ما بین اس بات پر اتفاق تھا کہ یہودی آباد کاری کا
معاملہ ایسا نہیں ہے کہ جسے اقوام متحدب کی سلامتی کونسل کی سطح پر حل کیا
جاسکے۔اس ضمن میں امریکہ نے ہمیشہ خاموشی اختیار کئے رکھی تھی۔
سلامتی کونسل میں پاس کی جانے والی قرار داد پر اسرائیلی وزیر اعظم نے ایک
جانب اپنے ہم منصب یوکرینی وزیر اعظم وولودی میر گروکسان کا دورہٗ اسرائیل
غصے میں منسوخ کر دیا ہے تو ایک خبریہ بھی بعض میڈیا کے حولے سے گرمہے کہ
اسرئیلی حکومت نے برطانیہ کے وزیر اعظمکا مجوزہ دورہ بھی منسوخ کر دیا
ہے۔اسرائیلکی ان حرکتوں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل تما م دنیا کو
اور خاص طور پر مغربی دنیا کو اپنا غلام سمجھتا ہے۔اور گمان رکھتا ہے کہ
ساری دنیا ان کی دستِ نگر ہے!اسرائیل کے جارحانہ اور توسیع پسندانہ عزائم
کو ساری دنیامن عن تسلیم کر لے گی
اسرائیلی قابض انتظامی مقبوضہ بیت المقدس میں ہزاروں نئے گھر تعمیر کرنے کا
عزمرکھتی ہے۔سلامتی کونسل کی قرار داد کے جواب میں اسرائیلی حکومت اپنی ہٹ
دھرمیپر قائمرہتے ہئے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں 5600 نئے گھروں کی تعمیر کے
حکمنامے جاری کر رہی ہے۔یہودی بستیوں کی تعمیر کی نگرانی کے سر براہ مقبوضہ
بیت المقدس کے میئر طور جیمان نے اسرائیلی اخبارات کو بتایا ہے کہ ہمیں
اقوام متحدہ کی قرار داد یا کسی کی بھی بالکل پرواہ نہیں ہے۔ ہم کسی کو بھی
نہیں مانتے ہیں جو ہم پر حکمرانی کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔در اصل یہ
اسرائیل ہی ہے جو ساری دنیا پر ہیکل سلیمانی کی حکمرانی کے خو ب جاگتی
آنکھوں بھی دیکھتا رہتا ہے۔
یہودی کبھی عیسایت کے بڑے دشمن تھے مگر اب وہ مسلمانوں کی اینٹ سے اینٹ بجا
دینے کے درپے دکھائی دیتا ہے۔چاہیئے تو یہ تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کے یہ
پیرو کار ساری دنیا کو امن و آشتی کا پیغام دیتے ۔مگر ان میں بھی ایسے
جذباتی لوگوں نے جنم لے لیا ہے جوپیغمبروں کی تعلیمات سے ہٹ کر دنیا کو
جارحیت سے مسخرکر کے ساری دنیا کی حکمرانی کے خواب سے باہر نکلنے کو تیار
ہی نہیں ہیں۔بنی اسرائیل تو اﷲ کی سب سے محبوب قوم رہی ہے مگرمیرے نبیء
محترم کے تشریف لے آنے کے بعد تو اس قوم نے نبیوں کا راستہ تر ک کر کے دنیا
کے تمام لوگوں کوکیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت دینا بند کر دیا ۔تو اﷲ کی پکڑ
نے انہیں ساری دنیا میں راندھے درگاہ کر دیا۔ مگر اسرائیلیوں کے لئے اب بھی
وقت ہے کہ و ہ اپنے گناہوں کی توبہ کرکے ربِ موسیٰ وہارون کے دربار میں
معافی مانگ کر دنیا کو امن و سکون کا گہوارہ بننے میں معاون ہوں۔ کیونکہ ان
کی نا فرمانیوں کے باوجود بھی اﷲ رب العزت نے ان پر احسان فرمایا اور ان کو
دنیا میں زندہ رکھا۔آج مغرب ان کا حامی و ناصر ہونے کے باوجود بھی ان کی
غیر انسانی اور غیر اخلاقی حرکتوں کو اب مزید برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے۔
|
|