اسلامی پاکستان۔۔۔خوشحال پاکستان

اسلامی پاکستان۔۔۔خوشحال پاکستان ‘‘ یعنی پاکستان کی ترقی ،اسلامی نظام کے نفاذ کے بغیر ناممکن ہے۔اس کا منہ بولتا ثبوت ،پاکستان کی 70سالہ تاریخ ہے۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ لادینی،سیکولر نظام کا تسلسل قائم ہے ،صرف پارٹیاں اور چہرے بدل رہے ہیں۔ اسلام کا نظام آئے گا تو اﷲ ہم سے راضی ہوگا اور پھر امتِ مسلمہ بھی ،امتِ واحدہ بن جائیگی۔اسلام نہ صرف ایک مذہب ہے بلکہ ایک دین یعنی مکمل ’’ضابطہ حیات‘‘ ہے۔اس کو دین ودنیااور اسلام و سیاست کے الگ الگ خانوں میں بانٹنا مناسب نہیں اور نہ ہی دنیا اور سیاست سے لاتعلق رہنا روا ہے۔ ایسی مذہبی سوچ کی فوری اصلاح کی ضرورت ہے۔جس طرح دنیا اور سیاست کوترک کرنا مناسب نہیں اسی طرح دین کو دنیا اور اسلام کو سیاست کے تابع کرنا بھی نا مناسب ہے۔لہٰذا دنیا اور سیاست کو دینِ اسلام کے تابع رکھنا مطلوب ہے۔ایسی شکست خورد ہ سوچ کی اصلاح کی بھی اشد ضرورت ہے۔ہمارا ملک پاکستان،اس وقت ہمہ گیر بحرانوں کا شکار ہے۔ یہ تمام بحران حکمرانوں کے خود ساختہ ہیں۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ہی ملک کو جان بوجھ کر ایک مصنوعی آئینی بحران کا شکا ر کر دیا گیا تھا جو ابھی تک جاری ہے۔اس خود ساختہ آئینی بحران کوحل کرنے کی بجائے ، اغیار کی سازش کے تحت تمام حکمران اپنے اپنے ادوار میں،اسے اور گہرا کرتے چلے گئے۔اس طرح پاکستان کو اسکے اسلامی نظریے سے دور رکھنے کیلئے ،نت نئے بحران پیدا کئے جاتے رہے۔99 فیصد مسلمانوں کے ملک میں ،لادینیت اور عریانی وفحاشی کا طوفانِ بدتمیزی اٹھا دیاگیا۔مختلف مسالک کے درمیان فرقہ واریت کو ہوا دی گئی۔علاقائیت اور لسانیت کو ابھارا گیا۔انتخابی عمل میں دولت ،اسلحہ اور دھونس ودھمکی کیساتھ دھاندلی کو سرکاری سرپرستی میں رواج دیا گیا۔باہمی محض الزام تراشیوں سے سیاسست کو ،ایک گالی بنا دیا گیا۔یہ سارے بحران اور یہ ساری سازشیں ، قیامِ پاکستان کے مقاصد ،اسلامی نظام کے نفاذکی منزل کے حصول کو مشکل بنانے کے حربے ہیں اور ہم تمام پاکستانی مسلمانوں کو اپنے اتحاد اور یکجہتی سے ان سازشوں کو ناکام بنا کر ،تمام مصنوعی بحرانوں کا حل نکالنا ہے۔ اتحادِ امت کے کچھ اہم عملی تقاضے ہیں جن کو پورا کرکے ہم اسلام ،پاکستان اور مسلمانوں کیخلاف ہونیوالی ہر سازش کو ناکا م بنا سکتے ہیں۔اسلام ، پاکستان اور مسلمانوں کا دشمن ہمارے باہمی چھوٹے چھوٹے اختلافات کا سہارا لے کر ہی ہمیں نقصان پہنچا رہا ہے ہماری انہی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر وہ ہم پر انتہاپسندی، شدت پسندی اور دہشتگردی کا الزام دھر رہا ہے۔ اسلام امن اور رواداری کا علمبردار دین ہے۔یہ بھائی چارے اور اخوت و محبت کا درس دیتا ہے۔یہ انسانوں کے اندر پہلے ذہنی انقلاب برپا کرتا ہے۔اسکے بعد اتحاد واتفاق کے ساتھ ،پر امن طور پر اسلامی شریعت کے نفاذ کی راہ ہموار کرنے کا سبق دیتا ہے۔یہ کسی مرحلے پر بھی باہمی جنگ وجدال کی اجازت نہیں دیتا۔جو گروہ اسلامی شریعت کے نام پر لوگوں میں نفرتیں پھیلاتے ہیں اور قتل وغارت گری کا بازار گرم کرتے ہیں وہ قوم وملک کے دشمنوں کا کام آسان کرتے ہیں۔ پیارے پاکستان میں منصوبہ بندی کا فقدان پایا جاتا ہے زندگی کے کسی شعبہ میں منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ مثال کے طور پر ہر سال ملک کو کتنے ڈاکٹرز کی ضرورت ہے؟کتنے انجینئرز درکار ہیں ؟ کتنے اساتذہ پرائمری سطح کیلئے ‘ کتنے سیکنڈری ایجوکیشن لیول کیلئے کتنے اوپر ایم اے ، ایم ایس سی لیول کیلئے اور کتنے پی ایچ ڈی لیول کیلئے؟ ملک کی شرح خواندگی کیا ہونی چاہیے ؟ ملک میں بچوں کی پیدائش کی ہر سال کیا شرح درکار ہے وغیرہ۔ تمام ترقی یافتہ ملک منصوبہ بندی سے آگے بڑھے ہیں۔ چین نے آزادی کے بعد اپنے وسائل اور شرح آبادی کو دیکھا تو خاندانی منصوبہ بندی شروع کر کے اس پر سختی سے عمل کروایا۔ ہر جوڑا صرف ایک بچہ پیدا کریگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اب چین نے ہر جوڑے کو دو بچے پیدا کرنے کی سرکاری طور پر اجازت دیدی ہے۔ آج پاکستان جن گھمبیر مسائل کا شکار ہے اْن حالات پر کنٹرول پانے کیلئے کم از کم دو آئینی ترامیم کی فوری اور اشد ضرورت ہے۔ ایک تو آئندہ 25 سال تک ہر جوڑا صرف ایک بچہ پیدا کرے۔ دوسرے ملک بھر کا ہر بچہ خواہ وہ کسی نہایت ہی غریب مسکین کا بچہ ہو کم از کم بی اے تک تعلیم حاصل کرے۔ حکومت غریب اور مسکین خاندانوں کو وظیفہ دے اور تعلیم اشد لازمی قرار دیدی جائے۔ ہر ڈگری ہولڈر کیلئے کوئی نہ کوئی باعزت جاب ہو۔ ملک میں یا بیرون ملک۔ وظیفہ حاصل کرنے کے باوجودجو لوگ اپنے بچے بچیوں کو سکولوں کالجوں میں نہ بھیجیں ان کو عبرتناک سزادی جائے۔ علاوہ ازیں ایک آرڈیننس کی بھی ضرورت ہے کہ ملک بھر میں جتنے بھی کرپٹ سیاستدان ، کرپٹ افسران،سود خور، بھنگ، افیون، چرس اور پوڈر پینے اور استعمال کرنیوالے ، نشہ کرنیوالے ، نشہ آور چیزیں فروخت کرنیوالے ہیں اْن سب کو فوری طور پر گولی مار دی جائے۔ یہ لوگ ملکی اکانومی پر بوجھ ہیں۔ اگر ملک کو گھمبیر مسائل سے نکالنا ہے تو ایسے دلیرانہ اقدام اٹھانے ہونگے۔ انگلش میڈیم سکولوں میں لوگ بچوں کو پڑھاتے ہیں لیکن ان سکولوں کے اساتذہ بچوں کو مار پٹائی کرتے ہیں نہ ہی گالیاں دیتے ہیں تقریباً یہ تمام بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے بہترین ملازمتیں حاصل کر لیتے ہیں۔ مساجد میں پڑھنے والے اور رہائش رکھنے والے بچے بھی ذہنی طور پر کسی سے کم نہیں، لیکن انکی محرومیاں ان کو سکولوں کا لجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے سے روکے ہوئے ہیں۔اگر یہ عزم سب لوگ کر لیں اور ہمارے غریب بھائی بھی ارادہ کر لیں کہ آئندہ ایک یا دو ہی بچے پیدا کرینگے تو موجودہ قتل و غارت کو روکا جا سکتا ہے۔ صرف منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔اگر غریب مسکین خاندانوں کی عزت ِ نفس کا خیال رکھا جائے اور اْن سے تعاون کی اپیل کی جائے تو اﷲ پاک ضرور مدد فرمائیں گے۔
 
Sajjad Ali Shakir
About the Author: Sajjad Ali Shakir Read More Articles by Sajjad Ali Shakir: 132 Articles with 130541 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.