عوامی انقلاب ہی واحد آپشن ہے
(Mian Khalid Jamil, Lahore)
بھٹو صاحب سے سیاسی غلطیاں ہوئیں انہوں نے جاگیرداروں کو عوامی نظریاتی جماعت میں قبول کرلیا۔ وسیع پیمانے پر نیشنلائزیشن کی۔ بیوروکریسی میں سیاسی نوعیت کی اصلاحات کیں جس سے میرٹ اور کارکردگی متاثر ہوئی۔ اپوزیشن کو برداشت نہ کیا۔ ایف ایس ایف تشکیل دی جس کے چیف مسعود محمود سلطانی گواہ بن گئے۔ میرٹ کی بجائے وفاداری کی بناء پر جنرل ضیاء الحق کو آرمی چیف نامزد کیا۔ بھٹو صاحب اور ان کے رفقاء پر کرپشن کا کوئی الزام نہ تھا |
|
پاکستان میں دوسرے بڑے لیڈر بھٹو شہید اگر
آج زندہ ہوتے تو اپنی (5جنوری 1928 - 4اپریل 1979) 89ویں سالگرہ منا رہے
ہوتے وہ بچپن سے ہی بڑے دانشمند اور خود اعتماد تھے۔ 1935ء میں ان کے والد
سرشاہنواز نے گورنر لارڈ برابورن کو اپنے گھر لاڑکانہ دعوت پر بلایا۔ بھٹو
صاحب کے بڑے بھائی امداد علی نے گورنر کی خوبصورتی کی تعریف کی۔ سات سالہ
بھٹو نے کہا ’’گورنر اس لیے خوبصورت ہیں کہ وہ ہمارے خوبصورت ملک کے خون پر
پلتے ہیں‘‘۔ گورنر ششدررہ گیا اور کہنے لگا ’’شاہنواز تمہارا یہ بیٹا ایک
شاعر اور انقلابی ہوگا‘‘۔ بھٹو صاحب نے 1945ء میں قائداعظم کو خط لکھا ’’ہم
آپ پر فخر کرتے ہیں ابھی میں سکول میں ہوں مقدس سرزمین کے حصول کے لیے کام
نہیں کرسکتا مگر وقت آئے گا جب میں پاکستان کے لیے اپنی جان قربان کرنے سے
دریغ نہیں کروں گا‘‘۔ بھٹو صاحب کا پہلا عشق کامیاب رہا۔ ایک فیملی فنکشن
میں انہوں نے نصرت بھٹو کو پہلی بار دیکھا ان کو آئس کریم پیش کی اور پھر
دونوں ایک دوسرے کے ہوگئے۔ بھٹو صاحب نے عملی زندگی کا آغاز وکالت سے کیا
انہوں نے پہلا مقدمہ جیت لیا ان کا مؤکل غریب تھا اس کے پاس فیس کے پیسے
نہیں تھے اس نے گھر کے کام کاج کے لیے اپنی بچی بھٹو صاحب کو دے دی۔ بیگم
نصرت بھٹو کے سینے میں ماں کا دل تھا انہوں نے بچی واپس کردی۔ بھٹو صاحب کی
سیاسی زندگی کا آغاز 1958ء میں ہوا جب اسکندر مرزا نے ان کو وزیر تجارت
آئل اور گیس بنا کر کابینہ میں شامل کرلیا۔ وہ خداداد صلاحیتوں کی بناء پر
چند سالوں کے اندر وزیر خارجہ بن گئے اور پاک چین دوستی کی بنیادرکھی۔
1963ء میں وزیر خارجہ کی حیثیت میں وائٹ ہائوس میں امریکی صدر کینڈی سے
ملاقات کی۔ صدر کینڈی نے بھٹو کی فراست اور بصیرت سے متاثر ہوکر کہا ’’مسٹر
بھٹو اگر آپ امریکی شہری ہوتے تو میری کابینہ میں شامل ہوتے، پر عزم اورپر
اعتماد بھٹو نے جواب دیا ’’مسٹر پریذیڈنٹ اگر میں امریکی شہری ہوتا تو میں
آپ کی جگہ ہوتا‘‘۔
غیر جانبدار مؤرخین کے مطابق جنرل ایوب خان نے بھٹو صاحب کے مشورے پر
1965ء میں آپریشن جبرالٹر کا آغاز کیا جس کا مقصد کشمیر کو آزاد کرانا
تھا۔ بھارت نے لاہور اور سیالکوٹ پر حملہ کردیا۔ بھٹو صاحب نے سلامتی کونسل
میں تاریخ ساز اور پرجوش خطاب کرتے ہوئے کہا ’’ہم اپنی عزت اور سلامتی کے
لیے بھارت سے ہزار سال تک جنگ لڑیں گے‘‘۔ پاکستان کے طلبہ اور نوجوان
وزیرخارجہ کے خطاب سے بہت متاثر ہوئے۔ بھٹو صاحب کا تاشقند معاہدے پر جنرل
ایوب خان سے اختلاف پیدا ہوگیا انہوں نے وزارت سے مستعفی ہوکر 1967ء میں پی
پی پی کی بنیاد رکھی جو پاکستان کی پہلی عوامی، نظریاتی اور انقلابی جماعت
تھی جس کا نصب العین استحصال سے پاک معاشرے کا قیام اور ہر شہری کو
بلاامتیاز ترقی کرنے کے مساوی مواقع فراہم کرنا تھا۔ بھٹو صاحب کی کرشماتی
شخصیت اور انقلابی منشور ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کی وجہ سے پی پی پی 1970ء
کے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد
بھٹو صاحب نے مغربی پاکستان کا اقتدار سنبھال لیا اور ٹوٹے پھوٹے منتشر،
منقسم اور مایوس پاکستان کو ایک بار پھر اپنے پائوں پر کھڑا کردیا۔ ’’سٹیٹس
کو‘‘ کو توڑنے کے لیے انقلابی اصلاحات نافذ کیں۔ جاگیردار سرمایہ دار جو
1970ء کے انتخابات میں پارٹی کا ٹکٹ لینے کے لیے تیار نہ تھے ایک سازش کے
تحت پارٹی کے اندر گھس بیٹھے۔ یہ کمپرومائز بھٹو صاحب اور پی پی پی کے لیے
بڑا مہنگا ثابت ہوا۔ سی آئی اے نے بھٹو صاحب کو سیاسی منظر سے ہٹانے کے
لیے سازش کا آغاز کردیا۔ ہنری کسنجر نے بھٹو صاحب کو 1976ء میں دھمکی دی
کہ اگر انہوں نے ایٹمی پروگرام ترک نہ کیا تو ان کو ’’عبرتناک مثال‘‘ بنا
دیا جائے گا۔ قوم پرست محب الوطن بھٹو ڈٹے رہے۔ امریکہ اور اس کے ایجنٹوں
نے گہری چال چل کر بھٹو صاحب کو حکومت کی ٹرم ختم ہونے سے ایک سال قبل
انتخابات کرانے پر آمادہ کرلیا۔
انتخابات کا اعلان ہوتے ہی منقسم نو سیاسی جماعتیں پی این اے کے نام سے
متحد ہوگئیں جنہوں نے ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے دے رکھے تھے۔ امریکی
ڈالروں نے اپنا کام کردکھایا۔ بھٹو صاحب نے 1977ء کی انتخابی مہم کے دوران
لاہور میں عوامی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’میں نے اٹھارہ گھنٹے روزانہ
کام کرکے شکستہ پاکستان کو کھڑا کیا، شملہ معاہدہ کرکے نوے ہزار قیدی رہا
کرائے اور پاک سرزمین کا مقبوضہ علاقہ بازیاب کرایا۔ 1973ء کا پہلا متفقہ
آئین دیا، لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کرکے پاکستان کے
عالمی وقار میں اضافہ کیا۔ پاکستان کو ایٹمی سائبان مہیا کیا اور سب سے بڑھ
کر بے زبان عوام کو زبان دی۔ بھٹو صاحب نے ایک واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ
سندھ کے ایک ہاری کے بچے بھوکے تھے وہ پیرسائیں کے پاس گیا اور مالی مدد کی
درخواست کی۔ پیر سائیں نے کہا کہ میں اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتا ہوں جتنے
بال ہاتھ میں آجائیں گے اتنے سو کے نوٹ تمہیں دوں گا۔ پیر سائیں نے آہستہ
سے داڑھی پر ہاتھ پھیرا کوئی بال ہاتھ میں نہ آیا تو ہاری سے کہنے لگا
تمہارا مقدر ہی خراب ہے۔ ہاری نے کہا پیر سائیں ہاتھ بھی آپ کا داڑھی بھی
آپ کی مقدر میرا کیسے خراب ہوگیا۔ داڑھی آپ کی ہو ہاتھ میرا ہو پھر پتہ
چلے کہ مقدر کس کا خراب ہے۔ بھٹو صاحب نے 1977ء کے انتخابات میں کامیابی
حاصل کرلی۔ پی این اے نے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ پہلے
دھاندلی اور پھر نظام مصطفی ﷺ کے نام پر تحریک شروع کردی۔ پی پی پی اور پی
این اے کے درمیان دوبارہ انتخابات کا سمجھوتہ ہوگیا مگر جنرل ضیاء الحق نے
امریکی آشیرباد سے شب خون مار کر اقتدار پر قبضہ کرلیا اور بھٹو صاحب کو
نظر بند کردیا۔ بھٹو صاحب پر نظریہ پاکستان کی خلاف ورزی اور عوام کو
انقلاب پر ابھارنے کے الزامات لگائے گئے۔
بھٹو صاحب نے لاہور ہائی کورٹ میں تاریخی حلفیہ بیان داخل کیا جس میں تحریر
کیا کہ ’’پاکستان کے امیروں کا شمار دنیا کے امیر ترین افراد میں اور
غریبوں کا شمار دنیا کے غریب ترین افراد میں ہوتا ہے۔ یہ خدا کا قانون نہیں
ہے یہ اسلام کا پیغام نہیں ہے یہ نظریہ پاکستان نہیں ہے‘‘۔ بھٹو صاحب نے
انقلاب کے بارے میں تحریر کیا ’’انقلاب تاریخ کی قوس و قزاح ہے۔ انقلاب کا
مطلب ہے نا انصافی اور عدم مساوات کا خاتمہ۔ اس کا مطلب ہے استحصال اور
کلونیل ازم کا خاتمہ ۔ انقلاب انسانوں کی آزادی اور خواتین کے وقار کا نام
ہے۔ انقلاب عوام کے نمائیندوں کے قوانین سے اعلیٰ قوانین کا نام ہے۔ عوام
دھوکہ اور فریب دینے والے منتخب نمائندوں (پارلیمنٹ) کے بجائے انقلاب کے
ذریعے براہ راست فیصلے صادر کرتے ہیں۔ انقلاب کا مطلب ہے تبدیلی اور تبدیلی
مستقل ہوتی ہے‘‘۔ بھٹو صاحب سے سیاسی غلطیاں بھی ہوئیں انہوں نے جاگیرداروں
کو عوامی نظریاتی جماعت میں قبول کرلیا۔ وسیع پیمانے پر نیشنلائزیشن کی۔
بیوروکریسی میں سیاسی نوعیت کی اصلاحات کیں جس سے میرٹ اور کارکردگی متاثر
ہوئی۔ اپوزیشن کو برداشت نہ کیا۔ ایف ایس ایف تشکیل دی جس کے چیف مسعود
محمود سلطانی گواہ بن گئے۔ میرٹ کی بجائے وفاداری کی بناء پر جنرل ضیاء
الحق کو آرمی چیف نامزد کیا۔ بھٹو صاحب اور ان کے رفقاء پر کرپشن کا کوئی
الزام نہ تھا۔جبکہ آج کے سیاستدان کرپشن کے سومنات بنے بیٹھے ہیں۔ بھٹو
صاحب نے بے نظیر کو وصیت کی کہ آخرت کی جنت ماں کے قدموں کے نیچے اور دنیا
کی جنت عوام کے قدموں کے نیچے ہوتی ہے۔ انہوں نے موت کی کوٹھڑی میں لکھی
آخری کتاب میں نوجوانوں کو طبقاتی جدوجہد یعنی عوامی انقلاب سے ریاست پر
بالادستی حاصل کرنے کی وصیت کی۔ انتخابی جمہوری سیاست سے تین وزیراعظم
لیاقت علی خان، ذوالفقارعلی بھٹو اور بے نظیر ’’سٹیٹس کو‘‘ نہ توڑ سکے اور
شہید ہوگئے۔ پاکستان میں اور کون سیاسی لیڈر یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ وہ
انتخابی سیاست سے سٹیٹس کو کو توڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔یہ محض ایک خواب ہے
جو عوام کو بے قوف بنانے کے لیے دکھایا جاتا ہے۔ پاکستان کے نوجوان تاریخ
سے سبق سیکھتے ہوئے عوامی انقلاب کی جانب آجائیں کیونکہ عوامی انقلاب ہی
واحد آپشن ہے “:“ |
|