ایک شخص نے گدھا پال رکھا تھا ،اس کا بے حد
خیال رکھتا ۔کبھی اس پر ضرورت سے زیادہ بوجھ نہ لادتا تھا نہ ہی اس کی سستی
اور کمزوری پر اسے مارتا پیٹتا، اس کے کھانے پینے میں بھی کوئی کسر نہیں
اٹھا رکھتا ۔محبت اور شفقت میںبہت طاقت ہوتی ہے وہ پتھر کو بھی موم کردیتی
ہے ۔آج انسان بھلے اس قوت سے نا آشنا ہوتا جارہا ہو لیکن جانوراور حیوان
آج بھی اپنی اسی فطرت پر قائم ہیں ، وہ اپنے مالک کی مہربانی کا جواب
مہربانی سے ہی دیتے ہیں ۔وہ گدھا بھی اپنے مالک سے بے حد محبت و انسیت
رکھتا تھا اور مالک کے حکم کی تعمیل سے کبھی منھ نہ موڑتا تھا ۔ایک دن مالک
کو کہیں ضروری کام سے جانا تھا ، وہ گدھے پر سوار ہوکر نکل پڑا ۔راستہ بہت
دشوار گذار تھا ۔دفعتاً گدھے کا پیر پھسلا تو مالک اپناتوازن برقرار نہ رکھ
سکا اور گرپڑا ،اسے سخت چوٹ آئی اور پیروں سے خون بہنےلگا ۔کسی طرح گدھے
نے اسے اپنی پیٹھ پر بٹھایا اورتیزی سے چل پڑ اکچھ ہی دیر میں مالک کی نظر
جب اسپتال پر پڑی تووہ بہت خوش ہوا ،اس نے سوچا گدھاکس قدر سمجھدار اور
وفادار ہے ،لیکن جب وہ اسپتال کے قریب پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہ تو مویشیوں
کا اسپتال ہے ۔!
آج یہی صورتحال ہمارے لیڈروں کی ہے وہ ہمیں اسپتال تو ضرور پہنچاتے
ہیںلیکن ۰۰۰مودی سرکار کے نوٹ بندی کے فیصلے نے جس طرح عوامی مشکلات بڑھائی
ہیں اس سے تو کم ازکم یہی کہا جاسکتاہے کہ ہم انسانو ں کے نہیں مویشیوں کے
اسپتال میں پہنچ گئے ہیں ۔ بدعنوانی ، مہنگائی اور کالابازاری کے علاج کی
ان کی فکر صحیح ہے لیکن علاج درست جگہ نہیں ہورہا ہے ۔ آج بازاروں میں بس
ایک ہی بات لوگوں کی زبان پرہے ،کیا آپ کے پاس دوہزار کے چھٹے ہیں ،
بینکوں سے صرف دوہزار کے نوٹ مل رہے ہیں، وہ بھی محدود تعداد میں، دوہزار
یا پھر چار ہزار اس سے زیادہ کے خواہش مندوں کو بینک منیجروں کے یہاں الگ
سے قطار لگانی پڑتی ہے ،۵۰۰کے نوٹ چھپنے اور اعلان کے باوجود آنکھوں سے
اوجھل ہیں ۔سو،پچاس ،بیس اور دس کے نوٹ بھی بینکوں سے غائب ہوچکے ہیں ۔عام
آدمی بینک سے دوہزار کے نوٹ لے کر صبح سے شام تک گھومتا رہتا ہے بس ہرجگہ
یہی جواب ملتا ہے کہ بھائی چھٹے کہاں سے لائیں ۔ٹیکسی والے آٹو والے سبزی
اور پھل و اناج والے غرضیکہ چھوٹے چھوٹے دوکانداروں کے یہاں آج یہی سب سے
بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے کسی کے پاس چھٹے نہیں ۔ عوام الگ پریشان تو
دوکانداران سے زیادہ حیران ، اسی کیفیت میں ملک کا وکاس ہورہا ہے ۔
بڑے دوکانداروں، پٹرول پمپوں اور کیمسٹوں کے یہاں ضرورت سے زیادہ سامان
خریدنا پڑرہا ہے جوکہ عام آدمی کے بس کی بات نہیں ،جس کے پاس صرف دوہی
ہزار ہیں وہ بھلاکیا کرے اسے ان ہی پیسوں میں مختلف ضروریات کی تکمیل کرنی
ہے وہ کہاں جائے ، سوڈیڑھ سو کے سامان پر کوئی چھٹا دینے کو تیار نہیں
۔ایسے میں غالب کا مصرع ذہن میں ابھرتا ہے’’واں جو جائیں گرہ میں مال
کہاں‘‘ ۔اب نوعیت بدل چکی ہے اور مصرع کچھ یوں بننے لگتا ہے ۔’’کیسے جائیں
وہاں تو چھٹا نہیں‘‘ ۔سب دیکھ رہے ہیں اور محسوس کررہے ہیں کہ کالے دھن کو
ختم کرنے کی ترکیبیں الٹی ہوچکی ہیں ۔نقلی نوٹوں کا چلن عام ہوتا جارہا
ہے۔آئے دن یہ خبریں آرہی ہیں کہ فلاں جگہ کروڑوں کی تعدادمیں نقلی نوٹ
پکڑے گئے ۔حیرت تو اس وقت ہوتی ہےجب اصلی نوٹ بھی آئے دن کروڑوں کی شکل
میں مختلف چھاپوں کے دوران ضبط کئے جارہے ہیں ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب
بینکوں سے محدود کرنسیاں ہی دی جارہی ہیں اور لوگ روزمرہ کے اخراجات ہی بڑی
مشکلوں سے پورے کررہے ہیں ،ایسے میں لاکھوں اور کروڑوں کی یہ کرنسیاں کچھ
لوگوں کے پاس کیسے پہنچ جاتی ہیں ، آخر یہ کہاں سے آتی ہیں ۔
ایسے حیران کن حالات میں ٹی وی چینل والوں کی اکثریت اور ساتھ ہی کچھ مٹھی
بھر افراد مسلسل سرکاری پالیسیوں اورخاص طور پر نوٹ بندی کے اس حالیہ
سرکاری فیصلےکی خوب سراہنا کررہے ہیں۔ہمیں ان کی ا س طرح کی حرکتوں پر کوئی
تعجب اس لئے نہیں ہوتا کہ یہ اُن ابن الوقتوں کی ٹولی ہے جو ہردور میں اور
ہر سماج و خطے میں ہمیشہ پائی جاتی رہی ہے اور اب تو ان کی پیداوار بتدریج
نہیں بلکہ دودوچار اور چار چار آٹھ کی رفتار سے بڑھ رہی ہے ۔ان کا تعلق
نیرواور نادرشاہوں کی نسل سے ہے، جو انسانی پریشانیوں پر بانسری بجاکرچین و
سکون حاصل کرتی ہیں اور نئی نئی دھنوںکو ترتیب دیتی ہیں ۔
آج ہمیں شہریار صاحب بھی بہت یاد آرہے ہیں ،گمن فلم میں انہوں نے ایک گیت
شاید ایسی ہی کسی کیفیت سے متاثر ہو کر لکھا تھا ’’اس شہر میں ہر شخص
پریشان سا کیوں ہے ‘‘ وہ گیت سچویشن کے اعتبار سےتو محض ایک ہی شہرکی
نمائندگی کررہا تھا لیکن اب اس کی معنویت بڑھتےبڑھتے پورے ملک کی کیفیت
بیان کرنے لگی ہے ۔اللہ ان کی مغفرت کر ے اگر آج وہ موجود ہوتے تو اس
مصرعے میں تصرف کرکے شہر کو ملک سے ضرور تبدیل کردیتے ۔آج چہار جانب سے
یہی خبریں موصول ہورہی ہیں کہ ملک کا ایک ایک فرد بری طرح سے حیران و
پریشان ہے اور مشکلات سے گھرا ہوا ہے ۔ خودکشی جیسے انتہائی اقدام کا گراف
بھی کافی بڑھ چکا ہے ۔کیا اب بھی یہ بتانے کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ ہم
سبھی لوگ انسانوں کے نہیں مویشیوں کے اسپتال میں پہنچا دیئے گئے ہیں ۔
|