یہ انوکھا اور نرالا طریقہ کیسے روشناس کرا دیا گیا؟
(Mian Khalid Jamil, Lahore)
وہی ملک آج ترقی کی بلندیوں پر ہیں جہاں اداروں کو اہمیت دی جاتی ہے جیسا کہ اوگرا اور نیپرا اتھارٹیز آئل، بجلی، گیس اور دیگر اداروں کو کنٹرول کرنے کی آزاد اتھارٹیز بنائی گئی تھیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ان اتھارٹیز میں بڑی خامیاں بھی تھیں جن کو دور کرنے کی اکثر اوقات ماہرین تجاویز دیتے رہے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر پاﺅں میں درد ہو تو پوری ٹانگ ہی کاٹ دی جائے۔ |
|
حکومت کی طرف سے تین فیصلوں کا اعلان کیا
گیا جس کے مطابق نیپرا، اوگرا، پی ٹی اے، ایف اے بی اور پی پی آر اے
اتھارٹیز کی آزادانہ حیثیت ختم کرتے ہوئے براہ راست حکومت کے ماتحت کر دیا
ہے، دوسرا فیصلہ یہ کہ سی این جی کی قیمتوں کا تعین سی این جی پمپ مالکان
کو دے دیا ہے اور تیسرا یہ کہ جائیدادوں کی خرید و فروخت کیلئے ایک ایمنسٹی
سکیم کا اعلان کیا گیا ہے جو پراپرٹی ڈیلرز اور انکے نمائندوں کے درمیان
کامیاب مذاکرات کے بعد طے پائی ہے جس کا باقاعدہ سرکاری اعلان چند دنوں میں
متوقع ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ تینوں فیصلے پاکستان کی معیشت اور معاشی
سرگرمیوں کیلئے انتہائی خطرناک ثابت ہونگے کیونکہ اس سے معاشی و اقتصادی
ترقی اور صنعتی و پیداواری عمل میں شدید دشواریاں پیش آئیں گی جس کی وجہ سے
پاکستان کی برآمدات پر منفی اثرات پڑیں گے ۔ بنیادی طور پر کسی بھی صحت مند
اور جمہوری معاشرے میں افراد کی اہمیت نہیں ہوتی بلکہ اداروں کی اہمیت ہوتی
ہے اور وہی ملک آج ترقی کی بلندیوں پر ہیں جہاں اداروں کو اہمیت دی جاتی ہے
جیسا کہ اوگرا اور نیپرا اتھارٹیز آئل، بجلی، گیس اور دیگر اداروں کو
کنٹرول کرنے کی آزاد اتھارٹیز بنائی گئی تھیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ان
اتھارٹیز میں بڑی خامیاں بھی تھیں جن کو دور کرنے کی اکثر اوقات ماہرین
تجاویز دیتے رہے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر پاﺅں میں درد ہو تو
پوری ٹانگ ہی کاٹ دی جائے۔اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں پیداواری لاگت
اس ریجن میں سب سے زیادہ ہے اور اب قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی آزاد اتھارٹیز
کو حکومتی تسلط میں لانے کی وجہ سے حکومت کو اپنی مرضی سے قیمتیں بڑھا نے
کی آزادی ہو گی جو کہ پیداواری لاگت کو مزید بڑھانے کا سبب بنے گی جیسا کہ
گذشتہ ماہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھا دی گئی تھیں جبکہ آئندہ ماہ بھی
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے بڑھنے کا امکان بتایا جارہا ہے۔ ضرورت اس بات
کی تھی کہ ان آزاد اتھارٹیز میں موجود خامیوں کو دور کیا جاتا اور ان کو
مکمل طور پر آزاد اور خود مختار اداروں کی شکل دی جاتی جو پاکستان کے قومی
مفادات کو خیال رکھتے ہوئے اداروں کو کنٹرول کرتے اور پاکستان کی معیشت کو
بہتر کرنے اور پیداواری عمل کو بڑھانے میںاپنا کردار ادا کرتے مگر اب تو
اسکے بالکل برعکس ہونے کا خدشہ ہے۔ کیونکہ اس وقت بھی بین الاقوامی مارکیٹ
میں پٹرولیم مصنوعات کا خام مال یعنی کروڈ آئل کی قیمت 52 سے 55ڈالرز فی
بیرل ہے اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں ریفائنری سے کروڈ آئل
سے پٹرولیم مصنوعات کے حصول تک جو خرچہ آتا ہے وہ 35روپے فی لیٹر سے زیادہ
نہیں ہے مگر حکومت کے ایکسائزڈیوٹی و پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی اور سیلز ٹیکس
کی بھرمارکی وجہ سے پاکستان میں ایچ او بی سی 72.68 روپے فی لیٹر، پریمئیم
66.27 روپے فی لیٹر اور ہائی سپیڈ ڈیزل 75.22روپے فی لیٹرتک پہنچا ہوا ہے۔
اسی طرح بجلی کی قیمتوں کے معاملے میں پہلے ہی نیپرا نے دوسری تمام الیکٹرک
کمپنیوں کے ساتھ الگ اور کے الیکٹرک کے ساتھ الگ سلوک روا رکھا ہوا تھا جس
کی وجہ سے کراچی کے صنعتکار و تاجر حضرات پہلے ہی پریشان تھے اب ان نئے
فیصلوں سے مزید پیچیدگیاں اور بے چینی پھیلے گی۔ اس کے علاوہ دوسرے فیصلے
کے مطابق سی این جی کی قیمتوں کا تعین سی این جی پمپ مالکان کو دے دیا ہے۔
میرے خیال میں دنیا کی تاریخ میں یہ ایک انوکھا اور نرالا طریقہ روشناس
کرایا گیا ہے۔
راتوں رات حکومت کے ایوانوں پر کون سا دباﺅ پڑا جس کی وجہ سے سی این جی پمپ
مالکان کے وارے نیارے ہو گئے۔ اب اسی فیصلہ کی وجہ سے سی این جی پمپ مالکان
اپنی من مانی قیمتیں مقرر کرنے کیلئے سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں جس سے ایک بار
پھر جہاں ملک میں بدامنی اور انتشار پھیلنے کا خدشہ ہے وہیں بحیثیت ایک
تاجر و صنعتکار کے میں سمجھتا ہوں کہ پیداواری لاگت میں مزید اضافہ ہو گا
جو کہ پہلے ہی دباﺅ کا شکار ہے اور اسکی وجہ سے پاکستان کی برآمدات پر بھی
منفی اثرات پڑینگے جو پہلے ہی پچیس ارب ڈالرز کی سطح کو چھونے کے بعد بیس
ارب ڈالرز تک آپہنچی ہے۔ ان فیصلوں سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ ہمارے
ارباب اختیارنے پاکستانی معیشت کو مکمل طور پر عالمی مالیاتی اداروں کے ایک
نکاتی ایجنڈے کے عملدرآمدپر لگا رکھا ہے جو پاکستان کو صرف ٹریڈنگ اور
کنزیومر ملک کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیںکیونکہ ان اقدامات سے پاکستان کی
صنعتیں رہی سہی صلاحیتوں سے بھی محروم ہو جائےگی۔
ہمارے ارباب اختیار کا تیسرا عجیب و غریب فیصلہ جائیدادوں کے حوالے سے
سامنے آرہا ہے جس کے تحت جائیدادوں پر ایمنسٹی سکیم متعارف کرائی جارہی ہے
اورا سکے آنے سے پہلے ہی جائیدادوں کی قیمتیں ماضی کی طرح ایک بار پھر
آسمان کو چھو رہی ہیں کیونکہ جائیدادوں پر ٹیکس کے نئے قانون کے حوالے سے
ایک امید ہوچلی تھی کہ اب اس ملک میں ایک مڈل کلاس اور عام آدمی بھی اپنی
چھت کا خواب پورا ہوسکے گا۔ اس قانون کے حوالے سے میں اپنے ایک کالم مورخہ
چھ جولائی 2016 بعنوان "ایک احسن قدم" میں اعتراف کر چکا ہوں کہ جائیدادوں
پر ٹیکس کا یہ نیا قانون سی پیک منصوبہ کے بعد موجودہ حکومت کا ایک تاریخی
اور اہم فیصلہ ہے۔ اس قانون کے آنے کے بعد کراچی کے علاقے ڈیفنس میں پانچ
سو گز کے پلاٹ کی قیمت جو چھ سے ساڑھے چھ کروڑ روپے تھی وہ گر کر پانچ کروڑ
سے نیچے آگئی تھی مگراس نئی ایمنسٹی سکیم کے اعلان کی خبروں کے بعد ڈیفنس
کراچی میں پانچ سو گز کے بنگلہ کی قیمت اندازاً ساڑھے چھ کروڑ سے نو سے
ساڑھے کروڑ تک ہو چکی ہے اور اسی طرح جو بنگلہ دس سے گیارہ کروڑ میں بک رہا
تھا وہ دوبارہ انیس سے بیس کروڑ تک چلا گیا ہے۔
جائیدادوں کی خرید وفروخت کے شعبے کو پاکستان میں کالے دھن کی جنت کہا جانے
لگا ہے مگر جائیدادوں پر نئے قانون کے لاگو ہونے سے اس پر ضرب پڑی تھی اور
ابتدائی طور پر جائیدادوں کی قیمت خرید میں تقریباً پچیس سے چالیس فیصد کمی
دیکھی گئی تھی لیکن جلد ہی ارباب اختیار جائیداد مافیاز کے دباﺅ کے بوجھ کو
برداشت نہ کرسکے ہیں اور اس سلسلے میں اسمبلی کے ذریعے ایمنسٹی سکیم لائی
جارہی ہے جس کی وفاقی وزیر مملکت ہارون اختر صاحب نے واضح طور پر تردید کی
تھی مگر اسکے باوجود اب محترم اسحاق ڈار صاحب کی مداخلت پر ایک بارپھر
جائیدادوں کی خرید و فروخت کی ایمنسٹی سکیم کے لانے کے اعلان کے بعد کراچی
میں جائیدادوں و پلاٹوں کی قیمتیں حد سے بڑھ گئی ہیں جو اس قانون آنے سے
پہلے تھیں یعنی اب کالے دھن کی جنت کو چار چاند لگیں گے اور بچا کچا سرمایہ
بھی صنعت وتجارت سے نکل کر جائیدادوں میں آجائے گا اور پاکستان کی صنعتوں
کا مکمل صفایا ہو جائیگا اس لئے ارباب اختیار کو اپنے ہر فیصلے اور ہر سکیم
میں پاکستان اور پاکستان کے عوام کے مفادکو مدنظر رکھنا چاہیے۔ |
|