نواز شریف اور زرداری دونوں متفق کہ : عمران خان کو کٹ ٹو سائز کیا جائے

2008ءکے انتخابات کے بعد مخدوم امین فہم کو پاکستان کا وزیراعظم بننے کا پورا استحقاق تھا۔ بے نظیر بھٹو نے ان سے پختہ وعدہ کررکھا تھا مگر آصف زرداری نے یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم نامزد کرکے اور خود صدر پاکستان بن کر مقتدر ریاستی اداروں اور سیاستدانوں کو حیران کردیا اور اب آصف زرداری نے پندرہ ماہ کی ازخود جلاوطنی کے بعد پاکستان واپس آکر پارلیمنٹ میں آنے کا اعلان کرکے نہ صرف اپنی پارٹی کے لیڈروں بلکہ سیاسی حلقوں کو حیران کردیا
پاکستانی موجودہ سیاستدانوں نے نظریاتی سیاست کا خاتمہ کردیا جس کے نتیجے میں پاکستانی سیاست کرپشن اور منافقت کا جمہوری ماڈل بن کر رہ گئی ہے۔ کرپٹ سیاسی کلچر نے نوجوانوں میں بے حسی اور مایوسی کے جذبات پیدا کیے ہیں۔ آصف زرداری کی مخالفت نظریاتی بنیاد پر کی جائے تو پی پی پی کے نئے جیالے ناراض ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کو پی پی پی کے بانی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کی نظریاتی سیاست سے بے خبر رکھا گیا ہے۔ بھٹو شہید نے کرپشن کی اور نہ ہی بیرونی ملکوں میں سرمایہ منتقل کیا بلکہ نظریاتی سیاست کے تحت قومی سلامتی اور عوامی فلاح کیلئے اپنی جان قربان کردی اگر وہ موجودہ سیاستدانوں کی طرح موقع پرست اور مفاد پرست ہوتے تو وہ بھی مقتدر قوتوں سے ساز باز کرکے اپنی جان بچا سکتے تھے اور طویل عرصہ تک اقتدار میں رہ سکتے تھے۔ آصف زرداری اٹھان، فکر اور مزاج کے اعتبار سے بھٹو ازم کے کٹڑ مخالف ہیں۔ نظریاتی سیاست سے ان کا دور کا تعلق نہیں ہے۔ وہ بھٹو کے نعرے اس لیے لگاتے ہیں کہ بھٹو صاحب شہادت کے بعد امر اور علامت بن چکے ہیں۔ پاکستان کے غریب عوام آج بھی بھٹو کو اپنا محسن سمجھتے ہیں۔ آصف زرداری ”سیاسی شطرنج“ کے ماہر ہیں اور موقع کے مطابق گہری چال چل کر مخالفین کو مات دے سکتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کی شادی کیلئے کئی موزوں رشتے موجود تھے مگر آصف زرداری سب اُمیدواروں کو مات دینے میں کامیاب رہے۔ بھٹو اور زرداری خاندان کے درمیان رشتے داری پاکستان، پی پی پی اور بھٹو خاندان کیلئے بدقسمت ثابت ہوئی بلکہ آصف زرداری نے مفاداتی سیاست کا آغاز کرکے لاکھوں نظریاتی جیالوں کی تمناﺅں کا خون کردیا۔ آصف زرداری کی سیاسی مہارت 1993ءمیں بھی منظر عام پر آئی جب صدر غلام اسحق خان نے ان کو جیل سے رہا کرکے ان سے وزارت کا حلف لیا۔
اگر آصف زرداری کی ”سیاسی مہارت“ آڑے نہ آتی تو بے نظیر بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو سیاسی اشتراک پر آمادہ ہوجاتے اور اس مفاہمت کے نتیجے میں آصف زرداری کی پارٹی امور میں مداخلت ختم یا محدود ہوکررہ جاتی۔ آصف زرداری کے ایک دیرینہ دوست کے مطابق آصف زرداری طالب علمی کے زمانے میں دعویٰ کیا کرتے تھے کہ وہ ایک دن پاکستان کے سب سے بڑے منصب پر فائز ہوجائینگے جو شخص اقتدار کے جنون اور نشے میں گرفتار ہو وہ راستے کے ہر پتھر کو ہٹانے کی فکر میں رہتا ہے چاہے وہ پتھر اپنے کسی عزیز کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو۔ آصف زرداری نے بے نظیر کی شہادت کے بعد پارٹی پر قبضہ کرکے دنیا کو حیران کردیا۔ 2008ءکے انتخابات کے بعد مخدوم امین فہم کو پاکستان کا وزیراعظم بننے کا پورا استحقاق تھا۔ بے نظیر بھٹو نے ان سے پختہ وعدہ کررکھا تھا مگر آصف زرداری نے یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم نامزد کرکے اور خود صدر پاکستان بن کر مقتدر ریاستی اداروں اور سیاستدانوں کو حیران کردیا اور اب آصف زرداری نے پندرہ ماہ کی ازخود جلاوطنی کے بعد پاکستان واپس آکر پارلیمنٹ میں آنے کا اعلان کرکے نہ صرف اپنی پارٹی کے لیڈروں بلکہ سیاسی حلقوں کو حیران کردیا ہے۔ البتہ پارلیمنٹ میں پہنچنے کیلئے دو چار سخت مقام آئیں گے بلاشک آصف زرداری حیران کردینے والی شخصیت ہیں۔ سیاستدان، دانشور اور تجزیہ نگار آصف زرداری کی نئی سیاسی چال کے محرکات اور امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ آصف زرداری نے ذاتی سیاسی مفاد اور خفیہ عزائم کیلئے دوبار بلاول بھٹو کو زچ کیا ہے۔ ڈیڑھ سال قبل جب بلاول نے میاں نواز شریف اور الطاف حسین کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور جیالوں کو متحرک کرنے کی کوشش کی تو آصف زرداری نے فتویٰ جاری کردیا کہ بلاول ابھی ناپختہ ہے اور اسے سیاسی تربیت کی ضرورت ہے۔بلاول بھٹو نے آصف زرداری کی غیر حاضری میں فعال اور سرگرم کردار ادا کرکے ایک بار پھر پارٹی میں جان ڈال دی۔ جیالوں کو مایوسی سے باہر نکالا، فرینڈلی اپوزیشن کا تاثر ختم ہونے لگا، اسٹیبلشمینٹ نے نوجوان بلاول کو قبول کرلیا، پی پی پی پنجاب کا طاقتور گروپ زرداری فیکٹر کو غیر موثر بنانے اور 2018ءکے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگا۔ عمران خان اور پی پی پی پنجاب گروپ کے درمیان نواز شریف اور آصف زرداری کو سیاست سے مائنس کرنے کیلئے مفاہمت بڑھنے لگی۔ مائنس تھری فارمولے کیلئے اسٹیبلشمینٹ کی خاموش تائید اور حمایت بھی حاصل تھی۔ میاں نواز شریف نے آصف زرداری کو ”خفیہ منصوبے“ سے آگاہ کردیا اور ان کو پاکستان واپس آکر پارٹی قیادت سنبھالنے کی ترغیب دی۔ آصف زرداری کو اگر پی پی پی کا اجتماعی سیاسی مفاد عزیز ہوتا تو وہ بلاول بھٹو کو اعلانیہ پروگرام کے مطابق آگے بڑھنے دیتے مگر وہ چوں کہ ”مک مکا“ کی وجہ سے میاں نواز شریف کو ناراض نہیں کرنا چاہتے لہذا انہوں نے بلاول بھٹو کو دوسری بار زچ کردیا اور اسے اپنے چار مطالبات کیلئے لانگ مارچ سے روک دیا اور اس طرح گرنیڈ آلائنس کے امکانات کو ہی ختم کردیا۔ بلاول بھٹو یا تو جرا¿ت کرکے آصف زرداری کے سیاسی کردار کو محدود کریں یا مزید چند سال کیلئے خاموش ہوجائیں تاکہ ان کا سیاسی مستقبل محفوظ رہے۔ بے نظیر بھٹو کی برسی پر آصف زرداری کا مختصر خطاب انکے سیاسی عزائم کا غماز ہے۔ وہ اسٹیبلشمینٹ سے اپنے پرانے تعلقات بحال کرنا چاہتے ہیں اس لیے انہوں نے مودی نواز تعلقات پر تنقید کی ہے۔ میاں نواز شریف کے طرز سیاست سے اختلاف کرتے ہوئے انہیں ”مغل بادشاہ“ قراردیا۔ یہ تاثر مقتدر حلقوں اور سیاستدانوں میں بڑا مقبول ہے۔ آصف زرداری نے میاں نواز شریف پر جمہوریت کا خانہ خراب کرنے کا الزام لگایا ہے۔ آصف زرداری کے ذہن میں یہ خیال راسخ ہوچکا ہے کہ وہ پاکستانی سیاست کے افلاطون ہیں اور میاں نواز شریف کی رہنمائی کرسکتے ہیں اور جمہوری سسٹم کے تسلسل کو جاری رکھ سکتے ہیں ۔ آصف زرداری کو ادراک ہے کہ وہ عوامی سطح پر مقبول نہیں ہیں اگر بلاول بھٹو کو فری ہینڈ دیا گیا تو وہ آصف زرداری کو سیاست میں اسی طرح کارنر کرسکتے ہیں جس طرح بے نظیر بھٹو نے آصف زرداری کے دباﺅ پر بیگم نصرت بھٹو کو کارنر کردیا تھا۔ آصف زرداری عوامی سطح پر کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں لہذا وہ پارلیمنٹ میں پہنچ کر جوڑ توڑ کی سیاست کرینگے اور اپنے خلاف ممکنہ مقدمات اور گرفتاری سے بھی محفوظ رہنے کیلئے پارلیمنٹ کا پلیٹ فارم استعمال کرینگے۔ وزیراعظم نواز شریف اسٹیبلشمینٹ اور آصف زرداری کے درمیان دوریاں ختم کرانے کیلئے تعاون کرینگے جبکہ آصف زرداری پی پی پی کو تحریک انصاف سے دور رکھیں گے تاکہ وزیراعظم پانامہ لیکس کے دباﺅ سے باہر نکل سکیں اور نواز شریف اور آصف زرداری کے بیرونی اثاثے محفوظ رہیں۔ حالاں کہ پی پی پی اور تحریک انصاف اگر اتحاد بنا لیں تو مسلم لیگ(ن) اپنی ٹرم پوری نہیں کرسکتی۔ آصف زرداری حکومت پر اسقدر دباﺅ ضرور رکھیں گے کہ انکے قریبی رفقاءڈاکٹر عاصم اور انور مجید کو مقدمات سے بچالیں اور پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے ٹھیکوں سے اپنا حصہ وصول کرسکیں اور آئندہ انتخابات کیلئے نگران سیٹ اپ بنانے کیلئے پی پی پی کے سیاسی مفادات کا تحفظ کرسکیں۔ ان کی کوشش ہوگی کہ نگران سیٹ اپ میں وزیراعظم اور صدر میں سے ایک انکا پسندیدہ ہو۔ میاں نواز شریف اور آصف زرداری دونوں متفق ہیں کہ عمران خان کو کٹ ٹو سائز کیا جائے تاکہ وہ 2018ءکے انتخابات میں دو بڑی جماعتوں کیلئے خطرہ نہ بن سکیں۔ اگر پاکستان کی تاریخ میں انہونی ہوجائے اور پانامہ لیکس کی وجہ سے قیادت کا خلا پیدا ہوجائے تو آصف زرداری اس سیاسی خلاءکو پر کرنے اور خود وزیراعظم بننے کی کوشش کریں گے یا مفاہمت کرکے ایک بار پھر صدر پاکستان کا منصب حاصل کرنے کا موقع بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ آصف زرداری اگلے انتخابات کیلئے ”انتخابی گھوڑے“تلاش کرینگے۔ میاں نواز شریف کی کوشش ہوگی کہ 2018ء کے انتخابات میں پی پی پی کے ساتھ اس انداز سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی جائے کہ پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں تحریک انصاف کی نشستیں پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کو مل جائیں۔ مستقبل کے سیاسی منظرنامے کی تشکیل میں چین کا کردار اہم ہوگا۔
Mian Khalid Jamil {Official}
About the Author: Mian Khalid Jamil {Official} Read More Articles by Mian Khalid Jamil {Official}: 361 Articles with 335475 views Professional columnist/ Political & Defence analyst / Researcher/ Script writer/ Economy expert/ Pak Army & ISI defender/ Electronic, Print, Social me.. View More