پلی بارگین کی بدعت کو کس نے متعارف کرایا؟
(Mian Khalid Jamil, Lahore)
آج پاکستان پر 22 کھرب روپے کا بھاری قرض ہے جبکہ بیرونی قرضوں کا بوجھ 74 ارب ڈالر ہے اور اب سی پیک بھی 57 کھرب روپے کا ہو گیا ہے اتنے ڈالروں اور روپوں کا بوجھ کون اتارےگا؟ ظاھر ھے کہ تمام بوجھ عوام پر ھی ڈالا جائیگا جبکہ عوام کی آنکھوً ں میں دھول جھونکنے کیلئے آئی ایم ایف کے اس مشورے کو پیش کیا جا رہا ہے کہ برآمدات کو زیادہ سے زیادہ بڑھایا جائے |
|
حکومت کے اقتدار کا آخری سال شروع ہو چکا
ہے۔ مخالفین کا سر اونچا ہونا شروع ہو گیا ہے۔ ساڑھے تین سال تک تو عمران
خان گردن پر سوار رہے‘ اب میثاق جمہوریت کو سینے سے لگانے والے بھی میدان
میں اترنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ پیپلزپارٹی کو اپنی بقاءکا مسئلہ درپیش ہے۔
پی پی میٹرو بس سے پنجاب کی سواریاں بہت پہلے اتر گئی تھیں۔ سفر آرام دہ نہ
ہو تو مسافر اس بس کی طرف قدم نہیں بڑھاتے۔ وزراءکی اب تک کی کارکردگی اتنی
ہے کہ انہوں نے بادشاہ وقت کی حمایت میں حق نمک ادا کیا ہے۔ بادشاہوں کی
ترجمانی اب کے نور رتن اور معالجین ہی کرتے ہیں۔
ورلڈ بنک کے نزدیک آنیوالے سالوں میں ساﺅتھ ایشیا پوری دنیا کا سب سے بڑا
ایکسپورٹ پاور ہاﺅس ہوگا۔ چین اور ایسٹ ایشیا میں عمروں اور اجرتوں میں
اضافے نے ساﺅتھ ایشیا کیلئے دروازے کھول دیئے ہیں۔ عالمی سرمایہ کاری
مینوفیکچرنگ اور ٹریڈنگ کا رخ ساﺅتھ ایشیا کی طرف ہو رہا ہے۔ آپریشن ضرب
عضب کی مہربانی سے دہشت گردی کا بھوت اتر چکا۔ البتہ شیطان کے چیلے کونے
کھدروں سے کبھی کبھی نکل آتے ہیں۔ ہم ساﺅتھ ایشیائی ملکوں میں ہیومن
ڈویلپمنٹ ایجوکیشن‘ ہیلتھ ‘ انفراسٹرکچر‘ شفافیت‘ گورننس‘ اکنامک فریڈم
وغیرہ کے باب میں انتہائی نچلے درجے پر ہیں۔ پانامہ لیکس اور پلی بارگین نے
ہماری نیک نامی میں اضافہ نہیں کیا۔ پلی بارگین میں اربوں کا غبن کرنے
والوں کو چند کوڑیاں لیکر چھوڑ دیا جاتا ہے جبکہ دنیا میں پلی بارگین
کرنیوالے جیل جاتے ہیں۔ ایکسپورٹ پاور ہاﺅس بننے کیلئے بہت کچھ کرنا ہوگا‘
لیکن نواز حکومت کا فوکس پانامہ لیکس سے جان چھڑانا ہے۔ ادھر عمران خان کا
ایک ہی ایجنڈا ہے کہ پانامہ لیکس میں حکومت کو اسکے انجام تک پہنچایا جائے۔
ساﺅتھ ایشیا میں پاکستان آئیڈیل لوکیشن پر واقع ہے۔ ایس سی او‘ ای سی او‘
جی سی سی اور سارک ممالک اسکی دسترس میں ہیں۔ ہمارے پاس وہ کیا نہیں جو
دوسروں کے پاس ہے۔ زمین‘ زراعت‘ محنتی‘ افرادی قوت‘ ہم زراعت سے 50 ارب
ڈالر کما رہے ہیں جبکہ 300 ارب ڈالر سالانہ کما سکتے ہیں۔
چین اور ملائشیا ہیومن ڈویلپمنٹ کے بل پر ایکسپورٹ پاور ہاﺅس بن گئے۔ ہمارے
ہاں ساﺅتھ کوریا اور سنگاپور جیسی شفافیت کیسے آئےگی۔ ہماری کابینہ کے
لوگوں کا اکنامک نالج کتنا ہے؟ یہ پالیسیاں بنانے اور اصلاحات کرنے کے قابل
ہیں؟ ہم کمیٹیاں سب کمیٹیاں اور کمیشن بنانے اور ”مٹی پاﺅ“ میں مہارت رکھتے
ہیں۔ ہماری ہر حکومت کو بجٹ خسارے کا سامنا رہا۔ ترقیاتی اخراجات چیلنج بنے
رہے۔ 2016-17ءکیلئے بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 3.8 فیصد رکھا گیا۔ سال کے تین
ماہ میں خسارہ 1.4 فیصد 450 ارب روپے رہا۔ اخراجات آمدنی سے 450 ارب زیادہ
ہیں۔ براہ راست ٹیکس بالواسطہ ٹیکسوں سے کم ہیں۔ یہی ہمارا مسئلہ ہے۔ کل
ٹیکسوں کا 68.5 فیصد بالواسطہ ٹیکسوں پر مشتمل ہے۔ سیلز ٹیکس سے ہونیوالی
آمدنی کل آمدن کا 42 فیصد ہے۔ براہ راست ٹیکسوں کا نشانہ کوئی کوئی جبکہ
بالواسطہ ٹیکسوں کا ملبہ ہر کس و ناکس پر گرتا ہے۔ ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو
سب ملکوں سے کم ہے۔ نیشنل فنانس کمیشن کی تازہ رپورٹ کیمطابق گزشتہ سال
وفاقی اور چاروں صوبائی حکوتیں ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو کو 15 فیصد تک لانے
میں ناکام رہیں۔ 190 ملین افراد میں سے صرف 8 لاکھ 40 ہزار افراد ٹیکس
ریٹرن فائل کرتے ہیں۔ ریٹرن ٹو پاپولیشن ریشو 0.46 فیصد ہے جبکہ انڈیا میں
یہ ریشو 17.7 فیصد ہے۔ مارکیٹوں کے سیکرٹ سروے بھی کوئی نتیجہ نہ سامنے لا
سکے۔ پلی بار گین سکہ رائج الوقت ہے۔ ایماندار ہی کنڈی میں پھنستے ہیں۔
کوئی سرکاری ملازم ایسا نہیں جسکی پنشن کا کیس رشوت کے بغیر انجام تک
پہنچتا ہو۔ ہمیں پتہ نہیں چل رہا کہ ہم مالی تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
ووٹرز بے چارے تو خط غربت سے بھی نچلی سطح پر زندگی گزاریں اور منتخب
ایوانوں میں بیٹھنے والے اپنی تنخواہوں میں 150 فیصد تک اضافہ کر لیں۔ وائٹ
کالر کرائم بھلا کسے کہتے ہیں؟ غریب ترین صارفین پر اشیائے خوردونوش پر
سیلز ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ قانون سازوں کا 19 کروڑ لوگوں کی ویلفیئر میں
کتنا حصہ ہے؟ ایف بی آر اور الیکشن کمیشن کے اعدادوشمار کے مطابق ارکان
پارلیمنٹ کی اکثریت مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہے۔ وزیراعظم روز کہتے ہیں
لوڈشیڈنگ سے نجات کا سفر جاری ہے۔ 2018ءکے بعد بجلی کے بل کم ہو جائینگے
حالانکہ پاور سیکٹر بحران کا شکار ہے۔ پانی اور بجلی کی وزارت نے وزیراعظم
سے 175 ارب روپے مانگے ہیں۔ 2014ءکے آغاز میں ایندھن کا بحران پیدا ہوا تھا۔
سعودی عرب سے 1.5 ارب ڈالر کے گفٹ نے بحران کا پانسا پلٹ دیا تھا۔ برآمدات
گر رہی ہیں۔ قرضوں پر سود کی رقم چڑھتی جا رہی ہے۔ جائیں تو جائیں کہاں؟
وزارت بجلی نے وزارت خزانہ سے 283.2 ارب روپے لینے ہیں۔ آئی ایم ایف کا
6.64 ارب ڈالر کا قرضہ بھی پاور سیکٹر کو بحران سے نہ نکال سکا۔ گردشی قرضہ
بھی جان نہیں چھوڑ رہا۔ حکومت پاکستان میگا پبلک پراجیکٹس کیلئے اشیاءو
خدمات کی خریداری کیلئے ہر سال 55 ارب ڈالر خرچ کرتی ہے۔ پاور پلانٹس‘
سڑکیں‘ پل‘ پائپ لائنیں اور ڈیم میگا پراجیکٹس ہیں۔
سیاسی طورپر مضبوط ٹھیکیداروں کےساتھ پراجیکٹس لگتے ہیں۔ ٹرانسپرنسی
انٹرنیشنل نے بھی اس امر کی تصدیق کی ہے کہ ترقی پذیر ملکوں کے نوجوان ان
ملکوں میں کرپشن سے دلبرداشتہ ہوکر بوکوحرام‘ القاعدہ‘ الشباب اور داعش
جیسی خطرناک تنظیموں سے متاثر ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں وفاقی سطح پر نیب‘
ایف آئی اے‘ وفاقی محتسب جبکہ صوبائی سطح پر محکمہ اینٹی کرپشن اور صوبائی
محتسب کے ادارے موجود ہیں‘ لیکن انکی کارکردگی سے عوام مطمئن نہیں۔ پبلک
اکاﺅنٹس کمیٹیوں اور آڈیٹر جنرل کی رپورٹوں کا بھی وہی حال ہے جو سانحہ
ماڈل ٹاﺅن یا کسی ریلوے یا فضائی حادثے کی انکوائری رپورٹ کا ہوتا ہے۔
اسحاق ڈار نے کالادھن سفید کرنے کی سکیمیں بنائیں۔ کس کیلئے اور کیوں۔ این
آر او بنا کس کیلئے اور کیوں؟ پلی بارگین کی بدعت کو کس نے متعارف کرایا؟
چیئرین سینٹ کا کھلا خط شائع ہواہے کہ احتساب کے ادارے حکومتی دباﺅ اور
سیاسی انتقام کیلئے استعمال ہو رہے ہیں۔ عمران تھک ہار کر یہ کہنے پر مجبور
ہوئے ہیں کہ وہ پانامہ لیکس پر زرداری کی سربراہی میں اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ |
|