وقت کی پابندی کرنا سیکھانے اور ہم سب کو با اخلاق بنانے والی حکومت

چلو یہ تو اچھا ہوا کہ ہم وقت کا خیال تو رکھنے لگے، آہستہ آہستہ وقت کے پابند ہو ہی جائیں گے۔ وقت کی قدر کرنا اگرچہ ہم پاکستانیوں کو موجودہ حکومت نے بجلی کے ذریعے سیکھایا ہے اس لیئے میں کراچی کے باسیوں کی طرف سے کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کا اور ملک کے دیگر شہروں کی جانب سے واپڈا کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ان اداروں نے ہم سب کو وقت کی قدر کرنے کا ایسا سبق دیا بلکہ دے رہے ہیں کہ ہماری نسلیں بھی یاد رکھیں گی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی لوگ لاکھ برائی کریں لیکن میں تو تعریف ہی کروں گا کہ اس بے چاری پارٹی کی حکومت نے موقع لگتے ہی ہم لوگوں کو نہ صرف وقت کی بلکہ کئی چیزوں کی قدر کرنا سیکھا دیا ہے جس انداز سے یہ حکومت چل رہی ہے اس سے لگتا ہے کہ ہم میں سے اکثریت ذہین بھی ہوجائے گی کئی اشیاء کی قدر دان بھی۔

اب دیکھیں نا پچھلی حکومتوں کے دور اس طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے قوم لاپرواہ اور ہر معاملے میں نا قدری ہوگئی تھی اب ہم لوگوں کو پتہ چلا کہ ہر کام وقت پر کرلینا چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ورنہ بجلی چلی جائے گی، لوگ خوب بارہ بارہ بجے دوپہر تک سوتے رہتے تھے اب سوکر دکھائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ آپ کو نو بجے صبع ہی جاگنا پڑے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ادھر بجلی گئی ادھر آپ کی آنکھیں کھل گئیں، بعض علاقوں کے لوگوں کو اس سہولت کی وجہ سے آٹھ بجے صبح بھی اٹھنا پڑتا ہے اور تو اور ایک بڑی سہولت یہ بھی ہوگئی کہ آپ کے پاس رات کو آنے والے مہمان اب آپ سے پوچھ کر آتے ہیں ‘‘ ارے یہ تو بتانا کہ آپ کہ ہاں لائٹ کب جاتی ہے ؟ ‘‘ تاکہ ہم اسی لحاظ سے آئیں گے اور جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔دیکھا کبھی کوئی مہمان اس طرح پنکچوئل ہوئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کیا کرے گی حکومت؟ وقت کی پابندی ہر چیز کی قدر کرنا اور دوسروں کی عزت کرنا چاہے وہ عام بنیا ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اخلاقیات کا درس تو قوم کو تاریخ میں پہلی بار حکومتی اقدامات کے نتیجے میں مل رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر قوم کو صرف برائی ہی حکومت میں نظر آتی ہے۔

میں تو آجکل اکثر گھروں سے ایسی آوازیں سنتا ہوں ارے جلدی کپڑے پریس کرلو ورنہ لائٹ چلی جائے گی ، ارے ذرا جلدی آجانا ہمارے پاس رات کو جاتی ہے آٹھ سے نو بجے تک اور پھر دوبارہ جائے گی ١١ سے باہ بجے تک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یقین کریں ایسی آوازیں سنکر دل باغ باغ ہوجاتا ہے کس قدر چوکنا ہیں ہم لوگ اور سرگرم بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شادی ہالوں میں تو ایسی زبردست زبردست لہجوں کی بازگشت سنائی دیتی ہے کہ شادی کا مزہ ہی دوبالا ہوجاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔کسی طرف سے پڑے میاں کی آواز تو کہیں سے بڑی بی کی آواز اور کسی جانب سے دلہن کی ساس کی آواز کہ اب بس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جلدی کرو لائٹ جانے والی ہے اور یہ ہال والے بھی ٹھیک بارہ بجے لائٹیں بند کردیتے ہیں۔

میرا دل چاہتا ہے کہ موجودہ حکومت کو تعریف کر کر کے ہی ختم کردوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ویسے تو یہ جائے گی نہیں صرف صدر زرداری ہی جاتے ہیں کئی کئی دن غیر ملکی دوروں پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ویسے سنا ہے اس بار وہ ‘‘ لمبے دورے ‘‘ پر جانے والے ہیں یہ نہیں پتا چلا کہ بیرون ملک جاتے ہیں یا ماضی کی طرح ‘‘ اندر ‘‘۔ ویسے پوری حکومت کو بھجوانے کا کام تو حکومت کے اپنے لوگ بہت سلیقے سے کررہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب رہی بات کہ قوم ہر چیز کی قدر کیسے کررہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھئے آپ ہنسیے مت ابھی بس پڑھتے رہییے ورنہ آپ کے پاس لائٹ چلی گئی تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ پڑھ نہیں سکیں گے نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ کوئی بھی چیز خریدنے بازار جائیں تو دکاندار آپ کو کہے گا نہیں یہ تو شارٹ ہے ویسے تھوڑی بہت آپ کو چاہیئے تو میں آپ کو دے دیتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کہیں گے بڑی مہربانی ، اللہ آپ کو خوش رکھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اب آپ اپنے آپ پر غور کریں کہ آپ کا اخلاق کتنا اچھا ہوگیا آپ دکاندار کو ایک چیز کے بدلے میں دعا بھی دے رہے ہیں اس کا شکریہ بھی ادا کررہے ہیں اور جو چیز خرید کر لے جارہے ہیں اس کی قدر کرنے کے ساتھ اپنی دکاندار سے کامیاب ڈیلنگ پر خوش بھی ہورہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہے نا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایسی خوشی کسی اور دور میں آپ کو ملی تھی۔۔۔۔۔۔۔؟

ارے ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے مجھے ایک صاحب نے فون کیا اور عاجزانہ انداز میں کہنے لگے کہ انور صاحب مجھے چینی چاہیے کہیں سے دلوا دیجیئے اللہ آپ کو بہت خوش رکھے گا میں نے کہا چینی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ! انہوں نے کہا ہاں چینی صرف ایک کلو چاہیے کوئی دکاندار نہیں دے رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں ایک دکان پر مشورہ ضرور ملا وہ بھی راز دارانہ انداز میں کہ “ بھائی کسی صحافی یا میڈیا کی شخصیت سے پرچی لکھوا لو یا فون کروالو تو شائد کوئی دکاندار چینی دے دے، صحافیوں کے سب سے تعلقات ہوتے ہیں اور ان کی سب عزت کرتے ہیں “۔

ان صاحب کی اتنی باتیں سننے کے بعد بہرحال چینی تو میں نے ان کو دلوا دی اور اس طرح ہماری تھوڑی عزت اور قدر میں بھی محلے میں اضافہ ہوا اور یہ بھی اطمینان ہوا کہ اب اپنی بھی سفارشی پرچی چلنے لگی ہے۔

کچھ دن پہلے ایک ہمارے سرکاری افسر دوست نے یہ کہہ کر حیران ہی کردیا کہ یار کیا دن آگئے اب ہر چیز کے لیئے خود جانا پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا نے کہا واقعی یہ تو خوشی کی بات ہے آپ کی تو واک ہونے لگی ، صحت اچھی ہوجائے گی، آپ کی حکومت نے تو مفت میں ایکسرسائز کی سہولیات دینی شروع کردی ۔۔۔۔۔۔۔۔بے چارے سرکاری افسر صاحب میری یہ باتیں سنکر ڈر گئے کہ کہیں میں سرکاری مخبر تو نہیں ہوں اور مصنوعی مسکراہٹ جسے آپ زبردستی کی مسکراہٹ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ساتھ چلے گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں سوچتا رہ گیا کہ عجیب بیورو کریسی ہے اپنی حکومت کی تعریف بھی نہیں سن سکتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی میں ان ہی خیالوں میں تھا کہ ایک دم خیال آیا کہ لوڈشیڈنگ کا ٹائم ہونے والا ہے اس سے پہلے کہ لائٹ جائے اپنا کام ختم کرلینا چاہیئے۔۔ (ختم شدہ)
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 166147 views I'm Journalist. .. View More