آپ کہتے ہیں تو پھر ۔۔۔۔
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ پاکستان کے پاس
صرف سونا اُگلتی زمینیں ہی نہیں ، معدنیات کی صورت میں تہ دَر تہ خزانے بھی
دفن ہیں ۔ بس چند ہی برسوں کی بات ہے جب ہم یہ خزانے نکال باہر کریں گے اور
پھر امریکی بھی ہمارا پانی بھرتے نظر آئیں گے ۔ ہم عمرِ عزیز کی سیڑھیاں
چڑھتے گئے لیکن وہ چند برس شیطان کی آنت کی طرح لمبے ہوتے چلے گئے ۔سَتّر
برس گزر چکے لیکن ہم ٹرک کی بَتّی کے پیچھے ہی ہیں۔ اب ایک دفعہ پھر یہی
شور ہے اور ہمیں بھی کچھ کچھ یقین ہونے لگا ہے کہ شاید وہ چند برس قریب آن
لگے ہیں۔ہم اپنے مہربانوں کی باتوں پر تو ہرگز یقین نہ کرتے لیکن چونکہ
غیرملکی اخبارات بھی ایسی ہی دِل خوش کُن خبریں دے رہے ہیں اِس لیے کچھ
اُمید تو بندھی ہے ۔ خلیج ٹائمز اور اکنامک ٹائمز نے لکھا ہے کہ پاکستان
ایشیا کی سب سے بڑی سٹاک مارکیٹ ہے اور کارکردگی میں بھارت سے کہیں بہتر ۔اُن
کے سرویز کے مطابق پچھلے سولہ سالوں میں پاکستان اسٹاک مارکیٹ کے 100
انڈیکس میں 2625 فیصد اضافہ ہوا اور ممبئی اسٹاک میں 431 فیصد ۔ اُدھر
ہمارے اسحاق ڈار المعروف ’’ڈالر‘‘نے ایک دفعہ پھر دعویٰ کردیا کہ 2030ء تک
پاکستان دُنیا کی17 مضبوط ترین معیشتوں میں سے ایک ہوگا ۔ پتہ نہیں ڈار
صاحب سچ کہہ رہے ہیں یا پھر 2018ء کا الیکشن جیتنے کے لیے قوم کو ’’ دانہ‘‘
ڈال رہے ہیں ۔ یہ یقین کہ اگر سی پیک منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہو گیا تو
یہ کوئی ایسا مشکل کام بھی نہیں ۔
اِس منصوبے کی راہ میں بھارت اور امریکہ روڑے اٹکا سکتے ہیں کیونکہ یہ
دونوں ہی سی پیک سے ناخوش ہیں البتہ وجوہات مختلف ۔ بھارت تو ایٹمی پاکستان
کو اقتصادی طور پر خوشحال ہوتا نہیں دیکھ سکتا کیونکہ ایسا ہونے سے اُس کا
علاقے کا چودھری بننے کا خواب چکناچور ہو جائے گا ۔ امریکہ ،چین کی بڑھتی
ہوئے اقتصادی طاقت سے خائف ہے ۔ وجہ اُس کی یہ کہ روس کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے
بعد امریکہ دنیا کی واحد سُپر پاور بَن گیا۔ اب چین بھی اُس کی آنکھوں میں
آنکھیں ڈالنے کے قابل ہو چکا اِس لیے امریکہ کی سُپر پاور بھی داؤ پر ہے ۔امریکہ
اور بھارت تو خیر وہ ممالک ہیں جن کا اپنا اپنا ایجنڈا ہے جس کی تکمیل کی
خاطر وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں لیکن حیرت تو اُن’’ ارسطوانِ پاکستان‘‘ پر ہے
جو بہرصورت سی پیک منصوبے کو متنازعہ بنانے پر تُلے بیٹھے ہیں۔
ایک ایسا ہی ارسطو جو اپنے آپ کو کبھی عاجز ، کبھی خاکسار اورکبھی طالب علم
کہتا ہے ، اُس کی بھرپور کوشش ہے کہ سی پیک منصوبے کو متنازعہ بنایا جائے ۔
اُس کا سارا زور سندھ ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کو اُلٹی پَٹی پڑھانے پر
صَرف ہوتا ہے اور ہر دوسرے تیسرے کالم میں وہ یہی رونا روتا نظر آتا ہے ۔
جب موصوف کو پتہ چلا کہ 27 دسمبر کو جے سی سی کی بیجنگ میں ہونے والی میٹنگ
میں پرویز خٹک سمیت سبھی وزرائے اعلیٰ شرکت کر رہے ہیں تو موصوف نے لکھا
’’بلوچستان کے وزیرِاعلیٰ اپنے (نون لیگ کے )بندے ہیں اور مکمل تابعداری کر
رہے ہیں ۔ اپنے علاقوں کو نوازنے کے لیے نواز حکومت نے جو کچھ کیا ، اِس کا
دوسرا بڑا فائدہ سندھ کو مل رہا ہے اِس لیے سمجھدار ہو کر بھی وزیرِاعلیٰ
سندھ بنیادی مسائل کے حوالے سے اختلاف نہیں کریں گے ۔ پرویز خٹک اکیلے ہوں
گے اور بَدقسمتی سے اُن کی اور اُن کی حکومت کی تیاری نہ ہونے کے برابر ہے
۔ اب صرف ایک میٹنگ کروا کر چھوٹے صوبوں کو خوش کیا جا رہا ہے‘‘۔ جب لکھاری
موصوف کو اپنی ارسطوانہ سوچ کسی گَٹر میں بہتی نظر آئی تو اُن کی تلملاہٹ
دیدنی تھی ۔ لکھتے ہیں ’’آئندہ کے لیے جب کوئی اعتراض اُٹھائے گا تو احسن
اقبال جواب دیں گے کہ سب معاملات پر تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ مہرِ تصدیق
ثبت کر چکے ہیں‘‘۔ بیجنگ میں ہونے والی میٹنگ میں واقعی سبھی وزرائے اعلیٰ
نے مہرِ تصدیق ثبت کر دی اور خوشی خوشی پاکستان لَوٹے ۔ سب سے زیادہ خوش
پرویز خٹک ہی تھے جنہوں نے آتے ہی اعلان کیا کہ اُنہوں نے اپنے سارے
مطالبات منوا لیے ہیں ۔
انتہائی نرگسیت کے شکار لکھاری موصوف سے کوئی پوچھے کہ کیا یہ وزرائے اعلیٰ
اتنے ہی گئے گزرے تھے کہ اُنہیں اپنے بُرے بھلے کی پہچان تک نہ تھی ۔ ویسے
پرویز خٹک کے بارے میں اُن کا خیال ایسا ہی ہے ۔ لکھتے ہیں ’’اب حکومت نے
پرویز خٹک کو رام کرنے کے عمل کا آغاز کر دیا ہے اور اُنہیں ساتھ چین لے جا
کر سب جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے ‘‘۔ چلیں مان لیا
کہ پرویز خٹک میں اتنی عقل نہیں ہو گی جتنی ’’ارسطوئے دَہر‘‘ میں ہے لیکن
کیا پوری تحریکِ انصاف ہی عقل سے پیدل ہے ؟۔ کیا بیجنگ جانے سے پہلے
اکابرینِ تحریکِ انصاف نے خٹک صاحب کو بریف نہیں کیا ہو گا ؟۔ لیکن لکھاری
موصوف تو عقل کی اُن رفعتوں پر ہیں جہاں سے اُنہیں سبھی ہیچ نظر آتے ہیں ۔
چین ، پاکستان کا بے لَوث دوست ہے ۔ اُس نے ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کا
ڈَٹ کر ساتھ دیا ہے لیکن لکھاری موصوف ہمارے اِس عظیم دوست کو بھی گمراہ
کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں ۔ اُنہوں نے لکھا ’’امریکہ کے بَرعکس چین نے
چونکہ ماضی میں پاکستان کے اندرونی معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کی ، اِس
لیے وہ پاکستان کی اندرونی سیاست کو نہیں سمجھتا ۔ اِس معاملے میں پاکستان
کے شاطر حکمران اُنہیں جو بتاتے ہیں ، وہ اُسی پر یقین کرتے ہیں ۔ خوشامد
اور چالبازی کے فَن میں چونکہ ہمارے موجودہ حکمرانوں کا کوئی ثانی نہیں اِس
لیے وہ چینی قیادت کی صفوں میں نہایت مقبول ہیں لیکن مجھے پکّا یقین ہے کہ
جب چینی قیادت کو سمجھ آئے گی تو وہ سَر پیٹنے پر مجبور ہو جائے گی‘‘۔ یہ
موصوف کا نوازلیگ کے خلاف ایسا بغض ہے جسے بِلاخوفِ تردید ’’بغضِ معاویہ ‘‘
کہا جا سکتا ہے ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کیا کوئی ذی ہوش یہ سوچ بھی سکتا ہے
کہ میاں برادران چینی قیادت کے ساتھ’’ہَتھ‘‘ کر رہے ہیں اور ’’بھولی
بھالی‘‘ چینی قیادت کو سمجھ بھی نہیں آ رہی ؟۔ وہ چین جو دنیا کی دوسری بڑی
معیشت ہے اور سُپر پاور بھی ، اُس کے حکمران لکھاری کے نزدیک اتنے ہی
نااِہل ٹھہرے کہ میاں برادران کی شاطرانہ چالوں کو نہیں سمجھ سکتے۔ ویسے
لکھاری موصوف نے کیا خوب نکتہ نکالا کہ اگر کسی ملک کے حکمرانوں کو سمجھنا
ہو تو پہلے اُس ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرو ۔ چین نے چونکہ
ہمارے اندرونی معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کی اِس لیے وہ ہمیں سمجھ بھی
نہیں سکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ چین کی اقتصادی اَساس اتنی مضبوط ہو چکی تھی کہ اُسے اپنا
دائرۂ کار وسیع کرنا ہی تھا جس کے لیے وہ ’’وَن روڈ ، وَن بیلٹ‘‘ منصوبہ
سامنے لایا ۔ اُس نے پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی پانچ راہداریاں
قائم کیں جن کے ذریعے وہ خشکی اور بحری راستے سے مشرقِ وسطیٰ ، افریقہ اور
یورپ تک پہنچنا چاہتا ہے ۔چین کا ’’وَن روڈ‘‘ کا تصور خشکی کے راستے تلاش
کرنا اور ’’وَن بیلٹ‘‘ بحری راستوں کی تلاش ہے ۔ چین کو احساس تھا کہ
پاکستان وَن روڈ ، وَن بیلٹ میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے ، اِس لیے اُس
نے پاکستان کی طرف رجوع کیا ۔ جس سے اُس کا سفر 12000 کلومیٹر سے کم ہو کر
صرف 3000 کلومیٹر رہ جاتا ہے ۔ اِس سے پہلے چین آبنائے ملاکا کے راستے
توانائی کی 80 فیصد دَرآمدات کرتا تھا ۔ چین اِس وقت توانائی کا سب سے بڑا
خریدار ہے ۔ یہ اقتصادی راہداری بننے سے اُس کا وقت بھی کم صرف ہو گا اور
پیسہ بھی ۔ لکھاری موصوف کو علم ہونا چاہیے کہ ملکوں کے مابَین تعلقات’’
کچھ لو ، کچھ دو‘‘ کی بنیاد پر ہوتے ہیں ۔ چین کو اِس راہداری میں فائدہ
نظر آیا اور اُدھر پاکستان کو بھی غیرمعمولی فوائد کی اُمید پیدا ہوئی ،
اِسی لیے اِس راہداری کی بنیاد پڑی۔ |
|