پرانے خواب نئی امیدیں

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے توانائی،انفراسٹرکچر،گوادر پورٹ اور دیگر منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا سفر جاری ہے
2016 کا سورج جہاں بہت سے ادھورے خواب چھوڑ کر غروب ہوا وہیں 2017کا سورج انہی خوابوں کی تکمیل کی امید دے کر طلوع ہوا ہے۔کیا خوب کسی نے کہا ہے کہ اگر منزل تک پہنچنا چاہتے ہو تو اپنے اندر دو چیزوں کو کبھی زوال پذیر نہ ہونے دینا،ایک خواب اور دوسرا امید۔اگر یہ دونوں ختم ہو جائیں تو زندگی بے مقصد اور بے معنی ہو کررہ جاتی ہے۔جبکہ انہی کی موجودگی زندگی کو با مقصد اور منزل پر پہنچانے کا سبب بنتی ہے۔ اسی لیے خواب چاہے ذاتی ترقی کے لیے ہوں یا ملکی ،نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو اس کی ترقی کے لیے بہت سے نئے خواب دیکھے جاتے ہیں اور ان کومکمل کرنے کی امید کے ساتھ دن دوگنی رات چوگنی محنت کی جاتی ہے۔اس وقت پاکستان کو بہت سے مسائل نے گھیر رکھا ہے ان میں ٹرانسپورٹ ،بجلی و گیس کے فقدان کے باعث لوڈ شیڈنگ کا عذاب ،کرپشن،دہشت گردی ،آلودہ پانی ،صحت و تعلیم کے ناقص نظام قابل ذکر ہیں جن کا واسطہ پاکستان کے ہر طبقہ کے عوام کو پڑتا ہے۔ہر پاکستانی کی خواہش ہے کہ جلد از جلد ان مسائل سے چھٹکارا حاصل ہو ۔انہی سے نجات دلانے کے لیے حکومت پاکستان ہر سال مختلف نوعیت کے پراجیکٹس شروع کرتی ہے تاکہ جب یہ پراجیکٹ اپنی منزل کو پا لیں تو پاکستانی عوام کو فائدہ ہو ۔اسی طرح گذشتہ برس بھی بہت سے پراجیکٹ عوامی سہولت کے لیے شروع کئے گئے ان میں سے متعدد تکمیل کے قریب قریب ہیں مگر ابھی وہ مکمل نہیں ہوئے ،ان منصوبوں کی تکمیل تک عوام الناس کوتعمیراتی کام کی بدولت بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ،اس کے برعکس عوام پر امید ہے کہ جب یہ منصوبے مکمل ہو جائیں گے تو یقینا ان کے لیے سکون کا باعث بنیں گے۔

پاک چین اقتصادی راہداری ایک ایسا تاریخ ساز منصوبہ ہے جس سے امید ظاہر کی جارہی ہے کہ اس کے ذریعے خطے کی تاریخ بدل جائے گی۔ یہ منصوبوں کا ایک سلسلہ ہے جس کے تحت جنوب مغربی پاکستان سے چین کے شمال مغربی خود مختار علاقے سنکیانگ تک گوادر بندرگاہ، ریلوے اور موٹروے کے ذریعے تیل اور گیس کی کم وقت میں ترسیل ممکن ہو جائے گی۔20 اپریل 2015ء کو پاکستان میں چینی صدر کے دورے کے دوران، مختلف شعبوں میں مفاہمت کی 51 یادداشتوں پر چین اور پاکستان کے درمیان منصوبوں پر دستخط ہوئے۔چین کے صدر شی اور وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف نے ویڈیو لنک کے ذریعے دو منصوبوں کا افتتاح کیا اور توانائی کے پانچ منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا۔ان میں سے 32 منصوبے 2018ء میں مکمل ہو جائیں گے۔ وفود میں مذاکرات کے دوران جن منصوبوں پر دستخط ہوئے ان میں:۔ گوادر پورٹ، مواصلاتی انفراسٹرکچر، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور غذائی تحفظ سمیت متعدد شعبوں میں تعاون بڑھانے کے منصوبے شامل ہیں اور قراقرم ہائی وے کی اَپ گریڈیشن کی جائے گی۔ اقتصادی منصوبوں کیلئے 46ارب ڈالر کی رقم میں سے 33ارب ڈالر کی چینی کمپنیوں کی سرمایہ کاری ہے جبکہ 12ارب ڈالر کا سستا ترین قرضہ دیا جائے گا جو 15سے 20سال کی مدت میں آسان ترین شرائط پر واپس کیا جائے گا۔یہ منصوبہ 15 سال کیلئے ہے۔ ان منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے کام تیزی سے جاری ہے۔ اس سے نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیائی ممالک کے تین ارب عوام کو فائدہ پہنچے گا۔ چین کے پاکستان میں سفیر سن وی ڈونگ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ’’ بلاشبہ پاک چین اقتصادی راہداری ایک بہت بڑا تجارتی منصوبہ ہے، جس کا مقصد جنوب مغربی پاکستان سے چین کے شمال مغربی خود مختار علاقے سنکیانگ تک گوادر بندرگاہ، ریلوے اور موٹروے کے ذریعے تیل اور گیس کی کم وقت میں ترسیل کرنا ہے۔، توانائی، انفرااسٹرکچر، گوادر پورٹ اور صنعتی تعاون سی پیک کے اہم حصے ہیں جن پر موثر انداز میں عمل درآمد ہورہا ہے یہ منصوبہ پاکستان کے ایشین ٹائیگر بننے کے خواب کی تعبیر ثابت ہوگا۔سی پیک کے منصوبوں کو تیزی سے عملی جامہ پہنایا جارہا ہے‘‘۔

گوادر بندرگاہ کو جدید تر ین بنانے کا پراجیکٹ
چین پاک اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت پاکستان میں جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں گہرے سمندری پانیوں والی گوادر کی بندرگاہ کو چین کے خود مختار مغربی علاقے سنکیانگ سے جوڑا جائے گا۔تین ہزار کلومیٹر طویل اس منصوبے کے تحت مستقبل میں گوادر اور سنکیانگ کے درمیان نئی شاہراہوں اور ریل رابطوں کی تعمیر کے علاوہ گیس اور تیل کی پائپ لائنیں بھی بچھائی جائیں گی۔ابتدا میں اس منصوبے پر اٹھنے والی لاگت کا تخمینہ 46 بلین ڈالر کے برابر لگایا گیا اور یہ پراجیکٹ کئی مرحلوں میں 2030ء تک مکمل ہو گا۔ اس منصوبے کے لیے زیادہ تر رقوم چینی سرمایہ کاری کی صورت میں مہیا کی جائیں گی لیکن ان مالی وسائل میں وہ آسان شرائط والے قرضے بھی شامل ہوں گے، جو بیجنگ حکومت پاکستان کو فراہم کرے گی۔ بندرگاہ کی تعمیر تکمیل کے آخری مراحل میں ہے اس کے علاوہ چین ایکسپریس وے کی تعمیر میں بھی تعاون کررہا ہے جو گوادر پورٹ کو نیشنل ہائی وے سے منسلک کرے گا اور اس پر 16 کروڑ 20 لاکھ ڈالر لاگت آئے گی۔ گوادر میں 23 کروڑ ڈالر کی لاگت سے بننے والا بین الاقوامی ایئرپورٹ دسمبر 2017 تک آپریشنل ہوجائے گا۔ گوادر کو ماڈل اسمارٹ سٹی میں تبدیل کرنے کیلئے چین کے ساتھ مل کر ماسٹر پلان پر بھی کام جاری ہے۔نیز سی پیک منصوبے میں 10 ارب روپے صرف سڑکوں کاجال بچھانے پرخرچ کئے گئے۔اس کے علاوہ پاکستان اور چین 2018 میں مشترکہ سٹیلائٹ لانچ کرینگے،گودر پورٹ کے مکمل ہونے پر پاکستان کو تقریباً 9سے10ارب ڈالر کا سالانہ ریونیو حاصل ہو گا اور 20سے25لاکھ پاکستانیوں کو روزگار ملے گا۔ لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو گا اور صنعتی ترقی کا پہیہ چلے گا اور عوام کی خوشحالی کا باعث بنے گا۔اس سے ثابت ہوا کہ گوادر سی پیک کے ماتھے کا جھومر ہے ۔

اورنج لائن میٹرو ٹرین لاہور
اورنج لائن لاہور میٹرو کے منصوبوں میں سے ایک ہے۔ یہ پاکستان کا پہلا ریپڈ ٹرانزٹ ٹرین نظام ہے۔ یہ میٹرو کی پہلی لائن ہو گی۔ اس کے مالی اخراجات اور تعمیر پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت چینی حکومت کرے گی۔پنجاب حکومت نے ٹرین سپلائی کرنے والی چین کی کمپنی سے 700 ملین ڈالر کم کروائے ہیں۔ اورنج ٹرین کے 24 سٹیشن ایلیویٹیڈ (زمین سے اوپر) اور2زیر زمین ہوں گے۔ ٹرین علی ٹاؤن ٹھوکر نیاز بیگ سے شروع ہو کر کینال ویو، وحدت روڈ ، بند روڈ ، سمن آباد، چوبرجی تک زمین کے اوپر جبکہ جی پی او چوک سے زیر زمین لکشمی چوک، ریلوے سٹیشن، انجیئنرنگ یونیورسٹی ، شالا مار باغ ، محمود بوٹی ، اسلام پارک پہنچے گی ، ٹرین کا آخری سٹیشن ڈیرہ گجراں ہو گا۔ ٹرین ہر آدھ گھنٹے بعد چلے گی ،27.1 کلومیٹر فاصلہ 40منٹ میں طے ہوگا۔ ٹرین کے تقریبا 27 ڈبے ہوں گے ، 24 گھنٹے میں سوا دو لاکھ لوگ اس ٹرین میں سفر کریں گے۔ 2006 میں کیے جانے والے تحقیقی مطالعے کے تحت اس کا 20 کلومیٹر حصہ پْل کی صورت میں جبکہ تاریخی مقامات اور آبادیوں کے قریب سے گزرنے والا راستہ نقصان کی شدت کم کرنے کے لیے زیرِزمین تعمیر کیا جانا تھا۔ تاہم اب اس منصوبے کا نقشہ بھی تبدیل کر دیاگیا ہے۔ترمیم شدہ منصوبے کے تحت 7 کلومیٹر طویل سرنگ کی بجائے اس راستے کا محض.7 1 کلومیٹر حصہ جزوی طور پر زیر زمین تعمیر کیا جائے گا)لاگت کم کرنے کے لیے اس مقصد کے لیے انڈرکٹ اینڈکور ٹیکنالوجی استعمال کی جائے گی) جبکہ بقیہ 25.4 کلومیٹر طویل راستہ بذریعہ پْل طے کیا جائے گا۔ منصوبے میں کی گئی ترامیم کی وجہ سے اس کی افادیت بھی کم ہو کر 25000 تا 30000 مسافر فی گھنٹہ رہ جائے گی۔ اس منصوبے کی تکمیل کا عرصہ جولائی 2015 تا ستمبر 2017 متعین کیا گیا ہے۔ کافی حد تک یہ منصوبہ مکمل ہو چکا ہے ۔عوام کی ایک بڑی تعداد نے اس کے لیے قربانیاں دی ہیں اب بس اس کی تکمیل اور اس سے استفادہ حاصل کرنے کا انتظار کیا جا رہا ہے۔

خنجراب ریلوے
خنجراب ریلوے یا قراقرم ریلوے پاکستان کے گلگت بلتستان کے ضلع ہنزہ نگر کو براستہ درہ خنجراب عوامی جمہوریہ چین کے خود مختار علاقے شنجیانگ سے ملانے کا 682 کلومیٹر طویل ریلوے لائن بچھانے کا ایک منصوبہ زیر تعمیر ہے۔اس کے علاوہ پاکستان اور چین کے درمیان بہتر ٹیلی کمیونیکشن کی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے خنجراب سے راولپنڈی تک فائبر آپٹک بچھائی جارہی ہے جس کا مقصد سائبر اور ڈیٹا راہداریاں بنانا ہے۔ لوگوں کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے تیزی سے کام جاری ہے۔

بھکی پاور پلانٹ
ضلع شیخوپورہ میں 1180میگا واٹ بجلی پیدا کرنے والے بھکی پاور پلانٹ پر تیزی سے کام جاری ہے۔اس پلانٹ پر 3جنریٹر اور 3ٹربائنز نصب کئے جائیں گے ،ان میں سے ایک جنریٹر امریکہ سے منگوایا گیا ہے۔یہ جنریٹر ’جنرل الیکٹرک ‘نے تیار کیا ہے جس کا وزن 400ٹن ہے ۔ان جنریٹرز کے ساتھ تین ٹربائنز بھی لگائی جائیں گی جو کہ فرانس میں تیار کی جارہی ہیں جن میں سے2 گیس ٹربائنز بھی پاکستان پہنچ چکی ہیں ۔اس ٹربائن کی پیداوری استعداد358میگا واٹ ہے۔دونوں ٹربائنز کے ذریعے716میگا واٹ بجلی پیدا کر کے 2017ء کے موسم گرما سے پہلے نیشنل گرڈ میں شامل کر دی جائے گی جس سے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے میں مدد ملے گی۔

واضح رہے کہ اسی گیس ٹربائن کو بہتر کارکردگی کی بنا پر گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیا گیا ہے۔ جنرل الیکٹرک(جی ای ) کی تیار کردہ یہی نائن ایچ اے ٹربائن فرانس کے بوشین پاورپلانٹ میں بھی استعمال کی گئی ہے جسے 62.22فی صد ایفی شینسی ریٹ کی بناپر دنیا کا سب سے بہتر کام کرنے والا پاور پلانٹ قرار دیا گیا ہے۔

بھکی پاور پلانٹ کا تعمیراتی کام بھی تیزی سے جاری ہے اور اب تک نصف سے زائدکام مکمل کیا جا چکا ہے۔توقع ہے کہ 1180میگا واٹ بجلی کی پیداور کے لئے بھکی ضلع شیخوپورہ میں نصب کیا جانے والا یہ پاورپلانٹ کام شروع کرنے کے بعد اس خطے میں سب سے بہتر استعدادِ کار والا پاور پلانٹ ہوگا اور پاکستان میں پاور سیکٹر کے لئے ایک اہم سنگِ میل ثابت ہوگا جہاں بہتر استعدادِ کار کا مطلب بجلی کی پیداواری لاگت میں کمی اور صارفین کو اس کا فائدہ منتقل کرنا ہے۔

ساہیوال کول پراجیکٹ
ساہیوال میں 1320 میگاواٹ کے کول پاور پراجیکٹ چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور کا ایک اہم منصوبہ ہے،جوبارش کا پہلا قطرہ سمجھا جا رہا ہے جس سے پیاسی دھرتی کو توانائی ملے گی اورملک روشن ہوگا۔ساہیوال میں کوئلے کے ذریعے پہلے مرحلے میں 660 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی اور دوسرے مرحلے میں بھی 660 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ مکمل ہو گا۔ اس طرح اس منصوبے سے 1320 میگا واٹ بجلی پیدا کی جائے گی اور یہ منصوبہ ایک ارب بیس کروڑ روپے کی لاگت سے 2017ء میں مکمل ہوگا۔

نیلم جہلم ہائیڈرو الیکٹرک پاور پراجیکٹ
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں زیرِ تعمیر 963 میگاواٹ کا نیلم جہلم ہائیڈرو الیکٹرک پاور پراجیکٹ جسے 2016 میں مکمل ہونا تھا،جو 50 ارب روپے کی کمی کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہو گیا تھا۔ قومی اہمیت کے حامل 969 میگاواٹ پیداواری صلاحیت کے نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی تکمیل کی جانب ایک اہم پیش رفت کے طور پر واپڈا نے اس منصوبے کی بائیں سرنگ کی کھدائی مکمل کر لی۔ پراجیکٹ کی انتظامیہ نے یہ سنگ میل اس وقت عبور کیا جب ٹنل بورنگ مشین نے کھدائی کا عمل مکمل کرتے ہوئے بائیں سرنگ کے دونوں حصوں کو نہایت درستگی کے ساتھ آپس میں ملا دیاتھا۔ منصوبے کی دائیں سرنگ کی کھدائی اپریل 2017 میں مکمل ہو گی، جس کے بعد دریائے نیلم کے پانی کو ڈیم سے پاور ہاؤس تک منتقل کرنے کا زیر زمین نظام حتمی مرحلے میں داخل ہو جائے گا۔ اس زیر زمین نظام کی تکمیل پر پیداواری یونٹوں کی ویٹ ٹیسٹنگ کی جائے گی ، جبکہ منصوبے سے بجلی کی پیداوار 2018 کے اوائل میں متوقع ہے۔ منصوبے پر 85.3 فیصد کام مکمل ہو چکاہے ۔یہ منصوبہ جنوری 2008ء میں شروع کیا گیا تھا اور 2017ء کے وسط میں مکمل ہو گا۔ یہ میگا منصوبہ چائنہ گی ژوبہ گروپ کمپنی مکمل کر رہی ہے۔منصوبہ اگر بروقت مکمل ہوتا تو اس کی لاگت 280 ارب روپے ہوتی تاہم اس کے نئے پی سی ون کی لاگت 414 ارب روپے ہے، نیلم جہلم کے پہلے فیز کا افتتاح 2017ء میں ہونے کا قوی امکان ہے۔

چترال ہائیڈرل پاور پلانٹ
چترال میں مائیکرو ہائیڈرل پاور پلانٹ کا آغاز کر دیا گیا۔یہ پاور پلانٹ بہت اہمیت کا حامل ہے جس کی وجہ سے علاقے میں بجلی کی فراہمی میں آسانی پیدا ہو گی۔

بلوتی پاور پلانٹ
قصور کے نزدیک 1223میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کے حامل بلوتی پاور پلانٹ کی تکمیل کا کام تیزی سے جاری ہے۔ وفاقی حکومت کے زیر اہتمام اس پاور پلانٹ سے بجلی کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہونے کی امید کی جا رہی ہے۔نیزیہ تکمیل کے مراحل میں ہے۔الغرض سی پیک منصوبوں میں توانائی کے 22پروجیکٹس شامل ہیں۔ 35ارب ڈالرکی سرمایہ کاری کے ان منصوبوں سے پاکستان کو 8300 میگاواٹ بجلی میسر ہو گی جس سے پاکستان میں لوڈشیڈنگ کا بڑی حد تک خاتمہ ہو سکے گا۔نیزتوانائی کے بیشتر منصوبے 2018 میں مکمل ہوجائیں گے۔
Ishrat Javed
About the Author: Ishrat Javed Read More Articles by Ishrat Javed: 70 Articles with 92543 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.