ایک لمحے کو شہر خموشاں کے باسیوں کی مانند سوچنے کا جی
کر رہا ہے۔ خیال آتا ہے کہ میں بھی ایک شہر خموشاں ہی کی باسی ہوں۔ جس کی
مرقد پر بلڈوز ر چلائے جا رہے ہیں اور میں کچھ کہہ نہیں سکتی۔ خود کو بے بس
لاچار اور مجبور تصور کر رہی ہوں۔ خود کو ان لوگوں کے بیچ میں دیکھ رہی ہوں
جو طاقت ہونے کے باوجود کچھ کرنہیں سکتے ۔ ملنے والے مواقع کو ضائع کر کے
حالات کا رونا روتے ہیں یا تقدیر کا لکھا تصور کر کے صبر کا درس دیتے ہیں۔
میری یہ حالت گزشتہ روز سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کے دوران عدالت کی جانب
سے دئیے جانے والے ریمارکس کے بعد ہوئی ہے۔عدالت کا کہنا تھا کہ آئین کے
آرٹیکل 62اور63پر عمل درآمد کیا گیا تو پارلیمنٹ میں موجود تمام اراکین میں
سے صرف سراج الحق ہی بچ پائیں گے۔یعنی آئین پاکستان کے ان دو آرٹیکل پر
235ممبران میں سے صرف ایک ہی پورا اترتا ہے۔ آئین کے اس آرٹیکل کی چند شقیں
اور پارلیمنٹ میں موجود عوامی نمائندوں کو دیکھتے ہیں۔آرٹیکل 62کے مطابق
کوئی شخص اہل نہیں ہو گا، رکن منتخب ہونے یا چنے جانے کا،بطور ممبر مجلس
شوریٰ یا پارلیمنٹ کے،ماسوائے یہ کہ:
وہ اچھے کردار کا حامل ہو اور عام طور پر احکام اسلامی سے انحراف میں مشہور
نہ ہو۔خاکم بدہن اراکین پارلیمنٹ کا کردار اور اسلامی احکام سے انحراف ان
کے لئے کوئی معانی نہیں رکھتا ، اسی آرٹیکل کی شق (ہ) کے تحت وہ اسلامی
تعلیمات کا خاطر خواہ علم رکھتا ہو ، اور اسلام کے منشور کردہ فرائض کا
پابند ہو ، نیز کبیرہ گناہ سے اجتناب کرتا ہو۔جبکہ شق(و) وہ سمجھدار ہو ،
پارسا ہو،ایماندار اور امین ہو،اور کسی عدالت کا فیصلہ اس کے برعکس نہ
ہو۔پانامہ کیس اور بیرون ملک اثاثے اس بات کی شاہد ہیں کہ اراکین پارلیمنٹ
اس شق پر کتنا پورا اترتے ہیں۔
آرٹیکل 63اراکین پارلیمنٹ کی نااہلیت کو بیان کرتا ہے ۔کوئی بھی شخص قومی
اسمبلی سے نااہل ہو جائے گا جب :
(الف) وہ فاتر العقل ہو اور کسی مجاز عدالت کی طرف سے ایسا قرار دیا گیا ہو
،اس حوالے سے قارئین بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں اسی آرٹیکل کی ذیلی شق (ب)کے
مطابق وہ غیر بریت یا فتہ دیوالیہ ہو ۔ ملک کا کاروبار چلاتے یا اہم عہدوں
پر براجمان ممبران سے با آسانی انداز لگایا جا سکتا تھا کہ کون سا فرد کس
اہم کام پر معمور ہے اور اس کی صلاحیت و تربیت کیسی ہے۔ اسی آرٹیکل کی شق
(ج) خاصی قابل توجہ ہے جس کے مطابق ممبران اسمبلی اگر پاکستان کا شہری نہ
رہے ، یا کسی بیرونی ریاست کی شہریت حاصل کرے تو وہ نا اہل تصور ہوگا۔
235اراکین میں اکثریت دوہری شہریت رکھتی ہے۔اراکین پارلیمنٹ کی اکثریت تو
ذیلی شق(ر) سے منحرف ہو رہی ہے جس کے مطابق ایسا شخص اسمبلی سے نااہل تصور
ہو گا جب اسے کسی عدالت مجاز سے ایسی رائے کی تشہیر ، یا کسی ایسے طریقے پر
عمل کرنا ، جو پاکستان کے نظریہ ، اقتدار اعلیٰ ، سالمیت ،یا سلامتی یا
اخلاقیات یا امن عامہ کے قیام یا پاکستان کی عدلیہ کی دیانتداری یا آزادی
کے لئے مضر ہو ، یا جو پاکستان کی مسلح افواج یا عدلیہ کو بدنام کرے ، یا
اس کی تضحیک کا باعث ہو اس حوالے سے سیاست دانوں کے میڈیا پر دئیے جانے
والے بیانات ہی کو اٹھا کر دیکھ لیں ان پر کارروائی کریں تو نصف سے زیادہ
پارلیمنٹ خالی ہو جائے گی۔ اب آتے ہیں ذیلی شق (ع)کی جانب جس کے مطابق رکن
پارلیمنٹ اس وقت نااہل ہو جائے گا اگر اس نے قرضہ دو ملین روپیہ یا زیادہ
لیا ہے ، کسی بینک ، فنانشل ادارے ، کو آپریٹو سو سائٹی یا کو آپریٹو باڈی
سے، اپنے نام پر ، یا اپنی بیوی، خاوند یا بچوں کے نام پر ، جو ایک سال تک
واپس ادائیگی نہ ہو سکی ہو، یا اس قرضہ کو معاف کروایا گیا ہواور جناب
پانامہ کیس، بنکوں سے قرضوں کی معافی یا قرضوں کی ادائیگی نہ کرنا تو یہاں
سیاست کا مزاج ہے۔عدالت کے ریمارکس کے بعد میں سوچنے لگی کہ یہ اراکین تو
ہم نے خود ہی پارلیمنٹ میں بھیجے ہیں اپنے ووٹوں سے منتخب کرکے، نعرے لگا
کر، چندہ دے کر، وقت دے کر ، الیکشن کمپین کرکے، وسائل انہیں ہم نے خود
فراہم کئے تاکہ پارلیمنٹ میں جا کر ہمارے مسائل حل کریں۔لیکن کبھی وسائل
دینے سے پہلے ہم نے اپنے نمائندے کے بارے میں سوچا ہے کہ وہ کس کردار کا
حامل ہے، ہم تو ایسے لیڈر پر فخر کرتے ہیں جو جیل کی ہوا کھا کر آئے، ایسا
لیڈر ہمارے لئے باعث تقلید سمجھا جاتا ہے جو بیرون ملک میں سرمایہ لگا کر
دولت کما رہا ہو۔ وہ نمائندہ زیادہ مہذب سمجھا جاتا ہے جو قرض معاف کراکے
علاقے کا نامی بد معاش ہو،اس کی دولت ہی اس کی خامیوں پر پردہ ڈال دیتی ہے،
نسبتا سنجیدہ، محب وطن ، دیانت دار اور مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا فرد
صرف اس بنیاد پر نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اس نے کون سا جیت جانا ہے ، اس
نے تو ممبر اسمبلی بننا نہیں ہے تو ہم اپنا ووٹ ضائع کیوں کریں۔ہماری اسی
سوچ نے آج عدالت کو ایسے ریمارکس دینے پر مجبور کیا، یہ ریمارکس ایک کیس پر
دئیے جانے والے ریمارکس نہیں بلکہ ہماری اجتماعی سوچ کی عکاسی ہے۔ سراج
الحق بھی اسی پارلیمنٹ کا حصہ ہیں ، یہ بھی آسمان سے اتری ہوئی کوئی مخلوق
نہیں بلکہ ایسے ہزاروں افراد اس ملک پر موجود ہیں۔بس اپنی اجتماعی سوچ کو
بدلنے کی ضرورت ہے ، ملک اور قوم کی تقدیر سیاست دانوں نے نہیں بلکہ ہم نے
خود بدلنی ہے، اپنے ووٹ کے حق کے ذریعے، اپنے وسائل اور نعروں کے ذریعے،
ایسے نمائندے منتخب کرکے جو آئین کے آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ پر پورا اترتے
ہیں۔شہر خموشاں کے بند دریچوں سے نکل کر معاشرے ، ملک اور قوم کو بدلنے کے
لئے تبدیلی اپنے اندر لائیں، تاکہ اس ملک کی ماتھے پر مایوسیوں کے اندھیروں
کی بجائے امید اور خوشحالی کی روشنیاں جگمگا سکیں۔اپنے دلوں پر تبدیلی کے
قمقمے روشن کریں توجبینیں ترقی اور خوشحالی سے کھل اٹھیں گی۔ |