ایم ایس

ایک اٹھائیس سالہ خاتون کو تین دنوں سے داہنی آنکھ میں تکلیف محسوس ہو رہی تھی ہر شے دھندلی لگتی اور جب بینائی مزید کمزور ہوئی تو فوراً آئی سپیشلسٹ سے رجوع کیا ڈاکٹر نے ٹیسٹ لینے کے بعد خاتون کو نیورو لوجسٹ کے پاس بھیجا نیورو لوجسٹ نے مکمل چیک اپ کے بعد ایم ایس کا شبہ ظاہر کیا اور مخصوص ادویہ استعمال کرنے کا مشورہ دیا۔ایم ایس کیا ہے؟۔ملٹی پَل سکیلے روس ایک ایسی بیماری ہے جس میں زیادہ تر نوجوان افراد مبتلا ہوتے ہیں اسکی کئی وجوہات اور علامات ہیں عام طور پر اعصابی نظام پر حملہ کرتی اور اعصابی کوٹنگ کو نقصان پہنچاتی ہے۔ اس بیماری اور علامات کے کئی الفاظ انگریزی میں ہیں جنہیں اردو میں ٹرانسلیٹ کرنا ناممکن ہے ، طبی یا ٹیکنیکل الفاظ کو اکثر اردو میں بیان یا تحریر کرنا بہت مشکل ثابت ہوتا ہے لیکن کوشش ہو گی کہ درست تلفظ میں تحریر کروں تاکہ کم سے کم مطالعہ کرنے میں دقت پیش نہ آئے ،اس بیماری کی کہانی اگرچہ طویل اور تاریخی ہونے کے ساتھ ساتھ کئی علامات بھی مختلف اور کئی اشکال میں ہیں اسی لئے اس بیماری کو مجموعی طور ملٹی پل کہا جاتا ہے۔طبی زبان میں اسے ای ڈی یعنی این سیپ ہیلومائیلی ٹیس۔ڈِس ایمینیٹ بھی کہا جاتا ہے۔لاطینی زبان میں ملٹی پَل کو زائد مقدار کہا جاتا ہے اور یونانی زبان میں سکیلے روس کو سخت یا مضبوط کے نام سے پکارا جاتا ہے ان دونوں زبانوں کا مجموعہ زائد مقدار میں مضبوط ہے،طبی زبان میں اعصابی نظام کو نیورو سسٹم سے جانا جاتا ہے اور نیورو سسٹم اعصابی خلیات اور نظام میں اہم منفی اور مثبت کردار ادا کرتے ہیں جس سے جسمانی نظام متاثر ہوتا ہے، ایم ایس بیماری میں مبتلا افراد عام طور پر دماغی سسٹم ، ریڑھ کی ہڈی کا نظام اور بصیرت وغیرہ کا شکار ہوتے ہیں۔نیورو سسٹم میں عصبی ریشے یعنی آٹو ایمیون سب سے بڑی علامات اور وجوہات ہیں ان علامات سے انفیکشن ، سوزش اور مدافعتی خلیات میں خلل پڑتا ہے اور منفی رد عمل ظاہر ہوتا ہے کیونکہ یہ خلیات مختلف انداز اور اشکال سے جسمانی نظام پر مختلف طریقوں سے حملہ کرتے ہیں جس سے انسانی جسم کا سٹرکچر متاثر ہوتا ہے ،نیورو سسٹم یعنی کی ایک علامت جسے مائی لین امپلز کہا جاتا ہے شدید نقصان پہنچاتے ہیں یعنی جسمانی خلیات کی رفتار میں کمی اور رسائی حفاظتی نظام کو درہم برہم کرتے ہیں اور ایم ایس کی ان مختلف علامات سے بیماری کی ابتداء ہوتی ہے۔ایم ایس کی مکمل ریسرچ کے بعد بھی شکوک و شبہات سے دیکھا جا رہا ہے ماہرین کی نظر میں عام طور پر یہ بیماری سرد ممالک یعنی مرکزی یورپ ،امریکا،جنوبی کینیڈا،جنوبی آسٹریلیا ،نیوزی لینڈ اور جرمنی میں پائی جاتی ہے اعداد شمار کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار افراد ایم ایس میں مبتلا ہیں۔ایم ایس کی مخصوص علامات میں پٹھوں کی کمزوری ، فالج اٹیک اور آپٹیکل اعصاب کو متاثر کرنا ہے جو نیورو سسٹم کو مختلف انداز میں متحرک کرتی رہتی ہے اور مختلف انداز میں پھیل جاتی ہے۔ریسرچ کے مطابق مردوں کے مقابلے میں خواتین دوگنا اس بیماری کا شکار ہوتی ہیں اور اس کا حملہ عام طور پر نوجوانی یعنی بیس برس سے شروع ہوتا ہے تیس برس تک کسی بھی فرد کو شکار کرتی ہے جبکہ بچپن یا بڑھاپے میں اٹیک کے بہت کم امکانات ہیں جدید ادویہ اور تھیراپی کے نقطہ نظر سے یہ بیماری قابل علاج ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے اسکے لئے ماحول اور معیار زندگی کا معقول ہونا نہایت اہم ہے ،دنیا بھر میں دوران تشخیص اور بعد ازاں واضح طور پر نشاندہی نہیں کی جا سکی کہ ایس ایم کی بنیادی وجوہات کیا ہیں تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر جنیاتی اور ماحولیاتی رد عمل کا خاص کردار ہے۔ موروثی عوامل کو نظر انداز نہیں کیا گیا لیکن کوئی خاص کیس بھی سامنے نہیں آیا،اسکی دیگر علامات میں دھندلا پن ،جنسی معاملات اور غیر معمولی تھکاوٹ کو بھی اہم سمجھا جاتا ہے۔ایم آر ٹی مشین سے اس بیماری کی تشخیص کی جا سکتی ہے دوران تشخیص یعنی دماغی ریسرچ سے مکمل انفارمیشن حاصل ہو جاتی ہے اس بیماری میں مبتلا افراد سب سے پہلے سکن ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں اور بعد ازاں نیورو لوجسٹ سے مشورہ کیا جاتا ہے الرجی ٹیسٹ اور بلڈ ٹیسٹ سے بھی اس سے منسلک بیماریوں کا پتہ لگایا جا سکتا ہے تاکہ دیگر بیماریوں کے علاوہ ایم ایس بیماری بھی شفاف طور پر عیاں ہو سکے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Shahid Shakil
About the Author: Shahid Shakil Read More Articles by Shahid Shakil: 250 Articles with 245990 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.