ہزاروں برس قدیمی،ثقافت وروایات،انسانی
تہذیب وتمدن اورتاریخی واقعات کاامین شام کا بدنصیب شہرحلب اس دورکے درندہ
صفت فراعین کی جدیدترین فضائیہ،دیوہیکل اور بارود برساتے ٹینک،بھاری توپیں
اورموت بانٹتی وحشی ملیشیاؤں کے نرغے میں آچکاہے۔شام پرمسلط بشارالاسداوراس
کےسرپرستوں نے اس شہرکے باسیوں سے انتقام لینے کیلئے حالیہ بدترین جنگی
کاروائیوں کاآغازماہ نومبرمیں کیاتھا جسے دسمبرکے وسط میں کافی حد تک مکمل
کرلیاگیاہے۔اس سہ ملکی تعاون اورکیل کانٹے سے سرہونی والی مہم کے نتیجے میں
حلب کے سیکڑوں شہریوں کی تڑپ تڑپ کرجان دینے اورہزاروں کے زخمی ہونے کی
مصدقہ اطلاعات ہیں ۔تقریباًچھ سال سے حلب شہرکے باسی بشار حکومت کے ان ظلم
وستم اورجبرو تسلط کی وجہ سے باغی ہوچکے ہیں۔
دنیاکے قدیم شہرہونے کے ناطے حلب والوں کو اپنی شاندارتاریخ اورروایات پر
نازاں ہونے کاپوراحق ہے۔صدیوں سے اس شہرکی اسلام کے ساتھ والہانہ وابستگی
بھی مسلمہ رہی ہے،یہی وجہ ہے کہ تقریباً٢٣لاکھ کی آبادی کے حامل اس شہرکی
٩٠٪سنی مسلمانوں کی آبادی بشارالاسدکے متعصبانہ طرزِ حکمرانی کیلئے ناقابل
برداشت ہوگئی اوراب وہ انہیں سزادینے کیلئے بے چین تھی۔باربار حزب اللہ
اورایران نوازملیشیاؤں کے عملی تعاون سے حلب پرقبضے کی کوشش کی گئی لیکن
ہربار ناکامی ہوتی رہی لیکن بشارالاسدکی ظلم وجبرکی عادی حکومت نے اپنے
بیرونی مددگاروں کی مدد سے وقفے وقفے سے شہرمیں پاؤں جمانے کی حکمت عملی
جاری رکھی۔اس دوران اہل حلب کے خلاف ہرطرح کا جنگی جنون پوری طاقت اور
بیدری کے ساتھ استعمالکرتے ہوئے ان پرکبھی موت اورکبھی شدیدترین بھوک مسلط
کی گئی اورنہ صرف ان کی خوارک کی رسد مکمل طورپربندکردی گئی بلکہ پانی
بجلی،ادویات اورعلاج معالجے کی سہولیات سے محروم کرکے ان کو شدید اذیت میں
مبتلاکرکے شہرچھوڑنے پرمجبور کیا گیا۔اس کے نتیجے میں شہرسے ایک نہیں بلکہ
کئی مرتبہ نقل مکانی کی جاتی رہی۔ماہ نومبرکے اواخرمیں بشارالاسدنے اپنے
بیرونی آقاؤں کی ہرطرح کی مدد سے ایک بھرپوراورخوفناک جنگ شروع کی اورپچھلے
تین چارہفتوں سے روسی اورشامی فضائیہ کے بمبارطیاروں نے براہِ راست مسجدوں
کے میناروں،
اسپتالوں، تعلیمی اداروں اورنہتے شہریوں کے گھروں کوتاک تاک کرنشانہ
بناکرموت تقسیم کی۔
سچی بات یہ ہے کہ اہل شام کی لاشوں پرحکومت کرنے کے عادی ہوجانے والے
بشارالاسدکیلئے یہ ملک کاسب سے بڑا چیلنج ہے جس کادوسرابڑاشہر اس کے ظلم کے
خلاف اٹھ کھڑاہواہے۔دوسرے شہروں کی طرح اس شہرمیں بھی بیک وقت مختلف باغی
گروپ سرگرم عمل رہے ہیں۔ نتیجتاً پچھلے چھ برسوں کے دوران کہیں شامی حکومت
کوعالمی حمائت یافتہ آزادشامی فوج اورکہیں النصرہ فرنٹ،کہیں القاعدہ ،
اورکہیں داعش سے پالاہے۔ حلب کے مضافاتی حصے شیخ سعیدیا مشرقی حلب میں بھی
سرکاری فضائیہ نے روسی جنگی طیاروں کی مدد سے داعش پربمباری کے کورمیں ہی
اپنے بے گناہ شہریوں پر بارودکی برسات کی ہے۔
بشارالاسدگزشتہ کئی سال سے اپنی حکومت کوقائم رکھنے کی کوشش میں دوسرے
شہروں اورقصبوں میں بھی بمباری اورگولہ باری سے اب تک لاکھوں شامیوں کے خون
سے ہولی کھیل چکا ہے۔اس سارے خونی کھیل میں اپنے پڑوسی اور قریبی اتحادی
ایران کے علاوہ روس کی بھی مسلسل پشت پناہی اور ہرطرح کی مددبھی اسے حاصل
ہے۔ لبنان سے تعلق رکھنے والی ایران نواز ملیشیابھی اس سارے عرصے میں
بشارالاسدکے ساتھ اہل شام کے خون سے ہولی کھیل رہی ہے، شائدیہ پہلی مثال
ہوکہ اپنے ہی عوام کودمشق سے چندکلومیٹرکے فاصلے پر الفوطہ کے باسیوں کو٢١/اگست
٢٠١٣ء میں کیمیائی ہتھیاروں سے لگ بھگ ڈیڑھ ہزارکی تعدادمیں موت سے
دوچارکردیاگیااوراس سانحہ کے بعدہی شامی حکومت کواپنے تمام ترسرپرستوں کے
باوجودکیمیائی ہتھیاروں سے ہاتھ دھوناپڑے تھے۔کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال
کااس سے پہلے مختلف ملکوں پر الزام لگتارہالیکن یہ اپنے عوام کے خلاف
استعمال کرنے کاہرگزنہیں تھا۔اب تین سال کاعرصہ گزرنے کے بعدحلب کے شہریوں
کوبھی الفوطہ کے شہریوں کی طرح سیکڑوں کی تعدادمیں موت کی نیندسلانے کے
جنگی منصوبہ میں اپنے ہی ایک شہرکی فتح کااعلان کیاگیا۔
بعض اطلاعات کے مطابق بشاری،ایرانی اورروسی جنگی حکمت کاروں نے ماہ جولائی
میں ہی حلب کامحاصرہ شروع کردیاتھا تاکہ اہل شہرپرخوراک،پانی اور ادویات کی
ترسیل کے سارے راستے بندکرکے انہیں سرنڈرکرنے پر مجبور کیا جاسکے لیکن
پچھلے چھ سال سے وقفے وقفے سے اس خونی تثلیث کا مقابلہ کرنے والے اہل حلب
نے اس بار بھی کمال صبروہمت کا مظاہرہ کیااگرچہ نظرآ رہاتھاکہ جنگی جنون
میں مبتلایہ تثلیث فضائی اورزمینی جنگ کی اندھادھندتیاری کے ساتھ آرہی تھی
اس کے باوجودماہِ نومبرکے آخری عشرے سے دسمبر کے وسط تک حلب کے باسیوں نے
بھوک اورپیاس کا ڈٹ کرمقابلہ کیا۔ان شہریوں کے بھوک اورپیاس کے ساتھ اپنے
گھروں میں پرامن رہنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جنگی تثلیث نے شہرکابری طرح
محاصرہ کررکھاتھااورشہرسے نکلنے کی کوشش کرنے والے خاندانوں کونہ صرف لوٹ
مارکانشانہ بنایاجاتا تھا بلکہ انہیں شہیدبھی کردیاجاتاتھا۔
دسمبرکے دوسرے ہفتے کے آغازکے ساتھ ہی شہرپرخوفناک بمباری تیزکردی گئی
اورشہرمیں چاروں اطراف سے ٹینکوں اوربھاری بھرکم اسلحے کے ساتھ نہتے شہریوں
کومشاق نشانہ بازوں کو نشانہ بناناکیلئے کھلاچھوڑ دیاگیا۔نہتے شہری بمبار
طیاروں اورٹینکوں کامقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہرگزنہ تھے۔ اس خطرناک حالت
میں گھروں میں ہی بوڑھے ،بچے ، خواتین اورجوان بلاتمیزشہید کردیئے گئے
اورجنہوں نے اپنی جان بچانے کی کوشش کی انہیں زمینی فورسز نے نشانہ
بناناشروع کردیاجس سے ان گنت زخمیوں نے کھلے عام سڑکوں پر تڑپ تڑپ کرجان دے
دی۔ہزاروں کی تعدادمیں شکست و ریخت کاشکارہونے والوں کوان کے گھروں نے اپنے
اندرہی ہمیشہ کیلئے چھپالیا۔زخموں سے چور والدین اپنے جاں بلب جگرگوشوں
کوبے بسی کی تصویربنے ان کے پرخچے اڑتے ہوئے چیخ وچلا رہے تھے لیکن کوئی ان
کی فریادپرکان دھرنے اوران کوایسے کرب ناک مناظر سے بچانے کیلئے موجودنہیں
تھا۔عجیب قیامت کا منظر تھاکہ ماں باپ اپنے بچوں،بھائی اپنے بھائی اور ماں
باپ کواپنی آنکھوں کے سامنے تڑپتے ہوئے مرتادیکھ رہے تھے،ہاں یہ فرق
ضروررہاکہ کچھ مرکرتہہ خاک ہورہے تھے اور کچھ زندہ ہی اندھی بمباری
اورفورسزکی ظالمانہ فائرنگ کے باعث گلیوں،بازاروں اور گھروں کے ملبے کے
ڈھیربن رہے تھے اور موت سے بچ نکلنے کی کوشش کرنے والوں کیلئے عسکری
ملیشیاکے مشاق نشانہ باز راستہ روک کربراہِ راست ان کے سروں کانشانہ لیکر
گولی داغ دیتے تھے۔سفاکانہ عمل تویہ ہے کہ اسی شام کوایک سفاک ملیشیا
کاظالم بڑے فخرسے اپنے ساتھیوں کوبتارہاتھاکہ اس نے آج بلاتمیز ۱۹۳/افرادکونہ
صرف گولیوں کانشانہ بلکہ یادگار ریکارڈکومحفوظ رکھنے کیلئے اکثر تڑپتی
لاشوں کی فلمبندی بھی محفوظ کی ہے....الامان الحفیظ۔
ٹینکوں کی مددسے شہروں کوتاراج کرنے کیلئے فوجی دستے الگ سے کام کر رہے تھے
جوبمباری کے باوجود بچ جانے والوں کوخوفزدہ کرنے کیلئے بھی گلیوں اور
بازاروں میں دندناتے پھررہے تھے تاکہ کوئی زندہ آدمی نظرآجائے تواسے ٹینکوں
کے نیچاکچلاجاسکے۔واقع یہ ہے کہ شامی اورروسی فضائیہ کے طیاروں نے پورے
شہرکوکھنڈرات میں تبدیل کرنے کاتہیہ کر رکھاتھاکہ کہیں چھت توکیاکوئی اوٹ
بھی سلامت نہ رہ سکے۔اس مقصدکیلئے ایرانی ملیشیاکے ارکان کوپہلے شہرکے تمام
نقشے بھی فراہم کردیئے گئے تھے تاکہ پورے شہر کوخون میں نہلانے میں کوئی
کسرباقی نہ رہے۔ایک اطلاع کے مطابق ایران کی القدس فورس کے سربراہ جنرل
قاسم سلیمانی بھی چنددن کیلئے حلب میں دیکھاگیا۔ کیایہ ایرانی جرنیل اپنی
ملیشیا کی رہنمائی کیلئے موجود تھا ،ملیشیاکاحوصلہ بڑھانے آیاتھایابراہِ
راست کمان کافریضہ سرانجام دے رہاتھا؟ابھی اس معاملے کا منظرواضح نہیں ہے
تاہم یہ ضرورمعلوم ہواہے کہ پہلے عراق اوراب شام میں دیکھاجانے والایہ
ایرانی جرنیل اب مستندشواہدکے ساتھ اقوام متحدہ کے اجلاسوں کاموضوع بننے
والاہے کہ حلب کی تباہی کے وقت وہاں کیاکرنے گیا تھا ؟
اقوام متحدہ اس حوالے سے کسی نتیجے پرپہنچے یانہیں لیکن یہ اپنی جگہ حقیقت
ہے کہ ایران نوازملیشیاکنٹرول سے باہرہوچکی ہے اوراب اس ملیشیاکی کاروائیاں
عراق،شام اوریمن کے علاوہ کہیں اورہونااب شائدزیادہ دورکی بات نہیں ہے
خصوصاًایسے ماحول میں ایران نے اپنی القدس فورس کے نام پرکھڑی کی جانے والی
فوج کواپنے ہمسایہ ملکوں کے عوام کے خلاف بھی استعمال کرناشروع کر
رکھاہے۔عالمی میڈیابارہاجنرل قاسم سلیمانی کی تصاویرعراق اورشام کے حوالے
سے سامنے لاچکاہے لیکن اس کے باوجودایران کے اپنے ہمسایوں کے بارے میں
عزائم کی کمی کافیصلہ نہیں کیاگیا، بلاشبہ یہ اوآئی سی کیلئے قابل غوراور
باعث تحقیق طلب ضرور ہے۔
آخری اطلاعات تک حلب شہرکا٩٠فیصدحصہ خالی ہوچکاہے لیکن اپنے گھروں کے ملبے
میں اپنے پیاروں کی لاشوں کو دبے چھوڑکرجانے والے بے خانماں اہل حلب کوخالی
ہاتھ بھی شہرسے نکلنے میں سخت دشواری کاسامناکرناپڑ رہا ہے۔وہ شہرمیں رکیں
توگھروں ،گلیوں اوربازاروں میں پڑی لاشیں اوران سے پیداہونے والے مسائل
کاسامناہے اوربچے کھچے اہل خانہ کولیکرنکلیں توجنگی جنون میں مبتلاشامی فوج
اوراس کی مددگارایران نوازملیشیاان کونشانہ بنانے کیلئے موجود۔ان حالات میں
روس اورایران کوعالمی سطح سے جس عوامی غم وغصے کاسامناکرناپڑرہاہے وہ سب کے
سامنے ہے۔اس غم و غصے کی فضا سے عالمی استعماری طاقتیں غلط فائدہ اٹھانے کی
بھی پوری کوشش کرسکتی ہیں جیساکہ ترکی میں روسی سفیرکے قتل کا واقعہ اسی
طرف اشارہ کرتاہے۔ خود روس کی طرف سے بھی نیٹو ممالک کاہی نام لیاگیاہے۔اس
صورتحال میں ایران نے بھی اپنے سفارتکاروں کوترکی سے نکالنے کااعلان
کردیاہے لیکن سوال یہ ہے کہ روس اورایران کی شام کے عوام کے خلاف جنگی
پالیسیوں کے تدارک کیلئے یہ کافی ہے؟
ہوناتویہ چاہئے کہ عالم اسلام کی قیادت اپنی پالیسیوں کوازسرنودیکھے، دوسرے
ملکوں میں موت بانٹنے کی کوشش کرنے والاامریکا،روس یاایران ہو، اس کو کوئی
بھی قابل تعریف نہیں کہہ سکتا لیکن عالم اسلام کاباہمی نفاق ہی ایسی خطا ہے
جس کی یہ سزاہے کہ ان ممالک کے سربراہ اپنے اقتدار کے دوام کیلئے انہی
استعماری طاقتوں کے آلہ کاربنے ہوئے ہیں۔اب خدشہ ہے کہ ترکی کو امریکا اور
اس کے اتحادی انتقام کانشانہ بنانے اور بدامنی سے دوچار کرنے کیلئے اردگرد
لگی آگ کوترکی کے اندرلانے کی سازش کریں گے۔امت مسلمہ کواس نئی سازش سے
خبرداررہناہوگا۔ٹرمپ کی زیر قیادت امریکا اور مودی کے زیرقیادت بھارت مسلم
دنیامیں باہمی مسائل سے فائدہ اٹھانے کی پوری کوشش کرسکتے ہیں۔ |