انسان کے رنگ
(Prof Abdullah Bhatti, Lahore)
تاریخ انسانی کا ورق ورق شاہوں اور شاہ
نوازوں کے واقعات سے بھرا پڑا ہے ‘ہر دور میں ظالم اور مادیت پرست ہی نظر
آئے تا ریخ انسانی کا ہر دور ضمیر کے تاجروں اور وفا کے سوداگروں سے بھرا
ہوا نظر آتا ہے لیکن اِن شاہوں کے تذکروں کے ساتھ ساتھ ہمیں ایسے کردار کے
پہاڑوں سے بھی واسطہ پڑتا ہے جنہوں نے ہر دور میں قرب شاہی پر خود آگا ہی
کو ترجیح دی جنہوں نے ظلم کو حق کہنے سے ہمیشہ انکار کیا جنہوں نے ہر دور
میں حق اور انسانیت کا ساتھ دیا اور کبھی بھی ضمیر کا سودا نہیں کیا ایسے
ہی کردار کے غازی ہو تے ہیں جن کے سامنے بڑے بڑے لوگ پا نی بھرتے نظر آتے
ہیں یہی وہ سودائی ہیں جن کے کردار کی روشنی سے گلستان ہستی کے رنگ قائم و
دائم ہیں خدا قسم اگر یہ لوگ نہ ہو تے تو کردار اور انسانیت کا تسلسل کیسے
قائم رہتا ۔اکثر یہ کہا جا تا ہے کہ بڑے لوگ صرف بڑے شہروں یا بڑی درس گا
ہوں سے ہی طلوع ہو تے ہیں ‘سچ تو یہ ہے کہ یہ مفروضہ غلط ہے ‘بڑاہو نے کے
لئے بڑا شہر بڑی مشہور درس گا ہ سے پڑھا لکھا ہو نا ضروری نہیں ‘بڑا ہو نے
کے لیے سچا جذبہ درکار ہو تا ہے ۔ روشنی کے لئے گھی کے چراغ نہیں روشن دماغ
مطلوب ہو تے ہیں منزل پانے کے لیے شارٹ کٹ سفارش کی نہیں اعلی سوچ کی ضرورت
ہو تی ہے ‘نا موری کے لئے اقتدار کے ایوانوں میں اہل اقتدار کے جو تے چاٹنا
ضروری نہیں خداداد ذہانیت کام آتی ہے نیک نامی اشتہار یا صحافیوں کو خریدنے
سے نہیں حسن کردار ‘ٹھوس کردار سے ملتی ہے تا ریخ میں زندہ امر ہو نے کے
لئے پبلسٹی نہیں نیک نیتی ضروری ہے کسی بڑے کام کی تکمیل کے لیے کو چہ
اقتدار ی کی چاکری ضروری نہیں یہ چھوٹے شہروں میں بھی ممکن ہے ۔ زندگی خدا
ئے بزرگ برتر کا سب سے قیمتی انعام ہے زندگی کا سفر بہت طویل اور پر پیچ
بھی ہے اِس کو ہر ایک نے طے کر نا ہے سکندر اعظم نے آدھی عمر گھو ڑے کی
پیٹھ پر دنیا فتح کر نے میں گزاری‘ چنگیز ‘ہلا کو اور تیمور نے انسانوں کا
قتل عام کر نے میں ‘جمشید جام جہاں نما کے سامنے بیٹھا رہا‘ا قیصر وکسرٰی
تخت کے پائے چوبیس سے چھپ کر زندگی گزارتے رہے ‘دیو جا نس کلبی نے ایک ٹب
میں ساری زندگی مر اقبے میں گزار دی ‘منصور نعرہ حق میں سولی چڑھ گیا
‘رانجھا و نجلی کی دھن میں گم رہا ‘قیس نے لیلیٰ کے پیچھے صحرا گر دی میں
زندگی گزار دی ‘اہل اقتدار نے اقتدار کے حصول اور اس کو قائم رکھنے میں شب
و روز گزار دئیے ‘شہرت اور ناموری کے دیوانوں نے حما قتوں کی لمبی لمبی
داستانیں رقم کیں ‘زندگی کی ہنگامہ خیزیوں میں انسان اِس بری طرح گم ہو تا
ہے کہ وہ موت کو بلکل بھو ل جا تا ہے ــ’’موت ‘‘ اتنی برق رفتاری سے آتی ہے
کہ با دشاہوں کو تخت و تاج اور گداؤں کو اپنا بو ریا بستر لپیٹنے کا مو قع
نہیں دیتی ‘کو ئی شاہی محل میں آخری ہچکی کے یا فٹ پا تھ پر مٹی کا ڈھیر
بنے ‘دنیا کے مہنگے ترین ہسپتا لوں اور ما ہر ترین ڈاکٹروں کے ہا تھوں مو ت
کے اندھیرے غارمیں اترگئے ‘آخری آرام گا ہ وہی دو گز بھر زمین اوپر سے کچی
مٹی کا لیپ اور پانی کا چھڑکاؤ ‘قبر آپ سنگ مر مر سے بنا دیں ‘گنبد ‘مینار
اور کلس سجا دیں بچھونا وہی خاک رہے گا موت اتنا اچانک وار کرتی ہے کہ سارے
منصوبے اور احتیا طی تدابیر دھر ی کی دھر ی رہ جا تی ہیں با دشاہوں نے مضبو
ط چٹانوں سے فصیلیں بلند و با لا کھڑی کیں لیکن مو ت نے آدبو چا ‘گداوں نے
دنیا چھو ڑ دی ساری عمر سجدوں میں گزار دی لیکن مو ت نے آپکڑا ‘مو ت کے
سامنے نہ کو ئی با دشاہ نہ کو ئی گدا ‘نہ موت سادگی دیکھتی ہے نہ شاہی لبا
س ‘کو چہ فنا سے گزرنا ہر ایک کے مقدر میں لکھا ہوا ہے اگر موت کو حقیقت
سمجھ کر قبول کر لیا جا ئے تو ٹھیک ہے ورنہ جا نوروں کی طرح ہانک کر لے جا
یا جا تا ہے خو ش قسمت ہو تے ہیں وہ لوگ جو موت کا روز محشر کا خیال رکھتے
ہیں ایسے لو نگ زندگی کو خدا کا عطیہ سمجھتے ہیں اور موت کو فیصلہ خداوندی
‘ایسے لو گ بازار حیات سے گزرتے ضرور ہیں لیکن وہ اِس کے خریدار نہیں ہو تے
مو ت کی اندھی غار میں اترتے ضرور ہیں لیکن فنا نہیں ہو تے ہر گزرتے دن کے
ساتھ انسان کر ہ ارض پر بڑھتے جا رہے ہیں لیکن اچھے انسان گھٹتے جا رہے ہیں
جگر مراد آبا دی نے کیا خو ب کہا ہے ۔ ’’گھٹ گئے انسان بڑھ گئے سائے ‘‘
ویسے تو ہر دور میں ہی اچھے انسانوں کا قحط رہا ہے لیکن موجودہ ما دیت
پرستی میں غرق دور میں تو انسان بہت ہی نا یا ب ہو گیا اگر کبھی بھو لے
بسرے کو ئی انسان مل جائے تو اُس کے پاس سے اٹھنے کو دل ہی نہیں کر تا ایسا
ہی ایک زندہ انسان میرے سامنے بیٹھا تھا اُس کے چہرے پر شفیق دلنواز پھیلی
مسکراہٹ نے مجھے اُس کو گرویدہ کر دیا تھا میں اُس کی کمپنی سے لطف اندوز
ہو رہا تھا یہ انو کھا شفیق انسان پچھلے کئی گھنٹوں سے اپنے کردار اور شفیق
مسکراہٹ کی خیرات با نٹ رہا تھا اپنی ذات کو تر ک کر کے دوسروں کے کام آنے
کی کوشش کر رہا تھا اپنی خو شی پر دوسروں کی خو شی کو ترجیح دے رہا تھا
میرے سامنے مر گی زدہ بچے کی اگلے تین سال کی رقم کا بندوبست کر چکا تھا
میں اس کردار کے K2سے بہت متا ثر ہو چکا تھا میں اِس کے با رے میں جا ننا
چاہتا تھا اُس کے خدمت خلق اور شفیق تبسم کا اصل راز کیا ہے اِس کو جاننے
کے لیے میرا تجسس نقطہ عروج پر تھا ۔ میرے پو چھنے پر اُس نے بتا یا کا فی
سال قبل محنت مزدوری کے لیے وہ یو رپ چلا گیا ابتدائی سالوں کی مشکلات کے
بعد اﷲ تعالی نے میرا ہا تھ پکڑ لیا اور میں چند سالوں میں ہی امیر ترین
بندوں میں شامل ہو چکا تھا بے پنا ہ دولت شہرت اور کامیابی کو میں اپنی ذہا
نت قرار دیتا تھا کہ یہ سب کچھ میں نے اپنی عقل کے بل بو تے پر حاصل کیا ہے
میں خود کو ایک سمجھ دار اور عقل مند آدمی سمجھنے لگا تھا کہ عزت دولت اور
کام کیسے نکلوانا ہے یہ ایک آرٹ ہے اور یہ آرٹ مجھے خو ب آتا ہے میں اپنی
چالاکیوں اور دماغ کو ہی ہر کامیا بی کی کنجی سمجھنے لگا تھا جب میں ہر
کامیابی کو عطیہ خداوندی کی بجا ئے اپنی کو شش اور چالاکی سمجھ رہا تھا تو
آہستہ آہستہ میں غرور اور گھمنڈ میں مبتلا ہو تا چلا گیا کیونکہ میں نے
دولت کے ڈھیر اکھٹے کر لئے تھے اب میں نے لمبی منصوبہ بندی شروع کر دی کہ
کس طرح بیوی بچوں کے ساتھ بھر پور کامیاب زندگی گزار نی ہے میں نے مہنگی
مضبوط ترین گا ڑیاں لے لیں ‘میں نے مضبوط وسیع و عریض گھر خرید لیا اور
مختلف شہروں میں اپنے کا روبار کے نیٹ ورک کو پھیلا دیا پیسے کے زور پر میں
ہر چیز خرید رہا تھا میں دن رات اِس کو شش میں تھا کہ میں وہ تما م چیزیں
خرید لوں جن کے بل بو تے پر میں اور میری فیملی بھر پور کامیاب زندگی گزار
سکیں میں خود ہی خدا بن کر فیصلوں پر فیصلے کئے جا رہا تھا کہ مجھے کامیاب
زندگی گزارنے کا طریقہ آتا ہے پیسہ کس طرح کما نا ہے معا شرے کے با اثر
لوگوں سے تعلقات کیسے بنا نے ہیں یہ سب مجھے آتا ہے روپے پیسے کے بل بو تے
پر نو کروں کی فوج دن رات میری آسائشیں و آرام کے لیے مستعد کھڑی رہتی ‘میں
فرعون بنا نو کروں کو حکم پر حکم دیتا رہتا میں انسانوں کو جانور سمجھنا
شروع ہو گیا کہ اگر یہ غریب ہیں تو اِس میں اِن کا قصور ہے یہ عقل نہیں
رکھتے یہ زندگی کا آرٹ نہیں جانتے میں انسانوں کو کیڑے مکوڑے سمجھتا تھا ۔
لیکن پھر وہ دن آیا جس کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا ایک دن ٹریفک
حادثے میں میرا پو را خاندان زندگی سے ہا تھ دھو بیٹھا میں بہت زیا دہ دولت
کا روبار کے ساتھ دنیا میں وہ اکیلا رہ گیا میں جو ہر چیز کو حا صل کر نے
کا آرٹ جانتا تھا بے بسی اور دکھ میں غرق ہو چکا تھا کیونکہ میں پو ری دولت
دے کر اور اپنی تمام ذہنی صلا حیتوں کو استعمال کر کے بھی اپنے خا ندان
واپس نہیں لا سکتا تھا ۔ میں ڈپریشن کا شکا ر ہو گیا کا روبار عدم تو جہ کی
وجہ سے برباد ہو تا چلا گیا اور میں فقیر بن کر سڑک پر آگیا قرضوں کا بو جھ
اتنا بڑھ گیا میں دیوالیہ ہو گیامیں موت کے قریب پہنچ گیا کہ پھر مجھے ایک
مسیحا انسان ملا اُس نے مجھے بتا یا حقیقی زندگی خدمت خلق اور دوسروں کی
آسانی میں ہے میں نے دوبارہ کا روبار شروع کیا دوبارہ شادی کی اب پھر میرا
کا روبار اچھا ہو رہا ہے لیکن مجھے اچھی طرح سمجھ آگئی ہے کہ زندگی اور
کامیابی عطیہ خداوندی ہے اپنی ذہا نت نہیں ‘میرا مشن ہے میں اچھے لوگوں سے
ملتا ہوں اِسی لیے آپ کے پاس آیا ہوں میرے اوپر خد ابہت مہربا ن ہے مجھے آپ
سے کو ئی کا م نہیں آپ سے صرف یہ دعا کی درخواست ہے کہ خدا کبھی مجھے سے
پھر ناراض نہ ہو جا ئے میں خوشگوار حیرت سے پردیسی کو دیکھ رہا تھا کہ جس
کو خدا نے لاٹھی سے ما ر کر اپنے قریب کر لیا ورنہ جو غرور کی گھاٹی میں گر
تا ہے وہ کبھی نہیں ابھرتا ۔ |
|