محکمہ صحت میں وسائل موجود۔۔۔کمی درد دل کی ہے۔۔۔؟
(Dr M Abdullah Tabasum, )
سرکاری ہسپتالوں کے پاس وسائل بھی ہیں
ڈاکٹرز بھی عملہ بھی اور ادویات بھی ہیں لیکن کمی ہے تو صرف درد دل رکھنے
والی دکھی انسانیت کی توقعات پر پورا ترنا والی شخصیات کی ہے اس میں کوئی
شک نہیں ہے کہ اگر ہمت اور درددل رکھیں تو کوئی ایسی بات نہیں کہ ہسپتالوں
میں حالات ٹھیک نہ ہوں محکمہ صحت میں اب پہلے کی نسبت کافی حالات بہتر ہو
رہے ہیں ہسپتالوں میں علاج ومعالجے کی جدید سہولیات مہیا کی جار ہی ہیں
جدید مشینری کے زریعے علاج ومعالجہ ہونا ضروری ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ
آبادی جس تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے اسی رفتار سے عام آدمی تک سہولیات کا
فقدان نظر آتا ہے صحت کے شعبے میں انقلاب لانے کی ضرورت ہے سیاسی قیادت اور
بیوروکریسی نے اگر آنے والی نسلوں کو سنوارنا ہے اور اﷲ کو جواب دینا ہے تو
اسے اپنے دل میں درد پیدا کرنا ہو گا کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ایک خاتون
کو علاج ومعالجے کے لئے چار ہسپتالوں کے دھکے کھانے پڑے اور بالآخر جناح
ہسپتال کے فرش پر دم توڑ گئی اگر وہ کسی وزیر اعلی یا کسی بیورو کریٹ یا
سیاستدان کی ماں ہوتی تو نہ صرف اس کا علاج ہوتا بلکہ اس کو پروٹوکول بھی
ملتا یہ وہ افسوس ناک صورتحال ہے جس کو بدلنا ہو گا ان خیالات کاظہار خادم
اعلی پنجاب نے طیب اردگان ہسپتال کے افتتاح کے موقع پر کیا مگر ابھی کل کی
بات ہے کہ ایف آئی اے کا میو ہسپتال کے آپریشن تھیٹر کے باہر غیر قانونی
طور پر جعلی اور مہنگے سٹنٹ فروخت کرنیکی تحقیقات شروع کی ہیں اور ہسپتال
انتظامیہ سے ریکارڈ طلب کیا ہے اور ایف آئی اے تحقیقات کرے گی کہ کس مریض
کو کس کمپنی کے سٹنٹ ڈالے جاتے ہیں کیا وہ میعاری ہیں ۔۔؟ کیا جو کمپنیاں
ہسپتالوں کو سٹنٹ مہیا کرتی ہیں کیا وہ رجسٹرڈ ہیں دال کے مریضوں کے ساتھ
یہ گھناؤنا کھلواڑ کب سے ہو رہا ہے ایک شہری کی درخواست پر کہ میو ہاسپٹل
میں آپریشن کے دوران سٹنٹ کی قیمت ایک لاکھ اسی ہزار روپے وسول کی گئی ہے
جبکہ یہی سٹنٹ کی قیمت چالیس ہزار روپے ہے اور جو سٹنٹ دالا گیا ہے اسکی
ڈابی پر قیمت درج نہیں ہے،راقم کے مطابق میو ہسپتال میں ٍدل کے مریضوں کو
جعلی ستنٹ فروخت کرنے والا گروہ اس وقت منظر عام پر آیا جب ایف آئی اے نے
خفیہ اطلاع پر اپنے اسٹنٹ ڈائریکٹر کو مریض بنا کر ہسپتال بھیجا تو جعلی
سٹنٹ کے معاملے کے واضح ثبوت مل گئے جس پر ایف آئی اے نے فوری آپریشن کرتے
ہوئے چار کروڑ روپے سے زاہد کے مالیت کے جعلی سٹنٹ برآمد کر لئے ،اس
کاروبار میں یقینا ڈاکترز اور پیرا میڈیکل استاف بھی ملوث ہو گا بے شک
بیرونی اعلی حکومتی شخصیات اور این جی اوز شہباز شریف وزیر اعلی پنجاب کی
صحت اور تعلیم کے شعبہ میں خدمات پر زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے خادم
اعلی میاں شہباز شریف کی کوششیں اپنی جگہ مگر جب تک آپ کے پاس اچھے لوگ نہ
ہوں گئے تو کچھ نہ ہو گاخاص طو رپرد یہات میں قائم رورل ہیلتھ سنٹرز کا
جہاں ڈاکٹروں ، نرسوں،اور پیرامیڈیکل سٹاف کو کیا سہولیات دے رہے ہو پھر ان
علاقوں میں دوپہر کے بعد کوئی ڈاکٹر نہیں ملتابس روزانہ میٹنگ پر میٹنگ
ہوتی ہے اس میٹنگ میں موجود تمام افسران اور وزاراء سے پوچھا جائے کہ انہوں
نے کبھی اپنا یا اپنے بچوں کا علاج سر کاری اسپتالوں میں کروایا ہے؟میاں
صاحب آپ خود آپ کی بیوروکریسی اور آپ کے وزاراء محترم جب تک اپنا اور اپنے
بچوں کا علاج سرکاری اسپتالوں سے نہیں کرواتے کبھی بھی سرکاری اسپتالوں کا
میعار بہتر نہیں ہو گاخادم اعلی صاحب آپ یہ کیوں نہیں کرتے کے جو سب سے
سینئر ہو اس کو ادارے کا سربراہ بنا یا جائے ۔۔؟یہ کیاکہ سی ایم انٹرویو
کرے گا اور کسی کو لگایا جائے گاسسٹم ہے کہتا ہے کہ اور گورا بہادر بھی کہ
جو سینئر ہے اس کو ادارے کا سربراہ لگایا جائے سابق ادوار میں پی آئی سی کو
ایک معروف سرجن اور وہاں کے ایک ڈاکٹر نے تباہ کیا پرویز الہی نے اس کو
معطل کیا ،پھر وہاں کے معروف سرجن کے کہنے پر دو دن میں بحال کر دیا اور
گریڈ 21ترقی دی اور ستارہ امتیاز دیا، قارئین پھر انہی دونوں ڈاکٹروں کے
زمانے میں جعلی ادویات سے پی آئی سی میں سینکڑوں دل کے مریض مر گئے خدا
رااب اس ادارے کا نظام کسی اچھے انسان کے سپرد کر دیں کئی برس قبل سرگودھا
کی ایک خاتون ایم پی اے کا اکوتا بیٹا سروسز اسپتال کے ڈاکٹروں کی نذر ہو
گیا تھا پھر ایک ایم پی اے بھی سرکاری اسپتال میں وفات پا گیا ٓاپ کا کوئی
بھی سرکاری اہسپتال ایسا نہیں ہے جس کا مقابلہ آپ کسی بھی پرائیویٹ اسپتال
سے کر سکیں کہا جاتا ہے کہ محکمہ صحت پر بڑا دباؤ ہے یہ علیحدہ بات ہے کہ
خواجہ سلمان رفیق کام کرتے کرتے تھک گئے ہیں مگر میر ا خیال ہے کہ حکومت کو
ہر ڈویثرن کا وزیر صحت اور سیکرٹری صحت مقرر کر دینا چایئے تبھی کام ٹھیک
ہو گا یقین کریں ہر محکمے میں رشوت کا بازار گرم ہے کوئی احترام رمضان نہیں
ہے بلکہ عیدی کے نام پر ڈبل رشوت لی جا رہی ہے میاں صاحب کبھی آپ بھی بھیس
بدل کر اے جی آفس، اور دیگر محکموں کا چکر لگائیں تو پھر پتہ چلے گا کہ اس
ملک کے عوام کس قدر بے بس ہیں ان رشوت خوروں کے ہاتھوں ۔۔؟بہرحال محکمہ صحت
کے دو حصے کرنے سے اب بے چارے ڈاکٹروں اور نرسوں اور پیرا میڈلکل سٹاف کو
بھی دو دو جگہ پر رشوت دینی پڑے گی اب تو دائی ڈی اے بھی ہے پہلے تو وائی
ڈی اے نہیں تھی اشاروں میں بات کی ہے سمجھنے والے سمجھ جائیں گئے خادم اعلی
صاحب سرکاری اسپتالوں کا نظام صرف سہولیات کو بڑھانے بستر بڑھانے،ادویات کی
فراہمی، ڈاکٹروں کی موجودگی، اور رات کو اعلی آفسران کے روائنڈ سے بہتر ہو
گا اگر حکومت ایم ایس، ڈی ایچ او ، ای ڈی او یا پھر کوئی عہدہ بطور رشوت دے
رہی ہے تو پھر ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔ بقول غالب۔۔ صادق ہوں اپنے قول میں
غالب خدا گواہ ۔۔۔کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے۔۔۔خدا رہ وقت کے
حکمرانوں یہ تاج و تخت کبھی کسی کا نہیں ہوا بڑے بڑے نام مٹی میں مل گئے
مگر زندہ رہا تو اچھا کام اور عوام کے لیے اٹھا ئے کئے اقدا مات کے علاوہ
عدل و انصا ف اس لیے ڈاکٹرز خصو صا سرکا ری ہسپتا لوں کے لیئے ایسی پا لیسی
بنا جاؤ اور اقدا مات کر جاؤ کبھی ہڑ تال نہ ہو اور غریب اپنے پیا روں سے
بچھڑ کر زندگی بھر حکمرانوں اور ڈاکٹر ز کے لیئے دل میں نفرت کا طو فان لیے
نہ ہرپل جیئے ہر دل عزیز ڈاکٹر عادل رشید کو اوکاڑا کا بہترین ایم او قرار
دینے پر ان کو مبارک باد پیش کرتا ہوں بے شک وہ دوسرے ڈاکٹروں کے لئے رورل
ماڈل ہیں ۔ختم شد۔۔۔ |
|
Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.