کالا باغ ڈیم آخر کب …… !
(Rana Aijaz Hussain, Multan)
بلاشبہ پانی کرہ ارض پر بسنے والوں
کے لیے ایک بہت بڑی نعمت خداوندی ہے، جوکہ زندگی کے لئے انمول اور کاشتکاری
کے لیے بنیادکی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کی عدم توجہی کے باعث
ملک میں بسنے والوں کو کہیں پینے کا پانی تک میسر نہیں اور کہیں قوم کو
سیلاب جیسے حالات کا دکھ جھیلنا پڑتا ہے۔جیسے جیسے دنیا کی آبادی بڑھ رہی
ہے پانی کی اہمیت بھی بڑھتی چلی جا رہی ہے یہی جہ ہے کہ دنیا بھر میں پانی
کو ذخیرہ کرنے کے اقدامات بھی ہوتے چلے آ رہے ہیں، مگر کالا باغ ڈیم جس سے
پاکستان کی ترقی اور خوشحالی جڑی ہوئی ہے ، بدقسمتی سے اس منصوبے کو محض
عاقبت نااندیشی، ضد اور موہوم خدشات کے باعث متنازعہ اور پیچیدہ بنا دیا
گیاہے۔ پاکستان معرض وجود میں آیا تب اس سر زمین کو دریاؤں کی وجہ سے پنج
دریا کی دھرتی کہا جاتا تھا۔ پاکستان میں بہنے والے دریا شمالی علاقہ جات
وادی کشمیر اور بھارت سے ہو کر ارض پاک میں آتے اور ان سے ہمارے کسان اپنی
زمینوں کو سیراب کرتے چلے آرہے ہیں اگرچہ ایوب خان کے دور حکومت میں سندھ
طاس معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہوا تھا اور ایوب خان کے دور میں
ہی تربیلا اور منگلا ڈیم کی تعمیر بھی ہوئی جس سے پانی ذخیرہ کرنے کے سلسلے
کے ساتھ ان سے بجلی پیدا کرنے کا کامیابی سے کام ہوا جو اس وقت کی ضروریات
کے لئے مناسب تھا۔ وقت تیزی سے گزرتا چلا گیا اور ہر آنے والے سال میں بجلی
کی مانگ میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ایک دور تھا جب گھروں میں ایک دو بلب
اور ایک پنکھے سے گزر ہو جاتا تھا۔ پھر معیار زندگی بلند ہونے اور
الیکٹرانک اشیاء کی بڑھوتری نے صورتحال یکسر بدل دی ریڈیو کے بعد ٹیلی وڑن،
ریفریجریٹر، واشنگ مشین گھروں کی ضرورت بنتی چلی گئی اس طرح شدید موسم گرما
میں ائرکنڈیشنڈ اور ائیر کولر نے بھی بجلی کی طلب کو بڑھا دیا۔ یوں آہستہ
آہستہ بجلی کی رسد کم اور طلب زیادہ ہونے لگی۔ اگرچہ بجلی کی پیداواری
صلاحیت بڑھانے کے لئے حکومتوں نے مختلف اقدامات بھی کئے مگر صورتحال دگرگوں
ہوتی چلی گئی یوں لوڈشیڈنگ کا آغاز ہوا۔ ایک وقت تھا کہ ضیاء دور حکومت میں
شام کو صرف پچیس منٹ کے لئے بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی تھی اور عوام اس سے ہی
تنگ تھے۔ انہی دنوں کالا باغ ڈیم کے ایک ایسے منصوبے کا ذکر زور و شور سے
ہوا جس کی تعمیر سے نہ صرف پانی کا وسیع ذخیرہ جمع ہوتا بلکہ اس ڈیم کی
تعمیر سے بجلی کی پیداوار سے ملک لوڈشیڈنگ سے نجات پا جاتا۔ کالا باغ ڈیم
منصوبے کو آغاز ہی میں کسی کی نظر لگ گئی اور ملک دشمن ہمسایہ ملک نے اپنی
تمام تر توانائیاں کالا باغ ڈیم منصوبے کی مخالفت میں صرف کردیں۔ اور صوبہ
کے پی کے اور سندھ میں ایک مخصوص لابی کے ذریعے عوام کو اکسانے کا سلسلہ
شروع کر دیا ، کسی نے اس ڈیم کی تعمیر سے نوشہرہ شہر کے ڈوبنے کا کہہ کر
عوام کو ورغلایا تو کسی نے سندھ میں بہنے والے دریائے سندھ کے پانی میں کمی
کو جواز بناکر عوام کو گمراہ کیا۔ حالانکہ کالا باغ ڈیم کے برعکس آج بھی
ہمارے، دریاؤں کے پانی کا بڑا حصہ سمندر میں جا گرتا ہے۔ ضیاء الحق کے بعد
پیپلزپارٹی کی حکومت نے اقتدار سنبھالا یا مسلم لیگ (ن) اور (ق) نے، صدر
اسحاق خان ہوں یا جنرل پرویز مشرف یا آصف علی زرداری یا میاں محمد نواز
شریف کسی بھی حکمران نے کالا باغ ڈیم کے لئے سنجیدگی نہیں دکھائی ۔ آج
پاکستان میں کہیں پانی’’ بحران‘‘ کا سبب بنا ہوا ہے ، تو کہیں ہر سال سیلاب
کے باعث ملک کا ایک بڑا زرعی رقبہ زیر آب آجاتا ہے جس سے کاشتکاروں اور
دیہی علاقوں کے مکینوں کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے تو دوسری طرف ملک میں بڑے
ڈیموں کے فقدان کے باعث لوڈ شیڈنگ کے عفریت نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں
لے رکھا ہے۔ یہ درست ہے کہ حکومتی سطح پر بجلی کی پیداواری صلاحیت بڑھانے
اور بجلی پیدا کرنے کے سلسلے میں مختلف اقدامات بھی ہو رہے ہیں لیکن یہ بھی
سچ ہے کہ آج بھی کالا باغ ڈیم کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
موجودہ حکمرانوں کو فوری طور پر اس ڈیم کو شروع کر کے ہنگامی بنیادوں پر اس
کی تعمیر شروع کروا دینی چاہئے جس سے نہ صرف پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے
والا ایک بڑا ڈیم بن جائے گا بلکہ اس سے بجلی پیدا ہو کر پاکستان کو روشن
کرے گی۔ آج بھارت ان دریاؤں پر جو پاکستان سے جاتے ہیں ، درجنوں چھوٹے بڑے
ڈیم بنا کر خشک کررہا ہے اور پاکستان کو پانی کی بوند بوند سے ترسانے کی
مسلسل دھمکیاں دے رہا ہے مگر ہمارے حکمران ابھی تک ملک گیر مسائل پر عدم
توجہی کا شکار ہیں۔ میٹرو بس، گرین ٹرین ، موٹر ویز منصوبے درست مگر کالا
باغ ڈیم کی تعمیر وقت کی ضرورت ہے۔ حکمرانوں کو وطن عزیز کے لئے سوچنا ہو
گا۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے جہاں ملک میں دوشنیاں اور خوشحالی آئے گی
وہیں ملک کو ہر سال کے سیلاب سے نجات میسر آسکے گی، اور ملک ترقی کی راہ پر
گامزن ہوگاہے۔ |
|