پرویزمشرف دور میں عمران خان نے آمر جرنیل
کا ساتھ صرف اس لئے دیا کہ مشرف نے احتساب کا نعرہ لگایا تھا ،مگر جب کپتان
نے دیکھا کہ وہ صرف اور صرف ایک کھوکھلا نعرہ اور جھوٹا وعدہ تھا تو کپتان
نے مشرف حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی ،حالانکہ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ
مشرف نے عمران خان کو وزارت اعظمی کی پیشکش بھی کی تھی ۔اسی اثناء میں
عمران خان نوجوانوں کو سیاست کی طرف لانے میں لگا رہا اور ان میں سیاست کا
شعور اجاگر کرتا رہا جس میں اسے خاطر خواہ کامیابی ملی۔
ایک وقت وہ بھی آیا کہ عمران خان کے مخالفین اسے تانگہ پارٹی کا طعنہ دیتے
رہے کہ تمھارے پاس تو اپنے تانگے کی سواریاں بھی پوری نہیں ہیں، تم نے
سیاست خاک کرنی ہے ،تب عمران خان کی ایک بات جو سچ ثابت ہوئی ،کپتان کہا
کرتا تھا کہ ابھی میرے سپورٹرز بچے ہیں ان کو ذرا بڑا ہو لینے دو پھر
دیکھنا وہ تمہیں کیسے تگنی کا ناچ نچاتے ہیں ۔
عمران خان نے عدلیہ کی آزادی کی تحریک میں بھر پور حصہ لیا اور مشرف کے
سامنے ڈٹ کر کھڑا ہو گیا، اس وقت جب کہ نواز شریف اور اس کے حواری جدہ میں
عیاشی کر رہے تھے، عمران خان مشرف کے خلاف اور عدلیہ کے حق میں صدائے
احتجاج بلند کرنے کے جرم میں جیل کاٹ رہا تھا ،پھر مشرف کا وقت ختم ہوا اور
نواز شریف اور بے نظیر کو مشرف نے این آر او کے ذریعے ڈیل کر کے پاکستان
آنے ک راستہ دے دیا ،بے نظیر کے بم دھماکے میں قتل کے بعد آصف زرداری پیپلز
پارٹی اور اس کے بعد پاکستان کے صدر بنے اور مشرف کے بھاگنے کے لئے صاف
راستہ دے دیا گیا ،آصف زرداری کے کرپشن سے آلودہ پانچ سالوں میں عمران خان
نے نوجوانوں پر بہت محنت کی ،ان کو بتایا کہ کس طرح یہ لٹیرے اس ملک کو لوٹ
رہے ہیں، ایک باری زرداری اور اگلی باری نواز شریف جی بھر کے لوٹو اور پھر
آرام سے کھسک لو ،عمران خان نے دن رات ایک کر کے نوجوانوں میں سیاسی شعور
کو کوٹ کوٹ کے بھر دیا ۔
اور پھروہ دن بھی آیا جب چشم فلک نے دیکھا کہ مینار پاکستان پر ایسا لگ رہا
تھا کہ جیسے پورا پاکستان امڈ آیا ہے ،اصلی معنوں میں تحریک انصاف کا جنم
اسی دن ہوا تھا ،اس کے بعد عمران خان نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور
نوجوانوں کو ساتھ لے کر چلتا رہا حتیٰ کہ الیکشن کے دن قریب آگئے اور کپتان
دن کے پانچ پانچ جلسے کر کے لوگوں کو جگاتا رہا اور لوگ کپتان کی بات پر
لبیک کہنے کو پر تول رہے تھے ،کہ یکایک بدقسمتی کی آندھی ایسی چلی کہ سبھی
کیئے کرائے پر پانی پھر گیا اور کپتان الیکشن کمپین کے دوران لفٹڑ سے گر کر
شدید زخمی ہو گیا ،چند منٹوں کے لئے تو پورے پاکستان کی جیسے سانسیں رک گئی
ہوںِ کپتان آٹھ نہ سکا اور بستر پر ہی بیٹھ کر الیکشن کمپین کا آخری جذبات
سے بھرا خطاب کیا ،عوام نے کپتان کی باتوں کو سمجھا اور اس کی آواز پر لبیک
کہا،مگر دھونس اور دھاندھلی کا ایسا کھیل رچایاگیا کہ دنیا دیکھتی رہ گئی ،مگر
اس کے باوجود تحریک انصاف کو پنتیس سیٹیں اور دوسرے نمبر پر ووٹ مل گئے ،اتنی
بڑی دھاندلی اور اس پر بھی کروڑ کے لگ بھگ ووٹ حاصل کرنا اپنے آپ میں ایک
کمال تھا ،کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔
عمران خان جس شہر میں بھی گیا وہاں کے لوگوں نے دیدہ دل فرش راہ کرکے اپنے
عظیم کپتان کا استقبال کیا ،لاہور میں ایسا اجتماع ہوا کہ تاریخ میں اتنے
لوگ اکٹھے نہیں ہوئے ہوں گے،کپتان نے جب اہل کراچی کو آواز دی تو پورا
کراچی مزار قائد پر امڈ آیا .،فیصل آباد گجرات ہو یا جہلم ہو یا لاڑکانہ ،کپتان
جہاں بھی گیا تاریخ بناتا گیا ،کپتان دن کو جلسوں سے خطاب کرتا اور شام کو
اسلام آباد میں اپنے کنٹینر پر پہنچ کر عوام پاکستان کو اپنے حقوق لینے کے
گر بتاتا رہا ،کپتان کے سبق کا نتیجہ یہ ہوا کہ حاکم وقت اور اس کے حواری
جہاں جاتے ’’گو نواز گو‘‘اور ’’گو نظام گو‘‘ کا نعرہ عفریت کی طرح پنجے
جھاڑ کران کے پیچھے پڑا ہوا نظر آنے لگا ،پاکستان کی عوام پوری طرح جاگ گئی
تھی ایسی جاگ گئی تھی کہ نواز شریف کے گھر سے اس کی نواسی نے بھی’’ گو نواز
گو ‘‘کے نعرے لگانے شروع کر دیئے، اس کے وزرا ء جہاں جاتے انھیں اسی قسم کے
نعرے سننے کے ملتے ،لیکن 16دسمبر پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن جب
اس ملک کے140بچے،جو پاکستان کا مستقبل تھے،وہ معصوم بچے دہشت گردی کی بھینٹ
چڑھ گئے ،آرمی پبلک سکول پشاور میں ہونے والے اس اندوہناک حادثے نے پورے
ملک کو ہلا کے رکھ دیا ،کپتان عظیم عمران خان نے دن کو اسپتال کا دورہ کیا
اور شام کو اسلام آباد پہنچ کر آخری خطاب کیا اور اعلان کیاکہ فی الحال
دھرنے کو ختم کیا جارہاہے،اس کے بعد کپتان نے اخلاقی جرأت اور زندہ دلی کا
مظاہرہ کرتے ہوئے نواز شریف کے ساتھ ہر میٹنگ میں شرکت کی جس میں دہشت
گردوں کی کمر توڑنے اور ان کے خلاف مضبوط حکمت عملی بنانے کا اعادہ کیا گیا
،اسی دوران نواز شریف نے وعدہ کیا کہ ہم جوڈیشل کمیشن بنائیں گے اور آپ کے
ساتھ مذاکرات کو بھی جاری رکھیں گے ،مگر نواز شریف کا ’’وہ وعدہ ہی کیا جو
ایفا ہو جائے‘‘…… نواز شریف نے اپنے پرانے پرانے اوچھے ہتھکنڈے استعمال
کرنے شروع کر دیئے۔عمران خان سیاست میں کامیاب ہوا ہے یا نہیں اسکا فیصلہ
تو عوام نے کرنا ہے،پاکستان کی تاریخ میں عمران خان کا نام ایک عظیم ترین
لیڈر کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ |