صاف ستھرا ماحول
(Prof Jamil Chohdury, Lahore)
ایک زمانہ وہ بھی تھا جب پورے کرۂ ارض پر
50۔لاکھ لوگ رہائش پذیر تھے۔لوگ دور دراز چھوٹے چھوٹے گاؤں میں رہتے
تھے۔دریاؤں کے کنارے سینکٹروں میل کے بعد کوئی بستی نظر آتی تھی۔لوگ سفر کے
لئے بھی کشتیاں ہی استعمال کرتے تھے۔روزگار کا ذریعہ زراعت اور چھوٹی موٹی
دستکاریاں۔کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو پہاڑوں کی وادیوں میں چشموں کے کنارے
آباد تھے۔صحراؤں میں کہیں کہیں نخلستان تھے۔کچھ خانہ بدوش ادھر بھی دیکھے
جاتے تھے۔ذرا تصور کیجئے کرہ ارض کا ماحول تب کتنا صاف ستھرا ہوگا۔آلودگی
پیداکرنے والے کارخانے اور فیکٹریاں سرے سے موجود ہی نہ تھے۔بری سفر بیل
گاڑیوں کے ذریعے۔اونٹ اور گھوڑے بھی کہیں کہیں استعمال ہونے لگے تھے۔تاریخ
دانوں کا اندازہ ہے کہ پہلی صدی عیسوی کے آخر میں انسانوں کی تعداد 15۔کروڑ
ہوچکی تھی۔ہندی۔چینی اور یونانی تہذیبیں کافی پھیل چکی تھیں۔رومیوں کے لئے
سٹیج تیار ہورہاتھا۔کارتھیج اور جنوبی امریکہ میں بھی انسانوں نے رونق
لگائی تھی۔سمیری،بابلی اور مصری تہذیبوں کا دور تقریباً گزر چکاتھا۔لیکن
انسان کم ہونے کی وجہ سے پورا کرۂ ارض صاف ستھرا تھا۔ماحول کی آلودگی کے
آثار نہ ہونے کے برابر تھے۔پورے کرۂ ارض پر پھیلے ہوئے چند کروڑ لوگ۔وہ
اپنی روٹی روزی صرف سادہ طریقوں سے حاصل کرتے تھے۔زراعت،مچھلیاں پکٹرنا اور
شکار سے گوشت حاصل کرنا۔پھر آہستہ آہستہ انسان متمدن ہونا شروع ہوا۔پیشوں
کی نوعتیں بدلنے لگیں۔سفر کے ذرائع بھی بدلے۔بستیوں اور گاؤں چھوٹے شہروں
میں تبدیل ہونے لگے۔مختلف قبیلوں میں افراد کی تعداد کی اہمیت بڑھی۔ایک مرد
زیادہ شادیاں کرنے لگا۔آبادی کا اندازہ انیسویں صدی کے آخر میں ایک ارب
تھا۔بیسویں صدی کے وسط تک کرۂ ارض پر آبادی کااندازہ2-1/2۔ارب تھا اور آج
کل ہرسال8تا10کروڑ کا اضافہ ہورہا ہے۔سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے
ہرشعبہ زندگی کو بدل دیا ہے۔کرۂ ارض پر زراعت اب Mechanisedہو گئی ہے۔فصلوں
اور باغوں پر ادویات کا استعمال بڑے پیمانے پر ہوتا ہے۔100۔فیصد Organic
Foodاب حاصل نہیں ہوسکتی۔اب آبادی 7۔ارب سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔بغیر کھاد
اور ادویات کے زراعت سے حاصل ہونے والے اجناس اور سبزیاں ضرورت پوری نہیں
کرسکتے۔کروڑوں لوگوں کو ایک ملک سے دوسرے ملک اور ایک شہر سے دوسرے شہر
لیجانے کے لئے کاریں،بسیں ،ریلیں اور ہوائی جہاز استعمال ہوتے ہیں۔یہ تمام
ذرائع ہمارے پورے ماحول میں بے شمار آلودگی کا سبب بن رہے ہیں۔یہ ذرائع نہ
صرف زہریلا دھواں بلکہ بہت سا کچرا بھی پیدا کررہے ہیں۔اب ایسے شہر ہیں
جنکی آبادیاں چند صدیاں پہلے پورے کرۂ ارض کی آبادی کے برابر تھیں۔سائنس
اور ٹیکنالوجی نے انکی ضروریات میں بے شمار اضافہ کردیا ہے۔فیکٹریاں
اورکارخانے انکی ضروریات کو پوا کرنے کے لئے دن رات اپنی مشینوں کو چالو
رکھتے ہیں۔اور پھر نئے Ideasکی وجہ سے ہر روز ہزاروں نئی اشیاء مارکیٹ میں
آرہی ہیں۔پروپیگنڈا مشینری انکی طلب پیداکرنے میں ہروقت مصروف ہے۔نئی نئی
اشیاء کو پروپیگنڈے کے ذریعے انسانوں کو خریدنے پر مجبور کیاجارہا
ہے۔کارخانوں سے بہت سی زمینی اور فضائی آلودگی پیداہورہی ہے۔ہرشے کو
خوبصورت پیکنگ میں پیش کیا جاتا ہے۔ اور پھر پیکنگ کو پولی تھین بیگ میں
ڈال کر صارفین کے سپرد کیا جاتا ہے۔جوتوں سے لیکر سبزیوں تک کو پولی تھین
بیگ میں لے جانے کا رواج ہے۔یوں گھر میں صبح سے شام تک کچرے کے ڈھیر لگ
جاتے ہیں۔اس طرح کا کچرا اب دوردیہاتوں میں بھی پیدا ہورہا ہے۔اس کچرے کو
ٹھکانے لگانے کا ہمارے پاس چند شہروں کے علاوہ کہیں بھی انتظام نہیں ہے۔ہم
جھیلوں اورچشموں پر سیروتفریح کے لئے جاتے ہیں۔وہاں بھی ماحول کو خراب کرکے
ہی آتے ہیں۔لوگوں نے جھیلوں اور چشموں کے کناروں پر بھی کھوکھے رکھ لئے ہیں
اور ان خوبصورت جگہوں کا قدرتی حسن برباد ہوگیا ہے۔جھیل سیف الملوک اور کلر
کہار میں نے بہت ابتدائی زمانے میں دیکھی تھی۔تب وہاں صرف قدرتی حسن
تھا۔اور اب وہاں بہت کچھ بدل گیا ہے۔قدرت غائب ہوگئی ہے۔باقی جگہوں کا بھی
ایسا ہی حال ہے۔ایسا ہی حال ہمارے سمندر کناروں کا ہے۔ٹنوں کے لہاظ سے گندا
پانی اور کچرا سمندروں میں جارہا ہے۔سمندری حیات کئی جگہوں پر ختم ہوچکی
ہیں۔ہر ذی حیات کو صاف ستھرا پانی تو چاہیئے۔گاڑیوں سے کاربن کا
اخراج۔کراچی۔لاہوراور اسلام آباد جیسے شہروں میں بہت بڑھ گیا ہے۔ازون گیس
کی تہوں میں بھی دراڑیں پڑنے کی خبریں آرہی ہیں۔پورے کرۂ ارض پر ٹمپریچر
بڑھ گیا ہے۔اس لئے گلیشئرز پگھل رہے ہیں اور سیلاب زیادہ آرہے ہیں۔2009ء سے
اقوام متحدہ نے کرۂ ارض کو صاف ستھرا رکھنے کے لئے 22۔اپریل کوEarth
dayمنانے کا اعلان کردیا ہے۔لوگوں سے توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ اپنے شہر۔ملک
اور پورے کرۂ ارض کی صفائی کا خیال رکھیں۔صنعتی طورپر ترقی یافتہ ممالک سب
سے زیادہ کچرا اور زہریلا دھنواں پیدا کررہے ہیں۔1997ء میں 180۔ممالک نے
جاپان کے شہرKyotoمیں دستخط کئے تھے۔معاہدے میں ماحول کو صاف رکھنے کے لئے
بہت سے نقاط شامل تھے۔حکومت پاکستان نے بھی90ء کی دہائی سے ماحول کا محکمہ
قائم کیا ہوا ہے۔لیکن پاکستانیوں سے ایک شہر کراچی ہی صاف ہوجائے تو بڑی
بات ہوگی۔لوگ اب اس شہر کو کچرا شہر ہی کہنے لگ گئے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ
ہم لوگ کیا کریں۔انفرادی طورپر ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم خریداری کرتے وقت
پولی تھین بیگ کا استعمال نہ کریں۔اشیاء بغیر پولی تھین بیگ کے گاڑی میں
رکھیں۔یا کپڑے کا ایک مضبوط بیگ استعمال کریں۔بہت سی اشیاء کی پیکنگ
دوکاندار کو ہی واپس کردیں اور اصل شئے گھر لے آئیں۔یوں گھر میں پولی تھین
بیگ نہ آئیں گے اور نہ ہی کوڑے کے ڈھیر پیدا ہونگے۔فیکڑیاں بھی اشیاء کو
بنا کر سادہ انداز سے پیک کریں۔فروخت کرنے کے لئے بڑی بڑی پیکنگ کی بجائے
سادہ پیکنگ استعمال کریں۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ پیکنگ کا وزن زیادہ اور شے
انتہائی معمولی اور چھوٹی۔کالونیوں اور محلوں میں رہنے والے چھٹی والے دن
اپنی کالونی کا جائزہ لیں۔اور کہیں بھی کچرا پڑا نہ رہنے دیں۔آپ نے تحریر
کے ابتدائی حصے میں دیکھا ہوگا کہ ماحول کی آلودگی زیادہ آبادی سے پیداہوتی
ہے۔آبادی چند ہزار سال میں لاکھوں سے بڑھ کر اربوں میں ہوچکی ہے۔ہمیں اس
مسٔلہ کی طرف توجہ دینی چاہئے۔آلودگی صاف کرنا صرف سرکاری اداروں کی نہیں
بلکہ ہر شخص کی بھی ذمہ داری ہے۔حکومت کو چاہیئے کہ پولی تھین بیگ بنانے
اور فروخت پر پابندی لگائے۔ |
|