کہانی " فرنٹ لائین " :
انسان اپنی زندگی میں بہت سی ایسی باتیں ،کہاوتیں اور واقعات سنتا ہے جن
میں سے کوئی ایک کسی کے مستقبل کا تعین کرنے کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔ بس
کچھ ایسا ہی ایک واقعہ امریکہ کے 8 سالہ دور مکمل کرنے والے صدر بارک
اوباما کے وائٹ ہاوس چھوڑنے اور 20ِِ جنوری2017ء کو امریکہ کی تاریخ میں
پہلی دفعہ پُر تشدد مظاہروں میں 45ویں صدر کی حیثیت میں حلف اُٹھا کر وائٹ
ہاوس میں داخل ہونے والے ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان اپریل 2011ء میں پیش آیا۔
" فرنٹ لائین" کے عنوان سے اس واقعہ کی 6 منٹ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر اچانک
اُ س وقت وائرل ہوتی ہوئی نظر آئی جب نومبر2016ء کو امریکہ کے صدارتی
انتخابات میں ڈیمو کریٹک کی اُمیدوار ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں ڈونلڈ ٹرمپ
ری پبلکن اُمیدوار کی حیثیت میں غیر متوقع طور پر امریکہ کے صدر منتخب ہو
گئے۔
ویڈیو انگریزی زبان میں ہے ۔جسکو پاکستان کے ایک بڑے نشریاتی ادارے نے اپنے
ایک پروگرام میں اُردو میں ترجمہ کر کے بھی پیش کیااور آخر میں نتیجہ اخذ
کیا کہ"کسی کی تضحیک بعض دفعہ کیسی ثابت ہوتی" ۔
اس ویڈیو میں ماضی کی منظر کشی کے ساتھ ٹرمپ کے صدر منتخب ہو نے کے بعد چند
اہم تجزیہ کاروں کے تبصرے بھی شامل کر دیئے گئے ہیں ۔جو اپنی حیثیت میں اس
واقعہ کو جہاں دلچسپ بنا دیتے ہیں وہاں ایک سچی کہانی کے طور پر مستقبل کے
سبق کا درس بھی دیتے ہیں۔لہذا یہاں بھی کوشش کی جارہی ہے کہ واقعہ ایسے ہی
لفظ بہ لفظ بیان کرنے کی کوشش کی جائے کہ قاری کو ویڈیو کی حقیقت کے مطابق
معلومات منتقل ہو سکیں۔
ویڈیو کے اہم کردار:
بارک اوباما (امریکہ کے سابق صدر)
ڈونلڈ ٹرمپ (امریکہ کے نئے صدر)
تجزیہ کار:
محترمہ اوماروسا مانیغولت"دی اپرنٹس "میں شرکت کرنے والی ایک خاتون
ٹیموتھی ایل اوبرائن ۔ 2005ء میں ٹرمپ پر شائع ہونے والی کتاب " ٹرمپ نیشن"
کے مصنف
گریڈن کارٹر۔"وینیٹی فیئر" میگزین کے ایڈیٹر
ڈیویڈ رمنیک۔ " دی نیو یارکر " میگزین کے ایڈیٹر
مائیکل ڈی انطونیو۔ ستمبر2015ء میں شائع ہونے والی ٹرمپ کی سوانح عمری "
دِی تروتھ آباؤٹ ٹرمپ" کے مصنف
راجر سٹون۔ٹرمپ کے سیاسی مشیر اور رِی پبلکن کے ایک سیاسی حکمتِ عملی کے
ماہر
جرمن والد اور سکاٹش والدہ کے بیٹے ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کی کاروباری و
انٹرنمنٹ کی دُنیا کی ایک اہم شخصیت رہے ہیں۔اُنکی مقبولیت کے باعث اُن کے
کردار کو فلم وکارٹون کی حیثیت میں بھی پیش کیا جا چکا ہے۔ بلکہ مشہور فلم
"ہوم اَلون2 " کے ایک سین میں جب ہوٹل میں داخل ہونے کے بعد بچہ جس شخص سے
آگے جانے کا راستہ پوچھتا ہے وہ "ڈونلڈ ٹرمپ" بذاتِ خود ہی ہیں۔ اسکے
علاوہ2004ء سے2015ء تک ٹی وی پر پیش کیئے جانے والے پروگرام"دِی اپرنٹس" کے
ایگزیکٹو پروڈیوسر اور میزبان بھی رہ چکے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو سیاست سے لگاؤ اور اس میں حصہ لینے کا شوق بھی گزشتہ تین
دہائیوں سے رہا ہے ۔لیکن بھر پور دِلچسپی کا مظہر کب ہوا اور کیا اس بیان
کی جانے والے واقعہ میں واقعی یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ واقعہ ہی اُنکو اس
عہدے پر لے آیا بلکہ کیا واقعی اُنھوں نے سوچ لیا تھا کہ سابق صدر اوباما
کے ہاتھوں سے ہی اُس وائٹ ہاؤس کی چابی لوں گا جسکا اس واقعہ سے گہرا تعلق
ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ 2012ء کے صدارتی انتخابات میں بھی حصہ لے سکتے تھے لیکن صدر
اوباما دوسری میعاد کیلئے بھی اُمیدوار تھے لہذا ٹرمپ نے مناسب وقت کو
ترجیع دی جس کا یقین ویڈیو کے آغاز سے ہی آجاتا ہے۔
واقعہ:
امریکہ کے2016ء کے صدارتی انتخابات کیلئے سال جولائی2015ء میں ڈونلڈ ٹرمپ
نے ری پبلکین کی نامزدگی قبول کر تے ہوئے کہا "میں عاجزانہ اور موآدبانہ
طریقے سے آپکی امریکی صدارت کیلئے نامزدگی قبول کرتا ہوں"۔
یہ ایک اُمیدوار کیلئے وضاحت کرنے والا وہ لمحہ تھاجو ایک تلخ عوامی ذلت سے
اپریل 2011ء میں واشنگٹن ڈی سی کی سب سے زیادہ گلیمرس راتوں میں سے ایک میں
اُبھر تھا۔جسکی یاد شاید اُنکو وائٹ ہاؤس کے کمپیئر کے اُس جملے سے آئی ہو
گی جب وہ یہ کہہ رہا تھاکہ " ہم آج وائٹ ہاؤس کے نامہ نگاروں کے عشایئے کی
بات کر رہے ہیں یہاں سالانہ تقریب ہو رہی ہے" ۔
محترمہ اوماروسا مانیغولت: جو وہاں پر اُس وقت موجود تھیں نے کہا کہ جیسے
ہی ہم نشستوں پر بیٹھ رہے تھے میری ڈونلڈ سے بات ہوئی۔وہ بہت اچھے موڈ میں
تھے اور لوگ اُنکی تصویریں لے رہے تھے۔اُنھیں بہت خوشی تھی کہ ڈونلڈ یہاں
موجود ہیں۔
اصل میں ٹرمپ کو اس خصوصی اجتماع کا دعوت نامہ ہفتوں بعد آیا تھا۔وہ بھی
شاید اس لیئے کہ ٹرمپ نے ٹیلی ویژن کے ذریعے اوباما پر کچھ اِن الفاظ میں
حملہ کیاتھا کہ " آپکو صدر بننے کی اجازت نہیں اگر آپ اس ملک میں پیدا نہیں
ہوئے"۔
" ہو سکتا ہے کہ وہ اس ملک میں پیدا نہیں ہوئے۔مگر اس پیدائش کے سند پر کچھ
ہے۔شاید مذہب ،شاید اُسکے مطابق وہ مسلمان ہیں۔مجھے نہیں معلوم شاید وہ یہ
چاہتے نہیں ہیں یا پھر شاید وہ جانتے نہیں۔لیکن میں آپکو یہ بتا دوں کہ اگر
وہ اس ملک میں پیدا نہیں ہوئے تو یہ اب تک کا سب سے بڑا جھوٹ ہو گا"۔
اوباما اسکا جواب اُس رات واشنگٹن کے سارے صحافیوں ، سیاست دانوں اور دیگر
شخصیات کے سامنے اُس وقت دینے کے خواہش مند نظر آئے جب اناؤنسر نے کہا "
اوباما اب مائیکرو فون پر آئیں گے ۔چلیں اب برائے مہربانی اپنی نشستوں پر
بیٹھ جائیں"۔
اوباما نے سب کو مخاطب کرتے ہو ا کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ آج رات یہاں ہیں۔
ٹیموتھی ایل اوبرائنا :نے بتایا کہ اوباما نے ڈونلڈ ٹرمپ کو سرِعام نشانہ
بنایا۔
اوباما نے اپنے سندِ پیدائش والے معاملے کے ختم ہونے کا ذکر کرتے ہوئے کہا
کہ ڈونلڈ ٹرمپ سے زیادہ کوئی خوشی یا فخر نہیں محسوس کر رہا ہو گا۔کیونکہ
اب وہ یہ ان مسائل کو فوکس کر سکتے ہیں۔جو اہمیت کے حامل ہیں۔
مثال کے طور پر کیا چاند پر لینڈنگ جعلی ہے؟
( یعنی ٹرمپ اب اس سچ جھوٹ کو ثابت کریں کہ جو امریکہ کے بارے میں چاند
پرلینڈنگ کو جعلی بھی قرار دیا جا رہا ہے)۔
گریڈن کارٹر :کے مطابق وہ ٹرمپ سے 20فُٹ دُور بیٹھا ہوا تھااور وہ چہرے سے
غیر مطمئین نظر آئے۔
ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے اوباما نے مزید کہا کہ" روزویل" میں آخر ہوا کیا
تھا ؟
( 1947ء کے وسط میں امریکہ نیو میکسیکو کے شہر روزویل کے سبزہ زار میں جو
امریکن ائیر فورس کا موسم کی معلومات لینا والا غبارہ تباہ ہوا تھا اُس کے
متعلق یہ بھی کہا گیا تھا کہ خارج الارض خلائی جہاز وجہ تھی اور اُسکو
"واقعہِ روزویل یو ایف او" کا نام دیا گیا تھا)۔
پھر کہا (tuppo.Biggi) ٹوپو ۔بِگی کہاں ہیں؟
( ٹوپیک شاکر عُرف ٹوپو سیاہ فام امریکن موسیقار ،ریکارڈ پروڈیوسر،اداکار و
شاعر تھا اور کرسٹوفر جارج والیس عُرف بگی سیاہ فام امریکن موسیقارتھا لیکن
دونوں کو بالترتیب عمر25سال ستمبر1996ء شہرلاس ویگاس اور عمر24سال
مارچ1997ء شہرلاس اینجلس میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔سوال تھا کہ
اُن کے قاتل کہاں ہیں)؟
محترمہ اوماروسا مانیغولت: کا دھیان اُس وقت ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف تھا جو
سنجیدہ تھے اور اُنھوں نے ایسا تاثر دیا کہ کچھ ہوا ہی نہیں۔
ڈیویڈ رمنیک: ٹرمپ سے 2 ٹیبل دُور بیٹھے ہوئے تھے۔لہذا وہ اپنے ماضی کے
تجربے سے جانتے تھے کہ وائٹ ہاؤس کے نامہ نگاروں کے عشائیے میں کسی بھی
مذاق کو ہضم ہونے کا عمو می طریقہ یہ ہے کہ گھبرائیں نہیں اور اُس وقت مزاح
کا حصہ بنیں ۔ بے شک اُس رات میں آپ خوب روئیں۔ لیکن ٹرمپ شدید غصے میں
تھے۔وہ نہایت سنجیدہ تھے۔اُنکا وقت بالکل اچھا نہیں گزر رہاتھا ۔
اوباما نے پھر تیر پھینکا کہ" مذاق کے علاوہ ہم سب کو آپ کے اسناد اور
تجربے کا پتا ہے۔مثال کے طور پر نہیں واقعی" سلیبریٹ اپرنٹس" کی حالیہ قسط
میں اسٹاک ہاؤس میں مردوں کی کنگ ٹیم نے" اوماہا اسٹکس" کے ججوں کو متاثر
نہیں کیا۔ اور ایک دوسرے پر الزام لگائے جا رہے تھے"۔
(" سلیبریٹ اپرنٹس" سے متاثر ہوکر بھارت کے ٹی وی سے نشر کیئے جانے والا
پروگرام " بِگ باس" اُس سے مماثلت رکھتاہے جسکی میزبانی بھارت میں اداکار
سلمان خان کرتے ہیں اور امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کرتے رہے ہیں۔اُس میں ایک
دفعہ جن جج حضرات " بروس اینڈ ٹوڈ " نے حصہ لیا اُنکا تعلق امریکہ کے
مشہورفوڈ کے ادارے اوماہا اسٹکس سے تھا(۔
اوباما کہہ رہے تھے" مگر آپ مسٹر ٹرمپ ، نے اصلی مسئلے کی نشاندہی کی، جو
کہ قیادت کا فقدان تھا اور اسطرح بآلاخر آپ نے" لل جان یا میٹ لوف "کو
قصوروار نہیں ٹھرایا۔آپ نے "گری بوسی" کو نکال دیا اور اسطرح کے فیصلے مجھے
رات کو سونے نہیں دیتے"۔
ڈیویڈ رمنیک نے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کے ساتھ امریکہ کے صدر) Pinata
)" پیناٹا'والا برتاؤ کر رہے تھے جس پر وہ بھی ذلت محسوس کر رہے تھے۔
) پیناٹا ۔مٹی یا گتے و کاغذ سے بنے ہوئے ایسے برتن و مورتی کو کہتے ہیں جس
میں بچوں کے تحائف و ٹافیاں وغیرہ ڈال کر کسی بھی تقریب مین کہیں لٹکا دیا
جاتا ہے اور پھر اُس کو توڑ پھوڑ کر اُس میں سے نکلنے والی چیزیں حاصل کرنے
کی کوشش کی جاتی ہے(۔
بہرحال اوباما نے طنزاً ٹرمپ کو کہا کہ "خوب سنبھالا سر۔۔خوب سنبھالا" ۔
محترمہ اوماروسا مانیغولت: نے بتایا کہ اور یہ سلسلہ چلتا اور چلتا ہی رہا
۔اور وہ ٹرمپ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہی رہے اور" میں نے سوچا کہ باراک
اوباما ایک ایسی چیز کا آغاز کر رہے ہیں جسکو وہ شاید ختم نہ کر پائیں۔
اوباما رُکنے کو ہی نہ تھے اور طنزً و مزاحاً یہ کہہ کر کہ آپکو مسٹر ٹرمپ
کے بارے میں جو کہنا ہے کہیں، یہ وائٹ ہاؤس میں یقینی طور پر تبدیلی لائیں
گے۔چلیں دیکھتے ہیں وہ کیا تبدیلیاں ہیں؟اپنے قریب بائیں طرف لگی ہوئی
اسکرین کی طرف اشارہ کر کے ایک فوٹو دکھائی جس پر لکھا ہوا تھا !
"ٹرمپ دِی وائٹ ہاؤس۔پریزیڈنشل سوئیٹ"
اسکے بعد اوباما یہ کہہ کر" خُدا آپکا اور امریکہ کا بھلا کرے" اپنی نشست
پر بیٹھ گئے۔لیکن تاریخ کے پنے پر کچھ اور لکھا گیا۔
مائیکل ڈی انطونیو: کے مطابق ڈونلڈ ذلت اور رسوائی سے بہت خوف زدہ رہتے
ہیں۔ اسی لیئے وہ اکثر دوسروں کی تذلیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن اُس وقت
ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے ناقابلِ برداشت تھا کہ کہ صدر اُنھیں بے عزت کریں۔
سیاسی مشیر راجر سٹون: نے اُس رات کی صورتِ حال پر اپنے مشاہدہ کا اظہار
بہت خوبصورت الفاظ میں کیاکہ اُنکے خیال میں" یہ وہ رات تھی جس دن ٹرمپ نے
فیصلہ کیا کہ وہ صدارتی دوڑ میں حصہ لیں"۔راجر سٹون کو لگا کہ اس سب سے
اُنکی حوصلہ افزائی ہوئی اور اُنھوں نے سوچ لیا کہ
"شاید میں اس دوڑ میں حصہ لے لوں ۔۔۔۔ساتھ میں اُنکو ثابت کر دوں" ۔
محترمہ اوماروسا مانیغولت: نے ڈونلڈ ٹرمپ کے صدراتی انتخابات میں کامیاب ہو
نے کے بعدکہا کہ ہر ناقد کو صدر ٹرمپ کے آگے جُھکنا پڑے گا۔ہر کوئی جن کو
اُن سے اختلاف تھا ،ان پر شُبہ تھا ، یا اُنکو چیلج کیا تھا ۔بہترین بدلہ
یہ ہے کہ آپ دُنیا کے سب سے طاقتور انسان بن جائیں۔
مائیکل ڈی انطونیو : نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا خواب ہے وہ شخص بنیں جو 2017ء
میں باراک اوباما سے اوول آفس کی چابی حاصل کر
سکیں اور یہ ذاتی جنگ ہے، اور یہ اُنکی ذاتی ضرورت ہے کہ وہ پہلے سیاہ فام
امریکی صدر کی طرف سے کی گئی ذلت سے نجات حاصل کر سکیں۔
20ِ جنوری 2017ء تاریخ کا وہ باب بن گیا ہے جو چند منٹوں کی ذاتی اَنا پر
ایک نیا فیصلہ سنا گیا ۔ |