20جنوری کو امریکی صدارت کی کرسی پر ایک
ایسی شخصیت کوبیٹھا دیاگیا جو اسلام اور پاکستان مخالف ہے۔ ڈونلڈٹرمپ نے
امریکا کے پینتالیسویں صدر کے حیثیت سے حلف اُٹھا لیا، اس سے قبل جب سابق
صدر بارک اوباما جنہوں نے اپنی تقریب حلف برداری کے موقع پر جس نام کے
ذریعہ صدر امریکہ کی حیثیت سے حلف لیا تھا وہ بارک حسین اوباما تھا۔ سپر
پاور ملک کی تقریب حلف برداری اور وائٹ ہاؤس میں سیاہ فام صدر کا داخلہ
دنیا کے لئے حیرت کا باعث تھا۔ بارک اوبامابھی اپنے سابق صدور کے نقشِ قدم
پر چلتے ہوئے عالمِ اسلام کے لاکھوں مسلمانوں کے قتل عام میں اہم کردار ادا
کیا۔ دنیا میں سپر پاور کہلائے جانے والا امریکہ خود اپنے صدارتی انتخابات
میں روس کی دخل اندازی کو محسوس نہ کرسکا اور نومنتخب امریکی صدر ٹرمپ کی
کامیابی اور ہلیری کلنٹن کی ناکامی کے لئے صدر روس ولایمیرپوتین کو ذمہ دار
ٹھہرانے کی کوشش کی جس سے امریکہ کی نااہلی ثابت ہوتی ہے۔ اوباما کے نام کے
ساتھ جب مسلمانوں نے حسین کا نام دیکھا تو سمجھا تھا کہ شایداب عالمِ اسلام
کے ان ممالک میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و بربریت کا خاتمہ ہوجائے
گا کیونکہ جس طرح سینئر بش اور جونیئر بش اور بل کلنٹن کے دورِ اقتدار میں
عراق، افغانستان و دیگر اسلامی ممالک میں مسلمانوں کا قتل عام اور انکی
معیشت کو شدید نقصان ہوا تھا اور اس دور کا خاتمہ ہوجائے گا۔لیکن بارک حسین
اوباما کے دور اقتدار میں اس میں مزید اضافہ ہوا ایک طرف امریکہ اور
دیگراتحادی ممالک شام کے صدر بشارالاسد کے خلاف تو دکھائی دیتے ہیں لیکن
داعش و دیگر نام نہادشدت پسندتنظیموں کے خاتمہ کے لئے کارروائی کرتے ہوئے
عام مسلمانوں کا قتل عام کررہے ہیں تو دوسری جانب روس اور ایران، بشارالاسد
کے مخالف تنظیموں کے خلاف کارروائی کو حق بجانب قرار دیتے ہوئے عام
مسلمانوں کا قتل عام کررہی ہیں۔ اس طرح شام کی خانہ جنگی میں ہلاک ہونے
والوں میں زیادہ تر معصوم و بیگناہ بچے، مرد و خواتین شامل ہیں۔ عراق میں
جس طرح الزامات عائد کرکے بش نے صدر صدام حسین کے اقتدار کو ختم کیا اور
صدام حسین کو ایک ایسے دن پھانسی کی سزا دی گئی جبکہ عالم اسلام عید قرباں
کی سعادت سے فیضیاب ہورہاتھا۔ صدام حسین نے جس بہادری سے اپنی جانِ آفریں
کو کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے خالق حقیقی کے سپرد کیا اسے دیکھ کر مسلمان
ہی نہیں دشمنانِ اسلام بھی حیرت زدہ رہ گئے ہونگے۔ ظالم بش و ظالم بلیئر
اپنی ناکامی یا اسلامی دشمنی کو چھپانے کے لئے عالمِ اسلام کو دہشت گردی کی
خطرناک گھاٹی میں ڈال کر تماشا دیکھ رہے ہیں۔ ان ظالم حکمرانوں اور انکے
ماتحتین نے اپنی ناکامی اور غلطی کا اظہار کیا لیکن اس کے باوجود دنیا کی
کوئی طاقت نے ان ظالم حکمرانوں اور انکے اتحادی خیر خواہوں کو سزا دینے کی
بات تک نہیں کی۔ آج عراق، افغانستان، شام، یمن، پاکستان و دیگر اسلامی
ممالک میں دہشت گرد تنظیموں کا وجود ان ہی ظالم حکمرانوں کی وجہ سے ہوا ہے
۔20 جنوری کو ایک اور امریکی صدر کی صدارت کا خاتمہ ہوگیا اور اب اس پر
فائز ہونے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی مسلمانوں کو کوئی بہتر ی کی
اُمیدنہیں ہے ،کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی تقاریر کے دوران مسلمانوں
کے خلاف زہر اگلنے کی کوشش کی ہے اسی لئے ان سے کوئی اچھی امید نہیں رکھی
جاسکتی۔ عالمِ اسلام کے ساتھ انکے دور اقتدار میں کس طرح کا ماحول رہے گا
اس سلسلہ میں ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا لیکن اتنا ضرور ہے کہ وہ اپنی
تجارتی سرگرمیوں کے دوران مسلم تجارتی ساتھیوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھے
ہوئے تھے۔ اوباما کے دور اقتدار تک شام کے معاملے میں بھی روس اور امریکی
پالیسی مختلف رہی ہے اب دیکھنا ہے کہ کیا ٹرمپ اور پوتین کے درمیان کوئی
خفیہ معاہدہ طے پاتا ہے جس کے ذریعہ بشارالاسد کے اقتدار کو مضبوطی حاصل ہو
اس سلسلہ کی ایک کڑی کا آغاز ہوچکا ہے اور روس کی جانب سے ٹرمپ انتظامیہ کے
ساتھ شام امن بات چیت کیلئے پہل ہوچکی ہے۔ روسی وزیر خارجہ کے مطابق ماسکو
نے امریکہ کی نئی انتظامیہ کو قازغستان میں شام کے صورتحال پر بات چیت کے
لئے مدعو کیا ہے، انہوں نے ایک نیوز کانفرنس میں کہاکہ روس کو امریکی نئے
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دہشت گردی سے نمٹنے کے مسئلہ پر حوصلہ افزائی کی ہے،
لاریوف نے توقع ظاہر کی ہے کہ شامی بحران پر اوباما انتظامیہ کے بہ نسبت
نئی انتظامیہ بہتر اور نتیجہ خیز تعاون کرے گی۔ اب دیکھنا ہے کہ ٹرمپ
انتظامیہ اور روس کے درمیان بات چیت نتیجہ خیز ثابت ہوکر شام کے حالات
پرسکون ہوتے ہیں یا پھر وہی ماضی کی طرح بشارالاسد کی فوج شامی اپوزیشن اور
عام عوام پر کسی نہ کسی بہانے فضائی کارروائی کرتے ہوئے ظالمانہ کارروائی
جاری رکھتی ہے۔ اگر روس اورنئی امریکی انتظامیہ کے درمیان نتیجہ خیز بات
چیت ہوتی ہے پھر دیکھنا ہوگا کہ سعودی عرب، عرب امارات و دیگر اسلامی ممالک
جو بشارالاسد کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لئے امریکہ پر زور دیتے رہے ہیں
وہ خاموشی اختیار کریں گے یا پھر بشارالاسد نے جس درندگی کا مظاہرہ کرتے
ہوئے شام کے عام عوام کو اپنی ظالم فوج اور روس و ایران کی ظالم افواج کے
ذریعہ قتل عام کیا اس کو مدنظر رکھ کر بشارالاسد کی بے دخلی کیلئے ڈٹے رہیں
گے اور اگر امریکہ روس کی بات مان کر بشارالاسد کا ساتھ دیتا ہے تو ان
اسلامی ممالک اور امریکہ کے درمیان تعلقات خراب ہوسکتے ہیں۔ ٹرمپ کی بطور
صدر حلف داری کے دوران پورے ملک میں شدید احتجاجی مظاہرے جاری تھے جس سے یہ
ثابت ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی عوام میں کس قدر غیر مقبول ہیں۔اس کے
باوجود ٹرمپ ا مریکا کے صدر منتخب ہوناکسی اور جانب اشارہ کرتا ہیں ۔امریکا
میں انتخابات کا تریقہ دنیا کا سب سے مشکل اور پیچیدہ تریقہ ہے ۔امریکا نے
اپنے ریوایتی حریف روس پر الزام بھی لگایا کہ ٹرمپ کی کامیابی میں روس کا
ہاتھ ہے ۔ڈونلڈ ٹرمپ کی اسلام دشمنی اور پاکستان مخالفت ہی اس کو اسرائیل
اور ہندوستان کے قریب کرتی ہے ۔ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی
اپنی مسلم دشمنی اور بھارت و اسرائیل نوزی ظاہر کرنی شروع کردی تھی ،تقریب
حلف داری میں بھی اسلام دشمن پادری سے دعائیں حاصل کی،حلف داری کے بعداپنے
پہلے خطاب میں امریکا کے نئے صدر نے کہا کہ میں دنیا کو متحد کرونگا اسلامی
شدت پسندی کے خلاف ،بنیاد پرستی اور شدت پسندی کا تعلق اسلام سے جوڑ کر
امریکا کے نئے صدر نے اپنی بنیاد پرستی ثابت کردی ،ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ملک
امریکا ،اسرائیل اور ہندوستان کے شدت پسندوں چھوڑ کر صرف مسلمانوں کے خلاف
جنگ کا اعلان کرکے اپنی ذہنی پستی اور ناانصافی کا ثبوت دیدیا ۔امریکا کے
صدر نے جو اعلانات کیئے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اسلام کے سخت مخالف
ہے اوران کو اس رویہ سے دنیا میں امن کی اشاء کو شدید نقصان پہنچے گا ،آج
دنیا میں کہی پر بھی دہشتگردی ہورہی ہے ان میں کہی نہ کہی امریکا کا ہاتھ
ہے ۔امریکا دنیا کو دہشتگردی میں اُلجھا کر اپنی تسلسل قایم رکھنا چاہتا
ہے۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اب اسلامی ممالک کو ہر قدم سوچ سمجھ کر رکھنا
پڑئیگا ۔اُنتا لیس ملکی اسلامی اتحاد سے ہی اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ
حاصل کرنا پڑئیگا ۔اور اس بات کو ہر مسلم ذہین نشین کرلیں ،کہ اﷲ تعالیٰ نے
قرآن میں ارشاد فرمایا ‘‘یہود و نصارہ کبھی بھی تمہارے دوست نہیں ہوسکتے
۔اﷲ ہم سب میں اتحاد و اتفاق نصیب کریں ۔(آمین) |