ڈونلڈ ٹرمپ کے بعد مشرق وسطیٰ کی صورتحال
(Asif Khursheed, Islamabad)
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
2016ء مشرق وسطیٰ کے لیے خونیں سال رہا ۔ترکی ، شام ، فلسطین اور دیگر
ریاستیں مسلسل دہشت گردی کا شکار رہیں لیکن ان سب میں شام کی صورتحال سب سے
ذیادہ سنگین رہی ہے ۔شام غیر ملکی طاقتوں کی لڑائی کا مرکز بن چکا ہے اور
اس کی قیمت وہاں کے نہتے شہریوں کو چکانا پڑرہی ہے ۔گزشتہ سولہ سالوں سے
شام کے تخت پر موجودبشار الاسد کی حکمرانی کے تحفظ کے لیے لاکھوں افراد جن
میں بڑی تعداد عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں کی ہے ہجرت کرنے پر مجبور ہو چکے
ہیں اور ان میں بڑی تعداد یورپ کی سرحد وں پر ٹھٹھرتی سردی اور سمندر کی بے
رحم موجوں کا شکار ہو چکی ہے۔ بشار الاسد کے اقتدار سنبھالنے پر ہی شام میں
عوام کی صورتحال اس قدر بہتر نہیں تھی ۔بادشاہت ، بڑے پیمانے پر کرپشن ،
بیروزگاری ، اظہار آزادی پر پابندی اور ریاستی جبر کے خلاف عوام احتجاج کر
رہے تھے تاہم 2011میں مختلف عرب ممالک میں جمہوری انقلاب کے بعدشام میں بھی
بشار الاسد کی بادشاہت کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہوئی اور لوگوں نے
جمہوریت اور اپنے حقوق کے حصول کے لیے ایک امید باندھ لی۔ شام کے جنوبی
علاقوں میں ہونے والے مظاہروں کے خلاف بشارالاسد کی فورسز نے طاقت کا
استعمال کرتے ہوئے ان آوازوں کو کچل دیا پھر دیکھتے ہی دیکھتے بشارالاسد کے
خلاف یہ تحریک ملک کے دیگر حصوں میں بھی پھیل گئی۔بشار الاسد کی حکومت کو
بچانے کے لیے کچھ طاقتیں آگے بڑھیں تو مخالف قوتوں کو بھی بہانہ مل گیا اور
انہوں نے بھی شام کو اپنی سازشوں کا مرکز بنا لیا۔ علاقائی قوتوں کے ساتھ
ساتھ دنیا کی سپر طاقتوں نے بھی اپنا حصہ ڈالنا شروع کیا جس کا سب سے بڑا
نقصان شامی عوام کو ہوا جو پہلے ہی بشارالاسد کی فوجوں کے انسانیت سوز
مظالم سے تنگ تھے۔ ایران، روس اور امریکہ تو براہ راست اس جنگ کا حصہ بننے
لگے لیکن شدت اس وقت پیدا ہوئی جب دولت اسلامیہ نامی ایک تنظیم وجود میں
آئی اور خلافت کے نام پر اس نے اسلامی ممالک میں دہشت گردی کا بازار گرم کر
دیا ۔یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں کہ دولت اسلامیہ کس نے بنائی اور اس کے
مقاصد اسلامی ممالک میں انتشار ، انارکی اور فساد کے علاوہ کچھ نہیں ۔دولت
اسلامیہ نے عراق ،ترکی اور شام کو اپنی کارروائیوں کا مرکز بنایا تو اسی
بہانے سامراجی قوتوں کو بھی دولت اسلامیہ کی سرکوبی کے نام پر اس جنگ میں
اپنا کردار ادا کرنے کا موقع مل گیا۔ ہو سکتا تھا کہ شام کے مختلف گروہ کسی
ایک نقطے پر اکٹھے ہو کر سول وار سے نکل جاتے تاہم ایران ، روس ، امریکہ
اور دولت اسلامیہ کی مداخلت نے اس جنگ کا کوئی بھی سیاسی حل نکلنے کا موقع
ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ضائع کر دیا ۔ روس اور امریکہ نے اپنے مفادات کا حصول
شام کو بنا لیا ۔اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ اس لڑائی کو بظاہر فرقہ
واریت کی جنگ بناکر پیش کیا گیا جس میں ایران ، سعودی عرب اور ترکی کو آمنے
سامنے لاکھڑا کیا گیا لیکن درحقیقت دولت اسلامیہ کا وجود ہی اسی مقصد کے
لیے تھا ۔عالم اسلام میں دولت اسلامیہ المعروف داعش سب سے پہلے سعودی عرب
اور پھر ایران اور ترکی کے لیے بھی ایک بہت بڑا خطرہ بن کر سامنے کھڑی ہوئی
۔یہی وجہ ہے کہ داعش کے وجود کا بہانہ بنا کر دو مخالف قوتیں روس و امریکہ
شام جاپہنچی ۔ترکی میں داعش نے دہشت گردی کا آغاز کر دیا اور دوسری طرف
ایران نے اسے سعودی عرب کی حمایت یافتہ قرار دے اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ
تصور کیا ۔ ایران نے بشار الاسد کی حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے اس جنگ میں
براہ راست حصہ لیا اس کی ملیشیا کے کمانڈرز اور ایران سے بھرتی ہوکر لڑنے
والوں کی بڑی تعداد شام میں نظر آنے لگی۔ بشار الاسد کی حمایت اور داعش کی
مخالفت پر حزب اﷲ نے بھی کمر باندھ لی۔اس جنگ سے پاکستان بھی متاثر ہوئے
بغیر نہ رہ سکا اور داعش میں شمولیت اختیار کرنے والوں کے ساتھ ساتھ ایران
کے ذریعے شام جا کر داعش کے خلاف لڑنے والوں کی خبریں بھی آنے لگیں ۔
شام کی صورتحال کا سب سے متاثر فریق شام کے عوام تھے ۔مختلف ذرائع کے مطابق
شام میں پانچ لاکھ سے زائد افراد اس جنگ کی نذر ہو چکے ہیں جن میں پچاس
ہزار سے زئد تعداد بچوں کی ہے۔شامی انسانی حقوق نیٹ ورک کے مطابق صرف
2016میں 16ہزار سے زائد عام افراد اس جنگ میں اپنی جان گنوا بیٹھے اس افراد
میں دو ہزار کے قریب بچے جبکہ خواتین کی تعدا د 1237تھی۔ شامی افواج اور
روسی فوجوں کے حملوں میں مارے جانے والوں کی تعداد بارہ ہزار سے زائد تھی
جبکہ باقی افراد داعش اور دیگر فریقوں کی لڑائی میں مارے گئے ۔ اس سے
اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس جنگ میں قیمت کون ادا کر رہا تھا۔شامی
مہاجرین کی تعدا د اس سے کہیں بڑھ کر ہے ۔عالمی اداروں کے مطابق شامی
مہاجرین کی تعداد 2ملیین سے بڑھ چکی ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق ہر 15سیکنڈ
بعد ایک شامی مہاجر بن جاتا ہے ۔سخت سردی میں کیمپوں میں موجود یہ پناہ
گزین خوراک ، طبی سہولیات اور صاف پانی کے بغیر جس انداز سے زندگی گزار رہے
ہیں عام حالات میں اس کا تصور ہی جسم میں کپکپاہٹ پیدا کر دیتا ہے ۔ان میں
سے اکثر پناہ گزین یورپ کی سرحدوں میں جس سلوک کو برداشت کر رہے ہیں وہ ایک
الگ کہانی ہے اور جو سمندر کی بے رحم موجوں کی نذر ہو کر اپنی جانیں گنوا
چکے ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں ۔شام میں گولہ باری ،گولیوں اور میزائلوں سے
زخمی ہونے والے اور بلڈنگوں کے ملبے کے نیچے آکر دبنے والوں کے لیے بھی طبی
سہولیات ہسپتال اور ڈاکٹر میسر نہیں ہیں ۔
امریکہ چونکہ اس جنگ کا ایک اہم فریق ہے اور مشرق وسطی کی اس ساری صورتحال
کی ذمہ داری بھی اس پر عاید ہو تی ہے اس لیے اقتدار کی تبدیلی مشرق وسطی کی
اس سنگین صورتحال پر گہرا اثر ڈال سکتی ہے ۔ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی نے اس
ساری صورتحال کو مزید سنگین کر دیا ہے ۔ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی تقریر سے یہ
تاثر ابھرتا ہے کہ وہ داعش کی بجائے اسلام کو ایک خطرہ سمجھتے ہیں جبکہ
انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں یہ عندیہ بھی دیا تھا کہ وہ تل ابیب کی
بجائے یروشلم کو اسرائیل کا ہیڈ کوارٹر تسلیم کر لیں گے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے
صدارتی حلف کے دو دن بعد ہی اسرائیل کی جانب سے یہودی بستیوں کی منظوری
دینا واضح کر تا ہے کہ حالات مزید خرابی کی طرف بڑھتے جائیں گے ۔ یہ اقدام
مشرق وسطی میں ایک نئے تنازعہ کو جنم دے گا اور حالات مزید خرابی کی طرف
جائیں گے ۔اسرائیلی بستیوں کی تعمیر پر اقوام متحدہ کی قرار داد کے ذریعے
پابندی لگائی گئی تھی تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت سے اب دو ریاستی حل کا
فارمولا بھی ناکام ہو جائے گا ۔اسرائیلی وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ میرے اور
امریکی صدر ٹرمپ کے درمیان بات چیت ہو گی۔ ہم بہت سے موضوعات پر بات چیت
کریں گے جن میں اسرائیل فلسطین تنازع، شام کی صورتحال اور ایران کی جانب سے
خطرہ شامل ہیں۔اب یہ منظر نامہ واضح کر رہا ہے کہ مشرق وسطی میں اور
بالخصوص شام کے مسئلہ پر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کی نظر سے دیکھ کر فیصلہ کر
سکتے ہیں ۔اگرچہ داعش کے وجود کو سب سے بڑا خطرہ قرار دیا جا رہا ہے لیکن
یہ نظر کا دھوکہ ہو سکتا ہے کہ داعش کے بانی امریکہ کے لیے اسے ختم کرنا
اتنا آسان نہیں ہے اور جس کی موجودگی میں اس کا سب سے بڑا حلیف اسرائیل
مطمئن ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ جس سیف زون کا امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے اپنی
انتخابی مہم کے دوران دعویٰ کیا تھا وہ سیف زون اسرائیل کے لیے تھا یا مشرق
وسطیٰ میں تمام ریاستوں کا حق تسلیم کرتے ہوئے فلسطین اور شام میں امن کا
خواب پورا کرنے کے لیے ہو گا ۔
|
|