بیسویں صدی سے اکیسویں صدی تک کا سفر ۔ باب۔ ۔27۔ چین کی " شیئرڈ ڈسٹنی" کی اصطلاح

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کیا واقعی گزشتہ باب میں بیان کیئے گئے ایک تاریخی واقعہ۔۔۔۔ چین کے بارے میں جسکا 20 ویں صدی سے21ویں صدی کے سفر کے دوران اس زور سے ڈنکا بجا کہ سب حیران رہ گئے۔۔۔۔ فی الوقت جنرل چیانگ کائی شیک نے اپنی بچی کھچی فوج کے ساتھ تائیوان(پرتگالی نام فارموسا ۔مطلب حسین) جزیرے میں پنا ہ۔۔۔۔چین کے رہنما ماؤزے تنگ ،چوائن لائی۔۔۔۔2014 ء میں چین کے صدر شی چن پنگ نے دُنیا سے مضبوط رابطہ رکھنے کیلئے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے " شیئرڈ ڈسٹنی" کی نئی اصطلاح واضح کی ۔ ۔۔۔چائنہ کی اصطلاح " شیئرڈ ڈسٹنی" کے مطابق پرکھنا ہو گا اور اس میں سی پیک یقینی طور پر "گیم چیلنجر " ہو گا۔۔۔۔

ماؤزے تنگ ،چوائن لائی، شی چن پنگ

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کیا واقعی گزشتہ باب میں بیان کیئے گئے ایک تاریخی واقعہ کی وجہ سے امریکہ کے صدر بنے ؟ کیا 21ویں صدی میں اُنکا انتخاب قوم پرستی کی بنیاد پر ہونے کے بعد وہاں نئی تبدیلی دیکھنے کو ملے گی؟ اس پر تو مزید تاریخی شواہد کو مدِنظر رکھ کر فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اُنکا صدارت کے دورکے آغاز سے ہی خارجہ پالیسی کی سطح پر جو رویہ روس اور چین کے بارے میں سامنے آرہا ہے وہ اگلے چند ماہ میں کیا رُخ اختیار کر تا ہے دِلچسپی کا حامل ہو گا ۔خصوصاً چین کے بارے میں جسکا 20 ویں صدی سے21ویں صدی کے سفر کے دوران اس زور سے ڈنکا بجا کہ سب حیران رہ گئے۔

تائیوان کا قیام:
چین نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد جسطرح بین الااقوامی سطح پر پیپلز ریپلک آف چائنہ سے 1971ء تک ریپلک آف چائنہ کا سفر تہہ کیا اور 1971ء میں اقوامِ متحدہ کا باقاعدہ ممبر بن کر دکھایا یہ اُسکی وہ سیاسی و دفاعی حکمتِ عملی تھی۔ جسکے آگے آخر کا ر اُن اقوام کو جُھکنا پڑا جنکی خواہش تھی کہ تائیوان کو چین کے مقابل اہمیت دے کر اُس علاقے میں اپنا اثر و رسوخ قائم رکھے۔جسکی اصل کہانی کچھ اسطرح تھی کہ " اکتوبر 1945ء میں جس چینی حکومت نے ریپلک آف چائنہ کے نام سے اقوامِ متحدہ میں شمیولیت اختیار کی تھی اُسکو وہاں پر "چینی خانہ جنگی" کے دوران کمیونسٹ افواج سے شکست ہو گئی تھی اور فی الوقت جنرل چیانگ کائی شیک نے اپنی بچی کھچی فوج کے ساتھ تائیوان(پرتگالی نام فارموسا ۔مطلب حسین) جزیرے میں پنا ہ لیکر اپنی حکومت قائم کرنے کا اعلان کر دیاتھا ۔

وَن چائنہ پالیسی:
اقوامِ عالم کی طاقتوں نے تائیوان کا ساتھ دیا لیکن وقت نے چین کا ۔ جس کے بعد اُنہی طاقتوں نے "وَن چائنہ پالیسی " کے تحت اگلے چند سالوں میں بیجنگ کو چین کا دارلخلافہ قبول کر تے ہوئے تائیوان سے سفارتی تعلقات توڑ کر صرف غیر رسمی تعلقات قائم کر لیئے ۔ساتھ میں چین کے اس موقف کا بھی احترام کرنا شروع کر دیا کہ تائیوان چین کا الگ ہو جانے والا صوبہ ہے۔

ماؤزے تنگ وچوائن لائی:
چین کے رہنما ماؤزے تنگ ،چوائن لائی وغیرہ جانتے تھے کہ مستقبل میں معاشی منڈیاں ایک جدید دُنیا کا باعث بنیں گی ۔ لہذا اُنھوں نے اس کی منصوبہ بندی اور اپنی اشیاء کی پہچان بنانے کیلئے کام توچین تائیوان تنازعہ کے دوران ہی شروع کر دیا تھا۔ لیکن70ء کی دہائی میں اپنی سفارتی کامیابیوں کے بعد چین نے اگلی اور دُنیا کی سب سے اہم حکمتِ عملی " معاشی" میدان کی طرف مزید زرو و شور سے قدم بڑھا دیا۔ جسکی کامیابی کا پہلا ٹریلر 90کی دہائی میں پردہِ سکرین پر نشر ہو گیا اور اگلے چند سالوں میں چائنہ کی اشیاء مناسب قیمت کی وجہ سے دُنیا بھر میں ایک بلاک بسٹر فلم کی طرح مقبول ہو گئیں ۔

21ویں صدی میں چین کیا داخل ہوا چین کے رہنماؤں نے چین کی اندرونی و بیرونی ترقی کی صورت کو جدید معاشی نظام کے ساتھ منسلک کرنے کیلئے اپنے ملک اور دوسرے ممالک میں صنعتیں لگانے ، سڑکیں، راہداریاں،ریلوے لائنیں ، پُل بنانے اور قدرتی وسائل سے افادہ حاصل کرنے کیلئے سرمایہ کاری میں مزید اضافہ کر دیا۔

صدر شی چن پنگ:
2014 ء میں چین کے صدر شی چن پنگ نے دُنیا سے مضبوط رابطہ رکھنے کیلئے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے " شیئرڈ ڈسٹنی" کی نئی اصطلاح واضح کی ۔ یعنی اقوامِ عالم کے مقدر،نصیب ،تقدیر کی منصفانہ تقسیم اور شراکت داری ہی دُنیا کا مستقبل ہو گی۔ بر حق اقتصادی تعاون اور حسب قواعد و انصاف ہی عملی امن کی ضمانت دیں گے۔انتہاء پسندی اور دہشت گردی کو جگہ نہ ملے گی۔

جنوری 2017 ء کے کے وسط میں اُنھوں نے ایک تو صاف کہہ دیا کہ تجارتی جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوگا اور پھر اقوامِ متحدہ کے یورپی ہیڈکوارٹر جنیوا دُنیا عالم کے سامنے یہ نیا مطالبہ رکھ دیا کہ دُنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک ہو نا چاہیئے تاکہ چند ممالک کی بجائے اقوام کو مساوی حقوق حاصل ہو نے چاہئیں۔

چین کے صدر کا جہا ں یہ مطالبہ اپنی جگہ اہم ہے وہاں بحیرہ جنوب میں چینی پانیوں کا تنازعہ اپنی جگہ شدت کے ساتھ موجود ہے ۔جسکی وجہ سے فلپائن ، تائیوان، ملائیشیا ،بروبائی اور ویت نام کو الگ تحفظات ہیں اور اس سلسلے میں امریکہ اور جاپان بلاواسطہ طور پر اس معاملے میں فریق بنے ہوئے ہیں۔جس پر چین امریکہ و جاپان کو دُور رہنے کیلئے وارننگ تک دینے سے گریز نہیں کر رہا۔

نئی سپر پاورز:
اب اِن حالات میں سوال یہ سامنے آگیا ہے کہ کیا نیو ورلڈ آرڈر پیش کرنے والی واحد سُپر پاور کے مقابل چین 21ویں صدی کی نئی سُپر پاور بننے جا رہا ہے؟ دوسری طرف ایک دفعہ پھر گزشتہ چند سالوں سے روس نے بھی بحیثیت سُپر پاور نئی اُڑان کیلئے پَر پھیلا دیئے ہیں۔

دوسری بڑی معیشت:
دُنیا کی دوسری بڑی معیشت چین پر یہ سوال اس لیئے اہم ہو گیا تھا کیونکہ 2012ء تک 3.5 کھرب ڈالر کے غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر رکھنے والے اس ملک کا تعلق ایشیا سے ہی ہے ۔ اسطرح چین اپنے ملک اور بیرونِ ملک کے بڑے سے بڑے منصوبے پر اپنی ہی سرمایہ کاری کرنے کو ترجیع دے رہا ہے دوسرا اب وہ چین میں دوسرے ممالک کی سرمایہ کاری کیلئے بھی کچھ پالیسی نرم کرنے کا سوچ رہا ہے۔ ساتھ میں امریکہ کو معاشی تباہی سے بچائے رکھنے کیلئے اربوں ڈالر کے قرضے دے رکھے ہیں اور دیتا رہے گا۔چاہے نئے صدر ٹرمپ کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنی مصنوعات امریکہ میں ہی بنانا چاہتے ہیں اور اسکے لیئے ملازمتوں کے مواقعے برقرار رکھنے والی کمپنیوں کیلئے ٹیکس سمیت رعایات دینا چاہتے ہیں۔

ان حالات میں بڑی طاقتوں میں چاہے کتنے ہی اختلافات موجود رہیں لیکن تجارتی تعلقات ضروری ہیں ۔ لہذاامریکہ اور چین اہم تجارتی ساتھی بھی ہیں اور گزشتہ سالوں کی طرح 2015ء کے اعداد و شمار کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان سالانہ 5ارب98کروڑ کی تجارت ہو ئی ہے۔ لہذا اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ چین کی معاشی ترقی میں امریکہ اور یورپ کا بڑا ہاتھ ہے۔ جبکہ چین کا دُنیا عالم کے ممالک خصوصاً اسلامی ممالک سے بھی معاشی و مالی معاہدوں کی شکل میں ایک نیا بہترین تعلق قائم ہو تا جارہا ہے اور سی پیک اس کا اہم پہلو ہے۔جسکی وجہ سے روس کے ساتھ خاص طور پر معاشی و عسکری معاہدوں کو ترتیب دیا گیا ہے۔

لاطینی امریکہ و افریقہ:
لاطینی امریکہ کے دو ممالک برازیل و ارجنٹائن صنعتی اعتبار سے ترقی یافتہ ہیں لیکن وہاں کے باقی ممالک کی طرح اُنکی معیشت کا انحصار بھی زیادہ تر زراعت پر ہے۔ لہذا چینی اشیاء کی مانگ میں وہاں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ افریقہ کے ممالک کی معیشت ویسے ہی خارجی طاقتوں کے زیرِاثر رہ کر اپنی کوئی پہچان نہیں بنا سکی اور اگر کہیں جنوبی افریقہ ، مصر یا چند ممالک ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں تو وہاں بھی اہم وجہ اب چین کا اثر رسوخ ہے۔ بلکہ " براکس" نامی معاشی گروپ جن کے ممبر برازیل،روس،انڈیا،چین اور ساؤتھ (جنوبی) افریقہ ہیں کہ دو ممالک کا تعلق لاطینی امریکہ اور افریقہ سے ہی ہے۔

جاپان و جنوبی کوریا:
اسطرح جاپان دُنیا میں الیکٹرونکس کے میدان میں انقلاب برپا کر دینے والا وہ ملک ہے جسکی اشیاء کی پہچان اور پائیداری صرف" میڈ اِ ن جاپان" ہے ۔اس دور میں بھی وہ دُنیا کی بڑی معیشتوں کے مقابل اپنی اشیاء و روبوٹ سے دُنیا میں اپنی مصنوعات کی طلب قائم رکھے ہوئے۔ لیکن اس سلسلے میں بھی جاپان و جنوبی کوریا کو اپنے چند اہم مشہورِ زمانہ برانڈ زکو پیداواری لاگت کم کرنے کیلئے چین سے بنوانے پڑ رہے ہیں۔

مطلب:
"گلوبل ویلج" میں "نیو والڈ آرڈرکی تجدید" کے ساتھ "نیو اکنامک سسٹم "کی بھی اب انتہائی ضرورت ہےجسکو چائنہ کی اصطلاح " شیئرڈ ڈسٹنی" کے مطابق پرکھنا ہو گا اور اس میں سی پیک یقینی طور پر "گیم چیلنجر " ہو گا۔

ابہامی معاملات:
بہر حال یہاں ایک اہم تبدیلی ضرور نظر آرہی ہے کہ بھارت روس کو چھوڑ کر امریکہ کا قدر دان بن گیا ہے۔لہذا امریکہ اور اسرائیل کیلئے اب اس خطے میں بھارت کی کیا حیثیت ہو گی اور پاکستان سی پیک کی وجہ سے چین کے مزید قریب آنے کے بعد مستقبل میں امریکہ سے ماضی کی طرح کیسے فوائد حاصل کرتا رہے گا دُنیا عالم کیلئے بہت بڑے ابہامی معاملات ہو چکے ہیں۔ ۔
Arif Jameel
About the Author: Arif Jameel Read More Articles by Arif Jameel: 204 Articles with 307557 views Post Graduation in Economics and Islamic St. from University of Punjab. Diploma in American History and Education Training.Job in past on good positio.. View More