عورت بہل جاتی ہے محبت کے چند بول سن کر،
میٹھی باتیں اس کا دل موہ لیتی ہیں۔ مردوں کے معاشرے میں عورت کو دبا کر
رکھا جاتا ہے، عورت ہے ہی مظلوم، چاہے وہ اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے والی
ہو یا اسمبلی میں بیٹھی ہو، یہ باتیں مجھے اپنے اردگر دموجود خواتین سے
سننے کو ملیں جن سے میں نے عورت کے اختیار کے بارے میں سوال کیا۔ مجھے ان
کے جوابات سن کربالکل حیرانگی نہیں ہوئی کیوں کہ مشرقی معاشرے میں عورت کی
اسی شبیہ کو سامنے لایا جاتا ہے، مظلومیت اور مشرقی عورت ترقی یافتہ
معاشروں میں ایک استعارہ ہے۔ الزام مذہب کو دیا جاتا ہے کہ معاشرے میں عورت
کے اختیار کو مذہب (اسلام) نے ختم کردیا ہے، مگر اس بات سے مجھے اتفاق قطعا
نہیں ہے ۔
گذشتہ دنوں سندھ اسمبلی میں مسلم لیگ فنکشنل کی رکن اسمبلی نصرت سحر عباسی
اور پیپلز پارٹی کے وزیر امداد پتافی کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا،
اسمبلی میں ہونے والی اس نوک جھونک کو میڈیا نے خوب اچھالا، سوشل میڈیا پر
صوبائی وزیر کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، پی پی پی کے ذمہ داران میدان
میں آئے امداد پتافی کے رویے کی مذمت کی۔ بلاول، آصفہ اور بختاور نے اپنے
ٹوئٹر پیغامات کے ذریعے اپنے وزیر کے خلاف ایکشن کی یقین دہانی کرائی،
دوسری جانب نصرت سحر عباسی میڈیا کیمروں کے سامنے آئیں، پٹرول کی ایک بوتل
ہاتھ میں تھامے خود سوزی کی دھمکی دی، بعد ازاں امداد پتافی نے مذکورہ
خاتون سے معافی مانگی اور انہیں عزت بخشتے ہوئے ایک چادر عنایت کی ، نصرت
عباسی نے بھی وسیع القلبی کاثبوت دیتے ہوئے وزیر موصوف کو معاف کردیا۔
میں حیران ہوتی ہوں، لبرل ازم کی داعی پیپلز پارٹی، خواتین کی آزادی کی
علمبردار پیپلز پارٹی اور عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق دینے کا دعویٰ
کرنے والی پیپلز پارٹی کے وزیر کا یہ رویہ’’عورت ‘‘ کے حوالے سے کیا پیغام
دیتا ہے، لیکن اس رویے نے ایک نظریئے کو ختم کیا ہے کہ مذہب عورت کی آزادی
کا قاتل ہے، جی نہیں مذہب عورت کی آزادی کا قاتل نہیں بلکہ ہمارے معاشرتی
اور سماجی رویے عورت کی آزادی کے قاتل ہیں، عورت کو مظلوم دکھا کر اپنے
نظریات کو فروغ دیتے ہیں، ایک لمحے کو سوچیے! بھٹوں پر عورت سے جبری مشقت
لینے والوں کا مذہب سے کیا تعلق؟ اسمبلی میں عورت کی نمائندگی کرنے والے
خواتین کی تذلیل کرنے والے مذہب کے نمائندے کہاں سے آئے؟ عورت کو ٹریکٹر
ٹرالی کہنے والے اور اسے چمبر میں دعوت دینے والوں کا تعلق کس مسجد سے ہے؟
یہ ایک سماجی مسئلہ ہے جسے مذہب سے جوڑ دیا گیا ہے، آپ خود ارد گرد عورت کی
مظلومیت، تضحیک اور تذلیل کی مثالیں ملاحظہ کریں ایسا کرنے والوں کا دور
دور تک مذہب سے تعلق نظر نہیں آئے گا۔
نصرت عباسی پر جملے کسے جانے کے واقعے کو دیکھتے ہوئے مرد وں کی حاکمیت کے
تاثر کو تقویت ملتی ہے۔مگر میری اس تحریر کا مقصد عورت کی آزادی پر اسلام
اور لبرل ازم کے کردار پر بحث کرنا نہیں ہے بلکہ مجھے قانون بنانے والوں،
ایوان کی کرسیوں پر براجمان ، عوام کے ووٹوں سے منتخب شدہ عوامی نمائندوں
کے رویوں سے دکھ پہنچتا ہے، عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبے بنانے کی بجائے
اسمبلی اجلاسوں میں شش، مم مم ، ہش ہش کے نعرے اور آوازیں بلند کرتے رہتے
ہیں، اسمبلیاں سرکاری سکولوں کے استاد کی عدم موجودگی میں کمرہ جماعت کاسا
منظر پیش کر تی ہیں، جیسے کلاس میں طالب علم شرارتوں سے جینا دوبھر کر دیتے
ہیں ، ایسی ہی بچگانہ شرارتیں ممبران اسمبلی کر رہے ہوتے ہیں۔
عوام کے ووٹ سے منتخب ہوکر، عوام کے ٹیکسوں سے مراعات لے کر ، عوام کی خون
پسینے کی کمائی سے جاری اسمبلی اجلاسوں کو ایک سٹیج شو، سرکس، مچھلی بازار
اور کامیڈی پروگرام بنانا معمول سا بن گیا ہے۔ عوام اس بارے میں اپنے
نمائندوں سے پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اسمبلی کے اجلاس میں اگر جگت بازی
کا مقابلہ کرنا ہے تو آپ سے بہتر ملک کا نظام تو سٹیج آرٹسٹس چلا لیں گے،
اگر اسمبلی اجلاس کو کامیڈی شو کا درجہ دینا ہے تو یقین جانیں پاکستانی
کامیڈینز کا مقابلہ دنیا بھر کے کامیڈینز نہیں کر سکتے، مچھلی بازار ہی
بنانا ہے تو کراچی کے مچھیرے آپ سے زیادہ صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ ہاں اگر آپ
عوام کے ٹیکس اور عوام کے ووٹ کا خیال نہیں رکھ سکتے تو عوام کے اندر اتنا
شعور ہے کہ وہ اپنی ووٹ کے طاقت سے آپ کو گھر کا راستہ بھی دکھا سکتی ہے،
پھر آپ ہی کی مرضی ہے کہ آپ مچھلی منڈی سجائیں، سرکس چلائیں یا کامیڈی شو
کی میزبانی اختیار کرلیں۔
دوسری جانب خواتین کے احترام کی بات کو لے کر دیکھا جائے تو عوامی نمائندے
عوام کا رول ماڈل ہیں اگر عوامی نمائندے ہی خواتین کی تذلیل کو اپنا وطیرہ
بنا لیں گے تو اس سے عوام کو کیا تاثر جائے گا۔ مگر خواتین کو بھی اپنی
مظلومیت کا فائدہ نہیں اٹھانا چاہئے، نصرت سحر کو جب میڈیا میں پزیرائی ملی
تو انہوں نے میڈیا کے سامنے پٹرول کی بوتل کا ڈرامہ رچایا جو کسی بھی صورت
میں مناسب رویہ نہیں تھا۔ان کے اس رویے میں یہ تاثر دیا گیا کہ عورت کے
ساتھ جب انصاف نہیں ہوتا تو وہ خود سوزی کی جانب مائل ہوتی ہے۔ پٹرول کی
بوتل لہرا کر خواتین کو جو پیغام دیا گیا اس پر عوام سے مذکورہ ایم پی اے
کو معافی مانگنی چاہیے، تو جناب اس سارے کھیل کا ڈراپ سین بھی مجھے مضحکہ
خیز ہی لگا کیوں کہ وزیر موصوف پارٹی کے دباؤ کے بعد معافی مانگنے پہنچے ،
اسمبلی اجلاس کے دوران نصرت سحر کو چادر پہنائی اور ’’بہن ‘‘ کہہ کر بلایا
، مگر میڈیا کے کیمروں نے ان کے چہرے کی مضحکہ خیز اور ذومعنی مسکراہٹ کو
قید کر لیا جس کا واضح تاثر یہ ہے کہ وہ انہیں ڈرامہ کوئین کہنے اور چمبر
میں بلانے میں حق بجانب تھے۔لیکن امداد پتافی کا نصرت سحر کو چمبر میں
بلانا پی پی پی کی ترقی پسندی پر ایک سوالیہ نشان ہے ، وہیں دوسری جانب
چادر کے ذریعے احترام کا رشتہ بنانا بھی مشرقی روایات کا آئینہ دار ہے، |