ہماری اسمبلیاں

اسمبلی چاہے صوبائی ہویاقومی ضلعی اسمبلی ہویاویلیج کونسل کی ،سب کی اولین ترجیح اورآئینی وبنیادی ذمے داری عوام کی خدمت ہوتی ہے ملک وقوم کی ترقی ہوتی ہے اوراس حوالے سے قانون سازی ہوتی ہے وطن عزیزپاکستان بھی چونکہ ایک جمہوری ملک کہلاتاہے اس ملک کاآئین بھی جمہوری ڈھانچہ فراہم کرتاہے اوریہاں کی طرزحکومت بھی جمہوری بنیادوں پراستوارہے یہاں مختلف قسم کی اسمبلیاں اپناوجودرکھتی ہیں جن میں ویلیج کونسلز،نیپرہڈکونسلز،تحصیل کونسلز،ضلعی اسمبلیاں،صوبائی اسمبلیاں اورقومی اسمبلی شامل ہیں بلدیاتی سسٹم کے تحت بننے والی اسمبلیاں اگرچہ باقاعدہ اسمبلیاں تونہیں مگراپنے ہئیت ترکیبی میں یہ بھی اسمبلیاں ہی قراردی جاسکتی ہیں اسمبلیوں اورکونسلزکی اس قدربہتات سے ثابت ہوتاہے کہ ہم بھی ایک جمہوری ملک ہیں ہمارے ہاں عوام کی مرضی سے حکومتیں وجودپاتی ہیں اورانہی کی پسندکے مطابق اسمبلیاں معرض وجودمیں آتی ہیں ان اسمبلیوں کیلئے باقاعدہ انتخابات کاانعقادہوتاہے اوران میں سیاسی پارٹیاں اورشخصیات اپنااپنامنشورلیکرعوام کے پاس جاتے ہیں عوام جس شخص یاسیاسی جماعت کے منشورکوقبول کرتی ہے اسی کواسمبلی میں بھیجتی ہے اب اسمبلی کے لئے منتخب ہونے والے عوامی نمائندے اپناوہ کرداربھرپورطریقے سے اداکرنے میں کامیاب ہوتے ہیں جس کیلئے انہیں منتخب کیاجاتاہے یاپھروہ ادھرادھرکی ہنسی مذاق اورغیرفروعی باتوں میں اپنااورقوم کاقیمتی وقت ضائع کرتے ہیں ،قومی مفادکی بجائے ذاتی مفادمقدم رکھتے ہیں ،قانون سازی کی بجائے تن سازی پرتوجہ دیتے ہیں،ذاتی لڑائی جھگڑوں میں مشغول رہتے ہیں ،الزامات اورجوابی الزامات کانارواسلسلہ جاری رکھتے ہیں ،اسمبلی کے اندرشوروغوغل مچاتے ہیں ،آئین کی پامالی کے مرتکب ہوتے ہیں اورآئین کی کاپیاں پھاڑکراسے ہوامیں اچھالتے ہیں بدقسمتی سے ا ب تک ہمارے ممبران اسمبلی کی اکثریت کاریکارڈ عوامی خدمت اورقانون سازی کے حوالے سے قابل رشک نہیں ماضی بعیدکی مثالیں دینے کی بجائے اگرحالیہ عرصے میں تین اسمبلیوں کی کارکردگی پرطائرانہ نگاہ دوڑائی جائے تو افسوس کے سواکوئی چارہ نہیں گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے ایک رکن کی جانب سے آئین کی کاپی پھاڑی گئی اس کے پرزوں کوہوامیں اچھالاگیااورپیروں تلے رونداگیامقام افسوس ہے کہ اس رکن کی نشاندہی ہونے کے باوجودآج تک اسکے خلاف کوئی قانونی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی اورناہی اسے کسی قسم کی سزادلائی جاسکی اسی طرح سندھ اسمبلی میں ایک خاتون رکن اورصوبائی وزیرکے درمیان ہونے والی لفظی جھڑپ نے پارلیمنترینزکی عزت میں کوئی اضافہ نہیں کیابلکہ اسمبلی کے فلورپہ ایک صوبائی وزیرکی جانب سے جس قسم کی بازاری زبان استعمال کی گئی اورذومعنی جملے اداکئے گئے ہرذی شعورپاکستانی کواس پرتشویش لاحق ہوئی اورتمام شعبہ ہائے زندگی میں اس فعل کوناصرف طعن وتشنیع کانشانہ بنایاگیابلکہ اسکی پرزورمذمت بھی کی گئی جس سے مجبورہوکرصوبائی وزیرکوخاتون رکن کے سرپہ چادرڈالکراس سے معافی طلب کرنی پڑی ایک اسمبلی خیبرپختونخواکی بھی ہے جہاں کے حکمران تبدیلی کے علمبرداربن کراسمبلی میں تشریف لائے اورہراہم موقع پران کادعویٰ سامنے آتاہے کہ انہوں نے ’’سب کچھ‘‘ تبدیل کردینے کاعزم کررکھاہے اسی عزم کے نتیجے میں اس اسمبلی کے پونے چاربرسوں میں کم ازکم نصف درجن گالم گلوچ ،لڑائی جھگڑوں اورہاتھاپائی کے واقعات سامنے آچکے ہیں جن میں سے صوبائی کابینہ کے ایک اہم وزیرکی جانب سے رکن اسمبلی کوتھپرمارنے کے واقعے کوکافی شہرت ملی اس واقعے میں دورشتے داروزیروں نے مل کرایک رکن اسمبلی کی خو ب دھنائی کی جسے اپوزیشن نے بھی آپس کامعاملہ سمجھ کرکوئی خاص اہمیت نہیں دی قانون سازی کے حوالے سے اس اسمبلی کاٹریک ریکارڈبتاتاہے کہ اپنے موجودہ ٹرم میں اس نے قانون سازی توبہت کی مگراس قانون سازی میں بہت جلد ترامیم کرناپڑیں کئی قوانین کوعجلت میں واپس بھی لیناپڑا کچھ بل ابھی پائپ لائن میں ہیں ہاں اس اسمبلی نے اپنی تنخواہوں اوردیگرمراعات میں اضافے کیلئے تین مرتبہ اقدامات ضرور اٹھائے گزشتہ دنوں جب لوگوں کی نظریں پانامہ لیکس کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کی جانب لگی ہوئی تھیں صوبائی اسمبلی نے اپنی تنخواہوں ودیگرمراعات کابل متفقہ طورپرمنظورکرلیابل کے تحت وزیراعلیٰ کوماہانہ 40ہزارکی جگہ2لاکھ(یعنی 400%اضافہ) اورصوبائی وزراکو1لاکھ80ہزارروپے کی ادائیگی کی جائیگی سپیکرکوماہانہ80ہزارکی بجائے ڈیڑھ لاکھ اورلاؤنسزکی مدمیں1لاکھ80ہزار،ڈپٹی سپیکرکوماہانہ 54ہزارکی بجائے1لاکھ45ہزارجبکہ الاؤنسزسمیت1لاکھ60ہزار،مشیروں ،معاونین خصوصی اورپارلیمانی سیکرٹریوں کوبھی ماہانہ1لاکھ60ہزارجبکہ اراکین اسمبلی کو80ہزارروپے تنخواہ اورالاؤنسزسمیت 1لاکھ 40ہزارکی ادائیگی کی جائیگی اضافہ جات کااطلاق یکم جولائی 2016سے ہوگاصوبائی مشیراطلاعات مشتاق غنی نے تنخواہوں میں اضافے کے حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ ’’صوبائی کابینہ نے وزیراعلیٰ ، سپیکروڈپٹی سپیکر ،وزرااوراراکین اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کی سمری طویل غوروخوض کے بعدمنظورکی تاہم اسے قومی اسمبلی کے سپیکروڈپٹی سپیکرسے10%کم رکھا‘‘قارئین کرام !ہمارے ہاں اسمبلیوں میں یہی کچھ ہوتاہے قومی ایشوزکے حوالے سے ممبران کبھی متفق نہیں ہوتے مگراپنے مراعات اورالاؤنسزمیں اضافے کیلئے سب یک جان دوقالب بن جاتے ہیں اورحقیقی معنوں میں ’’ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمودوآیاز‘‘کی عملی تصویرپیش کرنے لگتے ہیں مقام شکرہے اورصوبے کے عوام اس احسان عظیم کوتاحیات بھول نہ پائیں گے کہ قومی اسمبلی کی تنخواہوں سے دس فیصدکم پہ گزاراکیاگیاہے ورنہ تو اس صوبے کے اعلیٰ عہدیداروں کوصوبے کے معروضی حالات کے پیش نظرجومشقت برداشت کرنی پڑتی ہے جن’’ کٹھن اورمشکل حالات‘‘ کاسامناکرناپڑتاہے اس حساب سے انکی تنخواہیں وفاقی وزراسے سوفیصدزیادہ ہونی چاہئے تھیں اورپھرصوبے کے پاس فنڈزبھی وافرمقدارمیں موجودہیں اسی لئے توسال 2016-17میں جاری 46ترقیاتی منصوبوں میں سے صرف26کورقوم جاری کی جاسکی ہیں مالی بحران میں مبتلاصوبے کے ’’غریب‘‘ اراکین اسمبلی اوروزیراعلیٰ سمیت تمام کابینہ کو تنخواہوں اورالاؤنسزکی مدمیں چارسوفیصداضافہ کسی صورت سراہے جانے کے قابل نہیں اراکین اسمبلی اوردیگرعہدیداروں کااگرموجودہ اچھی خاصی تنخواہ پرگزارانہیں توانہیں مستعفی ہوکرگھربیٹھ جاناچاہئے پونے چارسال میں تیسری مرتبہ یہ اضافہ (جوکہ پندرہ کروڑروپے بنتاہے)صوبے کے ساتھ مذاق اورظلم کے مترادف ہے یہ اضافہ فی الفورواپس لیاجاناچاہئے ہماری اسمبلیاں کب تک خودکوشاباش دینے اور اپنی مراعات میں اضافے کیلئے کوشاں رہیں گی؟
 

Wisal Khan
About the Author: Wisal Khan Read More Articles by Wisal Khan: 80 Articles with 51746 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.