8جنوری2017 کی یخ بستہ شب نصف سے زائد گزر چکی تھی کہ
مقبوضہ جموں کشمیر کے ضلع اکھنور میں واقع بھارتی فوج کے ’’جی آر ای ایف‘‘
کیمپ کا ایک حصہ دھماکے سے تباہ ہونے کے بعد شعلوں کی لپیٹ میں آ گیا۔یہ
دھماکہ اس پورٹیبل راکٹ کا تھا جو مظلوم و مقہور کشمیری قوم کے سپوتوں نے
دن رات اندھا ظلم ڈھانے والے بھارتی درندوں کے کیمپ پر فائر کیا تھا۔
دھماکے کے ساتھ ہی ان سپوتوں ’’جن کے بارے میں بعد میں بھارتی حکام نے
بتایاکہ ان کی تعداد 2سے 3تھی‘‘نے بندوقوں کے دھانے کھولے اورپہرے پر کھڑے
پہرے داروں کو مار گرایا۔ پہرے داروں کے مارے جاتے ہی وہ کیمپ کے اندر داخل
ہو ئے اور پھر ایک سے دوسرے کمرے اور ایک بیرک سے دوسری بیرک میں داخل ہوتے
اور سامنے آنے والے فوجیوں کو مار گراتے چلے گئے۔ دھماکے اور فائرنگ کے
ساتھ ہی کیمپ کے اندر موجود فوجیوں کوجب صورتحال کا اندازہ ہوا تو انہوں نے
کمروں اور بیرکوں کے دروازے اندر سے بند کر لئے اور خود چارپائیوں سے اتر
کر ان کے نیچے جا چھپے۔ حملہ آور نوجوانوں کے قدموں میں عجب تیزی اور طاقت
تھی کہ وہ جس دروازے کو ٹھوکر مارتے ،وہ خود ہی کھل جاتا اور پھر…… وہی
بھارتی فوجی جو کشمیری بچوں کی آنکھوں کی بینائی چھیننے والے ہیں،ہزاروں
گھروں میں تباہی مچانے، دن رات لوٹ مار کرنے والے، عفت مآب خواتین کی بے
حرمتی اور عصمت ریزیاں کرنے والے ہیں، ان کی بندوقوں کے دھانوں کے سامنے آ
جاتے اور جیسے وہ عرصہ دراز سے کشمیریوں کو گولیوں سے بھون رہے ہیں، آج خود
بھُنتے جا رہے تھے۔ جیسے انہوں نے وادی جنت نظیر کو معصوموں کے خون سے
رنگین کیا ہے ،ان کا اپنا وہی کیمپ جو بے انتہا محفوظ بنایا گیا تھا ،ان کے
ناپاک خون سے رنگین ہو رہا تھا۔یہ سپوت جب مشن مکمل کرنے کے بعد بیرک میں
سکوت پاتے تو اسے بند کر کے آگ لگاتے اور اگلی بیرک کا رخ کر لیتے۔اگلے
روزبھارتی و کشمیر ی میڈیا نے لکھا کہ یہ معرکہ آرائی کوئی ڈیڑھ سے دو
گھنٹے جاری رہی۔ سارا کیمپ میدان جنگ بنا رہا لیکن آج یہاں میدان جنگ بالکل
مختلف تھاکیونکہ بے گناہوں اور نہتوں کو دن رات قتل کرنے والے آج بے حساب
اسلحہ و سامان حرب و ضرب ہونے کے باوجود اسے چلانے بلکہ حرکت تک کرنے سے
عاری تھے۔ لگتا تھا ،جیسے سب کے اعصاب سن اور جسم بے سدھ ہو چکے تھے اور ان
کا ظلم آج ان کے دل و دماغ کو ہی ماؤف کئے ہوئے تھا،جنگ مکمل یک طرفہ ہی
محسوس ہو رہی تھی۔ اس اثناء میں فدائی، فوجی افسران کے دفاتر کی جانب بڑھے،
دفاتر اور ان سے متصل افسران کی رہائش گاہوں میں بھی وہی حشر بپا کیا جو وہ
پہلے کرتے چلے آ رہے تھے۔اس کے بعد کئی گاڑیاں بھی ایسے ہی ان کا نشانہ
بنیں تو کیمپ کا بڑا حصہ شعلوں کی لپیٹ میں تھا۔ حملہ آور فدائی اب مشن
مکمل کرنے کے بعد واپسی کی راہ لے رہے تھے۔ سورج طلوع ہوا تو کیمپ سے اٹھتے
دھوئیں کے بادل اور رات بھر کی فائرنگ اور دھماکوں کی خبر دور دور تک پھیل
چکی تھی۔ بھارتی فوج ایک بڑے سرجیکل سٹرائیک کا نشانہ بن چکی تھی اور اب
حقیقی سرجیکل سٹرائیک کو چھپانے کے لئے مجبوراََ کہہ رہی تھی کہ کیمپ پر’’
سرحد پار‘‘ سے آئے جنگجوؤں نے حملہ کیا ہے اور وہ ہمارے کیمپ کے’’تین افراد‘‘
کو ہلاک کر کے بحفاظت فرار ہو گئے ہیں۔ بھارتی دفاعی ترجمان نے اس سب کی
تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ فرار ہوئے مجاہدین کو تلاش کرنے کے لئے آس پاس
علاقوں کو محاصرے میں لے لیا گیا ہے۔ بھارتی وزارت داخلہ نے مقبوضہ جموں
میں ہائی الرٹ جاری کرتے ہوئے اپنی قابض فورسز کے کیمپوں کے اردگرد فوری
طور پراضافی اہلکار تعینات کرنے کے احکامات صادر کئے۔ ریاستی گورنر، کٹھ
پتلی، وزیراعلیٰ اور ریاستی اپوزیشن پارٹیوں نے حملے کی ’’مذمت‘‘ کرتے ہوئے
کہا کہ اس طرح کے واقعات ناقابل برداشت ہیں۔ بھارتی دفاعی ترجمان کرنل این
این جوشی نے بارڈر روڈ آرگنائزیشن کیمپ پر دھاوا بولے جانے کی تصدیق کرتے
ہوئے کہا کہ رات دو بجے کے قریب جدید ہتھیاروں سے لیس جنگجوؤں نے کیمپ پر
حملہ کیا جس کے نتیجے میں تین بی آر او اہلکار موقع پر ہی ہلاک ہوئے ہیں
جبکہ دو زخمی اہلکاروں کو نازک حالت میں فوجی ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔فوجی
ترجمان کے مطابق عسکریت پسندوں کو تلاش کرنے کے لئے اکھنور، کھور اور ان سے
ملحقہ علاقوں کو سختی کے ساتھ محاصرے میں لے کر گھر گھر تلاشی کارروائی
شروع کی گئی اوراس دوران کئی جنگلاتی علاقوں کو بھی محاصرے میں لیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کیمپ کے اندر بھی تلاشی کارروائی جاری ہے، مگر ابھی تک
فرار ہونے والے مجاہدین کے بارے میں کوئی سراغ نہیں ملا۔ ساتھ ہی ساتھ
اکھنور میں ویلیج ڈیفنس کمیٹیوں کے اراکین کو متحرک کیا گیا ہے جو آس پاس
علاقوں میں جنگجوؤں کو تلاش کر رہے ہیں۔ بھارتی حکام کی جانب سے بتایا گیا
کہ جی آر ای ایف کیمپ پر حملے کے بعد مقبوضہ جموں میں پولیس اور فوج کے
سینئر افسران کی ایک ہنگامی میٹنگ منعقد ہوئی جس دوران مجاہدین کے مزید
امکانی حملوں کو روکنے کے لئے جموں سرینگر شاہراہ اور جموں پٹھان کوٹ
شاہراہ پر ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا ہے ۔اس سلسلے میں گاڑیوں کی باریک
بینی سے تلاش لینے کے بھی احکامات جاری کر دئیے گئے ہیں۔ بات یہیں تک محدود
نہیں رہی ، حملہ آور فدائیوں کو تلاش کرنے کے لئے بھارتی فوج نے اپنے تمام
تر ذرائع استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر وسیع علاقوں میں حساس کیمروں
سے لیس ہیلی کاپٹر اور بڑی تعداد میں ڈرون بھی گردش کرنے لگے لیکن ،جسے اﷲ
رکھے اسے کون چکھے، کا عملی مصداق یہ فدائی بن چکے تھے، جن کی تلاش میں
کتنے دن سے ہزاروں بھارتی فوجی سخت سرد راتوں میں جنگلوں، پہاڑوں، نالوں
میں ٹکریں مار رہے ہیں ،ہاتھ کچھ نہیں آ رہا۔ خبریں آگے چلیں تو بھارت کے
میڈیا نے خود بتانا شروع کیا کہ کیمپ حملے میں حملہ آوروں نے آگ لگانے کے
لئے ایسا مواد استعمال کیا، جس سے لگنے والی آگ بجھانے کی کوشش میں پانی
پھینکنے سے مزید بھڑک اٹھتی ہے۔ بھارتی میڈیا نے کیمپ کے جلے ہوئے حصے بھی
دکھائے تو بھارتی فوجیوں پر مزید سکتے طاری ہونے شروع ہو گئے۔ بھارتی مسلح
افواج کے سربراہ جنرل وپن راوت کا پتہ پانی ہو رہا تھا اور اس نے عہدہ
سنبھالنے کے بعد نئی دہلی میں بھارتی فوج کے ’’یوم افواج‘‘ کے موقع پر
پاکستان کو ہی مخاطب کرتے ہوئے پہلے تو کہا کہ کنٹرول لائن پر جنگ بندی کی
خلاف ورزیاں ’’ناقابل برداشت‘‘ ہیں۔ بھارت کشمیر میں امن چاہتا ہے اور
پاکستان کو یہ یاد رکھنا چاہیے۔ ساتھ ہی کہا کہ جنگ بندی کی خلاف ورزیوں
اور در اندازی کی کوششوں کا کرارا جواب دیا جائے گا اور یہ کہ بھارت
’’دوبارہ سرجیکل سٹرائیک‘‘ کر سکتا ہے۔ ساتھ ہی خیال آیا کہ پہلے سرجیکل
سٹرائیک کے دعوے کے بعد جو جوابی سٹرائیک ہوئے انہوں نے تو بھارتی فوجیوں
کو اس قدر حواس باختہ کیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو مارنا شروع ہو گئے ہیں ،اس
سے پہلے کہ اگلے سرجیکل سٹرائیک کے نتیجہ میں اس کی اپنی فوج، جو اپنے ہی
ملک و قیادت کو دال روٹی دکھا دکھا کر ننگا کر رہی ہے، کوئی نیا راستہ نہ
اپنائے۔ کیوں نہ پاکستان کو دوستی و امن کا پیغام دے دیا جائے اور کچھ تو
جان بخشی بھی ہو جائے۔یوں دوسروں کو کیڑا مکوڑا سمجھنے والے بھارتی جنرل کے
اگلے الفاظ تھے ، بھارت کنٹرول لائن پر موثر جنگ بندی کے لئے تیار ہے،
کارروائیاں جاری رہنے کی صورت میں بھی ان کی فوج پیچھے نہیں ہٹے گی۔ بھارتی
جنرل اب اس دن کے بعد سے خاموش ہے کہ اس کے سورمے تو پورا کیمپ فوجیوں سمیت
خاکستر کرنے والوں کی ہوا تک نہیں پہنچ سکے…… ہمارا مشورہ ہے کہ خیر اسی
میں ہے کہ کشمیر چھوڑ کر جان بچالو…… کہیں مذاق مذاق میں معاملہ بہت آگے نہ
بڑھ جائے۔ |